زندگی رقص کیا کرتی تھی کبھی
فلم کے پردے پر محو رقص کرتے ہوئے اداکار ہوں یا شاعری کی کتابوں میں غزل لکھتے ہوئے شاعر ۔۔۔
دل کے دھڑکنے کو فنکار لوگ کئی روپ دیتے ہیں۔شاعر کہتاہے،یہ انداز شاعری ہے۔عاشق کی نظر میں یہ تڑپ کی گھڑی ہے اور رقاص اس دھڑکنے کے عمل کو رقص بسمل سے تشبیہہ دیتے ہیں۔ہوا کے دوش پر لہراتے ہوئے درختوں کے پتوں سے لے کر سمندر کی لہروں کے مدوجزر تک ایک تسلسل دکھائی دیتا ہے۔ رقص کے عاشق فطری حرکات وسکنات کو اپنے فن کاعکس مانتے ہیں۔خاموش گفتگو جب مسلسل ہوجائے،تو یہ تسلسل ''رقص ''کہلاتاہے،اب یہ شبیہہ جس بھی شے میں نظر آئے،یہ حسن نگاہ ہے، یاپھر نظر کادھوکا ،دیکھنے والے کادل ہی جانتاہے۔
رقص ایک ایسا فن ہے،جس میں جسم کے اعضاء متحرک ہوتے ہیں ،تویہ فن بولتاہے۔اردو زبان کے بڑے شاعر جوش ملیح آبادی نے رقص کو اسی لیے ''اعضا ء کی شاعری'' قرار دیا۔ رقص کا فن ادھورا رہتا ہے، اگر موسیقی اس کی ہم قدم نہ ہو۔ کہیں یہ جذبات کا اظہار ہے،تو کہیں اس فن کو اپنے آپ میں ڈوب جانے کے مترادف سمجھاجاتاہے۔
صوفی شاعری کا پس منظر دیکھیں ،تو بابابلھے شاہ اپنے پیرکے لیے گھنگرو باندھ کر''تیرے عشق نچایا کر کے تھیاتھیا''کرتے نظر آتے ہیں۔کہیں یہ رقص زنجیریں پہن کر بھی کیاجاتاہے۔عاشق اور عشق کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ رقص اظہارِ بیاں ہے،اس بات کا، جس کے لیے لفظ چپ کا روزہ رکھ لیتے ہیں اور اعضاء کی شاعری سے ماحول گنگنانے لگتاہے۔روح میں اترنے والے گیت پیروں میں باندھ کر جب کوئی ناچتا ہے،تو یہ فن صرف فن تک محدود نہیں رہتا،بلکہ اظہار کا وہ لمس بن جاتاہے،جس سے بیدار ہونے والے لمحے خوابیدگی کاخمار لیے ناظر کو پاگل کردیتے ہیں۔
فن کی دنیا میں رقص کی کئی جہتیں ہیں۔کسی معاشرے میں یہ صرف ایک ورزش کی مانند ہے،کسی سماج میں اسے عبادت کا درجہ حاصل ہے اورکہیں یہ عقیدت کا وہ قاعدہ کھولتا ہے،جو مظہر کی اعلیٰ مثال بن جائے۔ کہیں سانس کی مانند زندگی کے پاس سے ہوکر گزر جاتا ہے اورکہیں یہ بھنور بن کر پاؤں کی زنجیر بن جاتا ہے۔یہی وہ واحد فن ہے،جو متحرک ہے،تو جاری اور تھم گیا تو ختم شد۔قتیل شفائی نے کہا تھا''رقص کرنے کا ملا جو حکم دریاؤں میں،ہم نے خوش ہوکے بھنور باندھ لیے پاؤں میں''۔یہی وہ بات ہے،جو رقص کے تسلسل میں دھڑکتی ہے کہ جسے تم رقص کہتے ہو،ممکن ہے، وہ کوئے یار کا طواف ہو۔بقول شاعر''طوفان کررہا تھا میرے عزم کا طواف،دنیا سمجھ رہی تھی کہ کشتی بھنور میں ہے''۔
تہذیب انسانی نے جب اپنے محسوسات کو بیان کرنا شروع کیا،تو اس کے اظہار کے ابتدائی مراحل میں ایک مرحلہ رقص کا بھی تھا۔جب وہ خوشی محسوس کرتے، تو رقص کے ذریعے اس جشن کو مناتے۔یہ سلسلہ چلتے چلتے اب یہاں تک آپہنچا ہے کہ دنیا کے ہر خطے کے لوگ اپنے علاقائی رنگ میں ڈوب کر رقص پیش کرتے ہیں ،جس میں ان کی ثقافت، معاشرت اورمحبت پنہاں ہوتی ہے۔پاکستان کے قومی ثقافتی ورثے کی ویب سائٹ کے مطابق پاکستان کے علاقائی رقص کی کل اقسام 24ہیں اورایک قسم کا ذکر یہاں نہیں ملتا،وہ فلمی رقص ہے،جس سے ہماری فلمی تاریخ بھری پڑی ہے۔ پڑوسی ملک بھارت میں بھی رقص ایک خاصے کی شے ہے، جس کے بغیر فلم ادھوری تصور کی جاتی ہے اور بالخصوص کئی اداکاراؤں کا فلمی سفر تو رقص کی وجہ سے کامیابی میں ڈھلا،جس میں سرفہرست نام''مادھوری'' کاہے۔
احمد فراز کی ایک غزل صحیح معنوں میں رقص کی تعریف بیان کرتی ہے۔''ایک دوسرے کو تھامے ہوئے بے سبب نہ تھے،محسوس کی ہے گردش حالات رقص میں'' کبھی رقص گردش حالات بن کر بھی ہمارے محسوسات میں داخل ہوتاہے۔زمین پاؤں سے نکلے یا حیرت کا پہاڑ ہم پرآن گرے،تو لگتاہے ،زمین حرکت میں ہے۔ جب حالات قابو میں نہ ہوں توانسانی حواس پر حالت رقص طاری ہوجاتی ہے،اس حالت کو بے ہوشی کہا جاتا ہے اور اگر یہ حالت رقص میں مسرت اور بے قراری کا پہلو ہو تو پھر اس کے لیے مدہوشی کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔
رقص کو پیش کرنے کے تین مرکزی انداز ہیں۔ ایک رقص کا انداز تو وہ ہوتا ہے،جس میں فرد واحد اپنی ماہرانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتا ہے۔دوسرا انداز وہ ہے، جس میں ایک جوڑا یعنی مردعورت مل کر رقص پیش کرتے ہیں،جب کہ تیسرے انداز میں اجتماعی طورپر بہت سے افراد مل کر رقص کرتے ہیں۔ہر رقص اپنے اندر گہری معنویت رکھتاہے۔رقص کے انداز تو اپنی جگہ مگر دنیا بھر میں ہر خطے میں اسے اپنے علاقائی رنگ میں ڈھال کر پیش کیاجاتاہے۔بھارت میں ''ناتیاشاسترا'' پرانی روایت کا ایک رقص ہے،اس کا نام سنسکرت زبان سے لیا گیا ہے۔اس کے علاوہ کلاسیکی رقص کی قسم بھی ایک معروف قسم ہے۔بھارتی فلموں میں مختلف اقسام کے کیے جانے والے رقص اس کے علاوہ ہیں۔
بھارتی اور پاکستانی پنجاب میں ''بھنگڑا''مقبول ترین رقص ہے،جس کااظہار خوشی کے موقعوں پر کیا جاتا ہے۔ اس کو پنجابی زبان میں ''گِدّا''بھی کہتے ہیں۔ امریکا اور یورپی ممالک میں ''بیلے ڈانس''بھی بہت مقبول ہے۔اس کے علاوہ جدید رقص کے نام سے کئی طرز کے رقص اکیسویں صدی میں متعارف ہوئے ہیں، جنھیں فلموں، میوزک ویڈیوز ،کانسرٹس اورتھیٹرمیں پیش کیا جاتا ہے۔ راک اینڈرول، بریک ڈانس، ہپ ہاپ، سوئنگ، جاز، ڈسکو، ٹیپ اوردیگر طرح کے ڈانس نے بھی مختلف ادوار میں شائقین کو اپنی طرف متوجہ کیا،آج بھی یہ رقص عوام الناس میں مقبول ہیں۔
ہالی ووڈ میں رقص کے موضوع پر بننے والی کئی فلموں نے شائقین کے دل موہ لیے اورباکس آفس پر کامیابیاں سمیٹیں۔رقص پر بننے والوں فلموں کو جن چند بہترین فلموں میں شمار کیاجاتا ہے،ان فلموں کی تواریخ اور ناموںکی ترتیب کچھ یوں ہے۔1948،دا ریڈ شوز۔ 1952،سنگنگ اِن رین۔1977،سیٹرڈے نائٹ فیور۔ 1984، فُٹ لوز۔ 1987، ڈرٹی ڈانسنگ۔2001، سیودا لاسٹ ڈانس۔ 2002، شکاگو۔ 2006، اسٹیپ اَپ۔2010، بلیک سوان۔ 2012، سلور لائننگ پلے بُک۔اسی طرح بالی ووڈ میں بننے والی کچھ فلمیں ،جن کاموضوع رقص تھا۔ان فلموں کی تواریخ اور نام مندرجہ ذیل ہیں۔ 1982، ڈسکو ڈانسر۔ 1997،دل تو پاگل ہے۔2007،آجانچ لے۔ 2004، ناچ۔2008، رب نے بنا دی جوڑی۔ 2010،چانس پہ ڈانس ۔ان فلموں کے علاوہ مختلف فلموں میں فلمائے جانے والے گیتوں میں اداکاروں کی انفرادی کارکردگی اس کے علاوہ ہے،جس پر لکھنے کے لیے ایک علیحدہ کالم کی ضرورت ہے۔
فلم کے پردے پر محو رقص کرتے ہوئے اداکار ہوں یا شاعری کی کتابوں میں غزل لکھتے ہوئے شاعر ہوں،یا پھر عاشقی کے مارے ہوئے عاشق ہوں،سب کے دل میں ایک تصور ہوتا ہے،جسے متصورکرتے ہیں۔ ان خیالات کی گردش رقص میں تبدیل ہوجاتی ہے اور ویسے بھی رقص بذات خود کوئی سحر انگیز شے نہیں ،دراصل حالتِ رقص حقیقی پہلو ہے اس فن کا ۔فلمیں ،گیت اورکتابیں رقص کو بیان کرتی ہیں ،لیکن اس کو نبھانے والا ''حالت ِرقص ''کا نمونہ ہوتا ہے۔یہ کیفیت کا نشہ ہے،جس کو حاصل کرنا انسان کے اپنے اختیار میں نہیں ہوتا، یہ خداداد صلاحیتوں میں عطا ہوتا ہے۔
پاکستان میںمہاراج کتھک، ناہید صدیقی، شیما کرمانی، فصیح الرحمان،نگہت چوہدری اوراب نئی نسل میں سوہائی ابڑوجیسے ناموں نے اس فن کے لیے اپنے آپ کو تج دیا۔ رقص ہماری تہذیب اورصوفی روایت میں بھی اپنامقام رکھتاہے۔درباروں ، مزاروں پر گمنام رقاص بھی اپنی ذات میں گم شدہ اسی روایت کوآگے بڑھا رہے ہیں،جس میں عقیدت اورکیفیت کی بات خاموشی کی زبان میں کی جاتی ہے۔بقول پروین شاکر ''رقص میں ہے رات بدن کی طرح،بارشوں کی ہوا میں بن کی طرح،چاند بھی میری کروٹوں کا گواہ،میرے بستر کی ہرشکن کی طرح''اداسی کے اظہار کا فن بھی رقص ہی ہے۔
میرے وطن کی سرزمین کافی عرصے سے لہولہان ہے، یہاں کبھی کھیت لہلایا کرتے تھے۔خوشی کے نغموں میں سب محو رقص ہوا کرتے تھے،مگر شاید کسی کی نظر بد نے اس کی رونقوں کو لوٹ لیاہے۔ہم نے خوشی کے موضوعات پر بات کرناموقوف کردیا ہے۔وہ سنہری دور جس میں ہم زندگی کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر رقص کیا کرتے تھے،یہ انھی دنوں کی یاد کا نوحہ ہے۔ایک بازگشت ہمارے اندر گونجتی ہے،بقول شاعر۔''زندگی رقص کیاکرتی تھی کبھی،اب توچُپ چاپ پڑی ہے مجھ میں ''۔
رقص ایک ایسا فن ہے،جس میں جسم کے اعضاء متحرک ہوتے ہیں ،تویہ فن بولتاہے۔اردو زبان کے بڑے شاعر جوش ملیح آبادی نے رقص کو اسی لیے ''اعضا ء کی شاعری'' قرار دیا۔ رقص کا فن ادھورا رہتا ہے، اگر موسیقی اس کی ہم قدم نہ ہو۔ کہیں یہ جذبات کا اظہار ہے،تو کہیں اس فن کو اپنے آپ میں ڈوب جانے کے مترادف سمجھاجاتاہے۔
صوفی شاعری کا پس منظر دیکھیں ،تو بابابلھے شاہ اپنے پیرکے لیے گھنگرو باندھ کر''تیرے عشق نچایا کر کے تھیاتھیا''کرتے نظر آتے ہیں۔کہیں یہ رقص زنجیریں پہن کر بھی کیاجاتاہے۔عاشق اور عشق کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ رقص اظہارِ بیاں ہے،اس بات کا، جس کے لیے لفظ چپ کا روزہ رکھ لیتے ہیں اور اعضاء کی شاعری سے ماحول گنگنانے لگتاہے۔روح میں اترنے والے گیت پیروں میں باندھ کر جب کوئی ناچتا ہے،تو یہ فن صرف فن تک محدود نہیں رہتا،بلکہ اظہار کا وہ لمس بن جاتاہے،جس سے بیدار ہونے والے لمحے خوابیدگی کاخمار لیے ناظر کو پاگل کردیتے ہیں۔
فن کی دنیا میں رقص کی کئی جہتیں ہیں۔کسی معاشرے میں یہ صرف ایک ورزش کی مانند ہے،کسی سماج میں اسے عبادت کا درجہ حاصل ہے اورکہیں یہ عقیدت کا وہ قاعدہ کھولتا ہے،جو مظہر کی اعلیٰ مثال بن جائے۔ کہیں سانس کی مانند زندگی کے پاس سے ہوکر گزر جاتا ہے اورکہیں یہ بھنور بن کر پاؤں کی زنجیر بن جاتا ہے۔یہی وہ واحد فن ہے،جو متحرک ہے،تو جاری اور تھم گیا تو ختم شد۔قتیل شفائی نے کہا تھا''رقص کرنے کا ملا جو حکم دریاؤں میں،ہم نے خوش ہوکے بھنور باندھ لیے پاؤں میں''۔یہی وہ بات ہے،جو رقص کے تسلسل میں دھڑکتی ہے کہ جسے تم رقص کہتے ہو،ممکن ہے، وہ کوئے یار کا طواف ہو۔بقول شاعر''طوفان کررہا تھا میرے عزم کا طواف،دنیا سمجھ رہی تھی کہ کشتی بھنور میں ہے''۔
تہذیب انسانی نے جب اپنے محسوسات کو بیان کرنا شروع کیا،تو اس کے اظہار کے ابتدائی مراحل میں ایک مرحلہ رقص کا بھی تھا۔جب وہ خوشی محسوس کرتے، تو رقص کے ذریعے اس جشن کو مناتے۔یہ سلسلہ چلتے چلتے اب یہاں تک آپہنچا ہے کہ دنیا کے ہر خطے کے لوگ اپنے علاقائی رنگ میں ڈوب کر رقص پیش کرتے ہیں ،جس میں ان کی ثقافت، معاشرت اورمحبت پنہاں ہوتی ہے۔پاکستان کے قومی ثقافتی ورثے کی ویب سائٹ کے مطابق پاکستان کے علاقائی رقص کی کل اقسام 24ہیں اورایک قسم کا ذکر یہاں نہیں ملتا،وہ فلمی رقص ہے،جس سے ہماری فلمی تاریخ بھری پڑی ہے۔ پڑوسی ملک بھارت میں بھی رقص ایک خاصے کی شے ہے، جس کے بغیر فلم ادھوری تصور کی جاتی ہے اور بالخصوص کئی اداکاراؤں کا فلمی سفر تو رقص کی وجہ سے کامیابی میں ڈھلا،جس میں سرفہرست نام''مادھوری'' کاہے۔
احمد فراز کی ایک غزل صحیح معنوں میں رقص کی تعریف بیان کرتی ہے۔''ایک دوسرے کو تھامے ہوئے بے سبب نہ تھے،محسوس کی ہے گردش حالات رقص میں'' کبھی رقص گردش حالات بن کر بھی ہمارے محسوسات میں داخل ہوتاہے۔زمین پاؤں سے نکلے یا حیرت کا پہاڑ ہم پرآن گرے،تو لگتاہے ،زمین حرکت میں ہے۔ جب حالات قابو میں نہ ہوں توانسانی حواس پر حالت رقص طاری ہوجاتی ہے،اس حالت کو بے ہوشی کہا جاتا ہے اور اگر یہ حالت رقص میں مسرت اور بے قراری کا پہلو ہو تو پھر اس کے لیے مدہوشی کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔
رقص کو پیش کرنے کے تین مرکزی انداز ہیں۔ ایک رقص کا انداز تو وہ ہوتا ہے،جس میں فرد واحد اپنی ماہرانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتا ہے۔دوسرا انداز وہ ہے، جس میں ایک جوڑا یعنی مردعورت مل کر رقص پیش کرتے ہیں،جب کہ تیسرے انداز میں اجتماعی طورپر بہت سے افراد مل کر رقص کرتے ہیں۔ہر رقص اپنے اندر گہری معنویت رکھتاہے۔رقص کے انداز تو اپنی جگہ مگر دنیا بھر میں ہر خطے میں اسے اپنے علاقائی رنگ میں ڈھال کر پیش کیاجاتاہے۔بھارت میں ''ناتیاشاسترا'' پرانی روایت کا ایک رقص ہے،اس کا نام سنسکرت زبان سے لیا گیا ہے۔اس کے علاوہ کلاسیکی رقص کی قسم بھی ایک معروف قسم ہے۔بھارتی فلموں میں مختلف اقسام کے کیے جانے والے رقص اس کے علاوہ ہیں۔
بھارتی اور پاکستانی پنجاب میں ''بھنگڑا''مقبول ترین رقص ہے،جس کااظہار خوشی کے موقعوں پر کیا جاتا ہے۔ اس کو پنجابی زبان میں ''گِدّا''بھی کہتے ہیں۔ امریکا اور یورپی ممالک میں ''بیلے ڈانس''بھی بہت مقبول ہے۔اس کے علاوہ جدید رقص کے نام سے کئی طرز کے رقص اکیسویں صدی میں متعارف ہوئے ہیں، جنھیں فلموں، میوزک ویڈیوز ،کانسرٹس اورتھیٹرمیں پیش کیا جاتا ہے۔ راک اینڈرول، بریک ڈانس، ہپ ہاپ، سوئنگ، جاز، ڈسکو، ٹیپ اوردیگر طرح کے ڈانس نے بھی مختلف ادوار میں شائقین کو اپنی طرف متوجہ کیا،آج بھی یہ رقص عوام الناس میں مقبول ہیں۔
ہالی ووڈ میں رقص کے موضوع پر بننے والی کئی فلموں نے شائقین کے دل موہ لیے اورباکس آفس پر کامیابیاں سمیٹیں۔رقص پر بننے والوں فلموں کو جن چند بہترین فلموں میں شمار کیاجاتا ہے،ان فلموں کی تواریخ اور ناموںکی ترتیب کچھ یوں ہے۔1948،دا ریڈ شوز۔ 1952،سنگنگ اِن رین۔1977،سیٹرڈے نائٹ فیور۔ 1984، فُٹ لوز۔ 1987، ڈرٹی ڈانسنگ۔2001، سیودا لاسٹ ڈانس۔ 2002، شکاگو۔ 2006، اسٹیپ اَپ۔2010، بلیک سوان۔ 2012، سلور لائننگ پلے بُک۔اسی طرح بالی ووڈ میں بننے والی کچھ فلمیں ،جن کاموضوع رقص تھا۔ان فلموں کی تواریخ اور نام مندرجہ ذیل ہیں۔ 1982، ڈسکو ڈانسر۔ 1997،دل تو پاگل ہے۔2007،آجانچ لے۔ 2004، ناچ۔2008، رب نے بنا دی جوڑی۔ 2010،چانس پہ ڈانس ۔ان فلموں کے علاوہ مختلف فلموں میں فلمائے جانے والے گیتوں میں اداکاروں کی انفرادی کارکردگی اس کے علاوہ ہے،جس پر لکھنے کے لیے ایک علیحدہ کالم کی ضرورت ہے۔
فلم کے پردے پر محو رقص کرتے ہوئے اداکار ہوں یا شاعری کی کتابوں میں غزل لکھتے ہوئے شاعر ہوں،یا پھر عاشقی کے مارے ہوئے عاشق ہوں،سب کے دل میں ایک تصور ہوتا ہے،جسے متصورکرتے ہیں۔ ان خیالات کی گردش رقص میں تبدیل ہوجاتی ہے اور ویسے بھی رقص بذات خود کوئی سحر انگیز شے نہیں ،دراصل حالتِ رقص حقیقی پہلو ہے اس فن کا ۔فلمیں ،گیت اورکتابیں رقص کو بیان کرتی ہیں ،لیکن اس کو نبھانے والا ''حالت ِرقص ''کا نمونہ ہوتا ہے۔یہ کیفیت کا نشہ ہے،جس کو حاصل کرنا انسان کے اپنے اختیار میں نہیں ہوتا، یہ خداداد صلاحیتوں میں عطا ہوتا ہے۔
پاکستان میںمہاراج کتھک، ناہید صدیقی، شیما کرمانی، فصیح الرحمان،نگہت چوہدری اوراب نئی نسل میں سوہائی ابڑوجیسے ناموں نے اس فن کے لیے اپنے آپ کو تج دیا۔ رقص ہماری تہذیب اورصوفی روایت میں بھی اپنامقام رکھتاہے۔درباروں ، مزاروں پر گمنام رقاص بھی اپنی ذات میں گم شدہ اسی روایت کوآگے بڑھا رہے ہیں،جس میں عقیدت اورکیفیت کی بات خاموشی کی زبان میں کی جاتی ہے۔بقول پروین شاکر ''رقص میں ہے رات بدن کی طرح،بارشوں کی ہوا میں بن کی طرح،چاند بھی میری کروٹوں کا گواہ،میرے بستر کی ہرشکن کی طرح''اداسی کے اظہار کا فن بھی رقص ہی ہے۔
میرے وطن کی سرزمین کافی عرصے سے لہولہان ہے، یہاں کبھی کھیت لہلایا کرتے تھے۔خوشی کے نغموں میں سب محو رقص ہوا کرتے تھے،مگر شاید کسی کی نظر بد نے اس کی رونقوں کو لوٹ لیاہے۔ہم نے خوشی کے موضوعات پر بات کرناموقوف کردیا ہے۔وہ سنہری دور جس میں ہم زندگی کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر رقص کیا کرتے تھے،یہ انھی دنوں کی یاد کا نوحہ ہے۔ایک بازگشت ہمارے اندر گونجتی ہے،بقول شاعر۔''زندگی رقص کیاکرتی تھی کبھی،اب توچُپ چاپ پڑی ہے مجھ میں ''۔