سونے کے سکے دینے والا گدھا
حکومت نے اس گائے نما گدھے کو آج کل محکمہ بجلی کی تحویل میں دے رکھاہے
ایک کہانی بہت پرانی ہے، ہمیں پوری طرح یاد نہیں لیکن اتنا یاد ہے کہ اس میں ایک چمتکاری گائے نما گدھا ہوتا ہے جو ڈنڈا رسید کرنے پر ایک سونے کا سکہ اپنے پیچھے سے اگل دیتاہے۔
باقی کہانی توجو تھی سو تھی لیکن وہ گدھا آج بھی موجود ہے اوراسی پاکستان میں موجود ہے اوراسی طرح ڈنڈا رسید کرنے پر سونے کاسکہ اگلتاہے۔
کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ یہ گدھا بیک وقت گدھا بھی ہے ،گائے بھی ہے جسا کہ شمالی علاقوں میں ایک جانور''یاک'' پایاجاتاہے جو حلیے سے گائے یا بیل ہوتاہے لیکن نیچے سے پیر گدھے یاگھوڑے کی طرح ایک ہی کھر کے ہوتے ہیں، اگر آپ کو یاد ہوتو ہم نے اس کالم میں کئی بار برہمن رشی وسیسٹھ اوراجا وشوامتر کے جھگڑے کاذکر کیاہے جو دونوں میں ایک گائے کے لیے ہوا تھا، ایسی گائے جو مانگنے پرسب کچھ مہیا کردیتی تھی۔
انواع واقسام کے کھانے، دولت، فوج سب کچھ۔ پھر جھگڑے کے بعد برہمن رشی اور کھشتری راجہ کااس گائے پرسمجھوتہ ہوگیا، اس گائے کو اﷲ میاں کی گائے اورعوام بھی کہاجاتا تھا، جسے تلواروالا اورکتاب والا مل کردوہتے ہیں تھے لیکن بعد میں جب ترقی ہوئی تو اس گائے اوراس گدھے کاملاپ کردیاگیا جو ٹو ان ون ہے یعنی گائے بھی اورگدھا بھی اور یہ ٹو ان ون آج کل حکومتوں کی تحویل میں رہتا ہے۔
ہماری حکومت پاکستان کے پاس بھی ایسا ہی ایک ٹوان ون موجود ہے جو مختلف محکموں اداروں اورشخصیات کے کثرت استعمال سے بہت ہی لاغر اورہڈیوں کی مالاہوگیاہے لیکن پھر بھی زیر استعمال ہے چنانچہ حکومت کے جس محکمے اورادارے کو ضرورت ہوتی ہے، اسے ڈنڈے رسید کرناشروع کردیتاہے اوروہ سو نے سکے اگلناشروع کردیتاہے، اگر وہ اب اس قابل ہی نہیں رہاہے لیکن کرے بھی کیا ، ڈنڈے کے آگے زور کیا، بیچارہ پہلے ہی ڈنڈے پر کسی نہ کسی طرح سکے نکالنے پر مجبورہے، چاہے آنتیں ہی کیوں نہ نکلیں۔
تازہ ترین خبروں کے مطابق حکومت نے اس گائے نما گدھے کو آج کل محکمہ بجلی کی تحویل میں دے رکھاہے تاکہ وہ اسے ڈنڈے مارمارکر اپنا خسارہ پورا کرسکے ۔ چنانچہ خبریں آرہی ہیں کہ اس ڈنڈا ماری کی مہم میں گائے نماگدھا مسلسل سونے کے سکے اگل رہا ہے۔
ظاہرہے کہ یہ سارا مالی خسارہ اس گدھے یاٹو ان ون ہی سے پورا کیاجاتاہے کیوں کہ جو دوسرے اعلیٰ نسل کے جانورہیں، ہاتھی گھوڑے اونٹ ان کو نہ تو ڈنڈا ماراجاسکتاہے اورنہ سکے حاصل کیے جاسکتے ہیں، مثال کے طورپر ۔سابق اورلاحق وزیر سونے کے دیتے ہیں ؟ہرگزنہیں۔ ہرقسم کے منتخب عوامی نمایندے سابق یا لاحق سکے دیتے ہیں ؟ بالکل نہیں۔سابق یا لاحق سرکاری افسر سکے دیتے ہیں؟ کبھی بھی نہیں۔
خود ان ڈنڈاماروں میںسے کوئی چھوٹا یا بڑا، سابق یا لاحق یا اس کے رشتہ دار سکے دیتے ہیں ؟ نہیں، نہیں، نہیں ۔چھوٹے بڑے کارخانے دار سکے دیتے ہیں؟ مطلق نہیں۔ چنانچہ سارے خسارے کابارامانت اس گائے نماگدھے سے پوراکرناہے اورکیاجارہاہے، اب بتائے ، بیچارے اس گائے نماگدھے کی حالت کیا ہے ؟ یہ کسی نے پوچھا ہے بھلا کبھی؟ برسوں بعد سوکھی گھاس مل جاتی ہے۔
ایک بار ہم نے آپ کو اپنے بچپن کی کہانی سنائی تھی، اس زمانے میں ہماری زمین بارانی تھی چنانچہ برسات میں جب بارشیں ہوتی تھیں اور کھیت سیراب ہوجاتے تھے تو کسان وتر آنے پر ان کھیتوں میں ہل چلا کر وتر محفوظ کرتے تھے اور پھر نومبر میں ان ہی کھیتوں میں گندم بوتے تھے۔
ان دنوں ٹریکٹر تو تھے نہیں سارا بوجھ بیلوں پر ہوتاتھا لیکن یہ کام اتنامشکل تھا کہ بیچارے بیل تھک کر قدم اٹھانے کے قابل نہیں رہتے تھے، ڈنڈے مارنے سے بھی وہ نہیں چلتے تھے تو ہمارے بزرگ یہ تدبیر کرتے تھے کہ ہم بچوں کو گھاس یاکوئی دوسرا چارہ دے کر بیلوں کے آگے کر دیتے تھے، ہم وہ چارہ بیلوں کو دکھادکھا کر آگے چلتے تھے اوربیل بیچارہ اس کی لالچ میں ہمارے پیچھے آتے تھے لیکن ہم یہ احتیاط ضرورکرتے تھے کہ بیلوں کامنہ چارے تک نہ پہنچ پائے جب اس طریقے سے بھی کام نہ چلتاتو پھر ہم کبھی کبھی وہ چارہ بیلوں کو چکھا بھی دیتے تھے لیکن صرف اتنا کہ ایک نوالے سے زیادہ نہ کھائیں۔
آج کل ہمیں ایسا لگتاہے کہ کچھ ایسی ہی صورتحال ہمارے اس کھیت کی بھی ہے جسے پاکستان کہتے ہیں کہ سارا زوربیلوں پر یا اس گدھے پر ہے ۔
دیکھیے کب یہ بیل اوریہ گدھا خود نوشت کرتے ہیں۔
باقی کہانی توجو تھی سو تھی لیکن وہ گدھا آج بھی موجود ہے اوراسی پاکستان میں موجود ہے اوراسی طرح ڈنڈا رسید کرنے پر سونے کاسکہ اگلتاہے۔
کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ یہ گدھا بیک وقت گدھا بھی ہے ،گائے بھی ہے جسا کہ شمالی علاقوں میں ایک جانور''یاک'' پایاجاتاہے جو حلیے سے گائے یا بیل ہوتاہے لیکن نیچے سے پیر گدھے یاگھوڑے کی طرح ایک ہی کھر کے ہوتے ہیں، اگر آپ کو یاد ہوتو ہم نے اس کالم میں کئی بار برہمن رشی وسیسٹھ اوراجا وشوامتر کے جھگڑے کاذکر کیاہے جو دونوں میں ایک گائے کے لیے ہوا تھا، ایسی گائے جو مانگنے پرسب کچھ مہیا کردیتی تھی۔
انواع واقسام کے کھانے، دولت، فوج سب کچھ۔ پھر جھگڑے کے بعد برہمن رشی اور کھشتری راجہ کااس گائے پرسمجھوتہ ہوگیا، اس گائے کو اﷲ میاں کی گائے اورعوام بھی کہاجاتا تھا، جسے تلواروالا اورکتاب والا مل کردوہتے ہیں تھے لیکن بعد میں جب ترقی ہوئی تو اس گائے اوراس گدھے کاملاپ کردیاگیا جو ٹو ان ون ہے یعنی گائے بھی اورگدھا بھی اور یہ ٹو ان ون آج کل حکومتوں کی تحویل میں رہتا ہے۔
ہماری حکومت پاکستان کے پاس بھی ایسا ہی ایک ٹوان ون موجود ہے جو مختلف محکموں اداروں اورشخصیات کے کثرت استعمال سے بہت ہی لاغر اورہڈیوں کی مالاہوگیاہے لیکن پھر بھی زیر استعمال ہے چنانچہ حکومت کے جس محکمے اورادارے کو ضرورت ہوتی ہے، اسے ڈنڈے رسید کرناشروع کردیتاہے اوروہ سو نے سکے اگلناشروع کردیتاہے، اگر وہ اب اس قابل ہی نہیں رہاہے لیکن کرے بھی کیا ، ڈنڈے کے آگے زور کیا، بیچارہ پہلے ہی ڈنڈے پر کسی نہ کسی طرح سکے نکالنے پر مجبورہے، چاہے آنتیں ہی کیوں نہ نکلیں۔
تازہ ترین خبروں کے مطابق حکومت نے اس گائے نما گدھے کو آج کل محکمہ بجلی کی تحویل میں دے رکھاہے تاکہ وہ اسے ڈنڈے مارمارکر اپنا خسارہ پورا کرسکے ۔ چنانچہ خبریں آرہی ہیں کہ اس ڈنڈا ماری کی مہم میں گائے نماگدھا مسلسل سونے کے سکے اگل رہا ہے۔
ظاہرہے کہ یہ سارا مالی خسارہ اس گدھے یاٹو ان ون ہی سے پورا کیاجاتاہے کیوں کہ جو دوسرے اعلیٰ نسل کے جانورہیں، ہاتھی گھوڑے اونٹ ان کو نہ تو ڈنڈا ماراجاسکتاہے اورنہ سکے حاصل کیے جاسکتے ہیں، مثال کے طورپر ۔سابق اورلاحق وزیر سونے کے دیتے ہیں ؟ہرگزنہیں۔ ہرقسم کے منتخب عوامی نمایندے سابق یا لاحق سکے دیتے ہیں ؟ بالکل نہیں۔سابق یا لاحق سرکاری افسر سکے دیتے ہیں؟ کبھی بھی نہیں۔
خود ان ڈنڈاماروں میںسے کوئی چھوٹا یا بڑا، سابق یا لاحق یا اس کے رشتہ دار سکے دیتے ہیں ؟ نہیں، نہیں، نہیں ۔چھوٹے بڑے کارخانے دار سکے دیتے ہیں؟ مطلق نہیں۔ چنانچہ سارے خسارے کابارامانت اس گائے نماگدھے سے پوراکرناہے اورکیاجارہاہے، اب بتائے ، بیچارے اس گائے نماگدھے کی حالت کیا ہے ؟ یہ کسی نے پوچھا ہے بھلا کبھی؟ برسوں بعد سوکھی گھاس مل جاتی ہے۔
ایک بار ہم نے آپ کو اپنے بچپن کی کہانی سنائی تھی، اس زمانے میں ہماری زمین بارانی تھی چنانچہ برسات میں جب بارشیں ہوتی تھیں اور کھیت سیراب ہوجاتے تھے تو کسان وتر آنے پر ان کھیتوں میں ہل چلا کر وتر محفوظ کرتے تھے اور پھر نومبر میں ان ہی کھیتوں میں گندم بوتے تھے۔
ان دنوں ٹریکٹر تو تھے نہیں سارا بوجھ بیلوں پر ہوتاتھا لیکن یہ کام اتنامشکل تھا کہ بیچارے بیل تھک کر قدم اٹھانے کے قابل نہیں رہتے تھے، ڈنڈے مارنے سے بھی وہ نہیں چلتے تھے تو ہمارے بزرگ یہ تدبیر کرتے تھے کہ ہم بچوں کو گھاس یاکوئی دوسرا چارہ دے کر بیلوں کے آگے کر دیتے تھے، ہم وہ چارہ بیلوں کو دکھادکھا کر آگے چلتے تھے اوربیل بیچارہ اس کی لالچ میں ہمارے پیچھے آتے تھے لیکن ہم یہ احتیاط ضرورکرتے تھے کہ بیلوں کامنہ چارے تک نہ پہنچ پائے جب اس طریقے سے بھی کام نہ چلتاتو پھر ہم کبھی کبھی وہ چارہ بیلوں کو چکھا بھی دیتے تھے لیکن صرف اتنا کہ ایک نوالے سے زیادہ نہ کھائیں۔
آج کل ہمیں ایسا لگتاہے کہ کچھ ایسی ہی صورتحال ہمارے اس کھیت کی بھی ہے جسے پاکستان کہتے ہیں کہ سارا زوربیلوں پر یا اس گدھے پر ہے ۔
دیکھیے کب یہ بیل اوریہ گدھا خود نوشت کرتے ہیں۔