کمالاتِ انیس کلامِ میرانیس ؔکے منفرد خصائص

رئیسِ سخن، ابوالفصاحت، جامعَِ الکلام، رُوح ِمرثیہ ،میر انیسؔ اعلٰی اللہ مقامہ کو ہم سے بچھڑے ۱۵۰ برس ہونے والے ہیں۔

رئیسِ سخن، ابوالفصاحت، جامعَِ الکلام، رُوح ِمرثیہ ،میر انیسؔ اعلٰی اللہ مقامہ کو ہم سے بچھڑے ۱۵۰ برس ہونے والے ہیں۔ فوٹو : فائل

فرانسیسی ادیب الیگزینڈر ڈیومس (Alexander Dumas)نے انگلستان کے تمثیل نگار شیکسپئر کے لیے کہا تھا: After God,Shakespeare has

created most جب کہ مفسرِکلامِِ انیسؔ صادق صفوی خداوند ِسخن کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں :After God,Anis has created best ۔

رئیسِ سخن، ابوالفصاحت، جامعَِ الکلام، رُوح ِمرثیہ ،میر انیسؔ اعلٰی اللہ مقامہ کو ہم سے بچھڑے ۱۵۰ برس ہونے والے ہیں۔ ان کی وفات کے بعد سے اب تک کم و بیش ڈیڑھ سو برس میں صاحبانِ نقدوفن تواتر سے ان کی شخصیت و شاعری کو تنقید و تحسین کی کسوٹی پر پرکھنے میں مصروف عمل ہیں، جو ان کی معجزبیانی اور سحرنگاری کا بین ثبوت ہے۔

بظاہر سادگی و سلاست اور عمدگی و فصاحت سے مزین ہشت پہلوی کلام انیسؔ معنی و مفہوم کے حوالے سے اس قدر تہہ دار ہے کہ شارحین کی فکر دنگ رہ جاتی ہے اور قلم گنگ ہوجاتے ہیں، مگر ایک کے بعد ایک ''انیسیات'' کے تشریح و توضیح طلب ابواب وا ہوتے چلے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ شارحین و مفسرین کلام انیسؔ، بے ساختہ پکا راٹھتے ہیں:

؎کسی نے تری طرح سے اے انیسؔ

عروسِ سخن کو سنوارا نہیں

فکری و شعری کمالات سے بھرپور کلامِ انیس اؔیک ایسا بحر ناپیدا کنار ہے جس کی وسعت و گہرائی کا اندازہ لگانا کار ِدشوار ہے، تاہم آج میرؔصاحب کی برسی کے موقع پر ہم اس مضمون میں ان کے چاہنے والوں کے لیے شرح کلام انیسؔ سے چند منتخب باکمال علمی و ادبی پہلوؤں کو پیش کرنے کا اعزاز حاصل کر رہے ہیں جو ''انیسیات'' کے باب میں ایک شان دار اضافہ ثابت ہوگا، اس اقرار عجز کے ساتھ کہ:

؎پہنچ سکا نہ کوئی اس کے اوجِ فکر تلک!!!

انیسؔ پڑھ بھی چکے اور انیسؔ باقی ہے

کمالات انیس ؔکے بحر بے کنار کی شناوری سے قبل اس امر کا ذکر ضروری ہے کہ میرؔصاحب کا کلام تو تجلیاتِ انوارِ سخن سے بھرپور ہے ہی مگر یہ امر بجائے خود حیرت انگیز ہے کہ ان کا اسم گرامی بھی ایسے منفرد معنوی نکات سے معمور ہے جو قابلِ توجہ اور لائقِ داد ہیں۔ یعنی اپنے کلام کی طرح اپنے نام کے لحاظ سے بھی وہ چنیدہ شخصیت تھے۔ ہم یہاں صرف علم الاعداد کی رُو سے ان کے نام کے کمالات کا جائزہ لیں گے جس کو آج سے قبل شاید ہی مفسرین و شارحین انیسؔ نے اپنا موضوع بنایا ہو۔

علم الاعداد کی رُو سے لفظ 'مرثیہ' کے اعداد کو جمع کیا جائے تو اس کا مجموعہ 755 بنتا ہے جس کا حاصل عدد 8 آتا ہے، جب کہ میر انیس ؔکے حقیقی نام ببر علی کے اعداد کا مجموعہ 314 بنتا ہے جس کا حاصل عدد بھی 8 ہی بنتا ہے، جو اس بات کی واضح دلیل ہے کہ میرانیس ؔخلق ہی مرثیہ گوئی کے واسطے ہوئے تھے۔

ان کے حقیقی نام کے ساتھ اگر ان کے تخلص انیسؔ کا اضافہ کیا جائے او ر ببر علی انیسؔ نام کے اعداد کو جمع کیا جائے تو اس کا مجموعہ 435 نکلتا ہے جس کا حاصل عدد12 بنتا ہے جو ان کے شیعہ اثناء عشری ہونے پر دلیل ہے۔ اب اگر ان کے مکمل نام میر ببر علی انیس ؔکے اعداد کو جمع کیا جائے تو حاصل جمع 685 آئے گا جس کا مجموعی عدد 20 بنتا ہے،جب کہ ان کے سن وفات 1874 کے اعداد کا مجموعہ بھی 20 بنتا ہے۔ یعنی ان کے نام کے اعداد میں ان کا سن وفات بھی پوشیدہ تھا۔

............

ماہرانیسیات علامہ ڈاکٹر ضمیر اخترنقوی اپنی کتاب ''معصومین کا علم لسانیات '' میں لکھتے ہیں،''میر انیس ؔنے اپنے ایک مشہور زمانہ مرثیے کا آغاز اس مصرعے سے کیا:

؎یارب چمنِِ نظم کو گلزارِِارم کر

اب ذرا اس ایک مصرعے میں نہاں جہان ِفکر و معنی کے چند پہلو ملاحظہ ہوں:

سب سے پہلے ''یارب '' کے ندائیہ الفاظ سے بارگاہ خداوندی میں عرض کیا جا رہا ہے، جب کہ یہ مصرعے کی بحر اور وزن کا کمال ہے کہ اللہ تعالی کے ننانوے اسمائے مبارکہ میں سے چند ایک کے سوا سب نام لفظِ''رب '' کی جگہ استعمال کیے جا سکتے ہیں جیسا کہ ''خالق '' چمن نظم کو گلزارِارم کر یا پھر ''مالک'' چمن ِ نظم کو گلزارِ ارم کر یا ''عادل ''چمنِ نظم کو گلزارِ ارم کر۔۔۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے میرصاحب نے اللہ تعالی کے باقی اسماء مبارکہ کے ہوتے ہوئے فقط ''یارب'' کے نا م سے کیوں پکارا؟ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ آغازِوحی میں اللہ تعالی نے رسول خدا کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:

اقراء باسم ربک

کہ '' پڑھ اپنے رب کے نام سے''، یعنی اللہ تعالی نے بھی اپنے تعارف کے لیے اپنے دیگر اسماء کی بجائے رب کا لفط پسند فرمایا، جب کہ قرآن مجید کے مطالعے سے یہ بات بھی آشکار ہوتی ہے کہ قرآن کریم میں مذکور انبیاء نے اللہ کی بارگاہ میں جتنی بھی دعائیں مانگی ہیں ہر دعا کا آغاز لفظ''رب'' سے کیا ہے جیسا کہ:

ربِ زدَنی عِلماء

یا پھر:

رَبِ ِاِرَ حمھُماء َکما رَب ِیاَنی صغیرَا

یعنی میرانیس ؔنے قرآنی اور نبوی انداز دعا کواپنایا گویا وہ دیکھ رہے تھے پیغمبروں کی دعائیں جو اللہ قبول کرتا ہے وہ سب اللہ کو صرف ایک نام سے پکارتے ہیں ''یارب''۔ لہٰذا اسی نام کے وسیلے کو میرصاحب نے پسند فرمایا۔ اب مصرعے کے دوسرے حصے میں ''چمن نظم کو گلزارِارم کرنے'' کی خواہش کا اظہار کیا ہے کیون کہ چمن کی آراستگی پیراستگی سے ہوتی ہے۔

یعنی اس کا حسن رنگ برنگ پھولوںکے علاوہ نظم و ترتیب سے بھی ہے۔ علاوہ ازیں اگر بغور مطالعہ کیا جائے تو جنت کو عربی اور فار سی میں اور بھی بہت سے ناموں سے پکارا جاتا ہے، جیسا کہ فردوس، خلد، بہشت مگر گلزارِ ارم کی طلب ہی کیوں کی گئی؟ قدیم تاریخ کی ورق گردانی کی جائے تو تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ''ارم'' حضرت نوح ؑ کے پڑپوتے کا نام تھا اور اسی'' ارم'' کے حقیقی پوتے کا نام ''شداد'' تھا۔ شداد نے اپنے مال و منال کے بل بوتے پر جب زمیں پر اپنی جنت بنوائی تو اس کا نام اپنے پڑدادا کے نا م پر''ارم'' ہی رکھا۔ اگرچہ اس جنت کا دیدار تک اسے نصیب نہ ہو سکا۔ اور وہ جنت آسمانوں پر اٹھالی گئی۔

یعنی بنی زمین پر۔۔۔۔ پہنچ آسمانوں پر گئی۔ اب میرانیس 'ارم' کے اسی پہلو کو مدنظر رکھ کے فرماتے ہیں کہ ''میراچمنِ نظم '' بھی ایک ایسا شاہ کار ہو جو گلزارِارم کی طرح تجھے پسند آجائے، کیوںکہ تیری تخلیق کردہ جنت تصور میں تو آسکتی ہے مگر زمیں پر نہیں آسکتی، اس لیے میں اس کی مثل مانگ رہا ہوں جو قابلِ دید تھی، اور بلندبخت اس قدر کہ بنی یہاں اور گئی عرش پر۔۔۔یعنی میرے چمن نظم کو بھی گلزار ام جیسی شہرت کی بلندیاں نصیب فرما۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ارسطو کا خیال ہے کہ خیرمجسم کردار میں بے نفسی اور نفس کشی کا رجحان قدرے زیادہ پایا جاتا ہے۔ اس لیے داخلی جارحیت اور تصادم کے امکانات کم ہو جاتے ہیں۔ یہ نظریہ بالکل ٹھیک ہے اور اس کی صحت کی تصدیق انیس ؔکے کلام سے بھی جا بجا ہوتی ہے، مگر انیس ؔکا کمال یہ ہے کہ وہ امام حسینؓ کی بے لوث اور بے نفس شخصیت کا روحانی وقار قائم رکھتے ہوئے بھی داخلی کشمکش اور خارجی تصادم کے مواقع پیدا کر لیتے ہیں اور اس طرح وہ امام عالی مقام کو ان کے روحانی مرتبے سمیت انسانی سطح پر لے آنے میں کام یاب ہوجاتے ہیں۔ خیرمجسم ہونے کی بنا پر امام حسینؓ کے دل و دماغ میں خیروشر کی آویزش کا دکھانا ممکن نہ تھا۔

انیسؔ جو ذہنی کشمکش دکھاتے ہیں اس کا اگر تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ جو جذبات برسرپیکار ہیں، ان میں سے پست کوئی بھی نہیں ہے۔ فرق یہ ہوتا ہے کہ اس مخصوص موقع پر ایک اعلٰی ہوتا ہے دوسرا اعلٰی ترین۔ ایک کا اظہار بے محل ہوتا تو دوسر ے کا با محل ہوتا ہے: مثلاً

جب تین پہر میں وہ چمن ہوگیا پائمال

تنہا ہوئے بس پھر تو شہنشاہِ خوش اقبال

کھینچے ہوئے تیغیں بڑھے آتے تھے بدافعال

تھا منتظر حکم خدا سیدہ کا لال

مانند علیؓ غیظ میں جب آتے تھے مولا

قبضے کی طرف دیکھ کے رہ جاتے تھے مولا

اس ایک مصرعے ''قبضے کی طرف دیکھ کے رہ جاتے تھے مولا'' میں انیس ؔنے شجاعت حسینی کے دونوں برسر پیکار پہلو دکھا دیے۔ یعنی ایک طرف بے خوفی، جنگ کا ولولہ اور غیظ و غضب جو ایک شجاع ہیرو کے کردار کی نمایاں صفت ہوتی ہیں، جس کا اظہار تلوار کے قبضے کی طرف دیکھنے سے ہوجاتا ہے اور دوسری طرف صبر و ضبط اور حکم خدا کا انتظار جس کی وجہ سے وہ خاموش رہ جاتے تھے اور ا س جہادنفس میں حلم جوش جہاد پر غلبہ حاصل کرلیتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میرانیس ؔکے خانوادے سے تعلق رکھنے ولے ادیب علی احمد اپنی کتاب ''عکسِ زر'' میں لکھتے ہیں،''اردو زبان میں دو الفاظ زلزلہ اور بھونچال عموماً ایک ہی معنوں میں مستعمل ہیں، مگر میرانیسؔ کا کمال یہ ہے ایک ہی معنی ہونے کے باوجود وہ لفظوں کے برتاؤ میں نہایت باریک بینی اور احتیاط کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ یعنی ان دونوں لفظوں زلزلہ اور بھونچال کا موقع بہ موقع استعمال کرتے ہوئے خیال اور ماحول کا لحاظ کر کے دونوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرتے ہیں۔ مثلاً ایک موقع پر فرماتے ہیں؛

؎ جیسے کوئی بھونچال میں گھر چھوڑ کے بھاگے

جب کہ دوسری جگہ فرماتے ہیں:

؎گر زلزلہ بھی ہو تو نہ اتنی زمیں ہٹے

''بھونچال'' کا لفظ وہاں استعمال کیا جب انتشار کا سماں قلم بند کرنا تھا۔ ''زلزلہ'' کا لفظ اس وقت استعمال کیا۔ جب جنگ کے دوران ایک پہلوان امام عالی مقام کو مخاطب کر کے کہتا ہے کہ اب میں لڑائی شروع کر رہا ہوں، آپ اپنی جگہ سے ایک قدم بھی نہ ہٹیے گا، تو اس کے جواب میں امام فرماتے ہیں:

؎گر زلزلہ بھی ہو تو نہ اتنی زمیں ہٹے

بھونچال لفظ چوںکہ اپنی ساخت و صوت کے لحاظ سے بھگدڑ کا پورا نقشہ پیش کردیتا ہے۔ اس لیے یہاں پر زلزلہ وہ کیفیت پیدا نہیں کر سکتا، اس لیے کہ لفظ بھونچال کی ساخت و صوت میں تھرتھراہٹ کا عنصر ضرور موجود ہے مگر گھبراہٹ اور پراگندگی کا عنصر نسبتاً کم ہے، اور موقع کے لحاظ سے انتشار کا عالم یہاں دکھنا مقصود نہ تھا بلکہ یہ بتا نا تھا کہ زمیں چاہے کروٹ بھی لے تب بھی پاؤں کو لغزش نہ ہو گی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رسول اکرم ﷺ نے اپنے اہلبیت کے معارف و مراتب کے بارے بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ِ ''صغیرناَ و کبیرناَ سواًء'' یعنی ''ہمارے چھوٹے بڑے سب برابر ہیں۔'' اب میر انیسؔ حضرت امام حسینؓ کے اسم مبارک کی شاعرانہ تقطیع بیان کرتے ہوئے اپنے ایک مرثئیے میں لکھتے ہیں:۔

؎'ح' سے یہ اشارہ کہ ہے یہ حامیِ امت

سمجھیں گے اسی'س' کو جب سینِ سیادت

'ی' اس کی بزرگی میں ہے یٰسین کی آیت

ہے 'ن' سے ظاہر کہ یہ ہے نورِنبوت

ناجی ہے وہ اس نام کو لے گا جو دہن سے

یہ حُسن میں دس حصے زیادہ ہے حسن ؑسے

میرانیس ؔنے سرکا رسالت مآب کی حدیث موجود ہونے اور ظاہری طور پر بھی امام حسینؓ کو اپنے بڑے بھائی امام حسنؓ سے چھوٹا ہونے کے باوجود بڑھا دیا اور کہا،''یہ َحُسن میں دس حصے زیادہ ہے حسنؓ سے'' اب یہاں میرؔ صاحب کے قلم کی معنوی گہرائی اور فکرو نظر کا کمال ملاحظہ کیجیے کہ اگر علم الاعداد کی رو سے لفظ ِ حَسن کے اعداد نکالے جائیں تو وہ یوں بنتے ہیں:

ح +س+ ن= 50+60+8 = 118 اور جب حسینؓ کے اعدادوشمار کیے جائیں تو اس کی مجموعہ یوں ترتیب پاتا ہے ح +س+ ی+ ن50+10+60+8= = 128 اور یوں نام حسین نام حسن سے ۱۰ گنا زیادہ بڑھ گیا اور میر صاحب کا کہا کمال خوبی سے درست ثابت ہوا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سید فدا حسین اپنے پی ایچ ڈی کے مقالے بعنوان ''میرانیس اور فردوسی کا تقابلی مطالعہ ''میں بیان کرتے ہیں کہ ''میرانیس ؔ کے کلام کا دارومدار 'طرزِادا' پر منحصر ہے، کیوںکہ واقعۂ کربلا جو کہ صرف ایک دن کا کارنامہ ہے، اس کو بلا کم و کاست اپنے ہر مرثیے میں مذہبی دائرے کے اندر رہ کر بیان کرنا اور پھر اس کو اس طرح پیش کرنا کہ پڑھنے والوں کو ہر مرتبہ یہ محسوس ہو کہ ایک نئی بات کہی گئی ہے قدرے مشکل کام ہے مگر طرزادا کی یہی انفرادیت ان کی شاعری کا کمال ہے۔ ایک مرثیے میں ایک مقام پر جب امام عالی مقام وارد دشت کربلا ہوتے ہیں اور دریا کی سمت تشریف لاتے ہیں تو اس وقت دریا کی سرخوشی کے عالم کی تصویرکشی کرتے ہوئے میرانیسؔ لکھتے ہیں:

؎ صحرا سے آ ئے پھر سوئے دریا شہہ امم

الیاس شاد ہو کے پکارے بصد حشم

ابھریں درود پڑھتی ہوئیں مچھلیاں بہم

بولے حباب آنکھوں پہ شاہا تیرے قدم

پانی میں روشنی ہوئی حسن حضور سے

لے لیں بلائیں پنجہ مرجاں نے دور سے

فرماتے ہیں ''ابھریں درود پڑھتی ہوئیں مچھلیاں بہم''، ہم دیکھتے ہیں کہ جب بھی مچھلیاں پانی کی سطح پر ابھرتی ہیں تو وہ بار بار منہ کھولتی ہیں، میرؔ صاحب نے یہاں تخیل کے زور پر امام کی آمد پر مچھلیوں کے منہ کھولنے کو درود پڑھنے سے تشبیہہ دی۔

بند کے چوتھے مصرعے میں فرماتے ہیں ''بولے حباب آنکھوں پہ شاہا تیرے قدم'' اب یہاں میرؔ صاحب بے جان شئے میں صرف جان ہی نہیں ڈالتے بلکہ روح پھونکنے کے بعد ان میں جذبات کا عنصر پیدا کرکے قوت مسیحائی دکھاتے ہیں، چوںکہ حباب کی شکل آنکھ کے ڈھیلے سے مشابہہ ہوتی ہے لہٰذا وہ امام کے قدم اپنی آنکھوں پر رکھنا چاہتے ہیں، جب کہ بند کے چھٹے مصرعے میں '' لے لیں بلائیں پنجہ مرجاں نے دور سے'' چوںکہ قدرت نے مونگے کے سبزی مائل درخت سمندر کی تہہ میں پیدا کیے ہیں اور اس کی شاخیں انسانی انگلیوں کے مشابہہ ہوتی ہیں اور وہ سطح آب پر ابھر نہیں سکتے، لہٰذا دور سے ہی پنجہ مرجاں امام عالی مقام کی بلائیں لے لیتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عبدالباری اپنی کتاب ''لکھنؤ کا شعروادب'' میں ''کلام ِانیس کے شعر ی محاسن'' بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں،''وصفیہ شاعری میں شاعر کو اس وقت دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے جب اس کو اپنے ممدوح کے جس وصف کو بیان کرنا مقصود ہو، بیان کے پس منظر کی صورت حال اس سے مطابقت نہ رکھتی ہو۔ اس مشکل سے عہدہ برآ ہونے کے لیے زبان کی مہارت کے ساتھ ساتھ پیکر تراشی میں کمال حاصل ہونا بھی ضروری ہے۔

انیسؔ اس مشکل مرحلے میں بھی اپنی شاعرانہ عظمت کے جوہر دکھاتے ہیں۔ اپنے مشہور مرثیے ''جب قطع کی مسافت شب آفتاب نے'' میں امام عالی مقام کی جماعت میں نمازفجر کا ذکر کرتے ہوئے امام کے اصحاب باوفا کے حسن صورت اور اخلاق حمیدہ کا بیان کر رہے ہیں۔ مقصودِشاعر ان نورانی چہروں کی تاب ناکی کا بیان ہے، لیکن مشکل یہ آ پڑی ہے کہ بندش آب کے باعث اصحابِ باوفا کے چہرے تیمم کی خاک سے آلودہ ہیں۔ اب میرؔ صاحب کا کمال دیکھیے کہ انہوں نے خاک آلودہ چہروں کو کس طرح بے مثل اور نادر تشبیہات سے روشن کیا ہے؛

؎ پانی نہ تھا وضو جو کریں وہ فلک جناب

پر تھی رُخوں پہ خاک تیمم سے طرُفہ آب

باریک ابر میں نظر آتے تھے آٖٖٖفتاب

ہوتے تھے خاکسار، غلام ابو تراب

مہتاب سے رُخوں کی صَفا اور ہوگئی

مٹی سے آئینوں پہ ِجلا اور ہوگئی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


علامہ ضمیراختر نقوی اپنے عشرۂ مجالس بعنوان''میرانیس اور واقعہ کربلا''میں میرصاحب کی شاعری کے نمایاں پہلوؤں کی تشریح و توضیح پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں،''انیس ؔکی سراپانگاری کا ایک کمال یہ بھی ہے کہ ممدوح کا سراپا بیان کرتے ہوئے اس کے بدن کے ہر اس جزو کو لفظی سانچے میں ڈھالتے ہیں جس کو الفاظ کے روپ میں ڈھالا جا سکتا ہے، مگر اس مجسم تصویرکشی کے دوران بھی کہیں پر ان کے لفظی برتاؤ کے معیار میں جھول نہیں دیکھی جا سکتی۔ مثلاً انسانی جسم کے اہم حصے بازو میں کہنی کے نیچے اور کلائی سے اوپر کے حصے کو ''صاعد'' کے نام سے پکارا جاتا ہے۔

عمومی طور پر شعراء سراپانگاری کے دوران جسم کے اس حصے کو نظرانداز کر دیتے ہیں مگر میرانیسؔ نے جسم کے اس حصے کو بھی خوب صورت تشبیہات و استعارات سے مزین کرکے جس طرح پیش کیا ہے یہ انہی کے قلم کا خاصا ہے، بلکہ ایک محتاط اندازے کے مطابق مرثیہ نگاری کی دنیا میں وہ اکلوتے اس جزو بدن کا لفظی نقشہ کھینچنے والے شاعر ہیں۔ علم دارِکربلا حضرت عباس کی ذات اقدس پر مرثیہ قلم بند کرتے ہوئے ان کا سراپا بیان کرتے ہیں اور ان کے 'صاعدین' کو موضوعِ سخن بناتے ہوئے تحریر کرتے ہیں:

؎خوبی میں زمانے سے نرالے ہیں یہ صاعد

سانچے میں فقط نور کے ڈھالے ہیں یہ صاعد

پارے ہیں پر و تیغ سنبھالے ہیں یہ صاعد

ہاں کفر کا در توڑنے والے ہیں یہ صاعد

پہنچے کو کوئی حور کا پہنچا نہیں پہنچا

اس حسن کو حسنِ یدِبیضا نہیں پہنچا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ڈاکٹرعلامہ ضمیر اختر نقوی اپنی کتاب ''میر انیس کی شاعری میں رنگوں کا استعمال'' میں بیان کرتے ہیں کہ قرآن میں سورۂ یوسف کی آیت نمبر ۸۴میں ارشاد باری تعالی ہے کہ یعقوبؑ نے کہا،''ہائے میرا یوسف! اور غم و اندوہ کی وجہ سے یعقوب کی دونوں آنکھیں سفید ہوگئیں۔۔۔یعقوب تو غصے کو ضبط کرنے والوں میں سے تھے۔''

یعنی یہاں قرآن مجید نے حضرت یعقوبؑ کی آنکھوں کی سفیدی کا تذکرہ غم و اندوہ اور حزن کے معنی میں کیا ہے۔ آنکھ سفید اور درمیان کا ڈیلا سیاہ، جب کہ پرانے زمانوں میں ایام محرم کے آغاز سے قبل امام بارگاہوں کو سفید رنگ کیا جاتا تھا۔ مکمل سفید امام بارگاہ میں عزادار سیاہ کپڑوں میں ملبوس ہوکر امام بارگاہ تشریف لاتے تھے۔ میر انیس ؔنے شہر کے امام باڑوں کی سفیدی اور عزاداروں کے سیاہ رنگ ملبوس کو آنکھ کی سفیدی و سیاہی سے تشبیہ دیتے ہوئے کمال کا بند تحریر کیا ہے:

؎ہے شہر مثلِ نورسحر سر بہ سر سفید

بام و ستون و خانۂ دیوار و در سفید

جیسے بیاضِ چشم اِدھر اور اُدھر سفید

مردم سیاہ پوش ہیں سب اور گھر سفید

روشن ہو کیوں نہ تعزیہ خانہ حسینؓ کا

سب نور ہے یہ سیدہؓ کے نورِعین کا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سراپانگاری مرثیے کا اہم حصہ شمار کی جاتی ہے۔ یہ وہ حصہ ہے جہاںقاری کی محویت مرثیے میں بڑھ جاتی ہے اور اور مرثیے کے مرکزی کردار کی بذریعہ الفاظ شخصی تصویرکشی یہ فیصلہ کرتی ہے کہ مرثٓیے کو مزید پڑھا جائے یا نہیں؟ مرثیے کے اس اہم حصے پر بھی میرانیس ؔقادروقابض نظر آتے ہیں۔ میر ؔصاحب شخصیت نگاری میں بھی ایسے نازک معاملات تلاش کرتے ہیں جن کی طرف معمولاً بھی نظر نہیں پہنچ سکتی۔ پھر ان کو اس طرح بیان کرتے ہیں کہ ان کا کلام بالکل متقضائے فطرت معلوم ہوتا ہے۔ کسی کُہنہ سال شجاع کو دیکھ کر وہ کیفیت پیدا نہیں ہوسکتی جو میرؔصاحب کے درج ذیل بند کو پڑھنے سے ہوتی ہے جس مین وہ امام عالی مقام کے بڑھاپے کو بارے بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

؎ابرو جھکے جو پڑتے تھے آنکھوں پہ بار بار

رومال باندھ کر انہیں باندھا تھا استوار

آنکھوں سے شیرِنر کی جلالت تھی آشکار

گو بار تھی غلاف میں حیدرؓ کی ذوالفقار

جلدی چلے جو چند قدم جھوم جھوم کے

رعشہ وداع ہوگیا ہاتھوں کو چوم کے

تصویرکشی کا کمال یہ ہے کہ نقشہ اصل کے مطابق ہو، لیکن میر صاحب کی کھنچی ہوئی تصویر اصل سے بہتر ہوجاتی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ڈاکٹر احراز نقوی اپنی کتاب''انیس ایک مطالعہ'' میں تحریر شدہ اپنے مضمون بعنوان ''مراثی انیس میں تہذیبی عناصر'' میں لکھتے ہیں،''امام عالی مقام کے فرزند علی اکبر میدان جنگ میں لشکراعداء پر یلغار کرتے ہیں، لاشوں کے پشتے کے پشتے لگا دیتے ہیں۔ امام حسین یہ منظر بہت دور سے دیکھتے ہیں اور اپنے دلبند کی بسالت کی داد دیتے ہیں:

شبیر نے جو دور سے دیکھا یہ ماجرا

دو چار گام بڑھ کے یہ بیٹے کو دی صدا

اے مرحبا رسولؒؐ کے ہم شکل مرحبا

سیراب سلسبیل سے تم کوکرے خدا

کیوں کر نہ صبر و شکر میں ایسا کمال ہو

کیوں کر نہ ہو کہ ساقی کوثر کے لال ہو

اب بھلا لکھنوی تہذیب اس بات کی اجازت کہاں دیتی ہے کہ کوئی کسی کی تحسین کرے اور وہ فوراً جھک کر آداب نہ بجا لائے۔ اگرچہ علی اکبر نرغۂ اعداء میں ہیں اور اس موقع پر مرثیے کا قاری بھی خواہ ایک ضابطہ معقولیت کا متقاضی ہے، مگر انیس اس کی پرواہ نہیں کرتے اور اپنے قلم کا کمال دکھاتے ہوئے تہذیبی مظاہرے کی خاطر حضرت علی اکبر کو اس یلغار سے نکلواتے ہیں اور وہ گھوڑے کی شست بھر کے میدان جنگ سے باہر آکر خالص لکھنوی انداز سے امام حسین کو تسلیمات و کورنش ادا کرتے ہیں اور اس فریضے سے فارغ ہوکر دوبارہ جنگ و جدل میں مصروف ہوجاتے ہیں۔

؎تسلیم کرکے شاہ کو بصد عجز و انکسار

مثلِ اسد شکار پہ آیا وہ شہ سوار

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کتاب ''ہر صدی کا شاعراعظم، میرانیس'' میں علامہ ضمیراخترنقوی لکھتے ہیں کہ ''مرثیے کے بڑے تنقید نگاروں نے لکھا ہے مرثیے میں جہاں میدان جنگ کے ماحول کا ذکر ہو وہاں حرب و ضرب کے بیان کے علاوہ کوئی اور بات بالعموم اور غزل بالخصوص نہیں ہو سکتی، مگر انیسؔ کا کمال یہ ہے کہ وہ میداں جنگ میں بھی غزل کہتے ہیں۔ امام عالی مقام کے منجھلے فرزند شہزادہ علی اکبر کی جنگ کا حال بیان کرتے ہوئے لکھتے ہین کہ رجزخوانی کے بعد شہزادے کی تلوار میان سے نکلی، اب خاکہ مرثیے کا ہے مگر انیس کی رنگیں بیانی دیکھیے:

؎کاٹھی سے اس طرح ہوئی وہ شعلہ خو جدا

جیسے کنار شوق سے ہو خوبرو جدا

مہتاب سے شعاع ہو تو ہو گل سے بو جدا

سینے سے دم جدا رگ جاں سے لہو جدا

گرجا جو رعد ابر سے بجلی نکل پڑی

محمل میں دم جو گھٹ گیا لیلٰی نکل پڑی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سید وصی رضا اپنے تحریر کردہ مضمون ''کلام انیس کے محاسن'' میں لکھتے ہیں،''میرانیس ؔکا ایک بیت ہے جس میں وہ اس وقت کی منظرکشی کرتے ہیں جس وقت امام عالی مقام میدان کربلا میں اپنے چھے ماہ کے معصوم بیٹے کو ہاتھوں پر بلند کرتے ہوئے فوج اشقیاء سے پانی طلب کرتے ہیں اور فوج اشقیاء کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

؎ یہ چھوٹا سا سید بھی ہے مہمان تمہارا

کیا تم کو ملے گا جو اسے پیاس نے مارا؟

اب زرا ان دو مصرعوں میں میرؔ صاحب کے کلام کی بلاغت کے کمالات دیکھیے۔ لشکرِاعداء میں عربی مسلمانوں کے علاوہ، شامی، رومی سپاہی، بھی شامل تھے۔ امام عالی مقام نے ان میں سے ہر ایک کے جذبات کو مدنظر رکھ کے درخواست کی، پہلے حضرت علی اصغر کی شیرخوارگی کی طرف اشارہ کیا، یعنی ''چھوٹا سا'' کہا، یہ خطاب تمام لشکر سے تھا جس میں ایک معصوم کو محروم آب رکھنے پر احساس شرمندگی دلوایا گیا۔ پھر اس کے بعد اس بچے کے ''سید'' یعنی آلِ رسول ہونے کا ذکر کیا، اور کلمہ گو مسلمانوں کو 'آل' کی نسبت یاد دلائی گئی۔ اس لفظ میں حضرت کا تخاطب اہل اسلام سے تھا خواہ وہ عربی ہو یا عجمی۔ اس کے بعد اس معصوم کا ''مہمان ہونا'' یاد دلوایا، یعنی اہل عرب تو مہمان نوازی میں مشہور زمانہ ہیں پھر تم لوگ کیسے عرب ہو جو بے زبان مہمان کو پیاسا رکھتے ہو؟، یہاں حضرت کا مخاطب صرف اہل عرب تھے، علمَ النفسیات کا معجزہ دیکھیے کہ جذبہ رحم کو ابھارنے کے لیے یہ نہیں فرمایا کہ کیا فائدہ اگر تم لوگوں نے اس معصوم کو مار ڈالا بلکہ فرماتے ہیں ''پیاس نے مارا۔''

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شمس الادباء محمد باقر شمس لکھنوی اپنی کتاب ''تاریخ لکھنؤ ''میں میرانیس کی شاعرانہ انفرادیت کو موضوع سخن بناتے ہوئے رقم طراز ہیں،''میرانیسؔ کے سلام کا ایک شعر ہے:

؎ قلم بھی رہ گیا ہر بار نقطہ دے کے ناخن پر

نہ سوجھی جب کوئی تشبیہہ روئے شہ کے خالوں کی

آج فاؤنٹین پین اور بال پوائینٹ کے زمانے میں قلم کے ہر بار ناخن پر نقطہ دے کر رہ جانے کے عمل کی خوب صورتی اور حسن کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ اب سے چند عشرے قبل کلک کے قلم بنانا، اس پر قط رکھنا اور شگاف دینا ایک فن تھا۔

لکھتے وقت کچھ سوچنے کی صورت میں قط پر روشنائی خشک ہوجاتی تھی، اس لیے روشنائی کو رواں رکھنے کے لیے قلم کو ناخن پر رکھ کر ہلکا سا دباؤ دیتے تھے جس سے ناخن پر سیاہ نقطہ بن جاتا تھا۔ یعنی شاعر قلم کو ناخن پر دبا کر لکھنے کے لیے روشنائی کو رواں کرتا ہے لیکن پھر طبیعت آمدہ خیال و تشبیہہ سے مطمئین نہیں ہوتی اور نئی تشبیہ کی فکر میں قلم پھر خشک ہوجاتا ہے۔ مذکورہ شعر میں سیاہی کے نقطے اور خال کے سیاہ نقطے میں تشبیہاتی مماثلت کو اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ تھا میر صاحب کی ندرت فکر، مضمون بندی کی جدت کا کمال!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عصمت چغتائی اپنے ناول ''ایک قطرہ خون'' کے صفحہ نمبر 225 پر بروز عاشور حضرت امام حسینؓ کے تیرہ سالہ بھتیجے حضرت قاسم کا سراپا بیان کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ '' دبلے اور پتلے جسم پر زرہ بکتر عجیب بے تکی سی لگ رہی تھی۔'' مگر میر انیس اپنے تہذیبی آداب اور حفظ مراتب کے پیش نظر ایسے الفاظ استعمال نہیں کرتے تھے۔ میر صاحب نے حضرت قاسم کے مرثیے لکھتے ہوئے ان کے سراپا کی لفظی تصویریوں کھینچی ہے:

؎اے خوشا حُسنِ رخِ یوسفِؑ کنعانِ حسنؓ

راحتِ روحِ حسینؓ ابن علیؓ، جانِ حسنؓ

جسم میں زورِعلیؓ، طبع میں احسانِ حسنؓ

ہمہ تن خلقُ حسنؓ، حُسنِ حسنؓ، شانِ حسنؓ

تن پہ کرتی تھی نزاکت سے گرانی زرہ

کیا بھلی لگتی تھی بچپن میں سہانی زرہ

دیکیھے کہ میرانیس نے کس کمال سے ''بے تکی'' کو بھلی میں بدل دیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سید مظفر برنی اپنے مضمون ''میرانیس کی نفسیاتی غلطیاں'' میں تحریر کرتے ہیں،''میرانیس کی مرثیہ نگاری پر ناقدین کے اعتراضات میں سب سے نمایاں اعتراض یہ پیش کیا جاتا ہے کہ کرب و بلا سے ریگزار میں ایک ایسی خوب صورت صبح کا منظر پیش کیا جاتا ہے کہ جس کے روبرو'صبحِ بنارس' بھی شرما جائے۔ اس اعتراض کے بہت سے شاعرانہ مدلل جوابات سے ہٹ کر نفسیاتی نقطۂ نظر سے ایک جواب بقول شعر یہ بھی پیش کیا جا سکتا ہے کہ:

؎جیسا دل ہو ویسا منظر ہوتا ہے

موسم تو انسان کے اندر ہوتا ہے

یعنی اگر دل خوش ہو تو کسی منظر کی دل کشی میں اور زیادہ اضافہ ہوجاتا ہے اور اگر دل رنجیدہ ہوتو منظر خواہ کتنا ہی حسین کیوں نہ ہو دردوالم سے لبریز اور اداسی بھرا ہو گا۔ میرؔ صاحب نے اپنے مرثیوں میں وقت کی تصویرکشی کرتے ہوئے انسانی نفسیات کی اس باریکی کو بھی ملحوظ ِ خاطر رکھا ہے۔ اس لیے جب وہ لکھتے ہیںکہ صبح کے وقت:

؎تھا چرخ اخضری پہ یہ رنگ آفتاب کا

کھلتا ہے جیسے پھول چمن میں گلاب کا

تو اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ ان لوگوں کی صبح ہے جن کے لیے ، ''گزری شبِ فراق دن آیا وصال کا' اور جنہوں نے 'راتیں تڑپ کے کاٹی ہیں اس دن کے واسطے' اور یہ وہ صبح ہے کہ خود امام عالی مقامؓؓ کی حالت یہ ہے کہ 'چہرہ خوشی ہے سرخ ہے زہراؓؓ کے لال کا'' اور انصار حسینی کا یہ عالم ہے کہ 'لب پہ ہنسی،گلوں سے زیادہ شگفتہ رُو'' اب ذرا میرصاحب کی بیان کردہ صبحِ کربلا کو ان مذکورہ بالا نکات کے پس منظر میں دیکھیے تو آپ بھی میرانیس کے کمالِ فکروفن کی داد دیے بنا نہیں رہ پائیں گے۔
Load Next Story