’’را‘‘عالمی دہشت گرد بن گئی

پاکستان سے لے کر امریکا تک کئی شہری بھارتی خفیہ ایجنسی کی غنڈہ گردی کا نشانہ بن چکے

فوٹو : فائل

حالیہ 22 نومبر کو برطانوی اخبار، فنانشل ٹائمز نے انکشاف کیا کہ بھارت کی خفیہ ایجنسی، را (Research and Analysis Wing) کے ایجنٹ امریکا میں مقیم ایک سکھ رہنما، گرپتونت سنگھ پنوں کو قتل کرنا چاہتے تھے۔انھوں نے وہاں کرائے کے قاتلوں کی خدمات حاصل کر لی تھیں۔

تاہم امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کو اس منصوبے کی خبر ہو گئی۔ چناں چہ انھوں نے سرزمین ِامریکا پر را کے ایجنٹوں کا آپریشن ناکام بنا دیا اور وہ ایک امریکی شہری کو قتل نہیں کر سکے۔برطانوی اخبار نے مزید انکشاف کیا کہ امریکا کے صدر یا وزیرخارجہ نے یہ معاملہ بھارتی وزیراعظم ، نریندر مودی کے سامنے اٹھایا اور انھیں متنبہ کیا کہ را امریکا میں امریکی شہریوں کو قتل کرنے سے باز رہے ورنہ سنگین نتائج مرتب ہوں گے۔اب را کے ایک ایجنٹ پر نہ صرف امریکا میں مقدمہ چل رہا ہے بلکہ بھارتی خفیہ ایجنسی پہلی بار وہاں اپنی سرگرمیاں بھی ختم کر چکی۔

واضح رہے، پچھلے ایک سال میں برطانیہ، کینیڈا اور آسٹریلیا میں یہ شواہد سامنے آ چکے کہ ان ممالک میں بھارتی خفیہ ایجنسی کے ایجنٹ بھارت مخالف شخصیات کو نشانہ بنا رہے ہیں۔اب دنیا کی اکلوتی سپرپاور، امریکا بھی اس بڑھتی فہرست میں شامل ہو چکی۔سردار ہریندر سنگھ امریکا میں ایک ادارے، سکھ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے سینئر محقق ہیں۔یہ ادارہ سکھ مت اور سکھوں کے حقوق کی ترویج کرتا ہے۔ وہ کہتے ہیں:

''را نے پچھلے کئی سال سے جنوبی ایشیا میں دہشت گردی کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ یہ بھارتی تنظیم خصوصاً پاکستان ، بنگلہ دیش اور سری لنکا میں سرگرم عمل ہے۔ان ممالک کے جرائم پیشہ گروہوں اور ملک دشمن تنظیموں کی مدد سے را کے ایجنٹ ان افراد کو قتل کرتے ہیں جو بھارت کے خلاف ہوں۔ مگر اب مغربی جمہوری ممالک بھی را کی دہشت گردی کا مزہ چکھ رہے ہیں۔ مودی حکومت کو لیکن یہ اندازہ نہیں تھا کہ یہ ترقی یافتہ مغربی جمہوری ملک اپنی سرزمین پر غیرملکی خفیہ ایجنسیوں کے ہاتھوں اپنے شہریوں کے قتل کو بہت سنجیدگی سے لیتے اور بُرا مناتے ہیں۔''

گرپتونت سنگھ پنوں امریکا میں سرگرم ایک سکھ تنظیم، سکھز فار جسٹس ( Sikhs for Justice)کے ترجمان اور قانونی مشیر ہیں۔ یہ تنظیم بھارتی پنجاب کے ان اضلاع میں آزاد سکھ ریاست، خالصتان قائم کرنا چاہتی ہے جہاں سکھوں کی اکثریت ہے۔ مگر بھارتی حکمران طبقہ اس مانگ کے سخت خلاف ہے۔ جبکہ انتہا پسند ہونے کے ناتے مودی حکومت نے تو دنیا بھر میں خالصتانی لیڈروں کے قتل عام کا خوفناک اور بھیانک منصوبہ شروع کر دیا۔

مودی حکومت کی ایما پر پچھلے ڈیرھ سال سے را کے ایجنٹوں نے پاکستان میں بھی ان مجاہدین کو شہید کرنے کی مہم شروع کر رکھی ہے جو مقبوضہ کشمیر میں سرگرم جہادی تنظیموں سے تعلق رکھتے ہیں۔پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں کی رپورٹوں کے مطابق پچھلے بیس ماہ میں را کے ایجنٹ کم از کم ''19 بھارت مخالف شخصیات''کو نشانہ بنا چکے۔مقتولین میں تیرہ پاکستانی اور چھ سکھ لیڈر شامل ہیں۔

کئی پاکستانی سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں را کی سرگرمیوں کا کوئی ٹھوس ثبوت موجود نہیں ، یہ محض ایک پردہ ہے جو پاکستانی حکومت اپنی ناکامیاں اور کوتاہیاں چھپانے کے لیے ڈال دیتی ہے۔ لیکن اب امریکا،برطانیہ ، کینیڈا...تین نمایاں ترین مغربی ممالک کی حکومتیں خود کہہ رہی ہیں کہ ان کی سرزمین پربھارتی خفیہ ایجنسی شہریوں کو قتل کرنے میں ملوث ہے۔اس حقیقت نے بھارتی حکمران طبقے کو دنیا بھر میں ننگا کر دیا۔

دور جدید میں پہلے پہل برطانیہ کی سیکرٹ ایجنسی، ایم16 نے اپنے حکمران طبقے کے مفادات اورناجائز خواہشات پوری کرنے کی خاطر بیرون ممالک لوگوں کو قتل کرنا شروع کیا۔اس کے بعد امریکاکی خفیہ ایجنسی، سی آئی اے خصوصاً ترقی پذیر ملکوں میں حکومتیں گرانے اور بنانے میں ملوث رہی۔ مثلاً اس نے 1949ء میں شام میں جرنیلوں کو ساتھ ملایا اور اسلام پسند اور عوام میں مقبول رہنما، صدر شکری القواتلی کی حکومت کا خاتمہ کر دیا۔اسی طرح کہا جاتا ہے کہ پہلے پاکستانی وزیراعظم ، لیاقت علی خان کی شہادت میں بھی سی آئی اے اور برطانیہ کی خفیہ ایجنسی، ایم 16 نے اہم کردار ادا کیا کیونکہ وہ امریکی و برطانوی مفادات پورے کرنے کے لیے تیار نہ تھے۔

ان دونوں مغربی ممالک کے بعد روس اور اسرائیل کی خفیہ ایجنسیاں بھی بیرون ممالک اپنے حکمرانوں کے مفادات کی تکمیل کرنے لگیں ۔اب اس فہرست میں ایک اور ملک، بھارت کا اضافہ ہو چکا۔یہ سبھی ممالک بے پناہ دولت رکھتے ہیں۔ اسی امارت نے انھیں اس قابل بنا دیا کہ وہ اپنی خفیہ ایجنسیوں کو بھاری رقومات ادا کریں تاکہ ان کے ایجنٹ بیرون ممالک اپنی مذموم و ناجائز سرگرمیاں انجام دے سکیں۔

درج بالا پانچوں ممالک کی بیرون ممالک بیشتر خفیہ سرگرمیاں اصل میں شیطانی ہیں۔ مثلاً امریکا اور برطانیہ اپنے خفیہ ایجنٹوں کے ذریعے مغربی استعمار کی دشمن شخصیات کو قتل کراتے یا ان کی حکومتوں کا تختہ الٹاتے ہیں۔ترقی پذیر ملکوں میں آمروں کو حکمرانی دیتے ہیں تاکہ وہ ان کی ہاں میں ہاں ملاتے رہیں۔سویت یونین کی خفیہ ایجنسیاں اپنے مخالفین کو قتل کرنے اور کمیونزم پھیلانے میں سرگرم رہیں۔


اسرائیل اور بھارت کی خفیہ ایجنسیوں کا خاص نشانہ مسلمان ہیں۔ اسرائیلی خفیہ ایجنسیاں فلسطینی مجاہدین کو ٹارگٹ کرتی ہیں۔بھارتی خفیہ ایجنسیاں کشمیر مجاہدین، پاکستانیوں اور خالصتانی سکھ لیڈروں کے خلاف سرگرم عمل ہیں۔ یہ ایجنسیاں سوشل میڈیا میں بھی بہت متحرک ہیں۔ان ایجنسیوں کے ایجنٹوں نے سیکڑوں ویب سائٹس کھول رکھی ہیں جس سے پاکستان اور اسلام کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈا کیا جاتا اور فیک نیوز پھیلائی جاتی ہیں۔ مدعا پاکستان کو معاشی ، سیاسی اور معاشرتی طور پہ نقصان پہنچانا ہے۔

بدقسمتی سے ان ممالک کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کو پاکستان میں لالچی کرپٹ افراد، ملک دشمن تنظیمیں اورجرائم پیشہ گروہ مل جاتے ہیں۔ ان چاروں کا اکٹھ پھر اپنے مخالفین کی ٹارگٹ کلنگ کرتا ہے۔اکثر یہ خبر آتی ہے کہ فلاں عالم ، دینی رہنما، سیاست داں، صحافی یا کاروباری کو نامعلوم افراد نے قتل کر دیا۔ اکثر اوقات یہ نامعلوم لوگ بیرون ممالک کی انٹیلی جنس ایجنسیوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ مارے گئے فرد کی سیاسی ، معاشی یا نظریاتی حیثیت اس امر کو آشکارا کرتی ہے کہ اسے کس ملک کی خفیہ ایجنسی نے نشانہ بنایا۔

پاکستان کی سالمیت کو نقصان پہنچانے کے لیے بھارتی انٹیلی جنس ایجنسیاں خاص طور پہ کسی بھی حد تک جا سکتی ہیں۔ مثال کے طور پہ کرپشن ، غیردستاویزی معیشت اور کالے دھن نے پاکستان کو معاشی طور پہ بہت کمزور کر دیا ہے۔ نگران حکومت اب ان منفی عوامل کے خلاف سرگرم ہے۔ لیکن پاکستان میں را کے ایجنٹوں کی بھرپور کوشش ہو گی کہ قانون و انصاف کا بول بالا کرنے والی پاکستانی حکومت کی مہم ناکام ہو جائے۔اس طرح پاکستان ترقی یافتہ اور خوشحال مملکت میں نہیں ڈھل سکے گا۔

ایک خطرناک امر یہ ہے کہ را نے پاکستان دشمن تنظیموں کے ساتھ گہرا تعلق قائم کر لیا ہے۔ را کے ایجنٹ ان تنظیموں کو رقم ، اسلحہ اور جنگی تربیت فراہم کرتے ہیں۔ بھارتی خفیہ ایجنسیوں کی مدد کے سہارے ہی پاکستان دشمن تنظیمیں اس قابل ہوتی ہیں کہ خیبر پختون خواہ اور بلوچستان میں شہریوں اور سیکورٹی فورسز کو نشانہ بنائیں ، نیز سول وعسکری تنصیبات پہ حملے کریں اور مساجد و عوامی مقامات میں بم دہماکے کر کے معصوم انسانوں کو شہید کر سکیں۔ ان کی انتہا پسندانہ مذہبی سوچ سے فائدہ اٹھا کر پاکستان دشمن ممالک کی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے بڑی ہوشیاری سے انھیں اپنا آلہ کار بنا لیا ہے۔

یہ سچائی ریکارڈ پر ہے کہ برطانیہ کی خفیہ ایجنسیوں نے انیسویں صدی میں ایسے مراکز کھول رکھے تھے جہاں برطانوی ایجنٹوں کو اسلامی تاریخ و نظریات سے آگاہ کیا جاتا تھا۔ مقصد یہ تھا کہ یہ ایجنٹ دینی رہنما کے بھیس میں عالم اسلام میں گھومیں پھریں اور اپنے متنازع مذہبی نظریات کی ترویج کر کے اسلامی ممالک میں فرقہ ورانہ اختلافات ابھار دیں۔ اب انگریزوں کی اس روش پہ اسرائیل و بھارت کی خیفہ ایجنسیاں بھی عالم اسلام میں عمل پیرا ہیں۔ایجنسیوں کے ایجنٹ مسلمانوں کے مابین زیادہ سے زیادہ مذہبی و سیاسی اختلاف پیدا کرتے ہیں تاکہ ان میں اتحاد ویک جہتی جنم نہ لے۔ یہ خصوصیات کسی بھی قوم کو دنیاوی عروج بخش سکتی ہیں۔

پاکستان کے اینٹلی جنس ادارے را ، موساد اور دیگر دشمن خفیہ ایجنسیوں کے مذموم منصوبے ناکام بنانے کی خاطر متحرک ہیں۔ اداروں کے دلیر ارکان جان پہ کھیل کر پاکستانی قوم اور سول وعسکری تنصیبات کی حفاظت کرتے ہیں۔ ضروری یہ ہے کہ پاکستانی اینٹلی جنس اداروں کے مابین جامع و مربوط نیٹ ورک بنایا جائے تاکہ وہ زیادہ موثر انداز میں دشمن خفیہ ایجنسیوں کی چالوں، سازشوں اور حیلوں کا مقابلہ کر سکیں۔ ہر پاکستانی کا بھی فرض ہے کہ وہ قومی اینٹلی جنس اداروں کی ہر ممکن مدد کرے تاکہ پاکستان کو دشمنوں سے پاک کیا جا سکے۔اس طرح وطن عزیز امن وشانتی کا گہوارہ بن کر معاشی و سیاسی لحاظ سے مستحکم ومضبوط ہو سکے گا۔

ماضی میں اعلی اخلاقی و اسلامی اقدار مثلاً سادگی، قناعت، ہمدردی، بھائی چارہ، صبر وبرداشت کا پاکستان میں دور دورہ تھا۔ بیشتر پاکستانی مادہ پرستی کی لعنت میں گرفتار نہیں ہوئے تھے۔ پھر کوٹھی، کار، بنگلہ پانے کی تمنا میں جائز وناجائز کا فرق مٹنے لگا۔ پیسے کا حصول مطمع نظر بن گیا۔ اس تبدیلی سے پاکستان دشمن ایجنسیوں کو فائدہ پہنچا کیونکہ اب اپنے شیطانی منصوبے انجام دینے کے لیے پاکستانیوں میں سے لالچی وہوس ناک افراد ملنے لگے۔ یوں انھیں اپنے عزائم پورے کرنے کا موقع ملا۔ اس لیے اشد ضروری ہے کہ پاکستان میں اخلاقیات کو فروغ دیا جائے اور بھولی اخلاقی و اسلامی تعلیمات خصوصاً نئی نسل کو پڑھائی جائیں۔

نوجوان مستقبل ِپاکستان کے معمار ہیں۔ اگر وہ اہل، دیانت دار، محنتی ، ذہین اور قابل ہوں گے تو ہمارے وطن کاآنے والا کل بھی روشن ہو گا۔ وطن عزیز مشکلات و مسائل میں مبتلا ہے مگر امید کا دامن بھی ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:

اتنے مایوس تو حالات نہیں

لوگ کس واسطے گھبرائے ہیں
Load Next Story