نوک جھوک
’نوک جھوک‘ کے دو حصّے ہیں۔ پہلے میں کچھ مضامین اور مکالمے ہیں
امریکا کی ریاستِ ورجینیا میں حلقۂ ارباب ذوق کی محافل باقاعدگی سے ہر ماہ کی پہلی اتوار کو جمتی ہیں۔ اس بار (اکتوبر ۲۰۲۳) موضوع تھا 'طنز و مزاح'، خادم سے بھی کہا گیا کہ غزل سرا ہو، البتہ ان کے میزبان شاہ عباس صاحب نے مجھے کچھ وقت نہیں دیا اور محفل سے ہفتہ بھر پہلے حکم صادر کردیا کہ مزاح پر کوئی دس سے پندرہ ا منٹ کا مضمون پڑھ دوں۔
اس کے بعد انہوں نے مجھے اشتہاری بھی کر دیا۔ اب تو مجبوری آن پڑی، ادھراُدھر دیکھا تو مجھے اپنی کتابوں میں شان الحق حقّی صاحب کی کتاب 'نوک جھوک' مل گئی۔ یہ میں نے پڑھی نہیں تھی کچھ ورق گردانی کی تو لگا کام بن سکتا ہے۔ اب میں نے اس کے کئی مضامین پڑھ ڈالے۔ میں کوئی تنقیدنگار نہیں ہوں، اور حقّی صاحب جیسے اردو کے شاہین کے مقابلے میں کنجشکِ فرومایا ہوں، اس لیے کہوں گا کہ میرے لکھے کو بہت زیادہ اہمیت نہ دیجیے گا اور کوتاہیوں اور ناانصافیوں پر میری مغفرت کی دعا کیجیے گا۔
کتاب 'نوک جھوک' کے شروع میں ڈاکٹر وزیرآغا صاحب اپنے مضمون 'شان الحق حقّی بحیثیت مزاح نگار،' میں لکھتے ہیں، 'انّیسویں صدی کے ربع آخر میں اودھ پنچ نے جس اکھڑپن، ابتذال، لطیفہ گوئی اور طنزواستہزا کو رواج دیا تھا، بیسویں صدی کی بدلتی ہوئی صورتِ حال میں اس کی کوئی گنجائش زیادہ نہیں تھی۔ لہٰذا مزاح، طنز، تحریف اور رمز یعنی آئرنی کے بہت اچھے نمونے سامنے آئے۔
رشید احمد صدیقی، فرحت اللہ بیگ، فلک پیما، کنھیّا لال کپور، پطرس بخاری، امتیاز علی تاج اور بعض دیگر نثرنگاروں کے ہاں ایسی ظرافت پروان چڑھی ہے جسے مہذب اور متوازن، سلجھی ہوئی اور پر لطف کہنا چاہیے۔ شان الحق حقّی کا سلسلہ ظرافت اسی سے جڑا ہوا نظر آتا ہے۔ بالخصوص فرحت اللہ بیگ، امتیاز علی تاج اور پطرس بخاری کے مضامین نیز اردو انشائیوں میں ابھرنے والی اُس ظرافت سے وہ منسلک نظر آتے ہیں جس میں خوش مزاجی، خندہ پیشانی، شگفتگی اور پُرلطف چبھن کو فروغ ملا ہے۔ بیسویں صدی کے آخری ایام کی اردو نثر میں جس وضع کے پھکّڑپن اور لطیفہ بازی کو فروغ ملا ہے، شان الحق حقّی کے مضامین میں اس کا شائبہ تک موجود نہیں۔'
یہ ڈاکٹر صاحب کے مضمون سے اقتباس تھا۔
'نوک جھوک' کے دو حصّے ہیں۔ پہلے میں کچھ مضامین اور مکالمے ہیں، لیکن دوسرے میں تو سارے مکالمے ہی ہیں اور تقریباً سب ہی دو آدمیوں کے درمیان۔ حقّی صاحب اپنے 'عرضِ مصنف' میں بتاتے ہیں کہ الف اور بے کی نوک جھوک کا سلسلہ لاس انجلس کے اخبار 'پاکستان لنک' میں چلا تھا۔ اور کچھ 'اخبارِ جہاں' کراچی میں بھی چھپے تھے۔ حقّی صاحب کا مشہور ڈراما 'مرزا غالب لندن میں' پہلے حصّے میں ہے لیکن میں اس پر کچھ نہیں لکھوں گا کیوںکہ وہ الگ توجّہ چاہتا ہے۔
مزاح نگاروں کا دوردورہ ہر زمانے میں ہی رہا ہے۔ میں کسی کا مرتبہ متعین کرنے کی حیثیت نہیں رکھتا۔ اس کتاب 'نوک جھوک' کی ورق گردانی کرنے پر ایک خیال انورمقصود کا ضرور آتا ہے، خاص کر ان کے پروگرام 'لوز ٹاک' کا۔ البتہ لوز ٹاک میں صرف حالاتِ حاضرہ پر ہی مکالمہ لکھا جاتا رہا ہے، اس طرح وہ حالیہ ہے اور اس کے لمبے مستقبل کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے۔ نوک جھوک میں ادبی، لسانی، فلسفیانہ، نفسیاتی اور تاریخی مضامین کو زیرِبحث لایا گیا ہے۔ حتیٰ کہ ایسے مضامین بھی جن پر پاکستانی مسلمان ذرا جذباتی ہوجاتے ہیں، زیر غور آئے ہیں، جیسا کہ مکالمہ 'لطائف المومنین' ایک بات جو اس کتاب کا قاری خاص محسوس کرتا ہے وہ اس میں اردو کا اعلیٰ معیار ہے۔
ہم عام زندگی میں جب ایک دوسرے سے ہم کلام ہوتے ہیں، بلکہ کہیں کہ جب ہم اپنے سے مخاطب شخص کو سن رہے ہوتے ہیں تو عام طور پر ہم اپنے دماغ میں، اور یہ بہت عام بات ہے، ایک قاطع بیان تیار کر رہے ہوتے ہیں۔ اس کی بہت سی وجوہات ہوسکتی ہیں تناظر، تجربہ، ہٹ دھرمی، ضد، تعصب، علم اور کم علمی وغیرہ وغیرہ۔ اور بہت بار ہم بھی وہی بات کہہ رہے ہوتے ہیں جو ہمارا مخاطب کہہ رہا ہوتا ہے لیکن نہ وہ سمجھ رہا ہوتا ہے نہ ہم۔ اور بات الجھتی جاتی ہے۔ اس کتاب میں بھی مکالموں میں ایک کے بیان پر دوسرے کا قاطع بیان۔ جو اکثر 'نہیں' سے شروع ہوتا ہے۔
یہاں میں نوک جھوک کے مکالمے 'کڑوا بادام' سے ایک اقتباس پیش کرتا ہوں:
(کڑوا بادام میں ہم جنس پرستوں کے سلسلے میں بات ہو رہی ہے)
ب: سیدھے ہاتھ والے اکثر کھبّے بچّوں کو اپنے ڈھب پر لانے کی کوشش کرتے ہیں۔ سنا ہے ایسے بچّوں میں لکنت پیدا ہوجاتی ہے، ہکلانے لگتے ہیں۔ اگر ہم جنس پرستوں کو روکا گیا تو ہو سکتا ہے ان میں بھی کوئی اور علّت یا لٹک پیدا ہوجائے، سپونرازم وغیرہ۔
الف: یہ اسپونر کون صاحب تھے؟
ب: ان کے نام میں الف نہیں ہے۔ پہلے ہم لوگ سکونِ اوّل پہ قادر نہ تھے۔ اب انگریزی کے اثر سے عاداتِ لسانی میں ایک نیا اضافہ ہوا ہے۔
الف: نہیں - سنسکرت میں پہلے سے سکونِ اوّل موجود تھا۔
اس آخری سطر میں الف نے جملہ اپنی علمیت کی وجہ سے 'نہیں' سے شروع کیا ہے۔
(اسپونرازم کو اردو میں لغزشِ زبان کہتے ہیں، جیسے کانپیں ٹانگ رہی ہیں۔ ویسے ہمارے ہاں کم پڑھے لکھے لوگوں سے اکثر سگنل کو سنگل سنا ہے، لیکن یہ لوگ عادتاً اور مستقل کہتے ہیں اس لیے اسے لغزشِ زبان نہیں کہیں گے)
حقّی صاحب اردو صرف و نحو میں اتنے رہتے تھے کہ اپنے مکالموں میں بھی وہ انہیں لے آتے تھے۔ یہاں دیکھیں کہ مکالمے 'تلخ کلامی' میں، جو ایک میاں بیوی کے درمیان ہو رہی ہے وہ کیا لکھتے ہیں۔
میاں: ابھی تم نے فارسی کا مصرع نہیں پڑھا؟
بیوی: اردو سمجھ کے نہیں پڑھا۔ تم اپنی زبان کو ہیٹا سمجھتے ہو۔ اُس کی ہتَک کرتے ہو۔
میاں: اصل لفظ ہتک ہے، ت سکون کے ساتھ۔
بیوی: ہم ت زبر ہی سے بولیں گے۔ پلک اور لپک کے وزن پر۔ یہی اردو ہے۔ شکر کرو کہ اردو چل تو رہی ہے۔ اس کے ساتھ اور بھی ظلم ہو رہے ہیں، بیچاری مونث جو ٹھیری۔
میاں: اور اس نے اپنے ساتھ ساری زبانوں کو مونث بنا رکھا ہے۔ عربی، فارسی، انگریزی، چینی جاپانی، کوئی زبان بھی اپنے لوگوں کے نزدیک مونث نہیں ہے۔
بیوی: اسی لیے اُن کا بھرم قائم ہے چلن نہیں بگڑا۔ عورتوں سے ایسی عداوت کہ قواعد میں بھی مونث صیغہ پسند نہیں!
یہ بات ہم سب ہی جانتے ہیں کہ اردو میں سب زبانیں مونث ہیں؛ جب کہ دوسری زبانوں میں زبان کا یہ یا وہ کہہ کر حوالہ دیا جاتا ہے۔
اپنے مکالموں میں حقّی صاحب مذاق ہی مذاق میں اردو کیا ہے بھی بتاتے جاتے ہیں؛ اک مکالمہ 'مکرّر کہے بغیر' جو دو افراد 'الف' اور 'ب' کے درمیان ہے اس کا بہترین نمونہ ہے۔ اس میں ہم جو بولتے میں الفاظ کی تکرار کرتے ہیں کو اچھے طریقے سے بتایا گیا ہے۔ میں یہاں شروع کی دس سطریں پیش کردیتا ہوں:
الف: چپ چپ کیوں ہو، خفا خفا؟
ب: نہیں نہیں؟ خفا کیوں ہوتا۔
الف: کھوئے کھوئے سے تو لگتے ہو، جیسے کوئی روٹھا روٹھا ہو۔
ب: بس جی بس! اب روز روز کیا بحثا بحثی۔
الف: خوب خوب! جیسے مجھی کو بک بک جھک جھک کی عادت ہے
ب: یہ تو میں نہیں کہتا، ہاں تکرار کی عادت تو ہے مجھے بھی اور تمہیں بھی اور شاید سارے اردو بولنے والوں کو، سب کے سب اس کے شوقین ہیں۔
الف: کیسی تکرار، کون سی تکرار؟ اللہ اللہ کرو۔ یہ سر بسر الزام ہے۔
ب: کہے جاؤ کہے جاؤ، میں نوٹ کر رہا ہوں۔
الف: آخر کیا نوٹ فرما رہے ہیں آپ اتنی دیر سے، چپکے چپکے، آپ ہی آپ؟
ب: یہی کہ ہم دونوں نے اتنی دیر میں کتنی تکرارِلفظی سے کام لیا ہے۔ ذرا غور کرو:
چپ چپ، خفا خفا، نہیں نہیں، جھک جھک، سب کے سب، چپکے چپکے، آپ ہی آپ، اللہ اللہ، سر بسر، کہے جاؤ۔۔۔ گویا کہ ذرا کی ذرا میں لفظوں کے سترہ اٹھارہ جوڑے؟
میں نے اوپر ایک مکالمے 'لطائف المومنین' کا ذکر کیا ہے۔ اس میں بتاتے ہیں کہ مولانا جوہر کی تحریکِ خلافت، سید احمد شہید کا جہاد، ترک خلافت کا چھاپے خانے سے اجتناب اور لاؤڈاسپیکر کے خلاف فتویٰ لطیفے ہی ہیں۔ میں یہاں وہ مزاح آپ تک نہیں پہنچا سکتا جو خود مضمون پڑھنے میں ہے، البتہ سمجھنے والے اتنے پر ہی سمجھ جائیں گے کہ اس میں لطیفے کیا ہیں۔
اس کتاب کا پہلا مضمون 'نشترِ طنز سلامت' پڑھ کر ہی پوری کتاب کے پیسے وصول ہوجاتے ہیں۔ اس مضمون میں بتایا گیا ہے کہ گھریلو نوکروں کے بار بار کام چھوڑ جانے پر گھر کے صاحب اپنے نوکر سے معاہدہ کرتے ہیں کہ بیگم صاحبہ جب بھی اسے ڈانٹ پلائیں گی تو صاحب نوکر کو کچھ رقم دے دیں گے۔ اب نوکر جان بوجھ کر ایسی حرکتیں کرتا کہ ڈانٹ پڑے۔ اس پر صاحب اسے ڈانٹتے ہیں تو نوکر کہتا ہے کہ ان کی ڈانٹ کا بھی وہ کچھ لے گا۔ کسی طرح یہ راز بیگم پر کھل جاتا ہے، تب صاحب نے انہیں سمجھا دیا اور نوکر کی آمدنی کم ہوگئی، کچھ دن تو تڑپا لیکن پھر اسے سکون آگیا۔ اب نہ تو نوکر پر ڈانٹ پڑتی ہے نہ وہ چھوڑ کر جاتا ہے، نہ گڑبڑ کرتا ہے، اور نہ صاحب کو رقم کے جانے کا دکھ اٹھانا پڑتا ہے۔
یہ بتاتا چلوں کہ اسی کتاب کا ایک مضمون، 'ایک لفظ درد،' ضیا محی الدین یو ٹیوب پر پڑھ چکے ہیں، سنیں اور ہنستے رہیں۔
اس کے بعد انہوں نے مجھے اشتہاری بھی کر دیا۔ اب تو مجبوری آن پڑی، ادھراُدھر دیکھا تو مجھے اپنی کتابوں میں شان الحق حقّی صاحب کی کتاب 'نوک جھوک' مل گئی۔ یہ میں نے پڑھی نہیں تھی کچھ ورق گردانی کی تو لگا کام بن سکتا ہے۔ اب میں نے اس کے کئی مضامین پڑھ ڈالے۔ میں کوئی تنقیدنگار نہیں ہوں، اور حقّی صاحب جیسے اردو کے شاہین کے مقابلے میں کنجشکِ فرومایا ہوں، اس لیے کہوں گا کہ میرے لکھے کو بہت زیادہ اہمیت نہ دیجیے گا اور کوتاہیوں اور ناانصافیوں پر میری مغفرت کی دعا کیجیے گا۔
کتاب 'نوک جھوک' کے شروع میں ڈاکٹر وزیرآغا صاحب اپنے مضمون 'شان الحق حقّی بحیثیت مزاح نگار،' میں لکھتے ہیں، 'انّیسویں صدی کے ربع آخر میں اودھ پنچ نے جس اکھڑپن، ابتذال، لطیفہ گوئی اور طنزواستہزا کو رواج دیا تھا، بیسویں صدی کی بدلتی ہوئی صورتِ حال میں اس کی کوئی گنجائش زیادہ نہیں تھی۔ لہٰذا مزاح، طنز، تحریف اور رمز یعنی آئرنی کے بہت اچھے نمونے سامنے آئے۔
رشید احمد صدیقی، فرحت اللہ بیگ، فلک پیما، کنھیّا لال کپور، پطرس بخاری، امتیاز علی تاج اور بعض دیگر نثرنگاروں کے ہاں ایسی ظرافت پروان چڑھی ہے جسے مہذب اور متوازن، سلجھی ہوئی اور پر لطف کہنا چاہیے۔ شان الحق حقّی کا سلسلہ ظرافت اسی سے جڑا ہوا نظر آتا ہے۔ بالخصوص فرحت اللہ بیگ، امتیاز علی تاج اور پطرس بخاری کے مضامین نیز اردو انشائیوں میں ابھرنے والی اُس ظرافت سے وہ منسلک نظر آتے ہیں جس میں خوش مزاجی، خندہ پیشانی، شگفتگی اور پُرلطف چبھن کو فروغ ملا ہے۔ بیسویں صدی کے آخری ایام کی اردو نثر میں جس وضع کے پھکّڑپن اور لطیفہ بازی کو فروغ ملا ہے، شان الحق حقّی کے مضامین میں اس کا شائبہ تک موجود نہیں۔'
یہ ڈاکٹر صاحب کے مضمون سے اقتباس تھا۔
'نوک جھوک' کے دو حصّے ہیں۔ پہلے میں کچھ مضامین اور مکالمے ہیں، لیکن دوسرے میں تو سارے مکالمے ہی ہیں اور تقریباً سب ہی دو آدمیوں کے درمیان۔ حقّی صاحب اپنے 'عرضِ مصنف' میں بتاتے ہیں کہ الف اور بے کی نوک جھوک کا سلسلہ لاس انجلس کے اخبار 'پاکستان لنک' میں چلا تھا۔ اور کچھ 'اخبارِ جہاں' کراچی میں بھی چھپے تھے۔ حقّی صاحب کا مشہور ڈراما 'مرزا غالب لندن میں' پہلے حصّے میں ہے لیکن میں اس پر کچھ نہیں لکھوں گا کیوںکہ وہ الگ توجّہ چاہتا ہے۔
مزاح نگاروں کا دوردورہ ہر زمانے میں ہی رہا ہے۔ میں کسی کا مرتبہ متعین کرنے کی حیثیت نہیں رکھتا۔ اس کتاب 'نوک جھوک' کی ورق گردانی کرنے پر ایک خیال انورمقصود کا ضرور آتا ہے، خاص کر ان کے پروگرام 'لوز ٹاک' کا۔ البتہ لوز ٹاک میں صرف حالاتِ حاضرہ پر ہی مکالمہ لکھا جاتا رہا ہے، اس طرح وہ حالیہ ہے اور اس کے لمبے مستقبل کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے۔ نوک جھوک میں ادبی، لسانی، فلسفیانہ، نفسیاتی اور تاریخی مضامین کو زیرِبحث لایا گیا ہے۔ حتیٰ کہ ایسے مضامین بھی جن پر پاکستانی مسلمان ذرا جذباتی ہوجاتے ہیں، زیر غور آئے ہیں، جیسا کہ مکالمہ 'لطائف المومنین' ایک بات جو اس کتاب کا قاری خاص محسوس کرتا ہے وہ اس میں اردو کا اعلیٰ معیار ہے۔
ہم عام زندگی میں جب ایک دوسرے سے ہم کلام ہوتے ہیں، بلکہ کہیں کہ جب ہم اپنے سے مخاطب شخص کو سن رہے ہوتے ہیں تو عام طور پر ہم اپنے دماغ میں، اور یہ بہت عام بات ہے، ایک قاطع بیان تیار کر رہے ہوتے ہیں۔ اس کی بہت سی وجوہات ہوسکتی ہیں تناظر، تجربہ، ہٹ دھرمی، ضد، تعصب، علم اور کم علمی وغیرہ وغیرہ۔ اور بہت بار ہم بھی وہی بات کہہ رہے ہوتے ہیں جو ہمارا مخاطب کہہ رہا ہوتا ہے لیکن نہ وہ سمجھ رہا ہوتا ہے نہ ہم۔ اور بات الجھتی جاتی ہے۔ اس کتاب میں بھی مکالموں میں ایک کے بیان پر دوسرے کا قاطع بیان۔ جو اکثر 'نہیں' سے شروع ہوتا ہے۔
یہاں میں نوک جھوک کے مکالمے 'کڑوا بادام' سے ایک اقتباس پیش کرتا ہوں:
(کڑوا بادام میں ہم جنس پرستوں کے سلسلے میں بات ہو رہی ہے)
ب: سیدھے ہاتھ والے اکثر کھبّے بچّوں کو اپنے ڈھب پر لانے کی کوشش کرتے ہیں۔ سنا ہے ایسے بچّوں میں لکنت پیدا ہوجاتی ہے، ہکلانے لگتے ہیں۔ اگر ہم جنس پرستوں کو روکا گیا تو ہو سکتا ہے ان میں بھی کوئی اور علّت یا لٹک پیدا ہوجائے، سپونرازم وغیرہ۔
الف: یہ اسپونر کون صاحب تھے؟
ب: ان کے نام میں الف نہیں ہے۔ پہلے ہم لوگ سکونِ اوّل پہ قادر نہ تھے۔ اب انگریزی کے اثر سے عاداتِ لسانی میں ایک نیا اضافہ ہوا ہے۔
الف: نہیں - سنسکرت میں پہلے سے سکونِ اوّل موجود تھا۔
اس آخری سطر میں الف نے جملہ اپنی علمیت کی وجہ سے 'نہیں' سے شروع کیا ہے۔
(اسپونرازم کو اردو میں لغزشِ زبان کہتے ہیں، جیسے کانپیں ٹانگ رہی ہیں۔ ویسے ہمارے ہاں کم پڑھے لکھے لوگوں سے اکثر سگنل کو سنگل سنا ہے، لیکن یہ لوگ عادتاً اور مستقل کہتے ہیں اس لیے اسے لغزشِ زبان نہیں کہیں گے)
حقّی صاحب اردو صرف و نحو میں اتنے رہتے تھے کہ اپنے مکالموں میں بھی وہ انہیں لے آتے تھے۔ یہاں دیکھیں کہ مکالمے 'تلخ کلامی' میں، جو ایک میاں بیوی کے درمیان ہو رہی ہے وہ کیا لکھتے ہیں۔
میاں: ابھی تم نے فارسی کا مصرع نہیں پڑھا؟
بیوی: اردو سمجھ کے نہیں پڑھا۔ تم اپنی زبان کو ہیٹا سمجھتے ہو۔ اُس کی ہتَک کرتے ہو۔
میاں: اصل لفظ ہتک ہے، ت سکون کے ساتھ۔
بیوی: ہم ت زبر ہی سے بولیں گے۔ پلک اور لپک کے وزن پر۔ یہی اردو ہے۔ شکر کرو کہ اردو چل تو رہی ہے۔ اس کے ساتھ اور بھی ظلم ہو رہے ہیں، بیچاری مونث جو ٹھیری۔
میاں: اور اس نے اپنے ساتھ ساری زبانوں کو مونث بنا رکھا ہے۔ عربی، فارسی، انگریزی، چینی جاپانی، کوئی زبان بھی اپنے لوگوں کے نزدیک مونث نہیں ہے۔
بیوی: اسی لیے اُن کا بھرم قائم ہے چلن نہیں بگڑا۔ عورتوں سے ایسی عداوت کہ قواعد میں بھی مونث صیغہ پسند نہیں!
یہ بات ہم سب ہی جانتے ہیں کہ اردو میں سب زبانیں مونث ہیں؛ جب کہ دوسری زبانوں میں زبان کا یہ یا وہ کہہ کر حوالہ دیا جاتا ہے۔
اپنے مکالموں میں حقّی صاحب مذاق ہی مذاق میں اردو کیا ہے بھی بتاتے جاتے ہیں؛ اک مکالمہ 'مکرّر کہے بغیر' جو دو افراد 'الف' اور 'ب' کے درمیان ہے اس کا بہترین نمونہ ہے۔ اس میں ہم جو بولتے میں الفاظ کی تکرار کرتے ہیں کو اچھے طریقے سے بتایا گیا ہے۔ میں یہاں شروع کی دس سطریں پیش کردیتا ہوں:
الف: چپ چپ کیوں ہو، خفا خفا؟
ب: نہیں نہیں؟ خفا کیوں ہوتا۔
الف: کھوئے کھوئے سے تو لگتے ہو، جیسے کوئی روٹھا روٹھا ہو۔
ب: بس جی بس! اب روز روز کیا بحثا بحثی۔
الف: خوب خوب! جیسے مجھی کو بک بک جھک جھک کی عادت ہے
ب: یہ تو میں نہیں کہتا، ہاں تکرار کی عادت تو ہے مجھے بھی اور تمہیں بھی اور شاید سارے اردو بولنے والوں کو، سب کے سب اس کے شوقین ہیں۔
الف: کیسی تکرار، کون سی تکرار؟ اللہ اللہ کرو۔ یہ سر بسر الزام ہے۔
ب: کہے جاؤ کہے جاؤ، میں نوٹ کر رہا ہوں۔
الف: آخر کیا نوٹ فرما رہے ہیں آپ اتنی دیر سے، چپکے چپکے، آپ ہی آپ؟
ب: یہی کہ ہم دونوں نے اتنی دیر میں کتنی تکرارِلفظی سے کام لیا ہے۔ ذرا غور کرو:
چپ چپ، خفا خفا، نہیں نہیں، جھک جھک، سب کے سب، چپکے چپکے، آپ ہی آپ، اللہ اللہ، سر بسر، کہے جاؤ۔۔۔ گویا کہ ذرا کی ذرا میں لفظوں کے سترہ اٹھارہ جوڑے؟
میں نے اوپر ایک مکالمے 'لطائف المومنین' کا ذکر کیا ہے۔ اس میں بتاتے ہیں کہ مولانا جوہر کی تحریکِ خلافت، سید احمد شہید کا جہاد، ترک خلافت کا چھاپے خانے سے اجتناب اور لاؤڈاسپیکر کے خلاف فتویٰ لطیفے ہی ہیں۔ میں یہاں وہ مزاح آپ تک نہیں پہنچا سکتا جو خود مضمون پڑھنے میں ہے، البتہ سمجھنے والے اتنے پر ہی سمجھ جائیں گے کہ اس میں لطیفے کیا ہیں۔
اس کتاب کا پہلا مضمون 'نشترِ طنز سلامت' پڑھ کر ہی پوری کتاب کے پیسے وصول ہوجاتے ہیں۔ اس مضمون میں بتایا گیا ہے کہ گھریلو نوکروں کے بار بار کام چھوڑ جانے پر گھر کے صاحب اپنے نوکر سے معاہدہ کرتے ہیں کہ بیگم صاحبہ جب بھی اسے ڈانٹ پلائیں گی تو صاحب نوکر کو کچھ رقم دے دیں گے۔ اب نوکر جان بوجھ کر ایسی حرکتیں کرتا کہ ڈانٹ پڑے۔ اس پر صاحب اسے ڈانٹتے ہیں تو نوکر کہتا ہے کہ ان کی ڈانٹ کا بھی وہ کچھ لے گا۔ کسی طرح یہ راز بیگم پر کھل جاتا ہے، تب صاحب نے انہیں سمجھا دیا اور نوکر کی آمدنی کم ہوگئی، کچھ دن تو تڑپا لیکن پھر اسے سکون آگیا۔ اب نہ تو نوکر پر ڈانٹ پڑتی ہے نہ وہ چھوڑ کر جاتا ہے، نہ گڑبڑ کرتا ہے، اور نہ صاحب کو رقم کے جانے کا دکھ اٹھانا پڑتا ہے۔
یہ بتاتا چلوں کہ اسی کتاب کا ایک مضمون، 'ایک لفظ درد،' ضیا محی الدین یو ٹیوب پر پڑھ چکے ہیں، سنیں اور ہنستے رہیں۔