مہنگی بجلی ٹیکس اور بجلی چور
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی میں اس بارے میں اعدادوشمار پیش کیے گئے ہیں، جو ہوشربا داستان سے کم نہیں ہے
چند دن پہلے ایک تازہ ترین رپورٹ سامنے آئی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ پنجاب میں بجلی کی اوور بلنگ کے ذریعے بجلی صارفین پر675ارب روپے کا بوجھ ڈالا گیا ہے ۔
تفصیلات کے مطابق وفاقی سیکریٹری پاور نے میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ بجلی صارفین کے لیے حکومت نے 900ارب روپے کی سبسڈی رکھی ہے لیکن حکومت اس ضمن میں صرف 327ارب روپے ہی فراہم کر رہی ہے جب کہ 573 ارب روپے بجلی صارفین سے ہی وصول کیے جارہے ہیں ۔
سیکریٹری پاور نے بتایا کہ پاور ڈسٹری بیوشن کمپنیاں اپنے نقصانات کو کم ظاہر کرنے کے لیے اوور بلنگ کے ذریعے صارفین سے سالانہ 100ارب روپے اضافی وصول کر رہی ہیں۔
سیکریٹری پاور کے مطابق نگران حکومت کا پہلے یہ منصوبہ تھاکہ خسارے میں جانے والی ان کمپنیوں کو صوبوں کے حوالے کر دیا جائے لیکن سیکریٹری پاور کی مطابق اب یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ اس کا واحد حل ان پاور کمپنیوں کی نجکاری ہے ۔
علاوہ ازیں سیکریٹری پاور کے مطابق بااثر کاروباری اداروں نے پاکستان کی معیشت کو ہائی جیک کیا ہوا ہے ۔ جو نئے کھلاڑیوں کو میدان میں داخل نہیں ہونے دیتے ۔ انھوں نے بتایا کہ پاکستان میں لگائے گئے زیادہ تر پاور پلانٹس چینی پلانٹس سمیت بیرونی سرمائے سے لگائے گئے ہیں جو مہنگی بجلی کی اہم وجہ ہے ۔
اگر پلانٹس اوپن کمپیٹشن کے تحت لگائے جاتے تو بجلی کی قیمتیں کافی کم ہو سکتی تھیں، انھوں نے اعتراف کیا کہ بجلی کی قیمتیں کم کرنے کا کوئی منصوبہ زیر غور نہیں ہے اور بجلی کی قیمتیں کم کرنے میں لمبا عرصہ لگ سکتا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ 890 ارب روپے کے لائن لاسز کا سامنا ہے ۔
سوال یہاں یہ ہے کہ کیا پاکستان میں بجلی کبھی سستی بھی ہو گی ۔ جواب اس کا یہ ہے کہ اگلے کئی سالوں تک اس کا کوئی امکان نہیں ۔ وجہ آئی پی پی معاہدے ہیں ، یہ معاہدے جو 1994میں شروع ہوئے کم ازکم 2027تک رہیں گے کیونکہ یہ مختلف المعیاد ہیں ان معاہدوں کی بعض شقیں خاصی سخت ہیں ۔
ہر حکومت نے اپنے معاملات سیدھے رکھے ہیں، عوام کے مفادات کا کوئی خیال نہیں رکھا۔ مثال کے طور پر حکومت پاکستان معاہدے میں مقررہ نرخ پر آئی پی پیز کو فرنس آئل فراہم کرنے کی پابند ہوگی اور بڑھتی ہوئی تیل کی قیمت کا فرق آئی پی پیز کے بجائے حکومت کو برداشت کرنا ہوگا۔اب اس میں کمپنیوں کا تو کوئی قصور نہیں ہے، سارا قصور وفاقی حکومت کے کل پرزوں کا ہے، جنھوں نے کمیشن کے چکر میں اپنے ملک کے صارفین کو پھنسادیا ہے، مالی ادائیگی امریکا ڈالر میں کی جاتی ہے۔
جب کہ تیسری شرط یہ طے پائی کہ پاکستان بجلی خریدے یا نہ خریدے، معاہدے کے مطابق ادائیگی کرنا لازم ہے۔ یہی گردشی قرضوں کے حجم میں اضافے کی بنیادی وجہ ہے ، بعدازاں یہی رقم پاکستانی عوام سے بجلی کے بلز میں فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کی مد میں وصول کی جاتی ہے ۔ یہ راز ہے عوام کو ہر مہینے موصول ہونے والے فیول ایڈجسٹمنٹ کا ۔ ماشاء اﷲ سے صرف فیول ایڈجسٹمنٹ ٹیکس ہی 6طرح کے ہیں ۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی میں اس بارے میں اعدادوشمار پیش کیے گئے ہیں، جو ہوشربا داستان سے کم نہیں ہے گزشتہ مالی سال میں کیپسٹی پیمنٹ کی مد میں 1300ارب روپے کی ادائیگی کی گئی جب کہ رواں مالی سال میں اس مد میں ادائیگی کا تخمینہ 2000ارب روپے لگایا گیا ہے اور حالیہ اکتوبر تک گردشی قرضہ 2600ارب روپے تک پہنچ چکا ہے ۔
کیپسٹی پیمنٹ کے ذیل میں 550ارب روپے کا غیر معمولی اضافہ صرف ڈالر اور روپے کی شرح تبادلہ کے اوپر نیچے ہونے کے باعث ہوا ہے ۔ بین الاقوامی قوانین کے تحت ان تمام معاہدوں کو حکومت پاکستان کی ضمانت حاصل ہے۔
ان معاہدوں کی روگردانی کی صورت میں عالمی قوانین کے تحت پاکستان کو جرمانہ ادا کرنا پڑے گا۔ ذراغور فرمائیں حکومت پاکستان کی طرف سے ان معاہدوں پر دستخط کرنے والوں نے کیا پاکستان کے ساتھ اپنی وفاداری نبھائی ؟ جو کچھ پاکستان ہورہا ہے ۔ یہ تو ملک دشمنی کی انتہا ہے ۔
اس کے علاوہ حکومت پاکستان نے اپنی طرف سے ٹیکس لگانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی یہ 19طرح کے ٹیکس ہیں جس کی وجہ سے 100روپے کی بجلی خرچ کرنے پر آپ کو 800کا بل آئے گا اور 15000کی بجلی خرچ کرنے پر 48000 روپے بل آئے گا۔ ان ٹیکسوں کی وجہ سے۔ آنے والی قیامت خیز گرمی میں اس دفعہ بہت کم لوگ ہی ACاستعمال کرپائیں گے۔ FAN استعمال کرنا ہی جان جوکھوں کا کام ہو گا۔
بجلی مہنگی ہونے کی بڑی وجہ لائن لاسز اور بجلی چوری ہے لیکن تصویر کا دوسرا رخ یہ بھی ہے کہ مہنگی بجلی کی وجہ سے بجلی چوری ہوتی ہے۔
ایک یورپین انجینئر کی رپورٹ کے مطابق کراچی میں 50فیصد حکومتی اور 40فیصد صنعتی ادارے بجلی چوری میں ملوث ہیں ۔ جب کہ صرف 10فیصد غریب افراد بجلی چوری کرتے ہیں ۔ بنوں ، ڈی آئی خان ، ٹانک اور شانگلہ میں 100فیصد صارفین کنڈا لگا کر بجلی چوری کر رہے ہیں ۔
سرکاری دستاویزات کے مطابق ملک بھر میں یومیہ 1ارب 61کروڑ اور ماہانہ 49ارب روپے سے زائد کی بجلی چوری ہو رہی ہے ۔ یہ بجلی چوری سالانہ 600ارب کے قریب پہنچ جاتی ہے ۔پوری دنیا میں اب ہماری پہچان بجلی چور، گیس چور، ٹیکس چور ، کرپٹ عوام کی ہے اور اس حمام میں اوپر سے نیچے سب ننگے ہیں۔ لاحول ولا قوۃ الا باللہ
تفصیلات کے مطابق وفاقی سیکریٹری پاور نے میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ بجلی صارفین کے لیے حکومت نے 900ارب روپے کی سبسڈی رکھی ہے لیکن حکومت اس ضمن میں صرف 327ارب روپے ہی فراہم کر رہی ہے جب کہ 573 ارب روپے بجلی صارفین سے ہی وصول کیے جارہے ہیں ۔
سیکریٹری پاور نے بتایا کہ پاور ڈسٹری بیوشن کمپنیاں اپنے نقصانات کو کم ظاہر کرنے کے لیے اوور بلنگ کے ذریعے صارفین سے سالانہ 100ارب روپے اضافی وصول کر رہی ہیں۔
سیکریٹری پاور کے مطابق نگران حکومت کا پہلے یہ منصوبہ تھاکہ خسارے میں جانے والی ان کمپنیوں کو صوبوں کے حوالے کر دیا جائے لیکن سیکریٹری پاور کی مطابق اب یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ اس کا واحد حل ان پاور کمپنیوں کی نجکاری ہے ۔
علاوہ ازیں سیکریٹری پاور کے مطابق بااثر کاروباری اداروں نے پاکستان کی معیشت کو ہائی جیک کیا ہوا ہے ۔ جو نئے کھلاڑیوں کو میدان میں داخل نہیں ہونے دیتے ۔ انھوں نے بتایا کہ پاکستان میں لگائے گئے زیادہ تر پاور پلانٹس چینی پلانٹس سمیت بیرونی سرمائے سے لگائے گئے ہیں جو مہنگی بجلی کی اہم وجہ ہے ۔
اگر پلانٹس اوپن کمپیٹشن کے تحت لگائے جاتے تو بجلی کی قیمتیں کافی کم ہو سکتی تھیں، انھوں نے اعتراف کیا کہ بجلی کی قیمتیں کم کرنے کا کوئی منصوبہ زیر غور نہیں ہے اور بجلی کی قیمتیں کم کرنے میں لمبا عرصہ لگ سکتا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ 890 ارب روپے کے لائن لاسز کا سامنا ہے ۔
سوال یہاں یہ ہے کہ کیا پاکستان میں بجلی کبھی سستی بھی ہو گی ۔ جواب اس کا یہ ہے کہ اگلے کئی سالوں تک اس کا کوئی امکان نہیں ۔ وجہ آئی پی پی معاہدے ہیں ، یہ معاہدے جو 1994میں شروع ہوئے کم ازکم 2027تک رہیں گے کیونکہ یہ مختلف المعیاد ہیں ان معاہدوں کی بعض شقیں خاصی سخت ہیں ۔
ہر حکومت نے اپنے معاملات سیدھے رکھے ہیں، عوام کے مفادات کا کوئی خیال نہیں رکھا۔ مثال کے طور پر حکومت پاکستان معاہدے میں مقررہ نرخ پر آئی پی پیز کو فرنس آئل فراہم کرنے کی پابند ہوگی اور بڑھتی ہوئی تیل کی قیمت کا فرق آئی پی پیز کے بجائے حکومت کو برداشت کرنا ہوگا۔اب اس میں کمپنیوں کا تو کوئی قصور نہیں ہے، سارا قصور وفاقی حکومت کے کل پرزوں کا ہے، جنھوں نے کمیشن کے چکر میں اپنے ملک کے صارفین کو پھنسادیا ہے، مالی ادائیگی امریکا ڈالر میں کی جاتی ہے۔
جب کہ تیسری شرط یہ طے پائی کہ پاکستان بجلی خریدے یا نہ خریدے، معاہدے کے مطابق ادائیگی کرنا لازم ہے۔ یہی گردشی قرضوں کے حجم میں اضافے کی بنیادی وجہ ہے ، بعدازاں یہی رقم پاکستانی عوام سے بجلی کے بلز میں فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کی مد میں وصول کی جاتی ہے ۔ یہ راز ہے عوام کو ہر مہینے موصول ہونے والے فیول ایڈجسٹمنٹ کا ۔ ماشاء اﷲ سے صرف فیول ایڈجسٹمنٹ ٹیکس ہی 6طرح کے ہیں ۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی میں اس بارے میں اعدادوشمار پیش کیے گئے ہیں، جو ہوشربا داستان سے کم نہیں ہے گزشتہ مالی سال میں کیپسٹی پیمنٹ کی مد میں 1300ارب روپے کی ادائیگی کی گئی جب کہ رواں مالی سال میں اس مد میں ادائیگی کا تخمینہ 2000ارب روپے لگایا گیا ہے اور حالیہ اکتوبر تک گردشی قرضہ 2600ارب روپے تک پہنچ چکا ہے ۔
کیپسٹی پیمنٹ کے ذیل میں 550ارب روپے کا غیر معمولی اضافہ صرف ڈالر اور روپے کی شرح تبادلہ کے اوپر نیچے ہونے کے باعث ہوا ہے ۔ بین الاقوامی قوانین کے تحت ان تمام معاہدوں کو حکومت پاکستان کی ضمانت حاصل ہے۔
ان معاہدوں کی روگردانی کی صورت میں عالمی قوانین کے تحت پاکستان کو جرمانہ ادا کرنا پڑے گا۔ ذراغور فرمائیں حکومت پاکستان کی طرف سے ان معاہدوں پر دستخط کرنے والوں نے کیا پاکستان کے ساتھ اپنی وفاداری نبھائی ؟ جو کچھ پاکستان ہورہا ہے ۔ یہ تو ملک دشمنی کی انتہا ہے ۔
اس کے علاوہ حکومت پاکستان نے اپنی طرف سے ٹیکس لگانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی یہ 19طرح کے ٹیکس ہیں جس کی وجہ سے 100روپے کی بجلی خرچ کرنے پر آپ کو 800کا بل آئے گا اور 15000کی بجلی خرچ کرنے پر 48000 روپے بل آئے گا۔ ان ٹیکسوں کی وجہ سے۔ آنے والی قیامت خیز گرمی میں اس دفعہ بہت کم لوگ ہی ACاستعمال کرپائیں گے۔ FAN استعمال کرنا ہی جان جوکھوں کا کام ہو گا۔
بجلی مہنگی ہونے کی بڑی وجہ لائن لاسز اور بجلی چوری ہے لیکن تصویر کا دوسرا رخ یہ بھی ہے کہ مہنگی بجلی کی وجہ سے بجلی چوری ہوتی ہے۔
ایک یورپین انجینئر کی رپورٹ کے مطابق کراچی میں 50فیصد حکومتی اور 40فیصد صنعتی ادارے بجلی چوری میں ملوث ہیں ۔ جب کہ صرف 10فیصد غریب افراد بجلی چوری کرتے ہیں ۔ بنوں ، ڈی آئی خان ، ٹانک اور شانگلہ میں 100فیصد صارفین کنڈا لگا کر بجلی چوری کر رہے ہیں ۔
سرکاری دستاویزات کے مطابق ملک بھر میں یومیہ 1ارب 61کروڑ اور ماہانہ 49ارب روپے سے زائد کی بجلی چوری ہو رہی ہے ۔ یہ بجلی چوری سالانہ 600ارب کے قریب پہنچ جاتی ہے ۔پوری دنیا میں اب ہماری پہچان بجلی چور، گیس چور، ٹیکس چور ، کرپٹ عوام کی ہے اور اس حمام میں اوپر سے نیچے سب ننگے ہیں۔ لاحول ولا قوۃ الا باللہ