بعض متنازعہ فیصلے
پاکستان میں عدلیہ کی تاریخ شاندار بھی ہے اور متنازع بھی۔ تاریخ کے یہ دو رخ ہر طرف نظر آتے ہیں
پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے ایک درخواست کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ عدالت جس کو ضمانت دیتی ہے، اسے کسی اور مقدمے میں گرفتار کر لیا جاتا ہے، انھوں نے یہ ریمارکس ایک سابق ایم پی اے کی درخواست پر دیے اور کے پی حکومت سے درخواست گزار کے خلاف درج تمام مقدمات کی تفصیلات طلب کرلی ہیں۔
عدالتی احکام پر ضمانت منظور ہونے کے بعد نئے مقدمے میں گرفتاری پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک جج بھی برہمی کا اظہار ہی نہیں بلکہ اسلام آباد انتظامیہ کو توہین عدالت کا نوٹس بھی جاری کر چکے ہیں۔
سابق چیف جسٹس ثاقب نثار سے لے کر16 ستمبر کو ریٹائر ہونے والے چیف جسٹس پاکستان کے دور میں متعدد عدالتی فیصلے متنازع رہے ہیں جس کا اعتراف قانون دان حلقے بھی کر چکے ہیں۔
یہ استدلال بھی درست ہے کہ ججز نے آئین و قانون کے مطابق فیصلے کرنے ہوتے ہیں، کسی کی مرضی یا منشا کے مطابق فیصلے نہیں کرنے ہوتے، یہی وجہ ہے کہ جس فریق کے حق میں فیصلہ آئے وہ خوش اور متاثرہ فریق خفا ہو جاتا ہے مگر ججز کسی کی خوشی یا خفگی کی پرواہ کیے بغیر فیصلے کرتے ہیں، وہ کسی کو پسند آئیں نہ آئیں۔
عدلیہ کا اس سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ ملک کی تاریخ میں ایسے ججز بھی گزرے ہیں جو مارشل لا ہو یا سول دور، وہ کسی آمر سے خوفزدہ ہوئے بغیر فیصلے دیتے آئے ہیں جو عدالتی تاریخ میں یاد رکھے جاتے ہیں اور جن ججز نے آمروں کی خوشنودی یا نظریہ ضرورت کے تحت فیصلے دیے، وہ بھی تاریخ میں یاد رکھے جاتے ہیں جس کی ابتدا جسٹس منیر کے دور سے ہوئی تھی اور عشرے گزر جانے کے بعد بھی اب تک ان پر سوالیہ نشان اٹھ رہے ہیں۔
پاکستان میں عدلیہ کی تاریخ شاندار بھی ہے اور متنازع بھی۔ تاریخ کے یہ دو رخ ہر طرف نظر آتے ہیں، ایوب خان ، یحی خان ، ضیاالحق اورجنرل پرویز مشرف کے آمرانہ دور بھی ججز نے جرات مندانہ فیصلے دیے ہیں لیکن ان کی حکومتوں کو جائز قرار دیے کر اسے آئینی جامہ بھی عدالتی فیصلوں نے ہی پہنچایا تھا۔ ججز بحالی کی تحریک کامیاب ہونے کے بعد صورتحال میں غیرمعمولی تبدیلی دیکھنے میں آئی ہے۔
جنرل پرویز دور میں ایک جج رحمت علی جعفری نے دباؤ کے باوجود سابق وزیر اعظم نواز شریف کو پھانسی کی سزا دینے سے انکار کیا تھا۔ شاید اسی وجہ سے نواز شریف نے 2008 میں پی پی حکومت سے الگ ہو کر ججز بحالی کی تحریک چلائی تھی ۔ لیکن اس کا صلہ نواز شریف کو یوں مل گیا کہ انھیں پاناما کیس میں تاحیات نااہل قرار دے دیا گیا۔
اس سے قبل پی پی کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے نااہل کیا تھا حالانکہ بطور وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے ہی ایک ایگزیکٹیو آرڈر جاری کرکے معزول ججز کو بحال کیا تھا۔ دو وزیراعظموں کی نااہل کے فیصلے کسی آمر کے دور میں نہیں جمہوری کہلانے والے دور میں دیے گئے تھے جس کے بعد ایک اور چیف جسٹس نے تو انتہا کر دی تھی وہ اپنے چیمبر میں من مانے فیصلے دیتے تھے اور اب ان چیمبری فیصلوں کو سپریم کورٹ نے غیر قانونی قرار دے دیا ہے۔
سب سے متنازع عدالتی فیصلے حالیہ چھ سات برس کے دورانئے میں متنازع فیصلوں کی شرح بہت زیادہ بڑھی ہے۔ سابق چیف جسٹس کے اپنے ساتھی ججز کے ساتھ اختلافات کی کہانی ڈھکی چھپی نہیں ہے ، میڈیا میں سب کچھ آتا رہا ہے ۔
یہاں تک تھی کہ انھوں نے اپنے پونے دو سالہ دور میں ملک سے باہر جانا بھی گوارہ نہیں کیا، قائم مقام چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نہ بن جائیں جو ان کے بعد سینئر ترین جج تھے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک سینئر ترین جج شوکت عزیز صدیقی کو سپریم کورٹ سے سالوں گزرنے کے بعد بھی انصاف کیا ملتا ان کی اپیل تک کو زیر سماعت لانے کے لیے مقرر نہیں کیا جاتا تھا اور ان کی مدت ملازمت پوری ہوگئی اور ان کی سماعت کے لیے مقرر کیے جانے والی درخواستوں کو بھی توجہ نہیں ملی۔ملک کی عدالتی تاریخ میں ایک ایسا فیصلہ بھی موجود ہے جس میں جنرل پرویز مشرف کو آئین میں ترامیم کا اختیار دیا گیا تھا ۔
موجودہ چیف جسٹس پاکستان نے عدلیہ کی کارکردگی میں بہتری کے لیے قائم کمیٹی ازسر نو تشکیل دی ہے جس کے سربراہ سینئر جج منصور علی شاہ ہوں گے اور یہ کمیٹی ریسرچ کے لیے مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی بھی متعارف کرائے گی۔ اس کمیٹی میں سپریم کورٹ نے جدید ٹیکنالوجی کے ماہر ججز کو شامل کیا گیا ہے۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے ماضی میں ہونے والی عدالتی غلطیوں کا اعتراف بھی کیا ہے اور ملک میں پہلی بار سپریم کورٹ کی کارروائی ٹی وی چینلز پر دکھائی گئی ہے اور مزید تاریخی فیصلوں کا بھی انتظار ہے۔
غلط اور جانبدارانہ جو فیصلے ماضی میں دیے جا چکے ہیں ان پر نظر ثانی کے مطالبے نامور وکیلوں نے کیے ہیں اور بعض اصول پرست ممتاز وکلا نے بھی اعتراف کیا ہے کہ ماضی میں جانبدارانہ سیاسی فیصلوں میں قانون کے برعکس جو سزائیں ہوئیں، ان سے عدلیہ متنازع اور فیصلے سوالیہ نشان بنے۔
عدالتی احکام پر ضمانت منظور ہونے کے بعد نئے مقدمے میں گرفتاری پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک جج بھی برہمی کا اظہار ہی نہیں بلکہ اسلام آباد انتظامیہ کو توہین عدالت کا نوٹس بھی جاری کر چکے ہیں۔
سابق چیف جسٹس ثاقب نثار سے لے کر16 ستمبر کو ریٹائر ہونے والے چیف جسٹس پاکستان کے دور میں متعدد عدالتی فیصلے متنازع رہے ہیں جس کا اعتراف قانون دان حلقے بھی کر چکے ہیں۔
یہ استدلال بھی درست ہے کہ ججز نے آئین و قانون کے مطابق فیصلے کرنے ہوتے ہیں، کسی کی مرضی یا منشا کے مطابق فیصلے نہیں کرنے ہوتے، یہی وجہ ہے کہ جس فریق کے حق میں فیصلہ آئے وہ خوش اور متاثرہ فریق خفا ہو جاتا ہے مگر ججز کسی کی خوشی یا خفگی کی پرواہ کیے بغیر فیصلے کرتے ہیں، وہ کسی کو پسند آئیں نہ آئیں۔
عدلیہ کا اس سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ ملک کی تاریخ میں ایسے ججز بھی گزرے ہیں جو مارشل لا ہو یا سول دور، وہ کسی آمر سے خوفزدہ ہوئے بغیر فیصلے دیتے آئے ہیں جو عدالتی تاریخ میں یاد رکھے جاتے ہیں اور جن ججز نے آمروں کی خوشنودی یا نظریہ ضرورت کے تحت فیصلے دیے، وہ بھی تاریخ میں یاد رکھے جاتے ہیں جس کی ابتدا جسٹس منیر کے دور سے ہوئی تھی اور عشرے گزر جانے کے بعد بھی اب تک ان پر سوالیہ نشان اٹھ رہے ہیں۔
پاکستان میں عدلیہ کی تاریخ شاندار بھی ہے اور متنازع بھی۔ تاریخ کے یہ دو رخ ہر طرف نظر آتے ہیں، ایوب خان ، یحی خان ، ضیاالحق اورجنرل پرویز مشرف کے آمرانہ دور بھی ججز نے جرات مندانہ فیصلے دیے ہیں لیکن ان کی حکومتوں کو جائز قرار دیے کر اسے آئینی جامہ بھی عدالتی فیصلوں نے ہی پہنچایا تھا۔ ججز بحالی کی تحریک کامیاب ہونے کے بعد صورتحال میں غیرمعمولی تبدیلی دیکھنے میں آئی ہے۔
جنرل پرویز دور میں ایک جج رحمت علی جعفری نے دباؤ کے باوجود سابق وزیر اعظم نواز شریف کو پھانسی کی سزا دینے سے انکار کیا تھا۔ شاید اسی وجہ سے نواز شریف نے 2008 میں پی پی حکومت سے الگ ہو کر ججز بحالی کی تحریک چلائی تھی ۔ لیکن اس کا صلہ نواز شریف کو یوں مل گیا کہ انھیں پاناما کیس میں تاحیات نااہل قرار دے دیا گیا۔
اس سے قبل پی پی کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے نااہل کیا تھا حالانکہ بطور وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے ہی ایک ایگزیکٹیو آرڈر جاری کرکے معزول ججز کو بحال کیا تھا۔ دو وزیراعظموں کی نااہل کے فیصلے کسی آمر کے دور میں نہیں جمہوری کہلانے والے دور میں دیے گئے تھے جس کے بعد ایک اور چیف جسٹس نے تو انتہا کر دی تھی وہ اپنے چیمبر میں من مانے فیصلے دیتے تھے اور اب ان چیمبری فیصلوں کو سپریم کورٹ نے غیر قانونی قرار دے دیا ہے۔
سب سے متنازع عدالتی فیصلے حالیہ چھ سات برس کے دورانئے میں متنازع فیصلوں کی شرح بہت زیادہ بڑھی ہے۔ سابق چیف جسٹس کے اپنے ساتھی ججز کے ساتھ اختلافات کی کہانی ڈھکی چھپی نہیں ہے ، میڈیا میں سب کچھ آتا رہا ہے ۔
یہاں تک تھی کہ انھوں نے اپنے پونے دو سالہ دور میں ملک سے باہر جانا بھی گوارہ نہیں کیا، قائم مقام چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نہ بن جائیں جو ان کے بعد سینئر ترین جج تھے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک سینئر ترین جج شوکت عزیز صدیقی کو سپریم کورٹ سے سالوں گزرنے کے بعد بھی انصاف کیا ملتا ان کی اپیل تک کو زیر سماعت لانے کے لیے مقرر نہیں کیا جاتا تھا اور ان کی مدت ملازمت پوری ہوگئی اور ان کی سماعت کے لیے مقرر کیے جانے والی درخواستوں کو بھی توجہ نہیں ملی۔ملک کی عدالتی تاریخ میں ایک ایسا فیصلہ بھی موجود ہے جس میں جنرل پرویز مشرف کو آئین میں ترامیم کا اختیار دیا گیا تھا ۔
موجودہ چیف جسٹس پاکستان نے عدلیہ کی کارکردگی میں بہتری کے لیے قائم کمیٹی ازسر نو تشکیل دی ہے جس کے سربراہ سینئر جج منصور علی شاہ ہوں گے اور یہ کمیٹی ریسرچ کے لیے مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی بھی متعارف کرائے گی۔ اس کمیٹی میں سپریم کورٹ نے جدید ٹیکنالوجی کے ماہر ججز کو شامل کیا گیا ہے۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے ماضی میں ہونے والی عدالتی غلطیوں کا اعتراف بھی کیا ہے اور ملک میں پہلی بار سپریم کورٹ کی کارروائی ٹی وی چینلز پر دکھائی گئی ہے اور مزید تاریخی فیصلوں کا بھی انتظار ہے۔
غلط اور جانبدارانہ جو فیصلے ماضی میں دیے جا چکے ہیں ان پر نظر ثانی کے مطالبے نامور وکیلوں نے کیے ہیں اور بعض اصول پرست ممتاز وکلا نے بھی اعتراف کیا ہے کہ ماضی میں جانبدارانہ سیاسی فیصلوں میں قانون کے برعکس جو سزائیں ہوئیں، ان سے عدلیہ متنازع اور فیصلے سوالیہ نشان بنے۔