پاکستان
سیدھے راستے پر چلنے کے بجائے ہم گرداب میں کیوں پھنس گئے؟
چند سال پہلے اشتیاق ہوا کہ کیوں نہ تقسیم ہند اور قیام پاکستان کے ابتدائی ایام کے اخبارات کا مطالعہ کیا جائے اور دیکھا جائے کہ ان ایام میں سیاسی رہنما کس نوعیت کے بیانات دیتے تھے۔
یہ اشتیاق مجھے نیشنل آرکائیوز اسلام آباد لے گیا۔جب میں نے اس حوالے سے تحقیق شروع کی تو پتہ چلا کہ نیشنل آرکائیوز میں دو سو سال پرانے اخبارات، رسائل اور جرائد موجود ہیں۔
میں نے یکم اگست 1947 سے 31 دسمبر 1947 کے اخبارات پر طائرانہ نظر ڈالی۔ ایک خبر پر میری نظر پڑی۔یہ خبر اس وقت کے ایک وفاقی وزیر کا بیان تھا۔ '' کوئی غلط فہمی میں نہ رہے، پاکستان ایک سیکولر ریاست ہوگی''۔ ایک اور خبر پر نظر پڑی۔ ''راولپنڈی ہوٹل میں ڈانس پارٹی کا اہتمام''۔ ورق پلٹتے گئے، نامانوس خبریں اداریے بیانات اشتہارات سامنے آتے گئے۔
''قائد اعظم عید کی نماز کے لیے عید گاہ دیر سے پہنچے، جماعت کھڑی ہو چکی تھی''۔ قائد اعظم نے قیام پاکستان کی مناسبت سے کراچی کے ایک چرچ کی دعائیہ تقریب میں شرکت کی۔ مرکزی حکومت کے وزراء کے لیے لاکھوں روپے کے ایرانی قالین خریدے گئے۔
کراچی میں 12 سالہ بچے سے چھ چشمے (عینک) برآمد ،کوئی جواز پیش نہ کر سکا، پولیس نے گرفتار کر لیا۔سائیکل سواروں کو ٹریفک کی خلاف ورزی پر جرمانے عائد کیے گئے۔ کامونکی، گوجرانوالہ کے قریب انڈیا جانے والی ٹرین پر حملہ ،دو سو غیرمسلم مارے گئے۔
دونوں اطراف سے اقلیتوں کی آمد اور روانگی جاری، آتش زنی کے واقعات ۔ٹکٹ بلیک میں فروخت کرنے پر سینما ہال سیل کر دیا گیا۔ قائداعظم سے مشائخ عظام کی ملاقات،مشائخ کو لائسنس کے بغیر اسلحہ رکھنے کی اجازت دینے کا مطالبہ۔قائداعظم کی ہندوستانی مسلمانوں کو ہدایت کی کہ وہ ماضی کو بھول جائیں اور انڈیا کے وفادار شہریوں کی طرح رہیں۔
صوبہ سرحد کے وزیر اعلیٰ کا بیان کہ گزشتہ حکومت نے صوبے کو دیوالیہ کر دیا، مر کزی حکومت سے امداد کی اپیل۔وزیر اعظم لیاقت علی خان سے منسوب بیان کہ یہ بدقسمتی کی بات ہوگی کہ اگر پاکستان مسلم ریاست اور ہندوستان ہندو ریاست بن گئے۔ انڈین وزیراعظم نہرو کا بیان کہ ہم کبھی ہندوستان کو ہندو ریاست نہیں بننے دیں گے۔
سندھ حکومت کا اشتہار برائے ملازمت، تعلیم میٹرک پاس یا فیل تاہم میٹرک پاس کو ترجیح دی جائے گی۔ ایک مضمون کا عنوان تھا۔ خواتین میک اپ کیسے کریں۔ایک اور مضمون کا موضوع تھا، صوبہ سرحد کوئی نام نہیں، اس کا نام تبدیل کیا جائے۔ صوبہ سرحد اور صوبہ پنجاب کو تقسیم کر کے چھوٹے صوبے بنائے جائیں۔
میں نے درج بالا تحریر حال ہی میں شایع ہونے والی ایک تحقیقی کتاب۔''پاکستان'' کے پیش لفظ سے اخذ کی ہے۔ اس کتاب کے مصنف محمد سعید صاحب نے کمال عرق ریزی محنت اور جذبہ حب الوطنی سے شر سار ہو کر یہ کتاب تحریر کی ہے۔ انھوں نے کتاب کا متن چار اخبارات ڈان،ڈیلی گزٹ، پاکستان ٹایمز،اور سول اینڈ ملٹری گزٹ کی خبروں سے اخذ کیاہے۔
564 صفحات پر مشتمل یہ کتاب بظاہر چار اخبارات کی چھوٹی چھوٹی خبروں کے ذخیرے کا نام ہے، لیکن یہ خبریں اس دور کی سوچ کو کھل کر بیان کرتی ہیں۔راقم نے خبروں کے ساتھ ساتھ ان چار ماہ کے دوران اخبارات میں شایع ہونے والے اشتہارات اور مضامین کے عنوانات کو بھی اکھٹا کیا ہے جنھیں پڑھ کر حیرانی ہوتی ہے کہ قیام پاکستان کے وقت کی سوچ اور اب کی سوچ میں کتنا فرق ہے۔
یہ خبریں ہم سب کے لیے بہت سے سوالات لیے ہوئے ہیں۔ کتاب کا مواد دعوت فکر دیتا ہے کہ ہم غور کریں کہ کب اور کس طرح ہم میں قوت برداشت ختم ہوئی اور ہم نے اپنے ذہن کیوں بند کرلیے۔ یوں تو آزادی ہند اور قیام پاکستان کے حالات و واقعات پر بہت سی کتابیں تحریر ہو چکی ہیں۔لیکن ابتدائی پانچ ماہ کی خبروں اور مضامین کو ایک جگہ جمع کر کے سعید صاحب نے تاریخی کام کیا ہے۔
یہ چھوٹی چھوٹی خبریں اپنے اندر کئی سوالات، تجسس اور ایسی اشکالات لیے ہوئے تھیں کہ آج 74 سال گزرنے کے بعد یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ من حیث القوم ہم نے قیام پاکستان کی روح اور منزل کو حاصل کرنے کے عمل میں کہاں اپنا کانٹا تبدیل کیا۔
سیدھے راستے پر چلنے کے بجائے ہم گرداب میں کیوں پھنس گئے؟ اجتماعی منزل کو حاصل کرنے کی راہ چھوڑ کر گم گشتہ پگڈنڈیوں کی مسافر کیسے بنے؟ اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کے لیے ہمیں ان تاریخی اوراق کی چھان بین کرنی چاہیے کیونکہ کسی بھی قوم کا ماضی اس کے مستقبل کی نشاندہی کرتا ہے۔
کتاب کے مصنف محمد سعید صاحب نے نہ صرف یہ کہ موا د کو اکٹھا کیا ہے بلکہ اس کی تدوین بھی کی اور انھیں ایک کتابی شکل دے کر ایک اہم علمی کام کیا ہے۔ان کی یہ کاوش پاکستان سے ان کی محبت اور حب الوطنی کی ایک مثال ہے۔
محمد سعید صاحب نے مغربی اور مشرقی پاکستان کے تعلیمی اداروں میں تعلیم بھی حاصل کی ۔انھوں نے مقابلے کے امتحان میں کامیابی کے بعد کسٹمز کے محکمے میں اعلیٰ عہدوں پر خدمات انجام دیں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد انھوں نے پندرہ روزہ دی ورلڈ ٹریڈ ریویو کے نام سے ایک اخبار بھی جاری کیا۔ یہ کتاب ہر صاحب علم اور فکر پاکستانی کے لیے تحقیق کی جہتیں کھولتی ہے۔
یہ اشتیاق مجھے نیشنل آرکائیوز اسلام آباد لے گیا۔جب میں نے اس حوالے سے تحقیق شروع کی تو پتہ چلا کہ نیشنل آرکائیوز میں دو سو سال پرانے اخبارات، رسائل اور جرائد موجود ہیں۔
میں نے یکم اگست 1947 سے 31 دسمبر 1947 کے اخبارات پر طائرانہ نظر ڈالی۔ ایک خبر پر میری نظر پڑی۔یہ خبر اس وقت کے ایک وفاقی وزیر کا بیان تھا۔ '' کوئی غلط فہمی میں نہ رہے، پاکستان ایک سیکولر ریاست ہوگی''۔ ایک اور خبر پر نظر پڑی۔ ''راولپنڈی ہوٹل میں ڈانس پارٹی کا اہتمام''۔ ورق پلٹتے گئے، نامانوس خبریں اداریے بیانات اشتہارات سامنے آتے گئے۔
''قائد اعظم عید کی نماز کے لیے عید گاہ دیر سے پہنچے، جماعت کھڑی ہو چکی تھی''۔ قائد اعظم نے قیام پاکستان کی مناسبت سے کراچی کے ایک چرچ کی دعائیہ تقریب میں شرکت کی۔ مرکزی حکومت کے وزراء کے لیے لاکھوں روپے کے ایرانی قالین خریدے گئے۔
کراچی میں 12 سالہ بچے سے چھ چشمے (عینک) برآمد ،کوئی جواز پیش نہ کر سکا، پولیس نے گرفتار کر لیا۔سائیکل سواروں کو ٹریفک کی خلاف ورزی پر جرمانے عائد کیے گئے۔ کامونکی، گوجرانوالہ کے قریب انڈیا جانے والی ٹرین پر حملہ ،دو سو غیرمسلم مارے گئے۔
دونوں اطراف سے اقلیتوں کی آمد اور روانگی جاری، آتش زنی کے واقعات ۔ٹکٹ بلیک میں فروخت کرنے پر سینما ہال سیل کر دیا گیا۔ قائداعظم سے مشائخ عظام کی ملاقات،مشائخ کو لائسنس کے بغیر اسلحہ رکھنے کی اجازت دینے کا مطالبہ۔قائداعظم کی ہندوستانی مسلمانوں کو ہدایت کی کہ وہ ماضی کو بھول جائیں اور انڈیا کے وفادار شہریوں کی طرح رہیں۔
صوبہ سرحد کے وزیر اعلیٰ کا بیان کہ گزشتہ حکومت نے صوبے کو دیوالیہ کر دیا، مر کزی حکومت سے امداد کی اپیل۔وزیر اعظم لیاقت علی خان سے منسوب بیان کہ یہ بدقسمتی کی بات ہوگی کہ اگر پاکستان مسلم ریاست اور ہندوستان ہندو ریاست بن گئے۔ انڈین وزیراعظم نہرو کا بیان کہ ہم کبھی ہندوستان کو ہندو ریاست نہیں بننے دیں گے۔
سندھ حکومت کا اشتہار برائے ملازمت، تعلیم میٹرک پاس یا فیل تاہم میٹرک پاس کو ترجیح دی جائے گی۔ ایک مضمون کا عنوان تھا۔ خواتین میک اپ کیسے کریں۔ایک اور مضمون کا موضوع تھا، صوبہ سرحد کوئی نام نہیں، اس کا نام تبدیل کیا جائے۔ صوبہ سرحد اور صوبہ پنجاب کو تقسیم کر کے چھوٹے صوبے بنائے جائیں۔
میں نے درج بالا تحریر حال ہی میں شایع ہونے والی ایک تحقیقی کتاب۔''پاکستان'' کے پیش لفظ سے اخذ کی ہے۔ اس کتاب کے مصنف محمد سعید صاحب نے کمال عرق ریزی محنت اور جذبہ حب الوطنی سے شر سار ہو کر یہ کتاب تحریر کی ہے۔ انھوں نے کتاب کا متن چار اخبارات ڈان،ڈیلی گزٹ، پاکستان ٹایمز،اور سول اینڈ ملٹری گزٹ کی خبروں سے اخذ کیاہے۔
564 صفحات پر مشتمل یہ کتاب بظاہر چار اخبارات کی چھوٹی چھوٹی خبروں کے ذخیرے کا نام ہے، لیکن یہ خبریں اس دور کی سوچ کو کھل کر بیان کرتی ہیں۔راقم نے خبروں کے ساتھ ساتھ ان چار ماہ کے دوران اخبارات میں شایع ہونے والے اشتہارات اور مضامین کے عنوانات کو بھی اکھٹا کیا ہے جنھیں پڑھ کر حیرانی ہوتی ہے کہ قیام پاکستان کے وقت کی سوچ اور اب کی سوچ میں کتنا فرق ہے۔
یہ خبریں ہم سب کے لیے بہت سے سوالات لیے ہوئے ہیں۔ کتاب کا مواد دعوت فکر دیتا ہے کہ ہم غور کریں کہ کب اور کس طرح ہم میں قوت برداشت ختم ہوئی اور ہم نے اپنے ذہن کیوں بند کرلیے۔ یوں تو آزادی ہند اور قیام پاکستان کے حالات و واقعات پر بہت سی کتابیں تحریر ہو چکی ہیں۔لیکن ابتدائی پانچ ماہ کی خبروں اور مضامین کو ایک جگہ جمع کر کے سعید صاحب نے تاریخی کام کیا ہے۔
یہ چھوٹی چھوٹی خبریں اپنے اندر کئی سوالات، تجسس اور ایسی اشکالات لیے ہوئے تھیں کہ آج 74 سال گزرنے کے بعد یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ من حیث القوم ہم نے قیام پاکستان کی روح اور منزل کو حاصل کرنے کے عمل میں کہاں اپنا کانٹا تبدیل کیا۔
سیدھے راستے پر چلنے کے بجائے ہم گرداب میں کیوں پھنس گئے؟ اجتماعی منزل کو حاصل کرنے کی راہ چھوڑ کر گم گشتہ پگڈنڈیوں کی مسافر کیسے بنے؟ اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کے لیے ہمیں ان تاریخی اوراق کی چھان بین کرنی چاہیے کیونکہ کسی بھی قوم کا ماضی اس کے مستقبل کی نشاندہی کرتا ہے۔
کتاب کے مصنف محمد سعید صاحب نے نہ صرف یہ کہ موا د کو اکٹھا کیا ہے بلکہ اس کی تدوین بھی کی اور انھیں ایک کتابی شکل دے کر ایک اہم علمی کام کیا ہے۔ان کی یہ کاوش پاکستان سے ان کی محبت اور حب الوطنی کی ایک مثال ہے۔
محمد سعید صاحب نے مغربی اور مشرقی پاکستان کے تعلیمی اداروں میں تعلیم بھی حاصل کی ۔انھوں نے مقابلے کے امتحان میں کامیابی کے بعد کسٹمز کے محکمے میں اعلیٰ عہدوں پر خدمات انجام دیں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد انھوں نے پندرہ روزہ دی ورلڈ ٹریڈ ریویو کے نام سے ایک اخبار بھی جاری کیا۔ یہ کتاب ہر صاحب علم اور فکر پاکستانی کے لیے تحقیق کی جہتیں کھولتی ہے۔