’’کاہے کو بیاہی بدیس۔۔۔‘‘

 لڑکیوں کا معاشی استحکام بھی ضروری ہے    

لڑکیوں کا معاشی استحکام بھی ضروری ہے ۔ فوٹو : فائل

تم لائی ہی کیا ہو۔۔۔؟ تمھارا سامان تو ایک کمرے میں پورا آجائے گا۔۔۔!

نکلو میرے گھر سے۔۔۔! یہ میرا گھر ہے۔۔۔! تمھیں تو میں پال رہا ہوں۔۔۔! میں ہی کھلا رہا ہوں۔۔۔! تمھاری اپنی حیثیت اور اوقات ہی کیا ہے۔۔۔؟ تمھارے گھر والوں کی بساط کیا ہے۔۔۔ انھوں نے تم کو دیا ہی کیا ہے۔۔۔؟ تم تو ہو ہی لالچی۔۔۔! تم نے لالچ میں مجھ سے شادی کی۔۔۔! تمھاری تو شکل ہی ایسی ہے۔۔۔! میرے بغیر تم کو پوچھے گا ہی کون۔۔۔؟ گھر سے نکال دوں تو معاشرے میں تمھاری عزت ہی کیا رہ جائے گی۔۔۔؟ گھر والے بھی نہ پوچھیں وغیرہ وغیرہ۔

ایسی بہت سے مغلظات اور نازیبا باتیں جو ہمارے معاشرے کی کئی بیاہی لڑکیاں اٹھتے بیٹھے، سوتے جاگتے، دن رات اور سالہا سال سنتی اور برداشت کرتی اپنی پوری زندگی گزار دیتی ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ اولاد کی پیدائش سے پہلے سے ہی ماں باپ ان کے مستقبل کے خواب بْننا شروع کر دیتے ہیں۔ بہترین کھلونوں سے جدید ترین کمپیوٹر ٹیکنالوجی اور اچھی تربیت سے اعلیٰ تعلیم اور پھر ان کی شادی تک۔۔۔ زندگی کا شاید ہی کوئی ایسا پہلو ہو جس کے لیے والدین اپنی اولاد کے بارے میں خواب نہ سجاتے ہوں۔ جب کہ بیٹیوں کی پیدائش پر زیادہ تر والدین اپنی لاڈلی کی فقط شادی ہی کے بارے میں سوچنا شروع کر دیتے ہیں۔

یوں بھی اِن دنوں پاکستان میں شادیوں کا 'موسم' شروع ہو چکا ہے۔ دور جدید میں تیزی سے بدلتے ہوئے حالات اور ماحول کے باعث والدین کی کوشش ہوتی ہے کہ اپنی زندگی میں ہی جلد بیٹی کی شادی کے اس اہم فریضے سے سبک دوش ہو جائیں۔ اچھے رشتے اور جلدی شادی کے لیے ماں باپ اپنی بیٹی کی شادی پر لاکھوں کروڑوں روپیہ پانی کی طرح خرچ کر دیتے ہیں۔

یہ سوچے بغیر کہ اگر وہ شادی کے بہ جائے اپنی بیٹی کی اچھی تعلیم پر خرچ کریں تو زیادہ بہتر ہے، تاکہ کل کلاں کو 'اچھے' رشتے کے نام پراگر اس کو بے حس شوہر مل جائے تو کم از کم کھڑے رہنے کو اس کے پاؤں کے نیچے زمین موجود ہو۔ ماں باپ بیٹیوں کی شادی پر خرچ کرنے کے لیے پیسہ جمع کرنے کے بہ جائے اگر یہ پیسہ ان کی اعلیٰ تعلیم اور تربیت پر خرچ کریں، تو یقیناً لڑکی کا حال اور مستقبل دونوں محفوظ ہو سکتے ہیں۔

شادی لڑکی کی ہو یا لڑکے لیے ماں باپ کے لیے ایک اہم فریضہ اور ذمہ داری ہے اور یقیناً والدین اس اہم فریضے کو نہ صرف ذمے داری، بلکہ پوری ایمان داری اور خوش اسلوبی کے ساتھ ادا بھی کرتے ہیں، لیکن نئے رشتے، نئی ذمہ داریاں، اجنبی کرداراور نیا ماحول لڑکی کے مستقبل کا رخ کس طرف موڑ دیں اس کا تعین آنے والا وقت اور شادی کے بعد کے حالات اور معاملات کرتے ہیں۔


دنیا کے مختلف ممالک میں لڑکی اس سمجھ کے ساتھ اپنے شریک حیات کا تعین خود کرتی ہیں کہ ان کو اپنے شریک حیات میں کیا چاہیے؟ اس کا مزاج کیسا ہو، اس کی تعلیم کیا ہو؟ اس کا کیریئر کیا ہے؟ اس کا کردار کیا ہے؟ جب کہ ہمارے جیسے معاشرے میں لڑکی کی شادی اس لیے کی جاتی ہے، کیوں کہ 'شادی کرنا ضروری ہے۔'

یہ مسئلہ صرف ترقی پذیر ممالک کا نہیں کہ جہاں تین میں سے ایک لڑکی کی شادی اٹھارہ سال کی عمر سے پہلے کر دی جاتی ہے بلکہ کم عمری کی شادی شمالی امریکا اور یورپ میں بھی ایک بڑا چیلنج ہے۔ دنیا بھر میں یہ تعداد تقریباً سات سو ملین لڑکیوں کے برابر ہے۔ ہر روز تقریباً انتالیس ہزار لڑکیوں کو شادی کے لیے مجبور کیا جاتا ہے۔

لڑکی کی شادی اگر صرف اس لیے کر دی جائے کہ 'شادی کرنا ضروری ہے' تو یقیناً یہ بہت سے نئے مسائل کو جنم دیتی ہے، جس کے نتائج تباہ کن بھی ہو سکتے ہیں۔ مختلف معاملات اور امور کا تعین کیے بغیر کی گئی شادی نہ صرف لڑکی کی ذہنی اور نفسیاتی صحت متاثر کرتی ہے، بلکہ ایسی شادی ان کی زندگی کی رنگ ماند کرنے کے ساتھ ساتھ زندگی کو ان کے لیے سمجھوتا بنا دیتی ہے۔

ان میں بہت سی لڑکیاں ایسی بھی جو ساری زندگی گھریلو تشدد کا شکار رہتی ہیں اور خود کو بے اختیار تصور کرتی ہیں۔ اس کا ایک اہم پہلو یہ بھی کہ لڑکیاں تنہائی کے احساسات، افسردہ مزاج جیسے مسائل کا شکار ہو جاتی ہیں، یہاں تک کہ اپنے گھر والوں اور قریبی دوستوں پر اعتماد کرنا بھی ان کے لیے مشکل ہو جاتا ہے۔

یقیناً بیٹیوں کی شادی والدین کے لیے اہم فریضہ اور ذمہ داری ہے، لیکن اس اہم فریضے کی ادائیگی کے لیے والدین جب خود کو ذہنی، مالی اور جذباتی طور پر تیار کر رہے ہوتے ہیں، تب بیٹیوں کو بھی علمی، شعوری اور مالی طور پر اتنا مضبوط بنانے کی ضرورت کہ وہ زندگی کے نئے چیلنجوں اور بدلتے رشتوں کے ساتھ اپنی فلاح و بہبود کے بارے میں آگاہی کے ساتھ فیصلے کر سکیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ تعلیم انسان کو شعور دیتی ہے، لیکن والدین اور اساتذہ کو چاہئیے کہ رسمی تعلیم کے ساتھ ساتھ بچیوں کو زندگی کے دیگر معاملات فہم و فراست کے ساتھ حل کرنا سکھائیں۔ ان کو معاشی طور پراس طرح مضبوط کریں کہ آنے والی زندگی میں بیٹیاں معاشی طور پر کسی کی محتاج نہ ہوں۔

یہاں یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ لڑکیوں کی معاشی خود مختاری کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ گھر سے نکل کر نوکری یا جاب کرنے والی لڑکی ہی معاشی طور پر خود مختار ہو گی، بلکہ لڑکیوں کو ان کی دل چسپی کا کوئی ہنر سکھا کر، کسی بھی قسم کا کائی یافت کا ذریعہ بنا کر ان کی معاشی خود مختاری کے سفر کا آغاز کیا جا سکتا ہے۔

کیا آپ کی کوئی بیٹی ہے؟ تو پھر اس کی خوشیوں کے لیے صرف شادی کا انتظار چھوڑیں اور چھوٹی عمر سے ہی اپنی بیٹی کے ساتھ خوشی کے اظہار کا جشن منائیں۔ ان کو خود اعتماد بنائیں۔ زندگی کے ہر میدان میں ہر کام یابی پراپنی بیٹی کی حوصلہ افزائی کریں کہ وہ ایک مستند انسان ہیں۔ ان کی منفرد شخصیت پر زور دینے کا واحد طریقہ صرف تعلیم ہی نہیں ہے، بلکہ ان کی دل چسپیوں کو دل سے سپورٹ کریں، چاہے وہ کسی بھی شعبہ ہائے زندگی میں دل چسپی رکھتی ہوں۔
Load Next Story