ادا ہوتے ہی لفظ پرائے ہو جاتے ہیں
تحمل مزاجی آپ کی شخصیت کو پروقار بناتی ہے
انسان کا کہا گیا کوئی بھی بڑا بول، تکبر اور فخر کو ظاہر کرتا ہے جو کسی طرح، کسی کے لیے بھی مناسب و موزوں نہیں، کبر میں مبتلا ہو کر ایسی بات زبان سے نکل جانا معمولی چیز ہے، جو پکڑ میں بھی آجاتی ہے۔ جس کے بعد پچھتاوا بھی مقدر میں لکھ دیا جاتا ہے۔
جس طرح کمان سے نکلا تیر واپس نہیں آ سکتا، ٹھیک اسی طرح زبان سے نکلے ہوئے حروف بھی واپس لوٹائے نہیں جا سکتے۔ یوں و یہ بری لت صنف قوی میں بھی بدرجہ اتم پائی جاتی ہے، لیکن جلدی زبان کھولنے کے لیے بدنام ہم صنف نازک اس سلسلے میں زیادہ مورودِ الزام ٹھیرائی جاتی ہیں، اور بہت سی جگہوں پر ایسا کچھ غلط بھی نہیں لگتا کہ ہم خواتین جذباتی اور نرم دل جو ٹھیریں۔ بس اسی جذباتی پن میں ہم خواتین اکثر لفظوں کی بے احتیاطی کا شکار ہو جاتی ہیں۔
یہ بات پھر جان لیجیے کہ لفظوں کا زبان سے نکلنے سے پہلے تولنا ایک ضروری امر ہے۔ جس سے حد درجہ بے پروائی برتی جاتی ہے۔ کبھی کبھی اپنے گھمنڈ اور غرور میں وہ سب بھی کہہ دیا جاتا ہے، جس سے نہ صرف اپنی ذات متاثر ہو سکتی ہے، بلکہ دوسروں کی زندگیوں میں بھی مد و جزر رونما ہو سکتے ہیں۔
پچھلے وقتوں میں سیانے جو بھی چھوٹی بڑی حکایتیں لکھ گئے یا جو بھی سبق آموز ضربِ المثل کہہ گئے وہ گویا گوہر نایاب بن گیا، اگرچہ ایسی کئی مثالیں ہیں، لیکن ہم یہاں زبان کے جوہر کی ہی بات کریں گے، کیوں کہ ہم خواتین اس معاملے میں بھی ایک علاحدہ ہی شناخت رکھتی ہیں، ہر ایک کے بارے میں قیمتی خیالات، ہر لمحہ ہمارے پاس محفوظ ہوتے ہیں۔
جن کو ''نشر'' کرنے میں اکثر کوتاہی بھی نہیں برتی جاتی، دوسرے کی ذات، کردار و گفتار پر اپنے زریں و نادر اظہار میں کنجوسی بھی نہیں کی جاتی، اور یہ اسی موقع، بے موقع گوہر افشانی کا نتیجہ ہوتا ہے کہ ہماری زبان وہ بول بھی بول دیتی ہے، جس سے کبر کی بو اور فخر کی باس نہ صرف سنائی دیتی ہے، بلکہ اپنے ان دیکھے وجود کے باوجود، محسوس بھی ہو رہی ہوتی ہے۔ اس کے پیچھے وہ تکلیف دہ رویے بھی ہوتے ہیں، جو غرور و نخوت کے پردے میں لپٹے ہوئے ہوتے ہیں اور جس کی آنچ دھیرے دھیرے جلا بھی دیتی ہے۔
ہمیں اپنے اوپر، اپنی قابلیتوں پر، صلاحیتوں پر اور قائدانہ اہلیت پر بڑا ناز ہوتا ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ میں جو چاہوں وہ کر لوں گی، بلکہ کیوں نہیں کر سکتی؟ میرے لیے یا میری حیثیت کے حوالے سے بھلا اس میں کیا مشکل؟ لیکن اس کا پتا تو جب چلتا ہے، جب ہم اپنی ان تمام صلاحیتوں و اہلیتوں کے باوجود بے اختیار ہو جاتے ہیں، ہمارے سامنے ہی ہمارے جملے، فقرے، ہمارے فراخ دلی سے کہے گئے الفاظ کی مالا، ٹوٹ ٹوٹ کر بکھر رہی ہوتی ہے اور ہم لاچاری و بے بسی کی بے جان تصویر بنے دیکھ رہے ہوتے ہیں۔
یاد رکھیے، ہر چیز پر اختیار صرف ایک اسی واحد ذات کا ہے، جو جب چاہے، جو چاہے کر سکتی ہے، گفتگو میں ناز، اپنا گھمنڈ یا غرور انسان کو کبھی کبھی ایسے شرمندگی و ندامت میں بھی مبتلا کر دیتا ہے، جس کا تصور بھی محال محسوس ہو، اور مداوا بھی ممکن نہیں، پھر ہمیں اپنی بے اختیاری کا یقین ہو جاتا ہے اور اس مجبوری کا بھی۔
اپنی زبان پر کنٹرول کے ساتھ ایک اور اہم پہلو، ظاہر و باطن کا یک ساں ہونا بھی ضروری ہے، خواتین اپنی شخصیت پر کئی پردے گرا لیتی ہیں، نقاب در نقاب، اگر یہ نقاب اپنی کمزوریوں و کوتاہیوں کو اوجھل رکھنے کے لیے ہوں، کہ میں ایک بہتر چہرہ دوسروں کو دکھاؤں، اور ساتھ اپنی خامیوں پر قابو بھی پائے کی کوشش جاری رکھوں، تو یہ احسن اقدام ٹھیرا، لیکن ہم تو وقتی مشقت کر کے اپنا سارا زور ظاہری رکھ رکھاؤ، یا دکھاوے کو دیا جاتا ہے۔ اپنی غلطیوں پر پردہ ڈال کر دوسروں کو وہ دکھانے کی کوشش ہوتی ہے، جو سرے سے موجود ہی نہیں، جو ایک منفی عنصر ہے۔
ویسے تو ظاہری و باطنی خوب صورتی دونوں کی اہمیت سے انکار نہیں، لیکن تا دیر قائم رہنے والی جاذبیت وہی ہے، جو ہمارے اخلاق سے منعکس ہوتی ہے۔ جس پر کوئی نقاب نہیں چڑھایا جاسکتا، جو خوش بو کی طرح خود بخود فضاؤں میں اڑتی پھرتی ہے، کیوں کہ باطنی خوب صورتی کو قید نہیں کیا جا سکتا، اس کی مہک چہار اطراف پھیلتی ہے۔
الغرض زبان کی حفاظت اور ساتھ باطنی صفائی، دل ودماغ کی بھی اور روحانی بھی، شخصیت کو ایک خاص تاثر و حسن دیتی ہے، یاد رکھیں، ہم اپنے ارد گرد سے متاثر ہو رہے ہوتے ہیں، سوچ سمجھ کر بھی اور بغیر سمجھے بھی، ہمارے چاروں طرف کیا ہو رہا ہے اور ہم خود اپنے اپنے اطراف میں اپنی شخصیت کے ذریعے کیا اثرات مرتب کر رہے ہیں، اس کے نتائج بڑے معنیٰ خیز ہوتے ہیں، جو نہ صرف زندگی میں بلکہ اس کے بعد بھی جاری و ساری رہتے ہیں۔
لہٰذا اپنے وہی اثرات صدقہ جاریہ بنائیں، جس کا پھل پائیدار ہو، وہ رویہ اختیار کریں، جو امر ہو جائے، دلوں میں بسنا، بہت بڑی کام یابی ہے اور اس کے لیے اپنی ہر عادت و اطوار پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اگر اعلیٰ و ارفع مقام مطلوب ہے تو، اس کے لیے محنت بھی پھر اسی معیار کی چاہیے۔