بچے ’سماجی ذرایع اِبلاغ‘ کو نہیں اپنے سماج کو فوقیت دیں
اولاد کو اپنے گردوپیش سے جوڑنے والی قوت والدین کے سوا اور کوئی نہیں ہے
'سوشل میڈیا' یا 'سماجی ذرایع اِبلاغ کے اس دور میں بچوں کی تربیت پر توجہ دینا بہت ضروری ہوگیا ہے۔
والدین کی اہم ترین ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنے بچوں کو کس عمر میں انٹرنیٹ اور اسمارٹ فون تک رسائی دینے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ پھر رسائی سے پہلے اور رسائی کے دوران ان کی مناسب بنیادی تربیت اور نگرانی بھی نہایت ضروری ہے۔
دیکھنے میں آیا ہے کہ ہمارے نوجوانوں کی بڑی تعداد اپنے قیمتی وقت کا ایک بہت بڑا حصہ سوشل میڈیا کی نذر کر رہے ہیں۔ جس سے نہ صرف ان کی ذہنی نشوونما اور اخلاق پر گہرے منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں بلکہ ان کی جسمانی صحت بالخصوص بینائی بھی متاثر ہو رہی ہے۔
در حقیقت ہماری نوجوان نسل سوشل میڈیا سے وہ کچھ حاصل نہیں کرپارہی جو کچھ حاصل کیا جانا چاہیے۔ انٹرنیٹ کی ہزاروں ایپلیکیشنز ہیں، جنھیں آپ اپنی تعلیم کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔
ہمارے معاشرہ میں بے چینی اور بد امنی کی بہت سی وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ سوشل میڈیا کا غلط اور ناجائز استعمال ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اگر ترقی یافتہ اور مغربی معاشروں میں کم عمری میں کچے ذہنوں کا تحفظ لازمی سمجھا جارہا ہے تو پھر ضروری ہے کہ پاکستان میں بھی فوری طور پر اس حوالے سے قانون سازی بھی کی جائے۔ کم سن بچوں کی طرف سے انٹرنیٹ کا استعمال ایک انتہائی نازک معاملہ ہے۔
اکثر گھروں میں بچے انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں اور چند لمحوں میں آپ کے سامنے جو چاہیں سامنے آ جاتا ہے' لہٰذا اس ضمن میں والدین کو احتیاطی اقدامات اٹھانے چاہئیں۔
اس مقصد کے لیے وہ کمپیوٹر سسٹم پر بچوں کے لیے الگ ''یوزر'' بنا لیں۔ کنٹرول پینل میں موجود ''پیرنٹل کنٹرول'' کے ذریعے بھی آپ بچوں کو صرف مقررہ وقت پر کمپیوٹر استعمال کرنے کا عادی بنا سکتے ہیں۔ پیرنٹل کنٹرول کے ذریعے آپ بچوں کو محدود پیمانے پر گیم کھیلنے کی اجازت دے سکتے ہیں۔ غیر اخلاقی ویب سائٹس کو بھی فلٹرنگ کے ذریعے بلاک کیا جا سکتا ہے۔
جب بچے ایک مخصوص عمر تک پہنچ جاتے ہیں تو یا تو ان کے دوست احباب انھیں طریقے بتا دیتے ہیں یا وہ خود ان پابندیوں سے بچنے کا راستہ ڈھونڈ لیتے ہیں۔ آپ چاہے جس مرضی ٹیکنالوجی کا استعمال کر لیں، مگر آپ کے بچے پھر بھی اس مواد کو دیکھ لیں گے جس سے آپ انھیں بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس مقصد کے لیے والدین اور اساتذہ کو ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونے کی ضرورت ہے۔
آج ہمارے معاشرے کا المیہ ہے کہ ہم گھر کے سوا تقریباً ہر جگہ ملن ساری، خوش طبعی اور ہمدرد ی سے پیش آتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں، لیکن جوں ہی گھر میں قدم رکھتے ہیں، ساری اخلاقیات، تہذیب اور بزلہ سنجی ہوا ہوئی جاتی ہے۔
اس رویے کو ہمیں خیر باد کہنا ہو گا، کیوں کہ ہمارے اس رویہ سے ہمارے بچوں میں اعتماد کی کمی، احساس محرومی اور بزدلی جیسی بیماریاں جنم لیتی ہیں اور وہ 'سوشل میڈیا' پر ایسے دوستوں کو تلاش کرتے ہیں، جو ان کے دکھ، ان کے جذبات اور ان کے خیالات کو سمجھ سکیں اور انھیں دوستیوں سے جہاں بہت سے فوائد ہوتے ہیں وہیں کچھ مسائل بھی جنم لیتے ہیں۔
اس لیے بچوں سے دوستی رکھیں، انہیں اعتماد دیں، ان سے سوشل میڈیا کے حوالے سے سیکھیں ان کے دوستوں کی پوسٹیں دیکھیں اور اچھے دوستوں کی پوسٹس پر اپنی رائے دیجیے۔ مختلف خیالات پر بات چیت کیجیے، نئے رجحانات پر بات کیجیے، تا کہ وہ ہر بات آپ سے کہہ سکیں اور آپ سے کترائیں نہیں، آپ سے ڈرے ڈرے سہمے سہمے نہ رہیں بلکہ آپ ان پر اور وہ آپ پر اعتماد کر سکیں۔
فیملی کے ساتھ بیٹھنے گپ شپ کرنے کا بھی وقت متعین کریں، تاکہ پڑھائی کے ساتھ ساتھ بچے گھر کے افراد سے بھی مانوس ہوں۔ بہت سے خاندان ایسے دیکھے گئے ہیں، جو اپنے بچوں کو کسی اچھے اسکول سے تعلیم دلوا رہے ہوتے ہیں اور بھاری بھرکم فیسیں ادا کرتے ہیں۔
وہ چاہتے ہیں بچے ہر وقت پڑھتے ہی رہیں یہاں تک کہ بچوں اور گھر میں موجود بزرگوں میں تعلیم دیوار چین بن گئی ہے۔ والدین خاندان کی تقریبات پر بچوں کو نہیں لے کر جاتے جس کی وجہ سے بچے انٹرنیٹ پر اپنا سماجی دائرہ بنانے پر مجبور ہو جاتے ہیں اور پھر ان کی زندگی میں اسی کو اہمیت حاصل ہوجاتی ہے۔
والدین کی اہم ترین ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنے بچوں کو کس عمر میں انٹرنیٹ اور اسمارٹ فون تک رسائی دینے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ پھر رسائی سے پہلے اور رسائی کے دوران ان کی مناسب بنیادی تربیت اور نگرانی بھی نہایت ضروری ہے۔
دیکھنے میں آیا ہے کہ ہمارے نوجوانوں کی بڑی تعداد اپنے قیمتی وقت کا ایک بہت بڑا حصہ سوشل میڈیا کی نذر کر رہے ہیں۔ جس سے نہ صرف ان کی ذہنی نشوونما اور اخلاق پر گہرے منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں بلکہ ان کی جسمانی صحت بالخصوص بینائی بھی متاثر ہو رہی ہے۔
در حقیقت ہماری نوجوان نسل سوشل میڈیا سے وہ کچھ حاصل نہیں کرپارہی جو کچھ حاصل کیا جانا چاہیے۔ انٹرنیٹ کی ہزاروں ایپلیکیشنز ہیں، جنھیں آپ اپنی تعلیم کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔
ہمارے معاشرہ میں بے چینی اور بد امنی کی بہت سی وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ سوشل میڈیا کا غلط اور ناجائز استعمال ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اگر ترقی یافتہ اور مغربی معاشروں میں کم عمری میں کچے ذہنوں کا تحفظ لازمی سمجھا جارہا ہے تو پھر ضروری ہے کہ پاکستان میں بھی فوری طور پر اس حوالے سے قانون سازی بھی کی جائے۔ کم سن بچوں کی طرف سے انٹرنیٹ کا استعمال ایک انتہائی نازک معاملہ ہے۔
اکثر گھروں میں بچے انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں اور چند لمحوں میں آپ کے سامنے جو چاہیں سامنے آ جاتا ہے' لہٰذا اس ضمن میں والدین کو احتیاطی اقدامات اٹھانے چاہئیں۔
اس مقصد کے لیے وہ کمپیوٹر سسٹم پر بچوں کے لیے الگ ''یوزر'' بنا لیں۔ کنٹرول پینل میں موجود ''پیرنٹل کنٹرول'' کے ذریعے بھی آپ بچوں کو صرف مقررہ وقت پر کمپیوٹر استعمال کرنے کا عادی بنا سکتے ہیں۔ پیرنٹل کنٹرول کے ذریعے آپ بچوں کو محدود پیمانے پر گیم کھیلنے کی اجازت دے سکتے ہیں۔ غیر اخلاقی ویب سائٹس کو بھی فلٹرنگ کے ذریعے بلاک کیا جا سکتا ہے۔
جب بچے ایک مخصوص عمر تک پہنچ جاتے ہیں تو یا تو ان کے دوست احباب انھیں طریقے بتا دیتے ہیں یا وہ خود ان پابندیوں سے بچنے کا راستہ ڈھونڈ لیتے ہیں۔ آپ چاہے جس مرضی ٹیکنالوجی کا استعمال کر لیں، مگر آپ کے بچے پھر بھی اس مواد کو دیکھ لیں گے جس سے آپ انھیں بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس مقصد کے لیے والدین اور اساتذہ کو ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونے کی ضرورت ہے۔
آج ہمارے معاشرے کا المیہ ہے کہ ہم گھر کے سوا تقریباً ہر جگہ ملن ساری، خوش طبعی اور ہمدرد ی سے پیش آتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں، لیکن جوں ہی گھر میں قدم رکھتے ہیں، ساری اخلاقیات، تہذیب اور بزلہ سنجی ہوا ہوئی جاتی ہے۔
اس رویے کو ہمیں خیر باد کہنا ہو گا، کیوں کہ ہمارے اس رویہ سے ہمارے بچوں میں اعتماد کی کمی، احساس محرومی اور بزدلی جیسی بیماریاں جنم لیتی ہیں اور وہ 'سوشل میڈیا' پر ایسے دوستوں کو تلاش کرتے ہیں، جو ان کے دکھ، ان کے جذبات اور ان کے خیالات کو سمجھ سکیں اور انھیں دوستیوں سے جہاں بہت سے فوائد ہوتے ہیں وہیں کچھ مسائل بھی جنم لیتے ہیں۔
اس لیے بچوں سے دوستی رکھیں، انہیں اعتماد دیں، ان سے سوشل میڈیا کے حوالے سے سیکھیں ان کے دوستوں کی پوسٹیں دیکھیں اور اچھے دوستوں کی پوسٹس پر اپنی رائے دیجیے۔ مختلف خیالات پر بات چیت کیجیے، نئے رجحانات پر بات کیجیے، تا کہ وہ ہر بات آپ سے کہہ سکیں اور آپ سے کترائیں نہیں، آپ سے ڈرے ڈرے سہمے سہمے نہ رہیں بلکہ آپ ان پر اور وہ آپ پر اعتماد کر سکیں۔
فیملی کے ساتھ بیٹھنے گپ شپ کرنے کا بھی وقت متعین کریں، تاکہ پڑھائی کے ساتھ ساتھ بچے گھر کے افراد سے بھی مانوس ہوں۔ بہت سے خاندان ایسے دیکھے گئے ہیں، جو اپنے بچوں کو کسی اچھے اسکول سے تعلیم دلوا رہے ہوتے ہیں اور بھاری بھرکم فیسیں ادا کرتے ہیں۔
وہ چاہتے ہیں بچے ہر وقت پڑھتے ہی رہیں یہاں تک کہ بچوں اور گھر میں موجود بزرگوں میں تعلیم دیوار چین بن گئی ہے۔ والدین خاندان کی تقریبات پر بچوں کو نہیں لے کر جاتے جس کی وجہ سے بچے انٹرنیٹ پر اپنا سماجی دائرہ بنانے پر مجبور ہو جاتے ہیں اور پھر ان کی زندگی میں اسی کو اہمیت حاصل ہوجاتی ہے۔