’’اجی سنیے۔۔۔‘‘ سے ’’میاں صاحب۔۔۔‘‘ تک
اپنے جیون سا تھی سے اندازِ تخاطب آخر کیوں کر ہو۔۔۔
آج بھی مرد، عورت کی اور عورت، مرد کی ایک فطری ضرورت ہے اور نکاح کے خوب صورت بندھن ایک ان جان مرد اور عورت کو میاں بیوی میں تبدیل کر دیتے ہیں اور ان کا ایک اٹوٹ بندھن قائم ہو جاتا ہے، مگر اس اٹوٹ بندھن کی بنیاد پیارو محبت، بھروسے، اعتماد اور عزت پر رکھی جائے تو یہ بندھن قبر تک اچھی طرح ساتھ نبھاتا ہے، ورنہ تو راستے ہی میں ساتھ چُھوٹنے لگتے ہیں، کیوں کہ اس بندھن میں سب سے اہم عزت ہوتی ہے۔
ایک مرد بھی محبت کے بغیر رہ جاتا ہے، مگر عزت کے نہیں اور ایک عورت بھی عزت کو اپنا حق سمجھتی ہے اور چاہتی ہے کہ اسے عزت دی جائے۔
اس بندھن میں بے پناہ خوبیاں ہوتی ہیں، وہ شخص جو کبھی کسی کا بھی خیال رکھنا پسند نہیں کرتا، اسے اس بات کا اندازہ ہو جاتا ہے کہ اب کوئی ہے، جس کا خیال رکھنا اس کی باقاعدہ اور ایک بنیادی ذمہ داری ہے، جسے دوستوں کے ساتھ وقت گزارنا پسند ہوتا ہے، وہ سوچتا ہے کہ اسے وقت پر گھر جانا چاہیے، کوئی ہے، جو گھر میں اس کا انتظار کر رہا ہے۔
دوسری طرف وہ لڑکی، جسے صبح سویرے اٹھنا دنیا اور گھر کے کا کام کاج کرنا مشکل ترین کام لگتا ہے، وہ اب شوہر کی خاطر بہ خوشی ہر چیز کی روادار ہو جاتی ہے، کیوں کہ اسے بھی یہ پتا ہوتا ہے کہ وہ شخص صبح سے شام تک اپنے کام پر یا دفتر میں صرف اسی کی خاطر خود کو کھپا رہا ہے، تاکہ اسے اچھی زندگی دے سکے اور اسے سرد و گرم سے بچا سکے۔
اسے اس بات کا پتا ہوتا ہے کہ وہ شخص جو پہلے دفتر سے گھر واپسی میں باہر ہی کھا پی کر پیٹ بھر لیتا تھا، اب گھر پہنچنے کا انتظار کرتا ہے، تاکہ اس کا ہاتھ کا بنا کھانا کھا سکے۔ وہ لڑکی جو پہلے سجنے سنورنے کو اس طرح شاید اہمیت نہیں دیتی تھی، جس طرح اب دیتی ہے، کیوں کہ اسے دیکھ کر کوئی پورے حق سے اس کی تعریف کرتا ہے۔ جواب میں وہ بھی اس کی رائے اور خواہش کو خود کی چاہ سے زیادہ مان دیتی ہے۔
اس رشتے کی سب سے اَن مول بات جو لڑکیاں اپنی دادیوں اور نانیوں سے سنتی ہوئی آرہی ہوتی ہیں، پہلے تو ناسمجھی یا اپنے بچپنے میں ان کا خوب مذاق اڑاتی رہیں، ان کو گئے وقتوں اور پرانی سوچ کی حامل خواتین کہتی تھی، مگر جب خود اس رشتے میں جڑتی ہے، تو پھر ان ساری باتوں کو مان جاتی ہے۔
اسے اندازہ ہوجاتا ہے کہ کچھ چیزیں رہتی دنیا تک کے لیے ان مٹ ہیں، ایسے ہی میاں بیوی کے ناتے میں بنیادی نوعیت کی باتیں ویسی ہی رہیں گی۔
یہی ہے ازدواج کا ایک دوسرے کو عزت دینے کا انداز، انھیں سرکا تاج اور 'مجازی خدا' ماننے کا عملی طریقہ اور اپنے شریک حیات کے لیے اندازِ تخاطب کتنا عجیب لگتا تھا، جب دادی، دادا کو 'شاہد کے ابا' کہہ کربلاتی تھیں اور پھر اماں، ابا کو 'میاں جی' کہہ کر مخاطب کرتی ہیں۔ وہ خوب مذاق اڑاتی کہ یہ کہہ کر تو آج اسکو ل میں مِس نے ہمیں اردو گرامر میں 'کنیت' پڑھائی تھی، یعنی کہ جس میںوالد یا والدہ کو بچے کے نام سے جوڑ کرمخاطب کیا جاتا ہے، جیسے 'رابعہ کی ماں!' سچ میں مجھے تو ہنسی ہی آگئی۔
آپ بھی تو دادا کو ایسے ہی انداز میں بلاتی ہیں اور پھر جب امی، ابو کو 'میاں صاحب' کہہ کر بلاتیں، تو کان میں کہا جاتا ہے، ابو کا ایک عدد نام بھی ہے، اپنی شادی سے پہلے ایسے طرز تخاطب کا خوب مذاق اڑایا جاتا رہا۔ سوچا جاتا ہے کہ بھئی شوہر سے جب تک 'دوستی' نہ ہو، زندگی اچھی نہیں گزرتی اور دوستوں کو تو ان کے نام ہی سے بلایا جاتا ہے۔
یہ کیا کہ 'میاں جی'، 'میاں صاحب' یا 'سنیے' وغیرہ کہہ کر بلایا جائے، پھر ہوتا کچھ یوں ہے کہ نام سے مخاطب کر کے دوستی قائم کر لی جاتی ہے، مگر پھر چند دن بعد ہی احساس ہو جاتا ہے کہ یہ کچھ ٹھیک نہیں لگ رہا۔ ان کے نام سے مخاطب کرنے سے یوں محسوس ہوتا ہے، جیسے ان کی عزت نہیں کی جا رہی۔ اس لیے پھر میں نے اپنی اماں کی طرح انھیں 'میاں جی' کہنا شروع کر دیا جاتا ہے اور پھر سہیلیوں میں بھی یہی بتایا جاتا ہے۔
ایک مرد بھی محبت کے بغیر رہ جاتا ہے، مگر عزت کے نہیں اور ایک عورت بھی عزت کو اپنا حق سمجھتی ہے اور چاہتی ہے کہ اسے عزت دی جائے۔
اس بندھن میں بے پناہ خوبیاں ہوتی ہیں، وہ شخص جو کبھی کسی کا بھی خیال رکھنا پسند نہیں کرتا، اسے اس بات کا اندازہ ہو جاتا ہے کہ اب کوئی ہے، جس کا خیال رکھنا اس کی باقاعدہ اور ایک بنیادی ذمہ داری ہے، جسے دوستوں کے ساتھ وقت گزارنا پسند ہوتا ہے، وہ سوچتا ہے کہ اسے وقت پر گھر جانا چاہیے، کوئی ہے، جو گھر میں اس کا انتظار کر رہا ہے۔
دوسری طرف وہ لڑکی، جسے صبح سویرے اٹھنا دنیا اور گھر کے کا کام کاج کرنا مشکل ترین کام لگتا ہے، وہ اب شوہر کی خاطر بہ خوشی ہر چیز کی روادار ہو جاتی ہے، کیوں کہ اسے بھی یہ پتا ہوتا ہے کہ وہ شخص صبح سے شام تک اپنے کام پر یا دفتر میں صرف اسی کی خاطر خود کو کھپا رہا ہے، تاکہ اسے اچھی زندگی دے سکے اور اسے سرد و گرم سے بچا سکے۔
اسے اس بات کا پتا ہوتا ہے کہ وہ شخص جو پہلے دفتر سے گھر واپسی میں باہر ہی کھا پی کر پیٹ بھر لیتا تھا، اب گھر پہنچنے کا انتظار کرتا ہے، تاکہ اس کا ہاتھ کا بنا کھانا کھا سکے۔ وہ لڑکی جو پہلے سجنے سنورنے کو اس طرح شاید اہمیت نہیں دیتی تھی، جس طرح اب دیتی ہے، کیوں کہ اسے دیکھ کر کوئی پورے حق سے اس کی تعریف کرتا ہے۔ جواب میں وہ بھی اس کی رائے اور خواہش کو خود کی چاہ سے زیادہ مان دیتی ہے۔
اس رشتے کی سب سے اَن مول بات جو لڑکیاں اپنی دادیوں اور نانیوں سے سنتی ہوئی آرہی ہوتی ہیں، پہلے تو ناسمجھی یا اپنے بچپنے میں ان کا خوب مذاق اڑاتی رہیں، ان کو گئے وقتوں اور پرانی سوچ کی حامل خواتین کہتی تھی، مگر جب خود اس رشتے میں جڑتی ہے، تو پھر ان ساری باتوں کو مان جاتی ہے۔
اسے اندازہ ہوجاتا ہے کہ کچھ چیزیں رہتی دنیا تک کے لیے ان مٹ ہیں، ایسے ہی میاں بیوی کے ناتے میں بنیادی نوعیت کی باتیں ویسی ہی رہیں گی۔
یہی ہے ازدواج کا ایک دوسرے کو عزت دینے کا انداز، انھیں سرکا تاج اور 'مجازی خدا' ماننے کا عملی طریقہ اور اپنے شریک حیات کے لیے اندازِ تخاطب کتنا عجیب لگتا تھا، جب دادی، دادا کو 'شاہد کے ابا' کہہ کربلاتی تھیں اور پھر اماں، ابا کو 'میاں جی' کہہ کر مخاطب کرتی ہیں۔ وہ خوب مذاق اڑاتی کہ یہ کہہ کر تو آج اسکو ل میں مِس نے ہمیں اردو گرامر میں 'کنیت' پڑھائی تھی، یعنی کہ جس میںوالد یا والدہ کو بچے کے نام سے جوڑ کرمخاطب کیا جاتا ہے، جیسے 'رابعہ کی ماں!' سچ میں مجھے تو ہنسی ہی آگئی۔
آپ بھی تو دادا کو ایسے ہی انداز میں بلاتی ہیں اور پھر جب امی، ابو کو 'میاں صاحب' کہہ کر بلاتیں، تو کان میں کہا جاتا ہے، ابو کا ایک عدد نام بھی ہے، اپنی شادی سے پہلے ایسے طرز تخاطب کا خوب مذاق اڑایا جاتا رہا۔ سوچا جاتا ہے کہ بھئی شوہر سے جب تک 'دوستی' نہ ہو، زندگی اچھی نہیں گزرتی اور دوستوں کو تو ان کے نام ہی سے بلایا جاتا ہے۔
یہ کیا کہ 'میاں جی'، 'میاں صاحب' یا 'سنیے' وغیرہ کہہ کر بلایا جائے، پھر ہوتا کچھ یوں ہے کہ نام سے مخاطب کر کے دوستی قائم کر لی جاتی ہے، مگر پھر چند دن بعد ہی احساس ہو جاتا ہے کہ یہ کچھ ٹھیک نہیں لگ رہا۔ ان کے نام سے مخاطب کرنے سے یوں محسوس ہوتا ہے، جیسے ان کی عزت نہیں کی جا رہی۔ اس لیے پھر میں نے اپنی اماں کی طرح انھیں 'میاں جی' کہنا شروع کر دیا جاتا ہے اور پھر سہیلیوں میں بھی یہی بتایا جاتا ہے۔