شوہر نے بیوی کے قاتل پولیس اہلکاروں کو معاف کردیا
مقدمہ قتل بالسبب کی دفعہ کے تحت پولیس اہلکاروں کے خلاف درج
نیو کراچی میں پولیس اورڈاکوؤں کے درمیان گولیوں کی زد میں آکرجاں بحق ہونے والی2 بچوں کی ماں کو آہوں اورسسکیوں میں سپردخاک کردیا گیا۔
پولیس نے خاتون کے جاں بحق ہونے کا مقدمہ قتل با السبب کی دفعہ کے تحت پولیس اہلکاروں کے خلاف درج کرلیا۔مقتولہ کے شوہرنے واقعے میں ملوث پولیس اہلکاروں کومعاف کردیا۔
پولیس اورڈاکوؤں کے درمیان فائرنگ کے تبادلے میں گولیوں کے زد میں آکر23 سالہ خاتون حمیدہ زوجہ محمد رفیق جاں بحق ہوگئی تھی۔
بلال کالونی پولیس نے واقعے کامقدمہ مقتولہ خاتون کے شوہرمحمد رفیق کی مدعیت میں پولیس اہلکاروں کےخلاف درج کرلیا۔
محمد رفیق اپنی بیوی حمیدہ کے ہمراہ بچوں کو ڈاکٹر کے پاس سے دوا دلاکر واپس آرہا تھاجب وہ نیوکراچی سیکٹر فائیو ڈی پہنچا توفائرنگ کی آواز سنائی دی اچانک موٹرسائیکل سوار دو افراد بڑی تیزی سے قریب سے گزرےان کے پیچھے پولیس لگی ہوئی تھی ان کے گزرنے کے بعد جیسے ہی رفیق نے موٹر سائیکل چلانے کی کوشش کی تو اس کی بیوی زمین پرگرگئی۔
اس نے فوری موٹر سائیکل سے اترکربیوی کودیکھا تواس کے خون بہہ رہا تھا۔ وہ فوراً اپنی بیوی کورکشے میں گودھرا اسپتال لے کرپہنچا جہاں بیوی اسپتال میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑگئی۔
مقتولہ خاتون کے شوہر محمد رفیق نے میڈیا کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے بتایاکہ موٹرسائیکل سوار سامنے سے گزرے،ان کے پیچھے آنے والے پولیس اہلکاروں نے فائرنگ کی جس سے گولی میری بیوی کولگی ،ڈاکوؤں کی جانب سےکوئی گولی نہیں چلائی گئی، پولیس اہلکاروں نے فائرنگ کی توڈاکوآگے جا کر گرگئے جن میں سے ایک ڈکیت کو پولیس نے پکڑ لیا۔
مقتولہ خاتون کے شوہر کا کہنا تھا کہ پولیس کی جانب سے تعاون کیا گیا اور ایس ایچ او کا کہنا تھا کہ اگرآپ نے ایف آئی آر کٹوانی ہے تو کٹوا سکتے ہیں ،ملزمان آپ کے سامنے کھڑے ہیں، پولیس نے فائرنگ کرنے والے اہلکاروں کو لاک اپ کردیا تھا۔
انھوں نے کہا کہ فائرنگ کرنے والےپولیس اہلکار بھی کسی کےبچے ہیں ، ان کے اہلخانہ نے ہم سے معافی مانگی ہے، پولیس اہلکاروں کے بھی چھوٹے چھوٹے بچے ہیں ۔ وہ پولیس اہلکاروں کو معاف کرتے ہیں لیکن ساتھ ہی حکومت اور اعلیٰ پولیس افسران سے مطالبہ کرتے ہیں اناڑی پولیس اہلکار بھرتی نہ کیے جائیں ،رشوت دیکر نوکریاں حاصل کرنے والوں کے خلاف ایکشن لیا جائے، پڑھے لکھے اورتربیت یافتہ نوجوان کو محکمہ پولیس میں بھرتی کیا جائے تاکہ آئندہ ایسا کوئی واقعہ پیش نہ آئے۔
خاتون کی والدہ جوان بیٹی کی ہلاکت پرشدت غم سے نڈھال ہیں۔ والدہ کا کہنا ہے کہ انھوں نے اپنا معاملہ اللہ پر چھوڑ دیا ، پولیس اہلکاروں کو مجرموں کومارنا چاہئے تھا بے گناہ بیٹی کوکیوں مارا؟۔
والدہ کا کہنا ہے کہ پولیس اہلکاروں نے اندھا دھند فائرنگ کی، گولی بیٹٰی کو جا لگی ، مقتولہ بیٹی کے دو چھوٹے چھوٹے بچے ہیں میری بچی بے گناہ تھی، بچے کو ڈاکٹر کو دیکھا کر واپس گھر جا رہی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ پولیس نے بلاوجہ فائرنگ کی،پولیس اہلکاروں نے معافی تلافی کی ہم نے اللہ پر چھوڑ دیا کتنی مائیں اللہ پر چھوڑیں گی جس کے جگر کا ٹکڑا جا رہا ہےوہ ہی جانتا ہے،اللہ انصاف کرنے والا ہے مقتولہ بیٹی سب سے بڑی تھی پانچ سال قبل شادی ہوئی ہے، پولیس اہلکاروں کو مجرموں کومارنا چاہئے تھا بے گناہ کو کیوں مارا ، اللہ اپنا رحم کرے۔
پولیس نے خاتون کے جاں بحق ہونے کا مقدمہ قتل با السبب کی دفعہ کے تحت پولیس اہلکاروں کے خلاف درج کرلیا۔مقتولہ کے شوہرنے واقعے میں ملوث پولیس اہلکاروں کومعاف کردیا۔
پولیس اورڈاکوؤں کے درمیان فائرنگ کے تبادلے میں گولیوں کے زد میں آکر23 سالہ خاتون حمیدہ زوجہ محمد رفیق جاں بحق ہوگئی تھی۔
بلال کالونی پولیس نے واقعے کامقدمہ مقتولہ خاتون کے شوہرمحمد رفیق کی مدعیت میں پولیس اہلکاروں کےخلاف درج کرلیا۔
محمد رفیق اپنی بیوی حمیدہ کے ہمراہ بچوں کو ڈاکٹر کے پاس سے دوا دلاکر واپس آرہا تھاجب وہ نیوکراچی سیکٹر فائیو ڈی پہنچا توفائرنگ کی آواز سنائی دی اچانک موٹرسائیکل سوار دو افراد بڑی تیزی سے قریب سے گزرےان کے پیچھے پولیس لگی ہوئی تھی ان کے گزرنے کے بعد جیسے ہی رفیق نے موٹر سائیکل چلانے کی کوشش کی تو اس کی بیوی زمین پرگرگئی۔
اس نے فوری موٹر سائیکل سے اترکربیوی کودیکھا تواس کے خون بہہ رہا تھا۔ وہ فوراً اپنی بیوی کورکشے میں گودھرا اسپتال لے کرپہنچا جہاں بیوی اسپتال میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑگئی۔
مقتولہ خاتون کے شوہر محمد رفیق نے میڈیا کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے بتایاکہ موٹرسائیکل سوار سامنے سے گزرے،ان کے پیچھے آنے والے پولیس اہلکاروں نے فائرنگ کی جس سے گولی میری بیوی کولگی ،ڈاکوؤں کی جانب سےکوئی گولی نہیں چلائی گئی، پولیس اہلکاروں نے فائرنگ کی توڈاکوآگے جا کر گرگئے جن میں سے ایک ڈکیت کو پولیس نے پکڑ لیا۔
مقتولہ خاتون کے شوہر کا کہنا تھا کہ پولیس کی جانب سے تعاون کیا گیا اور ایس ایچ او کا کہنا تھا کہ اگرآپ نے ایف آئی آر کٹوانی ہے تو کٹوا سکتے ہیں ،ملزمان آپ کے سامنے کھڑے ہیں، پولیس نے فائرنگ کرنے والے اہلکاروں کو لاک اپ کردیا تھا۔
انھوں نے کہا کہ فائرنگ کرنے والےپولیس اہلکار بھی کسی کےبچے ہیں ، ان کے اہلخانہ نے ہم سے معافی مانگی ہے، پولیس اہلکاروں کے بھی چھوٹے چھوٹے بچے ہیں ۔ وہ پولیس اہلکاروں کو معاف کرتے ہیں لیکن ساتھ ہی حکومت اور اعلیٰ پولیس افسران سے مطالبہ کرتے ہیں اناڑی پولیس اہلکار بھرتی نہ کیے جائیں ،رشوت دیکر نوکریاں حاصل کرنے والوں کے خلاف ایکشن لیا جائے، پڑھے لکھے اورتربیت یافتہ نوجوان کو محکمہ پولیس میں بھرتی کیا جائے تاکہ آئندہ ایسا کوئی واقعہ پیش نہ آئے۔
خاتون کی والدہ جوان بیٹی کی ہلاکت پرشدت غم سے نڈھال ہیں۔ والدہ کا کہنا ہے کہ انھوں نے اپنا معاملہ اللہ پر چھوڑ دیا ، پولیس اہلکاروں کو مجرموں کومارنا چاہئے تھا بے گناہ بیٹی کوکیوں مارا؟۔
والدہ کا کہنا ہے کہ پولیس اہلکاروں نے اندھا دھند فائرنگ کی، گولی بیٹٰی کو جا لگی ، مقتولہ بیٹی کے دو چھوٹے چھوٹے بچے ہیں میری بچی بے گناہ تھی، بچے کو ڈاکٹر کو دیکھا کر واپس گھر جا رہی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ پولیس نے بلاوجہ فائرنگ کی،پولیس اہلکاروں نے معافی تلافی کی ہم نے اللہ پر چھوڑ دیا کتنی مائیں اللہ پر چھوڑیں گی جس کے جگر کا ٹکڑا جا رہا ہےوہ ہی جانتا ہے،اللہ انصاف کرنے والا ہے مقتولہ بیٹی سب سے بڑی تھی پانچ سال قبل شادی ہوئی ہے، پولیس اہلکاروں کو مجرموں کومارنا چاہئے تھا بے گناہ کو کیوں مارا ، اللہ اپنا رحم کرے۔