پاکستان کے ایک سابق وزیرِاعظم کی دلچسپ باتیں آخری قسط

میں نے دفتر کی میز کاغذات سے ہمیشہ خالی رکھی ہے، کیونکہ میں جب تک اپنا کام مکمل نہ کرلوں مجھے نیند نہیں آتی

zulfiqarcheema55@gmail.com

ملک کے ایک قابل اور محب وطن وزیراعظم بیرسٹر فیروز خان نون کی خودنوشت میں سے کچھ اور دلچسپ باتیں بھی قارئین کے ساتھ شیئر کرنا چاہوں گا۔ ایک جگہ وہ لکھتے ہیں ''میں نے دفتر کی میز کاغذات سے ہمیشہ خالی رکھی ہے، کیونکہ میں جب تک اپنا کام مکمل نہ کرلوں مجھے نیند نہیں آتی۔ جب میں وزیراعظم تھا تو ایک سیکریٹری (یہ غالباً الطاف گوہر تھے) نے مجھے تاثر دیا کہ ان کے خیال میں میں ہر کام جلدی مکمل کرنا چاہتا ہوں،اس لیے سیکریٹری کو عجلت پر مجبور کرتا ہوں۔''میں نے اس سے کہا کہ بچپن کا ایک واقعہ میں آپ کو سناؤں گا، میں سات سال کا بچہ تھا کہ میری والدہ نے میری قمیص کے لیے ایک کپڑا خریدا ، میں کپڑا لے کر درزی کے پاس پہنچا، سارا کام اس سے چھڑوایا اور اس وقت تک اس کے پاس بیٹھا رہا جب تک اس نے میری قمیص تیار نہ کردی۔ یہ میری فطرت ہے۔''

میں نے اپنے سیکریٹری سے کہا کہ ''قضا و قدر نے ہمیں دنیا میں اتنی مہلت نہیں دی کہ ہم اپنے تمام مقاصد کی تکمیل کرلیں اور یہ تو آپ کو معلوم ہی ہے کہ ایشیائی ملکوں میں وزراء لباس کے فیشن سے بھی تیز رفتاری کے ساتھ بدلتے ہیں۔ وہ کہانی شاید آپ نے سنی ہو کہ ایک آدمی لندن کی آکسفورڈ اسٹریٹ میں بھاگا جارہا تھا۔ ایک دوست نے بھاگنے کی وجہ پوچھی تو جواب ملا کہ ''یہ میری بیوی کا نیا لباس ہے اور مجھے ڈر ہے کہ جب تک گھر پہنچوں فیشن بدل نہ چکا ہو۔''

ایک اور جگہ لکھتے ہیں ''بعض لوگ وقت سے پہلے پیدا ہوجاتے ہیں جس طرح کابل کا بادشاہ امان اللہ، جس کا خیال تھا کہ افغانوں کو سیکنڈ ہینڈ دھاری دار پتلون اور اونچا سا ہیٹ پہنانے سے وہ اپنی قوم کو ماڈرن بنا لیں گے، نتیجہ یہ نکلا کہ اسے ملک چھوڑ کر بھاگنا پڑا۔ امان اللہ کے ذکر سے مجھے ایک لطیفہ یاد آگیا ہے، ایک دن گاؤں کے ایک شخص کو اپیل کے سلسلے میں لاہور ہائیکورٹ جانا پڑا۔ وہاں اسے بیت الخلا جانے کی حاجت ہوئی تو منشی نے اسے چھت کا راستہ دکھادیا۔ دیہاتی نے شہر سے واپسی پر اسی مظاہرے کا اہتمام اپنے گاؤں میں کیا تاکہ وقت کی بچت ہو۔ گرمی کا موسم تھا اور ہمسائے کی عورتیں اپنے مکانوں کی چھتوں پر بیٹھی ہوئی تھیں۔ انھوں نے اس کی بے حیائی پر گالیوں کی بوچھاڑ کردی، مرد بھی لاٹھیاں لے کر آگئے اور اس کی اچھی طرح پٹائی کردی۔ وہ پٹیوں میں جکڑا ہوا پڑا تھا کہ مزاج پرسی کے لیے ایک دوست آیا اور پوچھنے لگا کہ تو نے یہ حرکت کیوں کی۔

اس نے کہا ''میں تو گاؤں کو لاہور بنانا چاہتا تھا مگر لوگوں کو سمجھ ہی نہیں آتی'' وہ جلسہ جس میں جلیانوالہ باغ کے قتلِ عام کا بدلہ لینے کے لیے ایک سکھ نے اُس وقت کے گورنر پنجاب مائیکل او ڈائر پر قاتلانہ حملہ کیا تھا اس میں بھی نون صاحب موجود تھے، ان کی زبانی سن لیجیے:

''میرے لندن کے دورانِ قیام ایک بار کوئی عام جلسہ ہوا جس کی صدارت وزیرِہند لارڈزٹ لینڈ کر رہے تھے۔ میں جلسہ میں کسی قدر تاخیر سے پہنچا اور دروازے کے قریب کھڑا ہونے کی جگہ ملی جلسے کے اختتام پر کچھ اہم شخصتیں ڈائس کے قریب اکٹھی ہوگئیں تھیں۔ اتنے میں کسی شخص نے سر مائیکل اوڈائر پر گولی چلادی۔ سرمائیکل 1919 کے مارشل لا کے زمانے میں پنجاب کے لیفٹیننٹ گورنر رہ چکے تھے جب کہ امرتسر میں جنرل ڈائر کے تحت ہندوستانی باشندوں پر اندھا دھند گولیاں برسائی گئی تھیں جس کے نتیجے میں سیکڑوں لوگ ہلاک ہوگئے تھے۔

سر مائیکل کا قاتل نکل کر بھاگنا چاہتا تھا کہ ایک انگریز اس کے پیچھے دوڑا اور جست لگا کر اس کی گردن اپنے دونوں بازوؤں میں جکڑلی۔ مجرم نے اپنا نام مسلمانوں کا سا بتایا۔ مقصد یہ تھا کہ مسلمانوں کی بدنامی ہو لیکن اسکارٹ لینڈ یارڈ کو جلد ہی معلوم ہوگیا کہ وہ ایک سکھ ہے اور سرمائیکل کو قتل کرنے کے ارادے سے برطانیہ آیا تھا۔ سر مائیکل کی جیب میں سگریٹ کیس تھااور اسی کی بدولت وہ بچ گئے تھے۔'' فیروز خان نون بھی دوسرے یونینسٹوں کی طرح قیامِ پاکستان کے قریب جاکر مسلم لیگ میں شامل ہوئے، اس بارے میں لکھتے ہیں:

''میں غوروفکر کے بعد اس نتیجے پر پہنچا کہ جب تک مسلمانوں کو اپنے علاقے میں اقتدار حاصل نہیں ہوگا، اس وقت تک ہم مسلمانوں کو کٹر ہندوؤں کے زیراثر نیچ ذات کے لوگوں کی حیثیت حاصل رہے گی، جیسا کہ آج کل ہندوستان میں چار کروڑ مسلمانوں کا حال ہے۔'' تقسیم کے وقت ہونے والے فسادات اور برطانوی فوج کے کردار کے بارے میں لکھتے ہیں:

''برطانوی فوج پچاس ساٹھ ہزار کے درمیان تھی لیکن ہندوستانی خزانے پر اس کے مصارف کا بوجھ بہت زیادہ تھا کیونکہ ایک انگریز سپاہی پر ایک ہندوستانی سپاہی کے مقابلے میں پانچ گنا زیادہ روپیہ خرچ ہوتا تھا۔ برطانیہ میں ان کی تربیت کے مصارف بھی ہندوستانی خزانے سے وصول کیے جاتے تھے۔


1947کے فسادات میں متعدد انگریز افسروں کا رویہ بڑا عیارانہ اور تلخ تھا۔ بعض نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ہمیں ملک سے نکالنے کا مزہ آخر تم نے چکھ لیا؟ لیکن مجھے اس امر میں کوئی شک نہیں کہ برطانیہ کی حکومت کو اندازہ نہ تھا کہ اس قدر بڑے پیمانے پر کشت وخون کی نوبت آئے گی اور وہ فوج جو ابھی تک ان کے ماتحت تھی اس درجہ بے بس ثابت ہوگی۔

انھیں اگر اندازہ ہوتا تو اقتدار کی منتقلی میں کم از کم ایک سال کی مہلت لیتے اور اس پر سختی سے اصرار کرتے۔ اس عجلت کا الزام ماؤنٹ بیٹن کو دیا جاتا ہے اور لوگ کہتے ہیں کہ وہ ہندوؤں کو خوش کرنے اور آزاد ہندوستان کا پہلا گورنر جنرل بننے کا شرف حاصل کرنے کے لیے بے تاب تھے۔''

''اصل سفاکانہ کارروائی تو یہ ہوئی کہ بھاری فوجی سازوسامان میں پاکستان کا حصہ طیارے، گولہ بارود کے ذخائر، فوجی گاڑیاں، اسلحہ ساز فیکٹریاں سب ہندوستان کے قبضے میں چلی گئیں۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ انگریزوں نے سبھی کچھ ہندؤں کو سونپ دیا اور خود ملک چھوڑ کر چلے گئے۔''علاقوں کی تقسیم میں انگریزوں کی بددیانتی کی کہانی اس طرح لکھتے ہیں:

''غیر رسمی تقسیم کی رو سے پٹھانکوٹ کا علاقہ پاکستان میں آتا تھا۔ اس طرح کشمیر میں ہندوستان فوج کے داخلے کا راستہ مسدود ہوجاتا تھا۔ لیکن ان دنوں یہ افواہ گشت کررہی تھی کہ حد بندی کا فیصلہ لاہور میں کیا جاچکا ہے ۔کمیشن کے ایک جج نے مجھے بتایا کہ ان کے اجلاس میں اس فیصلہ کا کافی الواقع اعلان کردیا گیا تھا لیکن سر سیرل ریڈ کلف جب دہلی پہنچے تو انھوں نے اس فیصلہ میں ترمیم کردی اور پٹھان کوٹ ہندوستان کے حوالے کردیا۔ اس طرح انھوں ہندوستان کو وہ راستہ مہیا کر دیا جس سے ہوکر ہندوستانی فوجیں کشمیر میں داخل ہوئیں اور مسلمانوں کے اس اکثریتی علاقے پر قابض ہوگئیں۔

پاکستانی لوگ ریڈ کلف اور ماؤنٹ بیٹن سے سخت برہم تھے۔ ماؤنٹ بیٹن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اُسی نے ریڈ کلف کو اپنے ابتدائی فیصلے میں ترمیم پر آمادہ کیا تھا۔ یہ بات ہمیشہ میرے دل میں چٹکیاں لیتی رہی کہ ریڈ کلف سے کبھی اپنے فیصلے میں مبینہ ترمیم کا سبب دریافت کروں گا۔

مجھے یہ موقع 1956 کے موسم خزاں میں مل گیا۔ نیو یارک میں مسٹر ایس ٹیس سیلیگمان نے مجھے دن کے کھانے پر مدعو کیا۔ لارڈ کلف بھی اس دعوت پر شریک تھے۔ کھانا ختم ہونے کے بعد میں نے ان سے کہا،''میں ایک سوال دریافت کروں، آپ بُرا تو نہیں مانیں گے؟''انھوں نے جواب دیا ''نہیں'' اور خفیف سا مسکرائے ، غالباً انھوں نے متوقع سوال کو بھانپ لیا تھا۔

میں نے کہا: ''آپ نے گرداس پور کے بارے میں دہلی پہنچنے کے بعد اپنا فیصلہ کیوں بدل دیا تھا؟'' انھوں نے جواب دیا: ''کیونکہ مجھے احساس ہوا کہ دریا بہتر حدبندی کا کام دے گا۔'' ہمارے خیال کے مطابق یہ حد بندی ہندوستان کی ضرورت کے مطابق کی گئی تھی، ریڈ کلف کو حد بندی کے فیصلے کا اعلان دہلی میں 15 اگست ہی کو کردینا چاہیے تھا لیکن اس کا اعلان 16 کو ہوا جب لارڈ کلف کراچی سے جاچکے تھے۔ ظاہر ہے کہ وہ کراچی میں احتجاجی مظاہروں سے ڈر گئے تھے۔ یہ احساسِ جرم نہیں تھا تو اور کیا تھا؟ ۔

''اصل تقسیم کا نقشہ ہمیں اپنے دوست سر فرانسس موڈی کے توسط سے ہاتھ آگیا، سر فرانسس آزاد پاکستان میں پنجاب کے پہلے گورنر تھے، انھوں نے نقشہ مسٹر جناح کو بجھوا دیا۔

اس الزام کے خلاف لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے پاس واقعی کوئی عذر نہیں تھا کہ مسلمانوں نے پاک وہند کے مشترکہ گورنر جنرل کی حیثیت سے جب ان کا نام مسترد کردیا تو انھوں نے ایک مشتعل مزاج بندے کا سا رویہ اختیار کرلیا۔ سر فرانسس موڈی تقسیم سے پہلے کئی برس تک سندھ کے گورنر رہ چکے تھے، مسٹر جناح نے ان کی انصاف پسندی اور لیاقت کا انعام یہ دیا کہ انھیں قیام پاکستان کے بعد پنجاب کا گورنر مقرر کردیا''
Load Next Story