خونِ ناحق 4 اپریل 1979۔12 دسمبر 2023 پہلا حصہ

عوام اپنے منتخب وزیر اعظم کے قاتلوں سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ کیا کبھی وہ بھی طلوع سحر دیکھنے کے حق دار ٹھہریں گے

zahedahina@gmail.com

4 اپریل 1979 کو عالمی ذرایع ابلاغ نے دنیا کو یہ المناک خبر سنائی کہ پاکستان کے پہلے منتخب وزیر اعظم کو عدالت کے ذریعے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ہے۔ ایک اخبار نے لکھا:

اس کی بیوی اور بیٹی کو جنازے میں شرکت کی اجازت نہ ملی۔

چچا زاد بھائی کو ہوائی اڈے پر روک لیا گیا۔

پہلے تو اس کے ساتھی یہ خبر سن کر سن ہوگئے۔ پھر وہ لیاقت پارک میں جمع ہوئے۔

عورتیں سینہ کوبی کررہی تھیں اور گریہ و بکا کا شور تھا۔

دھرتی کے ایک بیٹے نے ملک میں بسنے والے محکوم و مظلوم انسانوں کی آرزوؤں اور امنگوں کو اپنے خون سے رنگ کر نئی معنونیت بخشی تھی اور تاریخ کے صفحوں میں زندہ رہنے کے لیے ایک نہ ختم ہونے والے سفر پر روانہ ہوگیا تھا۔

آپ جب یہ کالم پڑھیں گے تو 12 دسمبر کا دن گزر چکا ہوگا۔ یہ وہ تاریخی دن ہے جب سپریم کورٹ نے 12سال قبل منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت کے خلاف دائر ہونے والے صدارتی ریفرنس کی سماعت کی۔ یہ ریفرنس بھٹو صاحب کی پھانسی کے 32 سال بعد2011 میں اس وقت کے صدر آصف علی زرداری کی جانب سے دائر کیا گیا تھا۔

تاریخ کے تناظر میں دیکھیں تو سچ اور سولی کے درمیان ایک عجیب سا رشتہ ہے۔ زہر کا پیالہ، لکڑی کی صلیب اور پھانسی کا پھندا وہ مرحلے ہیں جن سے گزرنا ان لوگوں کا مقدر ہے جو عشق انسان میں گرفتار ہوں۔ جنھیں سچ پر اصرار ہو جو کسی قاہر کی آنکھ میں خار کی طرح کھٹکتے ہوں اور کسی ظالم کے سینے میں پھانس بن کر چبھتے ہوں۔

اس حوالے سے ایشیا کی حالیہ تاریخ میں ذوالفقار علی بھٹو وہ بڑا نام ہے جس نے سچ اور سولی کے اس رشتے کو پہچانا اور اپنے طبقے سے ناتا توڑ کر ملک کے پسماندہ طبقات سے رشتہ جوڑا اور اس کی سزا میں زندگی سے محروم کر دیا گیا۔ اسے موت کی وادیوں میں دھکیلنے والے اس حقیقت سے ناواقف تھے کہ سولی پر سجنے والے خون کی روشنی نسلوں میں سفر کرتی ہے اور ایسا کم کم ہوتا ہے کہ اس کی ضوفشانی اس کے ساتھ بجھ کر وقت کے دھندلکوں میں گم ہوجائے۔

ذوالفقار علی بھٹو کی زندگی اس عہد کی وہ عوامی داستان ہے جس کے ہم سب ہی کردار ہیں۔ ہم سب نے پاکستان کے اسٹیج پر کھیلے جانے والے اس المیے میں اپنا اپنا کردار ادا کیا ہے۔


ہم میں سے کچھ وہ ہیں جو اس ملک کی آزادی اور یہاں جمہوریت اور انسانیت کی سربلندی کی خاطر پھانسی پر چڑھے، جن کی پیٹھ کوڑوں سے ادھیڑی گئی، جن کی جوانی جیلوں میں گزری اور جنھوں نے اپنے خاندان والوں سمیت ناقابل بیان ذہنی اور جسمانی صدمے سہے۔ اس کے ساتھ ہی ہم میں سے کچھ وہ بھی ہیں جنھوں نے ذاتی مفادات کے لیے اس ملک کے عوام کی تقدیر فروخت کی اور ان دو انتہاؤں کے درمیان عوام ہیں۔

جو طاقت کا سرچشمہ ہیں اقتدار اعلیٰ کے مالک ہیں لیکن جنھیں عوامی نمایندوں کے وسیلے سے اقتدار اعلیٰ سونپنا تو دور کی بات ہے ، عزت کی روٹی بھی نہیں ملتی، جن کے سروں پر سکون کا سائبان نہیں اور جن کے پیروں کے نیچے ان کی اپنی زمین، خود ان کی نہیں۔

یہ لوگ بصیرت اور بصارت سے محروم نہیں، حواس خمسہ فطرت نے انھیں بھی عطا کیے ہیں۔ ان کا بھی جی چاہتا ہے کہ وہ شبنم سے بھیگے ہوئے اور خوشبو سے دھلے ہوئے جذبوں کی پھوار میں بھیگیں، شیریں باتیں سنیں، خواب بنیں اور خواب سوچیں، ان کے بچے بھی کتابیں اٹھا کر اسکول جائیں، یونیورسٹیوں کا رخ کریں۔

وہ بیمار ہوں تو انھیں بھی دوا کی آسائش مہیا ہو ان کے تن پر بھی اجلے کپڑے ہوں اور ان کا پیٹ بھی ہر لمحہ بھوک بھوک نہ چیختا ہو، لیکن ان کے لیے یہ سب کچھ وہ باتیں ہیں جو کبھی ہو نہیں سکتیں، جن کا وہ خواب بھی نہیں دیکھ سکتے۔ ان کے ارد گرد محض بدصورتی ہے، محرومی ہے، بے بسی ہے اور بے کسی ہے۔

4 اپریل کو نمود سحر سے پہلے ذوالفقار علی بھٹو نے جن لوگوں کے لیے اپنی جان دی وہ لوگ ہر وقت کی محاذ آرائی اور جنگ آزمائی سے تنگ آچکے ہیں۔ قوم کی سلامتی اور مذہب کی سربلندی کے لیے اٹھایا جانے والا جھوٹ کا پہاڑ ان سے دیکھا نہیں جاتا۔ وہ تو صرف اتنی سی بات جانتے ہیں کہ جمہوریت میں سانس لینا ان کا حق ہے اور یہ حق کسی کو بھی نہیں پہنچتا کہ وہ وزیر اعظموں اور قومی اسمبلیوں سے کھیلتا رہے۔

عوام اپنے منتخب وزیر اعظم کے قاتلوں سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ کیا کبھی وہ بھی طلوع سحر دیکھنے کے حق دار ٹھہریں گے وہ جاننا چاہتے ہیں کہ پیروں میں جوتے ہوں تو تلوؤں میں راحت کس طرح بچھتی ہے۔ بدن پر ضرورت کے کپڑے ہوں تو سردیاں کتنی سہانی ہوتی ہیں۔ آخر انھیں بھی تو معلوم ہوکہ پیٹ میں بھوک کی انگیٹھی نہ دہکتی ہو اور انتڑیوں کو ضرورت کے چوہے نہ کترتے ہوں تو زندگی کس قدر خواب ناک ہوتی ہے۔

4 اپریل کے دن کے حوالے سے اس ملک کے عوام اس ملک کی تقدیر سے کھیلنے والے فرد واحد کو یاد دلانا چاہتے ہیں کہ انھوں نے کبھی کسی آمر کا دیا ہوا راتب نہیں کھایا ہے۔ اس دھرتی کو سنوارنے اور سینچنے والوں نے کبھی کسی کو ظل اللہ نہیں مانا ہے۔ یہ ملک انھوں نے جمہوریت کے نام پر حاصل کیا تھا اور روز اول سے وہ جمہوری روایات کے تحت زندگی کرنے کا حق مانگتے رہے ہیں۔

ان کا یہ حق بار بار چھینا گیا ہے۔ یہ حق کبھی آمروں نے اپنے قدموں تلے روندا اور کبھی ان کے نمایندے عوام کے اس حق کو چھینتے رہے۔ ان کی آنکھوں سے خواب چھینے گئے اور جمہوری عمل کے راستے میں بارودی سرنگیں بچھائی گئیں۔ انھیں یاد ہے کہ غاصبوں نے ذوالفقار علی بھٹو کو سولی چڑھا کر اور جمہوریت کو قتل کر کے عوام کی آنکھوں سے کبھی خواب ہی نہیں چھینے تھے ان کے بچوں اور آیندہ نسلوں کو بہتر دنوں کی امید سے بھی محروم کردیا تھا۔

ذوالفقار علی بھٹو نے کال کوٹھری میں لکھا تھا۔'' مفاد پرست ٹولہ مجھے اس لیے ناپسند کرتا ہے کہ میں پاکستان کا پہلا اور واحد رہنماہوں جس نے ان کی اجارہ داری کا آہنی حصار توڑا ہے اور عوام سے براہ راست رابطہ کیا ہے۔ وہ چاہتے تھے کہ میں ان کی تقلید کروں۔ میں نے انکار کردیا۔''

بھٹو نے کہا تھا: '' میں اپنی موت کی چھوٹی سے کوٹھری سے وہ جبر اور مجبوریاں دیکھ سکتا ہوں جو اس کیس کے خاتمے کے لیے پیدا کی گئی ہیں۔ یہ جبری عوامل مجھ پر اس طرح واضح ہیں جیسے میں ایک پنوراما دیکھ رہا ہوں۔ میں جب اپنی قید کے دوران مارشل لاء کے خلاف نصرت بھٹو کیس میں پیش ہوا۔ میں نے تب بھی عدلیہ سے کہا تھا کہ مارشل لاء کے نفاذ کے بارے میں فیصلے کے لیے آپ کو ایک وقت کا تعین کر دینا چاہیے اور آئین میں اندھا دھند ترامیم کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔ موجودہ مارشل لاء حکومت اس فیصلے کو بے معنی اور بے اختیار بناکر رکھ دے گی۔ میں نے نصرت بھٹو کیس کے دوران یہ بتایا تھا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ہی سیاسی جماعتوں کو ختم کیا جائے گا۔ سیاسی جماعتیں توڑ دی جائیں گی، آئین کی چھتری نہیں ہوگی تو ملک میں آئین کے خلا کی وجہ سے قومیتوں کے مسائل اٹھ کھڑے ہوں گے۔ پاکستان ایک فیڈریشن تھا لیکن اب یہ فیڈریشن نہیں رہا ہے۔ مصائب کے صندوق کا ڈھکن کھل گیا ہے۔'' (جاری ہے)
Load Next Story