بجلی صارفین کا استحصال
نیپرا کی اس جامع تحقیقاتی رپورٹ ظاہر کرتی ہے کہ تمام کمپنیاں صارفین سے زائد بل وصولی کی ذمے دار ہیں
وفاقی حکومت کے تحت نیشنل الیکٹرک ریگولیٹری اتھارٹی 1997کے ایکٹ کے تحت قائم ہوا۔ نیپرا کا انتظامی بورڈ چاروں صوبوں کے ماہرین اور ایک چیئر پرسن پر مشتمل ہے۔
اس ادارے کا بنیادی فریضہ بجلی کی پیداوار اور تقسیم کے نظام کے لیے قابلِ اعتبار مارکیٹ اور صارفین کے لیے بہتر ماحول فراہم کرنا ہے۔ نیپرا کا ایک بنیادی فریضہ بجلی صارفین اور اداروں کے درمیان توازن برقرار رکھنا ہے، یوں قانون کے تحت نیپرا کی ذمے داری ہے کہ صارفین کے مفادات کا تحفظ کرے۔
نیپرا نے گزشتہ دنوں بجلی تقسیم کار اداروں کے بارے میںرپورٹ افشاء کی تو بجلی صارفین کی شکایات کی تصدیق ہوتی ہے۔ نیپرا کی اس رپورٹ میں ۔ نیپرا کی اس رپورٹ کے سرسری مطالعہ سے ہی ظاہر ہوجاتا ہے کہ بجلی تقسیم کار بعض اداروں نے صارفین سے حقیقی بل سے صد فی صد زیادہ رقم وصول کی۔
نیپرا کی اس جامع تحقیقاتی رپورٹ ظاہر کرتی ہے کہ تمام کمپنیاں صارفین سے زائد بل وصولی کی ذمے دار ہیں، ملک بھر میں ایک کمپنی بھی ایسی نہیں ہے جو صارفین نے زیادہ بل وصول نا کرتی ہو۔ اس سال جون کے مہینے میں بجلی کے نرخ غیر معمولی طور پر بڑھائے گئے ہیں ، چھوٹے صارفین کی قوتِ خرید جواب دے گئی، یوں چند سر پھرے لوگوں نے اوور بلنگ کے خلاف احتجاج شروع کیا، جب صورتحال قابو سے باہر ہونے لگی تو اوور بلنگ کے بارے میں تحقیقات کا فیصلہ کیا گیا۔
یوں ماہرین نے ایک مستند رپورٹ مرتب کی۔ یہ رپورٹ بجلی گھروں کی تقسیم کے نظام کے بغور مطالعہ، اس موضوع پر ہونے والی تحقیق کے جائزہ اور بجلی کی کمپنیوں کے طویل سروس سے حاصل کردہ اعدادوشمارکی بنیاد پر تیار کی گئی ہے۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صارف کے میٹرکی ریڈنگ سے زیادہ رقم وصول کی گئی ہے اور بعض کیسوں کے غور سے جائزے سے ظاہر ہوتا ہے کہ بلوں میں اوور چارجنگ سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت کی گئی ہے۔ اسی طرح صارفین کو طے شدہ مدت کو نظرانداز کر کے بل بھیجے گئے۔
یوں یہ بل 30 دن کی طے شدہ مدت سے زیادہ ہوگئے۔ اس صورتحال کا نقصان ان لاکھوں صارفین کو پہنچا جو ہر ماہ 200 یونٹ سے کم بجلی خرچ کرتے ہیں۔ ملکی قانون کے تحت 30 دن کے اندر بجلی کے میٹر کی ریڈنگ حاصل کرنی چاہیے مگر اس قانون کو مد نظر نہیں رکھا گیا۔
نیپرا کی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پورے ملک 13.76 ملین صارفین کو 30 دن سے زائد ریڈنگ کی بنیاد پر بل بھیجے گئے۔ اسی طرح 3.2 ملین صارفین سے اوور بلنگ کی گئی۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گجرانوالہ میں 1.65 ملین صارفین سے اوور بلنگ کی گئی۔ فیصل آباد کے 1.9 ملین صارفین کو زیادہ بل بھجوائے گئے۔
بجلی کے نظام کو ریگولیٹ کرنے والے سرکاری ادارہ کی اس رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ کے الیکٹرک سمیت تمام کمپنیوں کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے اور عوام کو بجلی کے بلوں میں رعایت دی جائے۔ نیپرا کی یہ رپورٹ گزشتہ جولائی اور اگست کے بلوں سے متعلق ہے۔ سال کے باقی 10مہینوں کے بارے میں کیا صورتحال ہوگی اس کے بارے میں ایک جامع تحقیقات سے ہی حقائق کا علم ہوسکتا ہے۔
بجلی بلز میں اووربلنگ کے تناظر میں افسوس ناک یہ حقیقت ہے کہ کم آمدنی والے کروڑوں صارفین کو استعمال سے زیادہ بجلی کے بل بھیجے گئے۔ جب لاکھوں افراد ان بلوں کی ادائیگی سے قاصر رہے تو ان کے کنکشن منقطع کردیے گئے۔ بنیادی انسانی حقوق میں بجلی کے استعمال کا حق بھی شامل ہے، مگر اس ملک میں ہر سال بجلی کے نرخ بڑھا دیے جاتے ہیں۔ اس کے ساتھ بجلی کی لوڈ شیڈنگ بھی ہوتی ہے۔
کراچی پاکستان کا سب سے بڑا صنعتی شہر ہے جہاں بجلی استعمال کرنے والے صارفین کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ کراچی میں بجلی کی تقسیم کے حوالے سے شہر کو طبقاتی بنیادوں پر تقسیم کردیا گیا ہے۔
جن علاقوں میں صد فی صد بلنگ ہوتی ہے، وہ لوڈ شیڈنگ فری زون قرار دیے گئے ہیں اور جہاں بلز کی ادائیگی کم ہے وہاں لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے۔ جہاں بجلی بلزکی وصولی کی شرح کم ہے وہاں سردیوں میں 8 سے 10 گھنٹے لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے۔
ایک صورتحال یہ بھی ہے ان علاقوں میں جہاں صارفین صد فی صد بل ادا کرتے ہیں مگر ان صد فی صد بل ادا کرنے والے صارفین کی بستیوں سے متصل بستیوں میں بل ادا کرنے کی شرح کم ہوتی ہے تو وہاں 10,10 گھنٹے لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے اور جو لوگ ہر ماہ بل ادا کرتے ہیں وہی سزا پاتے ہیں۔ ایک طرف تو لوڈ شیڈنگ کی بناء پر بجلی نہیں آتی تو دوسری طرف ہر مہینہ دو مہینہ بعد بجلی کے بلوں کے نرخ بڑھا دیے جاتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق گزشتہ ایک سال کے دوران بجلی کے نرخ میں صد فی صد کے قریب اضافہ ہوا ہے۔
یہ صورتحال توگھریلو صارفین کی ہے، تجارتی اور صنعتی استعمال والے اداروں میں ایک نیا بحران جنم لیتا ہے۔ جب بھی بجلی کے ٹیرف میں اضافہ ہوتا ہے تو تیار کی جانے والی اشیاء پر آنے والی قیمت بڑھ جاتی ہے، یوں برآمدات کا شعبہ اس صورتحال سے براہِ راست متاثر ہوتا ہے۔
برآمدکنندگان مسلسل یہ شکایت کر رہے ہیں کہ گزشتہ 15ماہ کے دوران بجلی اور گیس کے نرخ بڑھے تو ان کارخانوں کی تیار کردہ اشیاء کی برآمد ی قیمت اتنی بڑھ گئی ہے کہ پاکستانی اشیاء غیر ممالک کی منڈیوں میں مقابلہ نہیں کر پا رہی ہیں۔
نیپرا نے گزشتہ جولائی اور اگست کے مہینوں کے بارے میں جب یہ تحقیق کی تھی تو اس وقت میاں شہباز شریف کی قیادت میں اتحادی حکومت کر رہے تھے۔ پارلیمانی نظام کی روایت کے تحت حکومت میں شریک تمام جماعتیں حکومتی فیصلوں کی ذمے دار ہوتی ہیں، یوں پی ڈی ایم حکومت میں شامل تمام جماعتیں اس صورتحال کی براہِ راست ذمے دار ہیں، جس کے وزراء آنکھیں بند کر کے حکومت کے بجلی کے نرخ بڑھانے کے فیصلے کی وکالت کرتے رہے۔
سابق پارلیمانی سیکریٹری زاہد توصیف کا کہنا ہے کہ بجلی کی کمپنیوں نے 1700 ارب روپے زیادہ وصول کیے ہیں جو ہر صورت صارفین کو واپس ہونے چاہئیں۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ دنیا میں سب سے زیادہ بلند ترین مارک اپ ریٹ اور مہنگی ترین بجلی اور گیس پاکستان میں ہے۔
ملک میں ایک نگراں حکومت برسرِ اقتدار ہے جس کے بارے میں تصور یہ ہے کہ وہ خاموشی سے اپنی پیش رو حکومتوں کی پیروی کررہی ہے مگر اس کے باوجود نگراں حکومت کی ذمے داری ہے کہ فوری طور پر بجلی کے نرخ کم کرے اور تمام شہریوں کو بجلی فراہم کرنے کے بارے میں لائحہ عمل تیار کرے۔
نیپرا کی اس رپورٹ پر غور کرنے کے لیے پاور ڈویژن نے چار رکنی ایک کمیٹی بنائی ہے۔مگر کیا یہ کمیٹی طاقتور کمپنیوں کا کیا احتساب کرے گی ؟ شہریوں کا کہنا ہے کہ یہ کمیٹی وقت ضایع کرنے کے سوا کچھ نہ کر پائے گی۔ سیاسی جماعتوں کو بجلی صارفین کے ساتھ ہونے والی زیادتی کے خاتمے کے لیے اقتدار میں آنے کے قابل عمل پالیسی بنانی چاہیے۔
اس ادارے کا بنیادی فریضہ بجلی کی پیداوار اور تقسیم کے نظام کے لیے قابلِ اعتبار مارکیٹ اور صارفین کے لیے بہتر ماحول فراہم کرنا ہے۔ نیپرا کا ایک بنیادی فریضہ بجلی صارفین اور اداروں کے درمیان توازن برقرار رکھنا ہے، یوں قانون کے تحت نیپرا کی ذمے داری ہے کہ صارفین کے مفادات کا تحفظ کرے۔
نیپرا نے گزشتہ دنوں بجلی تقسیم کار اداروں کے بارے میںرپورٹ افشاء کی تو بجلی صارفین کی شکایات کی تصدیق ہوتی ہے۔ نیپرا کی اس رپورٹ میں ۔ نیپرا کی اس رپورٹ کے سرسری مطالعہ سے ہی ظاہر ہوجاتا ہے کہ بجلی تقسیم کار بعض اداروں نے صارفین سے حقیقی بل سے صد فی صد زیادہ رقم وصول کی۔
نیپرا کی اس جامع تحقیقاتی رپورٹ ظاہر کرتی ہے کہ تمام کمپنیاں صارفین سے زائد بل وصولی کی ذمے دار ہیں، ملک بھر میں ایک کمپنی بھی ایسی نہیں ہے جو صارفین نے زیادہ بل وصول نا کرتی ہو۔ اس سال جون کے مہینے میں بجلی کے نرخ غیر معمولی طور پر بڑھائے گئے ہیں ، چھوٹے صارفین کی قوتِ خرید جواب دے گئی، یوں چند سر پھرے لوگوں نے اوور بلنگ کے خلاف احتجاج شروع کیا، جب صورتحال قابو سے باہر ہونے لگی تو اوور بلنگ کے بارے میں تحقیقات کا فیصلہ کیا گیا۔
یوں ماہرین نے ایک مستند رپورٹ مرتب کی۔ یہ رپورٹ بجلی گھروں کی تقسیم کے نظام کے بغور مطالعہ، اس موضوع پر ہونے والی تحقیق کے جائزہ اور بجلی کی کمپنیوں کے طویل سروس سے حاصل کردہ اعدادوشمارکی بنیاد پر تیار کی گئی ہے۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صارف کے میٹرکی ریڈنگ سے زیادہ رقم وصول کی گئی ہے اور بعض کیسوں کے غور سے جائزے سے ظاہر ہوتا ہے کہ بلوں میں اوور چارجنگ سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت کی گئی ہے۔ اسی طرح صارفین کو طے شدہ مدت کو نظرانداز کر کے بل بھیجے گئے۔
یوں یہ بل 30 دن کی طے شدہ مدت سے زیادہ ہوگئے۔ اس صورتحال کا نقصان ان لاکھوں صارفین کو پہنچا جو ہر ماہ 200 یونٹ سے کم بجلی خرچ کرتے ہیں۔ ملکی قانون کے تحت 30 دن کے اندر بجلی کے میٹر کی ریڈنگ حاصل کرنی چاہیے مگر اس قانون کو مد نظر نہیں رکھا گیا۔
نیپرا کی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پورے ملک 13.76 ملین صارفین کو 30 دن سے زائد ریڈنگ کی بنیاد پر بل بھیجے گئے۔ اسی طرح 3.2 ملین صارفین سے اوور بلنگ کی گئی۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گجرانوالہ میں 1.65 ملین صارفین سے اوور بلنگ کی گئی۔ فیصل آباد کے 1.9 ملین صارفین کو زیادہ بل بھجوائے گئے۔
بجلی کے نظام کو ریگولیٹ کرنے والے سرکاری ادارہ کی اس رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ کے الیکٹرک سمیت تمام کمپنیوں کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے اور عوام کو بجلی کے بلوں میں رعایت دی جائے۔ نیپرا کی یہ رپورٹ گزشتہ جولائی اور اگست کے بلوں سے متعلق ہے۔ سال کے باقی 10مہینوں کے بارے میں کیا صورتحال ہوگی اس کے بارے میں ایک جامع تحقیقات سے ہی حقائق کا علم ہوسکتا ہے۔
بجلی بلز میں اووربلنگ کے تناظر میں افسوس ناک یہ حقیقت ہے کہ کم آمدنی والے کروڑوں صارفین کو استعمال سے زیادہ بجلی کے بل بھیجے گئے۔ جب لاکھوں افراد ان بلوں کی ادائیگی سے قاصر رہے تو ان کے کنکشن منقطع کردیے گئے۔ بنیادی انسانی حقوق میں بجلی کے استعمال کا حق بھی شامل ہے، مگر اس ملک میں ہر سال بجلی کے نرخ بڑھا دیے جاتے ہیں۔ اس کے ساتھ بجلی کی لوڈ شیڈنگ بھی ہوتی ہے۔
کراچی پاکستان کا سب سے بڑا صنعتی شہر ہے جہاں بجلی استعمال کرنے والے صارفین کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ کراچی میں بجلی کی تقسیم کے حوالے سے شہر کو طبقاتی بنیادوں پر تقسیم کردیا گیا ہے۔
جن علاقوں میں صد فی صد بلنگ ہوتی ہے، وہ لوڈ شیڈنگ فری زون قرار دیے گئے ہیں اور جہاں بلز کی ادائیگی کم ہے وہاں لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے۔ جہاں بجلی بلزکی وصولی کی شرح کم ہے وہاں سردیوں میں 8 سے 10 گھنٹے لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے۔
ایک صورتحال یہ بھی ہے ان علاقوں میں جہاں صارفین صد فی صد بل ادا کرتے ہیں مگر ان صد فی صد بل ادا کرنے والے صارفین کی بستیوں سے متصل بستیوں میں بل ادا کرنے کی شرح کم ہوتی ہے تو وہاں 10,10 گھنٹے لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے اور جو لوگ ہر ماہ بل ادا کرتے ہیں وہی سزا پاتے ہیں۔ ایک طرف تو لوڈ شیڈنگ کی بناء پر بجلی نہیں آتی تو دوسری طرف ہر مہینہ دو مہینہ بعد بجلی کے بلوں کے نرخ بڑھا دیے جاتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق گزشتہ ایک سال کے دوران بجلی کے نرخ میں صد فی صد کے قریب اضافہ ہوا ہے۔
یہ صورتحال توگھریلو صارفین کی ہے، تجارتی اور صنعتی استعمال والے اداروں میں ایک نیا بحران جنم لیتا ہے۔ جب بھی بجلی کے ٹیرف میں اضافہ ہوتا ہے تو تیار کی جانے والی اشیاء پر آنے والی قیمت بڑھ جاتی ہے، یوں برآمدات کا شعبہ اس صورتحال سے براہِ راست متاثر ہوتا ہے۔
برآمدکنندگان مسلسل یہ شکایت کر رہے ہیں کہ گزشتہ 15ماہ کے دوران بجلی اور گیس کے نرخ بڑھے تو ان کارخانوں کی تیار کردہ اشیاء کی برآمد ی قیمت اتنی بڑھ گئی ہے کہ پاکستانی اشیاء غیر ممالک کی منڈیوں میں مقابلہ نہیں کر پا رہی ہیں۔
نیپرا نے گزشتہ جولائی اور اگست کے مہینوں کے بارے میں جب یہ تحقیق کی تھی تو اس وقت میاں شہباز شریف کی قیادت میں اتحادی حکومت کر رہے تھے۔ پارلیمانی نظام کی روایت کے تحت حکومت میں شریک تمام جماعتیں حکومتی فیصلوں کی ذمے دار ہوتی ہیں، یوں پی ڈی ایم حکومت میں شامل تمام جماعتیں اس صورتحال کی براہِ راست ذمے دار ہیں، جس کے وزراء آنکھیں بند کر کے حکومت کے بجلی کے نرخ بڑھانے کے فیصلے کی وکالت کرتے رہے۔
سابق پارلیمانی سیکریٹری زاہد توصیف کا کہنا ہے کہ بجلی کی کمپنیوں نے 1700 ارب روپے زیادہ وصول کیے ہیں جو ہر صورت صارفین کو واپس ہونے چاہئیں۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ دنیا میں سب سے زیادہ بلند ترین مارک اپ ریٹ اور مہنگی ترین بجلی اور گیس پاکستان میں ہے۔
ملک میں ایک نگراں حکومت برسرِ اقتدار ہے جس کے بارے میں تصور یہ ہے کہ وہ خاموشی سے اپنی پیش رو حکومتوں کی پیروی کررہی ہے مگر اس کے باوجود نگراں حکومت کی ذمے داری ہے کہ فوری طور پر بجلی کے نرخ کم کرے اور تمام شہریوں کو بجلی فراہم کرنے کے بارے میں لائحہ عمل تیار کرے۔
نیپرا کی اس رپورٹ پر غور کرنے کے لیے پاور ڈویژن نے چار رکنی ایک کمیٹی بنائی ہے۔مگر کیا یہ کمیٹی طاقتور کمپنیوں کا کیا احتساب کرے گی ؟ شہریوں کا کہنا ہے کہ یہ کمیٹی وقت ضایع کرنے کے سوا کچھ نہ کر پائے گی۔ سیاسی جماعتوں کو بجلی صارفین کے ساتھ ہونے والی زیادتی کے خاتمے کے لیے اقتدار میں آنے کے قابل عمل پالیسی بنانی چاہیے۔