تریاق اعظم
یہ حقیقت ہے کہ یہ دنیا اگر اب تک آباد و شاد ہے، زندہ باد ہے، لوگ مزے کررہے ہیں، چرچے کررہے ہیں
کوئی مانے یا نہ مانے ، جانے یا نہ جانے، سمجھے یا نہ سمجھے لیکن یہ حقیقت ہے کہ یہ دنیا اگر اب تک آباد و شاد ہے، زندہ باد ہے، لوگ مزے کررہے ہیں، چرچے کررہے ہیں، زندہ ہیں اورہنس بول رہے ہیں تو صرف ایک چیز کی وجہ سے ،برکت کی موجودگی سے اوردم قدم سے یعنی یہ سونی دھرتی ،اگر اﷲ رکھے ہوئے ہے تو صرف ایک یہ چیزکی موجودگی سے۔یہ چیز اگر نہ ہوتی تو دنیا میںکچھ بھی نہ ہوتا۔ یہ میلے، یہ ٹھیلے، یہ شہر، یہ بستیاں اوران میں طرح طرح کی سرگرمیاں ، منہ گرمیاں ، پیٹ گرمیاں ، پیر گرمیاں اروررونق شونک۔
اس چیز اس بابرکت چیز ، بابرکت باملاحظہ، ہوشیارچیز کا نام جھوٹ ہے ، اگر اس صلح کل، خیر ما، خیر شما، سراسر صلح ہی صلح، امن ہی امن اورشانتی ہی شانتی ، جھوٹ کے قدوم ممنت لزوم نے اگر دنیا کو شرف یاب نہ کیا ہوتاتو باربار تباہ ہوچکی ہوتی، انسان ایک دوسرے کو کچا، ابلا او بھونا، ہرطرح سے چباچکے ہوتے، اس کی اینٹ سے اینٹ، پتھر سے پتھر اورلکڑی سے لکڑی بجا چکے ہوتے اوریہ گل وگلزار دنیا ایک لق دق صحرا، ویرانا ہی ویرانا ہوتی اور اس ویرانے میں ''جنات کے تندور'' رقص کررہے ہوتے ، صحرا میں گردو غبار کے جو بگولے ناچتے ہیں ان کو پشتو میں ''جنات کے تندور'' کہاجاتاہے ۔اور ہم رورو کر گاتے ۔
سہم کر بیٹھ گئی خاک بیابانوں کی
دہشت انگیزہے وحشت ترے دیوانوں کی
چاہے صحرا کے خرد ہوکہ بیابان جنوں
دھجیاں پاوگے دو چارگریبانوں کی
کیوں کہ مصالحت ، صلح ، سمجھوتہ اورافہام وتفہیم تو اس کم بخت ناہجارنابکار اورہردم فساد پر تیار ''سچ'' نے سیکھا ہیں نہیں ہے چنانچہ سچ کو ہمیشہ گٹھر میں ٹیڑھی لکڑی بھی کہتے ہیں اورتو اورسچ کم بخت تو کمی بیشی کاقائل بھی نہیں۔
سچ گھٹے یابڑھے تو سچ نہ رہے
جھوٹ کی کوئی انتہا ہی نہیں
اوریہ تو ہرکسی کو معلوم ہے کہ جہاں سچ نے قدم رکھا، وہی پر شروفساد شروع۔ تو تو میں میں ، یہ یہ وہ وہ، دست بگریبان ، مکے ، لاتیں، شرشر ،غرغر، بربر ، خون کی ندیاں بہنے لگتی ہیں، کشتوں کے پشتے لگ جاتے ہیں ، شہنائیاں ماتم میں بدل جاتی ہیں اورآبادی سے زیادہ قبرستان بڑھنے لگتے ہیں، اس کے مقابلے میں جھوٹ
زباں پہ بار خدایا یہ کس کانام آیا
کہ میرے نطق نے بوسے مری زباں کے لیے
میٹھا اتنا کہ شیروشکر بھی شرما جائے ، ذائقہ دار اور مصالحہ دار اتنا کہ باربی کیو کی دکان بند کردے، خوبصورت اتنا کہ مس یونیورس بھی احساس کمتری کاشکار ہوجائے، کام کااتنا کہ امرت دھارا بھی ہارمان لے ، موثراتنا کہ ایک پل میں دنیا فتح کرلے ، بقول میر۔
وہ آئے بزم میں اتناتو ہم نے دیکھا میر
پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی
چراغ تو اس کے سامنے ایک ہزارواٹ کا بلب بھی جگنو لگے بلکہ سورج بھی ماند پڑجائے جہاں جھوٹ براجمان ہوجائے وہاں اورکسی کا بھی چراغ نہیں جلتا۔ کہ یہ چشموں کاچشم اورچراغوں کاچراغ ہے ۔
ترے ہوتے ہوئے محفل میں جلاتے ہیں چراغ
کتنے نادان ہیں سورج کو دکھاتے ہیں چراغ
ہمارے گاؤں میں دو بھائی تھے، ان میں جو سچ بولتا تھا ، وہ تو جوانی سے پہلے سر کھاگیا ، دوسرے نے اس کے انجام سے یہ سبق لیا کہ سچ کو منہ نہ لگانے کی قسم کھالی بلکہ اکثر کہاکرتا تھا کہ میرے بھائی کا قاتل سچ ہے اور میرا انتقام یہ ہے کہ میں نے ہمیشہ کے لیے اس سے تو بہ کرلی ہے چنانچہ وہ نوے سال تک زندہ رہا لیکن کسی نے کبھی اسے سچ بولتے ہوئے نہیں سنا ، وہ ہمیشہ جھوٹ بولتا تھا اورجھوٹ کے سوا کچھ نہیں بولتا تھا، نتیجہ اس کا یہ نکلا کہ وہ اپنے گاؤں کے علاوہ آس پاس کے سارے علاقے میں ہردل عزیزی کاریکارڈہولڈربن گیا اور بابرکت جھوٹ ہی کی وجہ سے بچ بوڑھے جوان یہاں تک کہ بوڑھی عورتیں بھی اس کی قدر کرتی تھیں اوراسے لالا کہتی تھیں کیوں کہ بوڑھی سے بوڑھی عورت کوبھی وہ لڑکی کہہ کر مخاطب ہوتا تھا، اس کے بارے میں مشہورتھا کہ اس کی زبان بھی مصنوعی دانتوں کی بتیسی کی طرح مصنوعی ہے اوررات کو وہ زبان منہ سے نکال کر شہد کے پیالے میں رکھ دیتا ہے، رات بھر شہد میں پڑی رہنے کی وجہ سے اس کی زبان اتنی میٹھی ہوجاتی ہے کہ صبح جب وہ اسے پہن کر نکلتاہے تو کشتو ں کے پشتے لگادیتا ہے ۔
ناوک نے تیرے صید نہ چھوڑا زمانے میں
تڑپے ہے مرغ قبلہ نما آشیانے میں
اس میٹھی زبان کی بدولت وہ آہستہ آہستہ پہلے کونسلر بنا، پھر چئیرمین، پھر ایم پی اے، پھر ایم این اے اوروزیرپیشہ، وزیر پیشہ کامطلب ہے کہ اب حکومت کسی بھی رنگ یاڈھنگ کی آئے، وہ اس میں وزیر ہوتاہے۔ البتہ ایسے لوگوں کے ساتھ ایک پرابلم ضرورہوتی ہے کہ بیچاروں کو زیادہ مٹھاس کی وجہ سے شوگر ہوجاتی ہے اورشوگر کے ساتھ بلڈ پریشرتو لازمی ہوتاہے، اس لیے نمک حرام بھی ہوجاتے ہیں اورشکرحرام بھی ۔
ہم نے ایک دن اس کے بیٹے سے کہہ دیا کہ اپنے والد کو کہوکہ زیادہ میٹھا میٹھا نہ بولا کرے، شاید کچھ آرام آجائے ۔ بولا ، یہی تو غم ہے کہ صرف یہ ایک ہی پرہیز نہیں کرسکتا ۔
عمر ساری تو کٹی عشق بتاں میں مومن
آخری عمر میں کیاخاک مسلمان ہوں گے
اس چیز اس بابرکت چیز ، بابرکت باملاحظہ، ہوشیارچیز کا نام جھوٹ ہے ، اگر اس صلح کل، خیر ما، خیر شما، سراسر صلح ہی صلح، امن ہی امن اورشانتی ہی شانتی ، جھوٹ کے قدوم ممنت لزوم نے اگر دنیا کو شرف یاب نہ کیا ہوتاتو باربار تباہ ہوچکی ہوتی، انسان ایک دوسرے کو کچا، ابلا او بھونا، ہرطرح سے چباچکے ہوتے، اس کی اینٹ سے اینٹ، پتھر سے پتھر اورلکڑی سے لکڑی بجا چکے ہوتے اوریہ گل وگلزار دنیا ایک لق دق صحرا، ویرانا ہی ویرانا ہوتی اور اس ویرانے میں ''جنات کے تندور'' رقص کررہے ہوتے ، صحرا میں گردو غبار کے جو بگولے ناچتے ہیں ان کو پشتو میں ''جنات کے تندور'' کہاجاتاہے ۔اور ہم رورو کر گاتے ۔
سہم کر بیٹھ گئی خاک بیابانوں کی
دہشت انگیزہے وحشت ترے دیوانوں کی
چاہے صحرا کے خرد ہوکہ بیابان جنوں
دھجیاں پاوگے دو چارگریبانوں کی
کیوں کہ مصالحت ، صلح ، سمجھوتہ اورافہام وتفہیم تو اس کم بخت ناہجارنابکار اورہردم فساد پر تیار ''سچ'' نے سیکھا ہیں نہیں ہے چنانچہ سچ کو ہمیشہ گٹھر میں ٹیڑھی لکڑی بھی کہتے ہیں اورتو اورسچ کم بخت تو کمی بیشی کاقائل بھی نہیں۔
سچ گھٹے یابڑھے تو سچ نہ رہے
جھوٹ کی کوئی انتہا ہی نہیں
اوریہ تو ہرکسی کو معلوم ہے کہ جہاں سچ نے قدم رکھا، وہی پر شروفساد شروع۔ تو تو میں میں ، یہ یہ وہ وہ، دست بگریبان ، مکے ، لاتیں، شرشر ،غرغر، بربر ، خون کی ندیاں بہنے لگتی ہیں، کشتوں کے پشتے لگ جاتے ہیں ، شہنائیاں ماتم میں بدل جاتی ہیں اورآبادی سے زیادہ قبرستان بڑھنے لگتے ہیں، اس کے مقابلے میں جھوٹ
زباں پہ بار خدایا یہ کس کانام آیا
کہ میرے نطق نے بوسے مری زباں کے لیے
میٹھا اتنا کہ شیروشکر بھی شرما جائے ، ذائقہ دار اور مصالحہ دار اتنا کہ باربی کیو کی دکان بند کردے، خوبصورت اتنا کہ مس یونیورس بھی احساس کمتری کاشکار ہوجائے، کام کااتنا کہ امرت دھارا بھی ہارمان لے ، موثراتنا کہ ایک پل میں دنیا فتح کرلے ، بقول میر۔
وہ آئے بزم میں اتناتو ہم نے دیکھا میر
پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی
چراغ تو اس کے سامنے ایک ہزارواٹ کا بلب بھی جگنو لگے بلکہ سورج بھی ماند پڑجائے جہاں جھوٹ براجمان ہوجائے وہاں اورکسی کا بھی چراغ نہیں جلتا۔ کہ یہ چشموں کاچشم اورچراغوں کاچراغ ہے ۔
ترے ہوتے ہوئے محفل میں جلاتے ہیں چراغ
کتنے نادان ہیں سورج کو دکھاتے ہیں چراغ
ہمارے گاؤں میں دو بھائی تھے، ان میں جو سچ بولتا تھا ، وہ تو جوانی سے پہلے سر کھاگیا ، دوسرے نے اس کے انجام سے یہ سبق لیا کہ سچ کو منہ نہ لگانے کی قسم کھالی بلکہ اکثر کہاکرتا تھا کہ میرے بھائی کا قاتل سچ ہے اور میرا انتقام یہ ہے کہ میں نے ہمیشہ کے لیے اس سے تو بہ کرلی ہے چنانچہ وہ نوے سال تک زندہ رہا لیکن کسی نے کبھی اسے سچ بولتے ہوئے نہیں سنا ، وہ ہمیشہ جھوٹ بولتا تھا اورجھوٹ کے سوا کچھ نہیں بولتا تھا، نتیجہ اس کا یہ نکلا کہ وہ اپنے گاؤں کے علاوہ آس پاس کے سارے علاقے میں ہردل عزیزی کاریکارڈہولڈربن گیا اور بابرکت جھوٹ ہی کی وجہ سے بچ بوڑھے جوان یہاں تک کہ بوڑھی عورتیں بھی اس کی قدر کرتی تھیں اوراسے لالا کہتی تھیں کیوں کہ بوڑھی سے بوڑھی عورت کوبھی وہ لڑکی کہہ کر مخاطب ہوتا تھا، اس کے بارے میں مشہورتھا کہ اس کی زبان بھی مصنوعی دانتوں کی بتیسی کی طرح مصنوعی ہے اوررات کو وہ زبان منہ سے نکال کر شہد کے پیالے میں رکھ دیتا ہے، رات بھر شہد میں پڑی رہنے کی وجہ سے اس کی زبان اتنی میٹھی ہوجاتی ہے کہ صبح جب وہ اسے پہن کر نکلتاہے تو کشتو ں کے پشتے لگادیتا ہے ۔
ناوک نے تیرے صید نہ چھوڑا زمانے میں
تڑپے ہے مرغ قبلہ نما آشیانے میں
اس میٹھی زبان کی بدولت وہ آہستہ آہستہ پہلے کونسلر بنا، پھر چئیرمین، پھر ایم پی اے، پھر ایم این اے اوروزیرپیشہ، وزیر پیشہ کامطلب ہے کہ اب حکومت کسی بھی رنگ یاڈھنگ کی آئے، وہ اس میں وزیر ہوتاہے۔ البتہ ایسے لوگوں کے ساتھ ایک پرابلم ضرورہوتی ہے کہ بیچاروں کو زیادہ مٹھاس کی وجہ سے شوگر ہوجاتی ہے اورشوگر کے ساتھ بلڈ پریشرتو لازمی ہوتاہے، اس لیے نمک حرام بھی ہوجاتے ہیں اورشکرحرام بھی ۔
ہم نے ایک دن اس کے بیٹے سے کہہ دیا کہ اپنے والد کو کہوکہ زیادہ میٹھا میٹھا نہ بولا کرے، شاید کچھ آرام آجائے ۔ بولا ، یہی تو غم ہے کہ صرف یہ ایک ہی پرہیز نہیں کرسکتا ۔
عمر ساری تو کٹی عشق بتاں میں مومن
آخری عمر میں کیاخاک مسلمان ہوں گے