نااہلی کی میعاد تاحیات یا 5 سال سپریم کورٹ سماعت کا تحریری فیصلہ جاری
اس کیس کے سبب عام انتخابات میں تاخیر نہیں ہوگی ، سماعت پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کی روشنی میں جنوری میں ہوگی، حکمنامہ
آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی کی میعاد پر عدالتی فیصلے اور الیکشن ایکٹ ترامیم میں تضادات کے حوالے سے سپریم کورٹ سماعت کا تحریری فیصلہ جاری ہوگیا۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے تحریر کردہ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ وکیل صفائی نے بتایا کہ الیکشن ایکٹ کے مطابق اب آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی کی میعاد 5 سال ہے۔ الیکشن ایکٹ 232کی ذیلی شق 2 کو کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا گیا۔
فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ انتخابات میں ریٹرننگ افسران مخمصے کا شکار ہوں گے کہ تاحیات نااہلی کے اصول کا اطلاق ہوگا یا 5 سال کے قانون کا۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے بعد آئینی تشریح کے لیے کم از کم 5 رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا جانا قانونی تقاضا ہے۔
یہ خبر بھی پڑھیں: پاکستان تباہ کرنیوالوں کو دوبارہ سیاست میں نہیں آنا چاہیے مگر نااہلی پانچ سال کی ہے، چیف جسٹس
سماعت کے دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا یہ معاملہ اب وضاحت طلب ہے۔ عدالت نے اٹارنی جنرل سمیت تمام صوبائی ایڈووکیٹ جنرلز اور الیکشن کمیشن کو بھی جوٹس جاری کردیے۔سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ عدالتی نوٹس اردو اور انگریزی اخبارات میں بھی شائع کیا جائے۔ عدالتی فیصلے سے وہ بھی متاثر ہو سکتے ہیں جو عدالت میں فریق نہیں ہیں۔ یہ وضاحت کی جاتی ہے کہ اس کیس کے سبب عام انتخابات میں تاخیر نہیں ہوگی اور کیس کی سماعت پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کی روشنی میں جنوری میں ہوگی۔
سپریم کورٹ حکم نامے کے مطابق 2008ء کے عام انتخابات میں الیکشن لڑنے کے لیے کم از کم تعلیمی قابلیت گریجویشن تھی۔ کچھ امیدواروں نے جعلی ڈگریاں جمع کرائیں، جس پر انہیں نااہلی اور سزاؤں کا سامنا کرنا پڑا۔ درخواست گزار کو تاحیات نااہلی کے ساتھ 2 سال کی سزا سنائی گئی۔ 2 سال سزا کے خلاف اپیل لاہور ہائی کورٹ ملتان بینچ میں زیر التوا ہے۔
حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ درخواست گزار کے مطابق جھوٹا بیان حلفی جمع کروانے کی سزا آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت تا حیات نااہلی ہے۔ درخواست گزار کے مطابق الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 232 (2) کے تحت نااہلی کی مدت 5 سال ہے۔ درخواست گزار کے مطابق الیکشن ایکٹ 2017 میں ترمیم 26 جون 2023 کو کی گئی۔ جب الیکشن ایکٹ سیکشن 232(2) کو چیلنج کرنے کے حوالے سے پوچھا گیا تو وکلا کی جانب سے لاعلمی کا اظہار کیا گیا۔
عدالت عظمیٰ کے حکم نامے کے مطابق تمام وکلا نے کہا کہ آئندہ عام انتخابات میں سپریم کورٹ کے حکم اور الیکشن ایکٹ کے سیکشن 232(2) سے غیر ضروری کنفیوژن پیدا ہوگی۔ فریقین کے وکلا نے کہا کہ نااہلی کی مدت کے تعین کے حوالے سے عام انتخابات سے پہلے اس عدالت کا فیصلہ ضروری ہے۔ غیر یقینی کی صورتحال کی وجہ سے الیکشن ٹربیونلز اور عدالتوں میں مقدمات کا بوجھ بڑھے گا۔
تحریری حکم نامے کے مطابق ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے تحت آئین کی تشریح کے لیے 5 رکنی لارجر بینچ ہونا چاہیے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ وفاقی قانون، آئین اور سپریم کورٹ کے فیصلے کی تشریح کا معاملہ ہے جو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات پر بھی اثر انداز ہو سکتا ہے۔ ان اپیلوں اور ان میں اٹھائے گئے سوالات کی وجہ سے آئندہ عام انتخابات کو مؤخر کرنے کے لیے استعمال نہیں کیا جائے گا۔
سپریم کورٹ نے نااہلی کی مدت سے متعلق تمام کیسز ایک ساتھ سننے کا فیصلہ کیا ہے۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے تحریر کردہ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ وکیل صفائی نے بتایا کہ الیکشن ایکٹ کے مطابق اب آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی کی میعاد 5 سال ہے۔ الیکشن ایکٹ 232کی ذیلی شق 2 کو کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا گیا۔
فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ انتخابات میں ریٹرننگ افسران مخمصے کا شکار ہوں گے کہ تاحیات نااہلی کے اصول کا اطلاق ہوگا یا 5 سال کے قانون کا۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے بعد آئینی تشریح کے لیے کم از کم 5 رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا جانا قانونی تقاضا ہے۔
یہ خبر بھی پڑھیں: پاکستان تباہ کرنیوالوں کو دوبارہ سیاست میں نہیں آنا چاہیے مگر نااہلی پانچ سال کی ہے، چیف جسٹس
سماعت کے دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا یہ معاملہ اب وضاحت طلب ہے۔ عدالت نے اٹارنی جنرل سمیت تمام صوبائی ایڈووکیٹ جنرلز اور الیکشن کمیشن کو بھی جوٹس جاری کردیے۔سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ عدالتی نوٹس اردو اور انگریزی اخبارات میں بھی شائع کیا جائے۔ عدالتی فیصلے سے وہ بھی متاثر ہو سکتے ہیں جو عدالت میں فریق نہیں ہیں۔ یہ وضاحت کی جاتی ہے کہ اس کیس کے سبب عام انتخابات میں تاخیر نہیں ہوگی اور کیس کی سماعت پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کی روشنی میں جنوری میں ہوگی۔
سپریم کورٹ حکم نامے کے مطابق 2008ء کے عام انتخابات میں الیکشن لڑنے کے لیے کم از کم تعلیمی قابلیت گریجویشن تھی۔ کچھ امیدواروں نے جعلی ڈگریاں جمع کرائیں، جس پر انہیں نااہلی اور سزاؤں کا سامنا کرنا پڑا۔ درخواست گزار کو تاحیات نااہلی کے ساتھ 2 سال کی سزا سنائی گئی۔ 2 سال سزا کے خلاف اپیل لاہور ہائی کورٹ ملتان بینچ میں زیر التوا ہے۔
حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ درخواست گزار کے مطابق جھوٹا بیان حلفی جمع کروانے کی سزا آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت تا حیات نااہلی ہے۔ درخواست گزار کے مطابق الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 232 (2) کے تحت نااہلی کی مدت 5 سال ہے۔ درخواست گزار کے مطابق الیکشن ایکٹ 2017 میں ترمیم 26 جون 2023 کو کی گئی۔ جب الیکشن ایکٹ سیکشن 232(2) کو چیلنج کرنے کے حوالے سے پوچھا گیا تو وکلا کی جانب سے لاعلمی کا اظہار کیا گیا۔
عدالت عظمیٰ کے حکم نامے کے مطابق تمام وکلا نے کہا کہ آئندہ عام انتخابات میں سپریم کورٹ کے حکم اور الیکشن ایکٹ کے سیکشن 232(2) سے غیر ضروری کنفیوژن پیدا ہوگی۔ فریقین کے وکلا نے کہا کہ نااہلی کی مدت کے تعین کے حوالے سے عام انتخابات سے پہلے اس عدالت کا فیصلہ ضروری ہے۔ غیر یقینی کی صورتحال کی وجہ سے الیکشن ٹربیونلز اور عدالتوں میں مقدمات کا بوجھ بڑھے گا۔
تحریری حکم نامے کے مطابق ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے تحت آئین کی تشریح کے لیے 5 رکنی لارجر بینچ ہونا چاہیے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ وفاقی قانون، آئین اور سپریم کورٹ کے فیصلے کی تشریح کا معاملہ ہے جو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات پر بھی اثر انداز ہو سکتا ہے۔ ان اپیلوں اور ان میں اٹھائے گئے سوالات کی وجہ سے آئندہ عام انتخابات کو مؤخر کرنے کے لیے استعمال نہیں کیا جائے گا۔
سپریم کورٹ نے نااہلی کی مدت سے متعلق تمام کیسز ایک ساتھ سننے کا فیصلہ کیا ہے۔