چھانگا مانگا کا ’ ولچر ریسٹورنٹ ‘ معدومیت سے دوچار گِدھوں کی بقا کی کامیاب کوشش

1997 میں پاکستان سے گدھ معدوم ہونا شروع ہوئے، اس کی وجہ جانوروں میں دردکش ادویہ کا استعمال تھا

فوٹو: ایکسپریس

چھانگا مانگا میں ڈبلیوڈبلیوایف کے گِدھوں کی افزائش نسل کے لیے بنائے گئے مصنوعی مسکن کے مثبت نتائج برآمد ہونا شروع ہوگئے ہیں اور ' ولچرریسٹورنٹ ' نامی مصنوعی مسکن میں پیدائش سےبلوغت تک کا سفرطےکرنے والے وائٹ رمپڈ ولچر(سفید پشت والے گدھ) کی تعداد 32تک پہنچ گئی ہے۔

معدومیت سے دوچارمردارخورپرندے گدھ کی بقا کے لیے پاکستان بھرمیں دیہی سندھ کےعلاقے ننگرپاکرجبکہ پنجاب کے کچھ اضلاع میں بھی افزائش نسل کے اقدامات جاری ہیں،چھانگا مانگا کے جنگلات کے نزدیک' ولچرریسٹورنٹ ' بھی گِدھوں کی پاکستان میں پائی جانے والی مختلف اقسام کوبچانے کے لیے ایک ابتدائی کوشش ہے۔

باقاعدہ پلاننگ کے تحت یہ مسکن ڈبلیوڈبلیو ایف پاکستان کی جانب سےسن 2015میں قائم کیا گیا تھا جس کے امید افزا نتائج ملنا شروع ہوگئے ہیں، اب تک اس ولچرریسٹورنٹ میں 32کے لگ بھگ وائٹ رمپڈ ولچرز(سفید پشت والے گدھ)کی افزائش کی جاچکی ہے۔



ڈبلیوڈبلیوایف کے سینئر مینجرریسرچ اینڈ کنزرویشن محمد جمشید اقبال چوہدری کے مطابق8 سال قبل مذکورہ گدھ کی نسل کے بالغ گدھوں سے یہ سلسلہ شروع کیا گیا،اس دوران ہرسال 2 سے3 بچے انڈوں سے نکل کراس گروپ کا حصہ بنتے رہے۔

اس مصنوعی دیکھ بھال اورافزائش نسل کے مقام ( مسکن ) کی تعمیرلوہے کے اسٹرکچراورآہنی جالیوں کےعلاوہ مختلف اقسام کی لکڑی اورگھاس پھوس سے کی گئی، مصنوعی گھونسلوں کی تیاری کےدوران اس بات کو ملحوظ خاطررکھا گیا کہ یہ مسکن مکمل طورپرقدرتی آماج گاہ کا منظرپیش کرسکے اور نوزائیدہ گدھ اس میں پرورش پا سکیں۔

جمشید اقبال کے مطابق پنجاب کے لگ بھگ 38اضلاع کا آج سے دوسال قبل ایک سروے کیا گیا،جس میں اس بات کا انکشاف ہواکہ گدھوں کی معدومیت میں کلیدی کردار اداکرنے والی تین اقسام کی پین کلرزآج بھی جانوروں کو مختلف بیماریوں کے دوران استعمال کروائی جارہی ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ گدھ ایک ایسا جانورہے جس میں ریبیزکی بیماری نہیں پائی جاتی،مگراس کی نسل کشی کے بعد اب ریبیز کی بیماری زمین پرپلنے والے مختلف آوارہ جانوروں میں پھیل کرایک جانورسے دوسرے میں منتقل ہورہی ہے،کیونکہ قدرتی نظام میں گدھ کا سب سے کلیدی کام مردہ جانوروں کی صفائی ہے۔




ماہرین کا کہناہے کہ 90کی دہائی کے اوائل میں پاکستان میں گدھوں کی تعداد لاکھوں میں تھی،تاہم سن 1997سے گدھوں کی نسلیں معدوم ہونا شروع ہوئیں،گدھوں کی اقسام کی اموات کا سبب جانوروں میں دردکش ادویات کا بڑی مقدارمیں استعمال تھا،کیونکہ مرے ہوئے جانوروں کوکھانے کے بعد ان گدھوں کے گردوں نے کام چھوڑا،جس کے بعد ان کی بڑی تعداد میں اموات ریکارڈ ہونا شروع ہوئیں۔

ماہرین کے مطابق گدھ ایک ایسا پرندہ ہے جس کی خوراک کا انحصارمردار گوشت پرہے،مردہ جانور اس بھاری بھرکم پرندے کی مرغوب غذا ہیں، گدھوں کی معدومیت کے تناظرمیں چندسال قبل جونتیجہ اخذ کیا گیا وہ لائیواسٹاک میں جانوروں کومختلف امراض میں لگائے جانے والے دردکش دوا کے انجکشن کا بے دریغ استعمال ہے،جواس پرندے کی موت کا سبب بنا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ جانوروں کو مختلف نوعیت کی بیماریوں میں دی جانے والی دواؤں سے متاثرہ کسی مردہ جانور کو کھانے کے بعد گدھ کےگردے فیل ہوجاتے ہیں، جوبعدازاں اس کی موت کا سبب بن جاتے ہیں۔

پاکستان کے علاوہ بھارت، بنگلادیش اورنیپال میں بھی گرفن ولچر،بلیک ولچر،ترکی اورمصری نسل کے گدھ کی نسلیں معدومیت سے دوچارہوچکی ہیں،مذکورہ ممالک میں بھی گدھ کے بچاؤ کی سرتوڑ کوششیں جاری ہیں۔



ڈبلیو ڈبلیو ایف کے ٹیکنیکل ڈائریکٹرمعظم خان کے مطابق گدھ کی دنیا بھرمیں پائی جانے والی 8 میں سے 7 اقسام سندھ اوربلوچستان میں پائی جاتی تھیں،ماضی میں کراچی میں چلائی جانے والی کتا مار مہم کے دوران مارے جانے والے کتے ان گدھوں کی خوراک بنتے تھے۔

گدھوں کی تعداد میں کمی کے باعث دوسرے جانوروں کی تعدا د میں غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے، ماہرین ماحولیات اس بات پر بھی زور دیتے ہیں کہ ڈکلوفینک سوڈیم نامی دوا کے استعمال پرسن 2006میں پابندی عائد کی گئی تھی،تاہم اس دوا اوراس کے علاوہ اس قسم کی دوسری دردکش ادویات کا بالخصوص دیہی علاقوں میں کثرت سے استعمال عام ہے، گِدھوں کی بقا کے لیے اس دوا کے استعمال پرمستقل پابندی ناگزیرہے۔

 
Load Next Story