دہشت گردی کا مستقل سدباب لازم
بلاشبہ افواج پاکستان تو کئی برسوں سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنا کردار کامیابی سے ادا کر رہی ہیں
ڈیرہ اسماعیل خان میں چھ دہشت گردوں کی چوکی میں داخل ہونے کی کوشش کو ناکام بنا دیا گیا، جس کے بعد حملہ آوروں نے بارود سے بھری گاڑی کے ذریعے خود کش حملہ کیا، جس سے عمارت زمین بوس ہوگئی اور 23 فوجی جوان جام شہادت نوش کرگئے۔
جب کہ متعدد زخمی بھی ہوئے، جب کہ دوسری جانب ڈیرہ اسماعیل خان میں ہی سیکیورٹی فورسز کی کارروائیوں کے نتیجے میں ستائیس دہشت گرد مار دیے گئے۔ سیکیورٹی فورسز پر حملے پر پاکستان کے سیکریٹری خارجہ نے افغان عبوری حکومت کے پاکستان میں ناظم الامورکو دفتر خارجہ طلب کر شدید احتجاج ریکارڈ کرایا ہے۔
بلاشبہ افواج پاکستان تو کئی برسوں سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنا کردار کامیابی سے ادا کر رہی ہیں۔ ایک طرف دہشت گردی کے واقعات بڑھ رہے ہیں اور دوسری جانب ہمارے بہادر اور غیور سیکیورٹی فورسز کے اہلکار اور افسران اپنی جانوں کی پروا کیے بغیر دشمن کے مذموم عزائم کو خاک میں ملا رہے ہیں۔
پاکستانی حکومت اور سیکیورٹی اداروں کا ماننا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کے بڑھتے واقعات کے پیچھے افغانستان میں پناہ گزین تحریک طالبان پاکستان کا ہاتھ ہے اور افغان حکومت ان کو پناہ دے کر ان واقعات میں مدد کرنے کی مرتکب ہو رہی ہے، یہی وجہ ہے کہ پاکستان اپنے ہاں غیر قانونی طور پر مقیم لاکھوں افغان مہاجرین کو واپس بھجوا رہا ہے اور افغانستان پر تجارتی قدغنیں عائد کر رہا ہے۔
ڈیرہ اسماعیل خان حملے کی ذمے داری قبول کرنے والی تحریک جہاد پاکستان بظاہر ایک غیر معروف شدت پسند تنظیم اس سے قبل بھی دو حملوں کی ذمے داری قبول کر چکی ہے لیکن امکان ہے کہ یہ تحریک طالبان پاکستان کی ہی ایک طفیلی تنظیم ہے۔
ماضی قریب میں پاکستان کی طرف سے افغان طالبان پر افغانستان میں موجود پاکستانی طالبان کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے شدید دباؤ رہا ہے، اس لیے غالب امکان یہی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ یہ دراصل تحریک طالبان پاکستان کے ہی جنگجو ہیں جو نام بدل کر پاکستان میں کارروائیاں کر رہے ہیں۔
رواں برس میں پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے جس سے ایک طرف تو جنوبی ایشیا کے مجموعی حالات پر اثر پڑا ہے جب کہ آیندہ چند ہفتوں میں انتخابی گہما گہمی بڑھ جانے کے بعد اس قسم کے حملے دیگر صوبوں میں بھی ہونے کے خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں، کیونکہ اگر ٹی ٹی پی سیکیورٹی فورسز کے خلاف کارروائیاں جاری رکھتی ہے تو داعش اور اس سے وابستہ شدت پسند، پاکستان کی بعض سیاسی جماعتوں اور سیاسی قائدین کے خلاف کارروائیاں کر سکتے ہیں۔
یونائیٹڈ اسٹیٹس انسٹیٹیوٹ آف پیس (یو ایس آئی پی) میں چھپنے والی ایک حالیہ تحقیق کے مطابق پاکستان میں بڑھتا ہوا تشدد افغان حکومت کی اس پالیسی کا ایک حصہ ہو سکتا ہے جس کے تحت طالبان پاکستان پر دباؤ بڑھا کر دونوں ملکوں کے مابین کشیدگی کے حل کے لیے اپنی کچھ شرائط منوانے کے خواہاں ہوں۔ پاکستان کے قبائلی علاقوں اور جنوبی وزیرستان سمیت ڈیرہ اسماعیل خان اور ملحقہ اضلاع میں شدت پسندوں کی موجودگی کی اطلاعات ہیں۔
سیکیورٹی اداروں کا ماننا ہے کہ دہشت گردی کے پیچھے تحریک طالبان پاکستان کا ہاتھ ہے۔ کابل میں افغان طالبان کے برسر اقتدار آنے کے بعد ٹی ٹی پی کی کارروائیوں کا مقصد بھی ریاست پاکستان کو اس بات پر مجبور کرنا ہے کہ وہ ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کرے اور افغانستان میں پناہ حاصل کرنے والے جنگجوؤں کی پاکستان واپسی کے لیے کسی طریقہ کار پر آمادگی ہو۔
طالبان کے افغانستان میں حکومت میں آنے کے بعد سے دہشت گردی کے واقعات تو بڑھے ہیں اور مزید بڑھ رہے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ سابقہ تحریک انصاف کی حکومت جن چار پانچ ہزار دہشت گردوں کو واپس لے کر آئی تھی، ان کے سلیپنگ سیل موجود تھے اور انھوں نے دوبارہ کارروائیاں شروع کردی ہیں۔
2014 میں آپریشن ضرب عضب اور اس کے بعد آپریشن رد الفساد کے نتیجے میں دہشت گردی کا کم و بیش خاتمہ ہوگیا تھا۔ اس کے بعد بھی یقیناً ان کے سلیپنگ سیلز ہوں گے لیکن موجودہ دہشت گردی کی لہر بے وجہ نہیں آئی بلکہ اس کی کچھ ٹھوس وجوہات ہیں کہ جن کا انکار بھی ممکن نہیں ہے۔
افغانستان میں جب طالبان حکومت قائم ہوئی تو ہر محب وطن شخص نے اس وقت کی حکومت کو خبردار کیا تھا کہ ہمیں محتاط ہوجانا چاہیے لیکن ہم محتاط کیا ہوتے تحریک انصاف کی سابقہ حکومت نے جو کام کیا اس کے بعد یہی سب ہونا تھا۔ ساڑھے چار لاکھ افغانیوں کو قانونی دستاویزات کے ساتھ پاکستان لایا گیا جو واپس نہیں گئے۔
اس کے علاوہ تین سے ساڑھے تین ملین افغانی غیر قانونی طور پر پاکستان میں مقیم ہیں ،ان میں سے کچھ لوگ ہیں جو گزشتہ کچھ عرصے سے پاکستان کو اقتصادی و معاشی میدان میں کمزور کرنے کے لیے ڈالروں کی بوریاں بھر بھر کر افغانستان اسمگل کر رہے ہیں اور پاکستان کو ایک مرتبہ پھر دہشت گردی کی دلدل میں دھکیلنے کی گھناؤنی سازش کررہے ہیں۔
جو لوگ گزشتہ 45سال سے افغانستان کے عشق میں مبتلا ہیں اور اس نامراد عشق نے پاکستان کی بنیادیں تک ہلا کر رکھ دی ہیں لیکن ان کا عشق جو در حقیقت اربوں ڈالر کی جہاد انڈسٹری کے گرد گھومتا ہے۔ 70ہزار بے گناہ پاکستانیوں کی المناک موت اور کھربوں ڈالر کے معیشت کو نقصان کے بعد بھی ان کا عشق ختم نہیں ہوا۔
کسے علم نہیں کہ طالبان کا شروع دن سے ایک ہی وتیرہ ہے کہ انھوں نے مذاکرات کی آڑ میں اپنے آپ کو منظم کرنے اور مزید دہشت گردی کرنے کے مواقعے حاصل کیے ہیں اور پھر موجودہ دہشت گردی کی کوئی وجہ بھی تو ہو کہ کس بات پر یہ انسانیت کے دشمنوں نے گزشتہ چالیس سال کے احسانوں کے بدلے پاکستان کو ایک مرتبہ پھر نشانے پر رکھ لیا ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا اتنے برسوں میں حکومت کی دیگر مشینری، اداروں اور ہماری عوام نے دہشت گردی کے اسباب کو سمجھنے اور ان کے خلاف اپنا کردار ادا کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش کی ہے؟
فوجی آپریشن اس مسئلے کے حل کا ایک اہم حصہ ہے لیکن جب تک دہشت گردی کے اسباب کو سمجھ کر سویلین حکومت اور سویلین ادارے اس مسئلے کے سیاسی، معاشرتی اور مذہبی حل کے لیے طویل مدتی منصوبہ بندی نہیں کریں گے، دہشت گردی کا خاتمہ ممکن نہیں، وجہ صاف ہے۔ فوج کی ٹریننگ دشمن سے لڑنے اور اسے ختم کرنے کے لیے ہوتی ہے، کسی بھی درست یا غلط نظریے کو ختم کرنے کے لیے سول اداروں اور حکومت کو اپنا کردار ادا کرنا پڑتا ہے۔
سیکیورٹی ادارے اتنا تو کر سکتے ہیں کہ کسی جگہ موجود دہشت گردوں کو گرفتار یا ختم کر کے علاقے کو دہشت گردوں کے چنگل سے آزاد کروا لیں، لیکن جب تک دہشت گردی کو جنم دینے والی وجوہات باقی رہیں گی، یہ مسئلہ بھی باقی رہے گا۔
یہ بھی سچ ہے کہ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی میں ''بیرونی ہاتھ'' کا ہمیشہ سے کردار رہا ہے، لیکن ان بیرونی ہاتھوں کو سہولت کار اور '' آپریٹیو'' ملک کے اندر سے ہی ملتے ہیں۔ بہت سے مفلس لوگ اپنے بچوں کو صرف اس لالچ میں انسان دشمن عناصر کے حوالے کر دیتے ہیں کہ ان بچوں کو دو وقت کی روٹی مفت مل جائے گی۔
1979 کے دو بڑے عالمی واقعات کے بعد پہلے بہت سے مسلمان ممالک نے پاکستان میں '' مجاہدین'' کے لیے فنڈنگ کی اور بعد ازاں امریکا سمیت دنیا کے بہت سے ممالک بھی اس میں شامل ہوگئے۔ ان سب نے اپنی اپنی پسند کے ایسے گروہ تیارکیے جن کا دور دور تک کوئی واسطہ اس اسلام سے نہیں تھا جس کے نام پر پاکستان وجود میں آیا تھا۔
ایک کے بعد ایک آنیوالی تمام حکومتوں نے اس جانب دھیان دینا ضروری نہیں سمجھا۔ یہ ایسے لوگ تھے جو جدید نظریات سے دور تھے اور انکو یہ سکھایا گیا کہ صرف ان کے نظریات درست ہیں اور باقی سب قابل نفرت اور واجب القتل ہیں۔
اس نسل نے تو آنکھ ہی جنگ اور بربادی میں کھولی ہے اور جنگ ان کا نارمل رہن سہن اور واحد کاروبار ہے۔ ان کے نظریات درست کرنے کے لیے ان علاقوں میں بڑے پیمانے پر معاشی، معاشرتی اور تعلیمی سرگرمیوں کی ضرورت ہے، وہ بھی تمام سیاسی مصلحتوں سے بالاتر ہو کر۔
پاکستان کی افواج نے ابھی تک تمام غیر ریاستی دہشت گرد گروپوں کا کامیابی سے مقابلہ کیا ہے مگر اس خطرے کا سدِباب سماجی اور سیاسی سطح پر بھی نہایت ضروری ہے۔
ہمیں ایک پرامن معاشرہ درکار ہے جو صرف پُر امن بقائے باہمی کے اصولوں پر عمل سے ہی تشکیل دیا جاسکتا ہے اور مکالمہ ان تمام کوششوں کی کنجی ہے۔ ہمیں مکالمے کی طاقت سے تشدد کے رویوں کو روکنا ہوگا۔