مختار مسعود کا اسلوب

اردو ادب میں کم ہی ادیب ہوں گے جن کے ہاں اس ہنر پر اس طرح کی گرفت ہو

ڈاکٹر الطاف یوسف زئی لکھتے ہیں کہ '' مختار مسعود کے فن کا جائزہ لیتے وقت اور ان کی زندگی اور شخصیت پر بحث کرتے وقت علی گڑھ سے ان کی ذہنی، جذباتی اور قلبی وابستگی کو نظرانداز کرنا ممکن نہیں کیونکہ اسی سے ان کی شخصیت اور فن نے جلا پائی ہے۔

علی گڑھ کا ماحول، اس کی تہذیب اور اس کی فکر جب کسی ادیب کی تحریرکی شناخت بن جائے تو اسلوب خود بخود حوالہ بن جاتا ہے۔ اصل میں علی گڑھ صرف ایک تعلیمی ادارے کا نام نہیں، یہ ایک خاص مکتبہ فکر کی نمایندگی کرتا ہے۔

فکر، سوچ، ترتیب، تعمیر و تشکیل کو یہاں نہ صرف بلندی ملتی ہے بلکہ گفتار، کردار، پسند و ناپسند کے معیار میں بھی انفرادیت آتی ہے۔ مختار مسعود عام ڈگر سے ہٹ کر لکھنے والے ادیب ہیں کیونکہ ان کے مخاطب اور قاری عوام نہیں خواص ہیں۔

ان کی تحریر اور اسلوب سے لطف اندوز ہونے کے لیے ایک خاص علمی اپچ رکھنا قاری کے لیے ضروری ہے۔ ان کے ہاں ایک روشن فکر اور مطمئن روح کا اثر ہر جگہ محسوس ہوتا ہے۔ وہ گہرے مطالعے اور وسیع تجربے کی بنیاد پر اپنے مخاطب اور پڑھنے والے کو نئی منزلوں اور اچھوتی حقیقتوں سے آشنا کراتے ہیں۔

''آواز دوست'' میں تاریخی میناروں پر بات ہو یا تاریخ ساز انسانوں کا ذکر ''سفر نصیب'' میں برف کدوں کا مشاہدہ ہو یا غاروں، سمندروں اور صحراؤں پر بحث '' لوح ایام'' میں ایرانی انقلاب کی روداد ہو یا اس کا پاکستانی ماحول اور عوام سے موازنہ ، ہر جگہ مختار مسعود فکر و فن کی قندیلیں روشن کرتے نظر آتے ہیں۔

ان کے اسلوب کا امتیاز ان کی تحریر میں موجود تہہ داری، فلسفہ اور معنویت ہے۔ڈاکٹر الطاف یوسف زئی لکھتے ہیں '' مختار مسعود نے پڑھنے والوں کو اپنا ہم خیال بنانے اور اپنی تحریروں میں حظ آفرینی کا عنصر ابھارنے کے لیے اسلوب کے جن محاسن کا استعمال کیا ہے، ان میں تشبیہات، استعارے، موازنہ، طنز، شگفتہ بیانی، بذلہ سنجی اور تکرار لفظی شامل ہیں۔

ان کی تحریروں کا بہ نظر غائر مطالعہ یہ بات سامنے لاتا ہے کہ ان کی فکری اور فنی اڑان دونوں بلندی پر ہیں۔ وہ اپنی فکری اور قلبی خواہشات کو قلمی خواہشات بنا کر جب قرطاس پر منتقل کرتے ہیں تو ان کی تحریر پر نثر اور شاعری دونوں کا گمان ہوتا ہے۔


ان کی تحریر کی ایک اور خوبی کفایت لفظی ہے۔ کم سے کم الفاظ میں بڑی سے بڑی بات کہنے کا گُر ان کا خاصہ ہے۔

اردو ادب میں کم ہی ادیب ہوں گے جن کے ہاں اس ہنر پر اس طرح کی گرفت ہو۔ کیا لکھنا ہے کے بجائے کیا نہیں لکھنا ہے پر مختار مسعود کی نظر زیادہ گہری پڑتی ہے۔ وہ لفظ کی ثقافت ہی نہیں نفسیات سے بھی باخبر ہیں اور اس کی قدر و قیمت جانتے ہیں، اس لیے وہ اس کا غیر ضروری استعمال نہیں کرتے۔''

مختار مسعود کے اسلوب کی خوبصورتی کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر یوسف زئی لکھتے ہیں کہ ان کے ہاں تکرار بھی ہے۔ وہ لفظ کے رنگ اور آہنگ سے عجیب وغریب آوازیں دریافت کرتے ہوئے نظر میں نغمگی اور ترنم پیدا کرتے ہیں۔

مختار مسعود کے اسلوبیاتی باغ میں ایک پھول موازنے کا بھی ہے جس کی مہکار اور دل فریبی ان کی تحریروں میں اکثر مقامات پر اپنے ہونے کا احساس دلاتی ہے جیسے ایک تحریر میں وہ مولانا ظفر علی خاں اور مولانا محمد علی جوہر کا موازنہ یوں کرتے ہیں۔

''دونوں ایک ہی مادر درسگاہ کے مشہور و لائق فرزند تھے۔ عملی زندگی میں دونوں کو صحافت، خطابت اور بغاوت کی وجہ سے ناموری حاصل ہوئی۔''

ڈاکٹر یوسف زئی لکھتے ہیں '' مختار مسعود کی خوبی یہ ہے کہ وہ فضا بناتے ہیں اور قاری کے ذہن کو تیار کرتے ہیں، پھر اپنے اسلوبی حربے استعمال کرتے ہیں۔

زندگی اور دریا کا موازنہ ہو یا قائد اعظم اور اقبال کی شخصیت کا، قائد اعظم کے طرز حکمرانی اور دور حاضر کے کھاؤ اڑاؤ پلاٹ پرمٹ والوں کی حکمرانی پر بات ہو، موازنے کے حربے میں مختار مسعود کامیاب دکھائی دیتے ہیں۔

اسی طرح مختار مسعود نے اپنی تحریروں میں صفتِ تضاد کا خوب صورت استعمال کیا ہے۔ وہ اپنی تحریروں میں متضاد الفاظ، واقعات، کیفیات اور شخصیات کو سامنے لا کر قاری کو ایک عالمانہ اور پرلطف ماحول مہیا کرتے ہیں''۔
Load Next Story