مکافات عمل

سیاست میں آنے والے کی شہرت بہت اچھی تھی جسے ملک بھر میں ہی نہیں دنیا میں بھی مقبولیت حاصل تھی


Muhammad Saeed Arain December 14, 2023
[email protected]

1996 میں اپنی سیاسی جماعت بنانے والے سیاستدان نے ملکی سیاست میں ایسا منفرد کردار ادا کیا ہے جس کی ماضی میں کوئی مثال موجود ہے اور نہ ہی کسی چھوٹے بڑے سیاستدان نے ایک ایسا کردار ادا کیا جو کوئی کرنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتا۔

سیاست میں آنے والے کی شہرت بہت اچھی تھی جسے ملک بھر میں ہی نہیں دنیا میں بھی مقبولیت حاصل تھی۔ وہ اپنے سماجی کاموں میں صرف اس لیے مشہور ہوا جس نے اپنی والدہ مرحومہ کی کینسر کی بیماری کی شدت کو محسوس کر کے لاہور میں اپنی والدہ کے نام پر کینسر اسپتال بنانے کا بیڑا اٹھایا اور دنیا بھر میں اپنی شہرت کی بنیاد پر اسپتال کی بنیاد ڈالی۔

اسپتال کی ابتدائی تعمیر میں اس دولت مند نے خود کتنا چندہ دیا اس کا تو کسی کو نہیں پتا نہ اس نے خود تعمیر میں ذاتی حصے کا بتایا۔ اسپتال کی تعمیر شروع ہونے سے قبل وہ بعض نجی معاملات میں متنازعہ بھی رہا۔ وہ خود بھی اپنے پلے بوائے ہونے کا اعتراف کرتا تھا جس کی سچائی سے متاثر ہو کر دنیا بھر میں مخیر حضرات نے اس کے نیک کام کو قدر کی نگاہ سے دیکھا اور اس کے اسپتال کے لیے دل کھول کر عطیات دیے۔

ملک بھر میں ہی نہیں دنیا میں اس کی کوشش کو سراہا گیا اور لیڈی ڈیانا بھی اسپتال کے لیے جمع کیے جانے والی عطیات جمع کرنے کی مہم میں پاکستان آئیں جس سے خطیر رقم جمع ہوئی اور کینسر اسپتال مکمل ہوا جس میں صرف مستحق افراد کا مفت علاج کیا جاتا ہے مگر سنا ہے یہ اسپتال خاصا مہنگا ہے۔ مستحق افراد کے مفت علاج کے نام پر پہلے زکوٰۃ، خیرات جمع کی جاتی تھی اب قربانی کی کھالیں بھی جمع ہوتی ہیں۔

اپنی شہرت کے باعث برطانیہ کے امیر ترین خاندان سے رشتہ بھی مل گیا تھا اور یہ جوڑا دنیا بھر میں مشہور بھی ہوا جس کے دو بیٹے تھے۔ اس سیاستدان کی غیر ملکی بیوی کا سیاست سے کوئی تعلق بھی نہیں تھا مگر وہ اس وقت بری طرح متاثر ہوئی جب اسے غیر متوقع طور پر طلاق ہوگئی جو دونوں کی باہمی رضامندی بتائی گئی اور وہ اپنی فیملی کو وقت نہیں دے پا رہے تھے۔

اس لیے دونوں نے رضامندی سے علیحدگی کا فیصلہ کیا اور اس کی مطلقہ بیوی اپنے دونوں بیٹوں کو لے کر لندن چلی گئی جہاں انھوں نے دوسری شادی کرنے کے بجائے اپنے بیٹوں کی پرورش پر توجہ دی جو خیر سے اب جوان ہو چکے ہیں اور وہ اپنے والد کی حکومت میں صرف ایک دو بار ہی پاکستان آئے۔

دونوں بیٹے گزشتہ سال اپنے والد کی عیادت پر پاکستان آئے تھے مگر چار ماہ سے قید اپنے والد سے ملنے پاکستان نہیں آئے اور ان سے ان کے والد ہی فون پر عدالتی حکم پر گفتگو کر لیتے ہیں اس نے اپنے اقتدار میں ایک سابق وزیر اعظم کو جیل سے لندن میں قریب المرگ اہلیہ سے فون پر بات کرنے نہیں دی تھی مگر اب اسے جیل سے اپنے بیٹوں کو فون کرنے کی سہولیات حاصل ہیں۔

1996 میں اپنی سیاسی پارٹی بنانے والے اس سیاستدان نے اپنی سیاست میں 15سال قبل سوشل میڈیا کا استعمال شروع کیا تھا جو انتہائی کامیاب رہا اور اب تک کوئی اور پارٹی اس کے سوشل میڈیا ونگ کا مقابلہ نہیں کرسکی جس کا سب سے زیادہ فائدہ اس کی پارٹی نے اٹھایا اور اپنے سوشل میڈیا ٹرولرز کے ذریعے اس نے ماضی میں اقتدار میں رہنے والے سیاستدانوں کو اپنی طرف سے چور ڈاکو، چور ڈاکو، ملک کو لوٹ کر اور اپنے غیر ممالک میں جائیدادیں بنانے اور کرپشن کے الزامات سے ملک بھر میں بدنام کردیا اور انھیں اس قابل بھی نہیں چھوڑا کہ وہ اپنی صفائی ہی پیش کرسکیں۔

نئی نسل کی اکثریت اس سے متاثر ہے اپنے رہنما کے الزامات کے تحت تمام سابق سیاسی حکمرانوں کو چور اور ڈاکو ہی سمجھتے ہیں۔ 2011 میں اس کا جلسہ کامیاب کرایا گیا جس پر اس کے بانی ساتھی اسے چھوڑ گئے مگر موقعہ پرستوں کو اس کی پارٹی میں شامل کرایا گیا اس نے 2014 میں ایک منتخب حکومت کے خاتمے کے لیے طویل دھرنا دیا جو ناکام رہا مگر اس نے منفی سیاست جاری رکھی ،کوئی پرانا سیاستدان اس کے پراپیگنڈے کا مقابلہ نہ کر سکا۔

اس سیاستدان کی خوش نصیبی کہ اسے 2017 میں بالاتروں کے بعد اپنے حامی ججز بھی میسر آگئے جنھوں نے اس کے اہم مخالف کو پہلے حکمرانی سے ہٹایا پھر نااہل اور قید کرکے اس کا راستہ صاف کیا اور اس کے اقتدار کی راہ ہموار کی۔

2018 میں اسے اقتدار دلایا گیا جس کے بعد اس نے شخصی آمریت اور انتقام لینے کے ریکارڈ بنائے' پھر اپنے محسنوں پر حملے کیے اور اپنے مخالفین کیا اپنے حامیوں کو بھی نہیں بخشا اور وہ بھول گیا کہ حالات برے بھی ہو جاتے ہیں اقتدار چھن بھی جاتا ہے پھر وہی ہوا حالات بدلتے دیکھ کر اپنے ہٹائے جانے کا الزام اپنے محسنوں پر لگا دیا۔ 2028 تک اقتدار میں رہنے اور اپنے مخالفین کی طویل قید کا خواہش مند اب خود قید میں ہے ۔یہی مکافات عمل ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔