ایک انسان کی عمر بیس ہزار سال

طبّی سائنس کیا انسانوں کو آب حیات سے ملتی جلتی ادویہ عطا کر کے عرصہ ِحیات طویل کر سکے گی؟


سید عاصم محمود December 14, 2023
طبّی سائنس کیا انسانوں کو آب حیات سے ملتی جلتی ادویہ عطا کر کے عرصہ ِحیات طویل کر سکے گی؟ ۔ فوٹو : فائل

آپ نے سنا اور دیکھا ہو گا کہ بہت سے لوگوں کا وقت ِمرگ قریب آئے تو وہ بڑی حسرت سے کہتے ہیں:''ارے موت اتنی جلد آ گئی ! ابھی تو ہم نے فلاں فلاں کام ہی نہیں کیے۔ زندگی تو پل بھر میں گذر گئی۔'' بقول شاعر؎

زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا

ہمیں سو گئے داستاں کہتے کہتے

اب ایسے لوگوں کی مشکل آسان کرنے کے لیے طبی سائنس میدان میں اتر آئی ہے ۔ بعض طبی سائنس دانوں کا دعوی ہے کہ تحقیق و تجربات سے انسان کی عمر ''بیس ہزار سال'' تک بڑھانا ممکن ہے۔ گویا اتنی طویل عمر پا کر انسان اپنی تمام حسرتیں اور خواہشیں پوری کر سکے گا جو عموماً ستر اسّی سال کے عرصے میں پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ پاتیں۔

اور امید ہے کہ اس بیس ہزار سالہ دور حیات میں انسان بیشتر عرصے تندرست وتوانا رہے گا۔ ظاہر ہے، اگر ایک ہزار برس بعد ہی اس کے قویٰ کمزور و ناتواں ہو گئے تو بیس ہزار سال تک جی کر کیا کرنا ہے؟ تب یہ زندگی بہار نہیں عذاب بن جائے گی۔

جسمانی مشینری میں مطلوبہ تبدیلیاں

دلچسپ بات یہ کہ ہمارے ہاں مشہور ہے، قدیم دور میں انسانوں کی عمر کئی سو سال ہوتی تھی۔ مثلاً بائبل میں درج ہے کہ حضرت آدم ؑ نو سو تیس برس زندہ رہے۔ جدید دور میں یہ بات دیومالائی لگتی ہے...مگر اب طبی سائنس خود یہ دعوی کرنے لگی ہے کہ انسان کئی سو نہیں بلکہ کئی ہزار سال تک زندہ رہ سکتا ہے، اگر اس کی جسمانی مشینری میں مطلوبہ تبدیلیاں انجام پا جائیں۔

پچھلی ایک صدی کے دوران جدید ادویہ اور علاج کی بدولت انسان کی عمر میں اضافہ ہوا ہے۔ ورنہ پہلے لوگ بیماریوں، ناکافی غذا اور خراب طرز زندگی کی وجہ سے پچاس ساٹھ برس کی عمر میں چل بستے تھے۔ کم ہی لوگ اسّی نوے سال کی عمر پاتے اور ان کا بڑھاپا تکلیف واذیت برداشت کرتے ہی گذرتا۔ اب انسان صحت وتندرستی کا خیال رکھے اور اچھا طرز ِزندگی اپنائے تو اسّی نوے سال تک چل پھر سکتا ہے۔

دور جدید میں انسانی عمر کے ضمن میں طبی سائنس داں دو بنیادی نظریے تخلیق کر چکے۔ اول یہ کہ انسان کو فطری طور پر یہ ''پروگرامڈ''کیا گیا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ ایک سو پندرہ یا بیس سال تک زندہ رہے۔

اس قدرتی پروگرام کو تھوڑا بہت تو تبدیل کیا جا سکتا ہے، زیادہ نہیں! دوم نظریہ کہتا ہے کہ انسانی جسم کی مشینری سافٹ وئیر کے مانند ہے۔ اس میں موزوں تبدیلیاں کر دی جائیں تو انسانی عمر میں خاطر خواہ اضافہ کرنا ممکن ہے۔

گیروسائنس کا ماہر

دوم نظریے کے حمایتی طبی سائنس داں چناں چہ انسانی جسم میں خلویاتی یعنی انتہائی چھوٹی سطح پہ ایسے کل پرزے، سافٹ وئیر اور اشارے تلاش کر رہے ہیں جن کی مدد سے انسان کی عمر میں اضافہ ہو سکے۔ ان ماہرین میں پرتگالی نژاد برطانوی طبی سائنس داں، جاؤ پیڈرو ڈی ماگالہیاس (João Pedro de Magalhães) بھی شامل ہیں۔

جاؤ پیڈرو ایک نئے اور ابھرتے ہوئے سائنسی علم ''گیروسائنس'' (geroscience) کے ماہر ہیں۔ اس علم میں خصوصی طور پہ بڑھاپے کے عجوبے پر تحقیق کی جاتی ہے۔ اس علم کے ماہرین جاننا چاہتے ہیں کہ جاندار پہ بڑھاپا کیسے، کب، کیوں اور کس طرح طاری ہوتا ہے۔گویا وہ اس عجوبے کی تہہ تک پہنچنا چاہتے ہیں جو دنیا کے ہر جاندار کو آخرکار موت کی آغوش میں لے جا کر اسے معدوم کر دیتا ہے۔

طویل عمر پاتے جاندار

جاؤ پیڈرو برطانیہ کی برمنگھم یونیورسٹی کے ادارے، انسٹی ٹیوٹ آف انفلیمیشن اینڈ ایجنگ میں پروفیسر ہیں۔ وہ ایسے جانوروں کے جین (Gene)کا عمیق مطالعہ کر رہے ہیں جو طویل عمر پاتے ہیں جیسے بو ہیڈ وہیل Bowhead whale (عمر ڈھائی سو سال) اور نیکڈ مول چوہا (Naked mole-rat) جو اپنی جسامت کے مقابلے میں کہیں زیادہ برس یعنی سینتیس سال تک زندہ رہتا ہے۔

ان جانداروں پہ تحقیق کے بعد جاؤ پیڈرو اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اگر انسان خلویاتی سطح پر بڑھاپے کا خاتمہ کر دے تو وہ بیس ہزار سال تک زندہ رہ سکتا ہے۔یہ ایک حیرت انگیز اور دلچسپ انکشاف ہے۔

سوال یہ ہے کہ عمر میں یہ محیّر العقول اضافہ کیونکر ہو گا؟ جاؤ پیڈرو کہتے ہیں کہ ہمارے جسم میں خلیوں کے مخصوص نظام خراب ہو جائیں تو بڑھاپا جنم لیتا ہے۔اگر یہ خلویاتی نظام درست کر دیئے جائیں تو بڑھاپا بھی جاتا رہے گا۔

ماہرین مگر اب تک ایسے میکنزم یا آلات دریافت نہیں کر سکے جو خراب خلویاتی نظام ٹھیک کر سکیں۔ تاہم جاؤ پیڈرو کو امید ہے کہ مستقبل میں طبی سائنس داں یہ میکنزم ایجاد کر لیں گے۔

ادویہ کا سیٹ

جاؤ صاحب بتاتے ہیں کہ ایک صدی قبل ان کے دادا نمونیے کی وجہ سے چل بسے تھے۔ تب نمونیہ ایک خطرناک بیماری تھا۔ مگر جب پنتالیس سال قبل بچپن میں جاؤ نمونیے کا شکار ہوئے تو پنسلین کی معمولی سی خوراک نے انھیں تندرست کر دیا۔

یہ مثال بتا کر وہ کہتے ہیں کہ ایک نہ ایک دن طبی ماہرین ایسی دوائیں یا طریق دریافت کر لیں گے جن کی مدد سے بڑھاپے کو شکست دی جا سکے۔

اس برطانوی طبی ماہر کا کہنا ہے کہ انسان شاید پنسلین کی طرح ایسی ایک دوا نہیں بنا سکے جو بڑھاپا روک دے، بلکہ ادویہ کا مجوعہ یہ کٹھن کام انجام دے گا۔ مثلاً سائنس داں ایک جرثومے، ایس ایچ (Streptomyces hygroscopicus) کے ذریعے ایک دوا ''سیرولیمس'' (Sirolimus) ایجاد کر چکے جو جانوروں میں بڑھاپے کی رفتار دس تا پندرہ فیصد کم کر دیتی ہے۔ اب یہ دوا انسانوں کے لیے بھی منظور ہو چکی۔ یہ دوا خلیوں کا نظام سست کر دیتی ہے۔ چناں چہ جاندار پہ بڑھاپا بھی سست رفتاری سے طاری ہوتا ہے۔

جاؤ پیڈرو کہتے ہیں: ''اگر یہ دوا انسان میں بڑھاپے کی رفتار پندرہ فیصد کم کر دے تو یہ ڈرامائی کامیابی ہو گی۔ میرا خیال ہے اگلے تین چار سو برس میں طبی ماہرین ایسی دواؤں کا سیٹ بنا لیں گے جو ہمیں روزانہ کھانا ہونگی۔ یہ دوائیں ہمیں بڑھاپے سے بچا کر رکھیں گی اور انسان کی عمر کئی سو سال پہ محیط ہو جائے گی۔''

ڈی این اے کی مرمت اور خصوصی جین

جاؤ اور دیگر طبی سائنس دانوں کو تحیق و تجربات سے یہ اہم بات معلوم ہوئی ہے کہ جو جاندار طویل عمر پاتے ہیں، جیسے بو ہیڈ وہیل، نیکڈ مول ریٹ اور ہاتھی ، ان میں خلیے اپنے ڈی این اے کی مرمت کرنے کی خاص اہلیت رکھتے ہیں۔

یاد رہے، ایک خلیے کی تمام جینیاتی معلومات ڈی این اے میں محفوظ ہوتی ہے۔ اس معلومات میں بگاڑ آ جائے تو خلیہ بھی بیمار ہو کر مر جاتا ہے۔

دوسری حقیقت یہ سامنے آئی کہ یہ جانور ایسے خصوصی جین رکھتے ہیں جو انھیں موذی بیماریوں سے بچاتے ہیں۔ مثال کے طور پہ ہاتھی میں'' پی 35'' (p53) نامی جین بکثرت ملتا ہے۔ یہ جین ہاتھیوں کو کینسر نہیں ہونے دیتا اور وہ اس خطرناک مرض سے بچے رہتے ہیں۔ بو ہیڈ وہیل اور نیکڈ مول ریٹ، دونوں میں اسی قسم کے جین پائے گئے ہیں۔

یہ یاد رہے کہ نیکڈ مول چوہا عام چوہے سے چھوٹا ہوتا ہے۔ اس کے باوجود عام چوہا تین چار سال ہی زندہ رہ پاتا ہے۔ جبکہ نیکڈ مول ریٹ نے لاکھوں کروڑوں برس کے ارتقا میں ایسی شکتیاں حاصل کر لی ہیں کہ ان کی مدد سے کہیں زیادہ عرصے زندہ رہ سکے۔

اس طویل عمر کا ایک نمایاں راز یہی ہے کہ نیکڈ مول چوہے کے خلیے اپنے خراب ڈی این اے کی مرمت کر لیتے ہیں۔ جاؤ پیڈرو کے نزدیک اگر یہی صلاحیت انسان بھی پا لے تو وہ اپنی عمر بڑھا کر پہلے سے زیادہ مفید ومثبت سرگرمیاں انجام دے سکتا ہے۔

ناکارہ اعضا اور خلویاتی نظام

ماہرین طب نے انسانوں میں ایسے عضو اور خلویاتی نظام دریافت کیے ہیں جو پلتے بڑھتے بچے کی نشوونما میں حصہ لیتے ہیں۔ مگر جب بچہ بالغ ہو جائے تو وہ کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ ماہرین کسی طرح ان اعضا اور خلویاتی نظاموں کو دوبارہ متحرک کرنے کے طریقے ڈھونڈ رہے ہیں۔ انھیں یقین ہے کہ ان کے دوبارہ متحرک ہونے سے بڑھاپے کو روکنا ممکن ہو گا۔

مثال کے طور پہ غدہ تیموسیہ (thymus) کو لیجیے۔ یہ ہمارے سینے میں واقع ہوتا ہے۔ بچپن اور لڑکپن میں یہ غدہ ''ٹی خلیے ''خارج کرتا ہے جو ہمارے مدافعتی نظام کو مضبوط وتوانا بناتے ہیں۔ مگر بلوغت آتے ہی یہ غدہ تقریباً مردہ ہو جاتا ہے اور بہت کم ٹی خلیے بناتا ہے۔ بلکہ اکثر چربی میں بدل کر انسانی صحت کو نقصان پہنچاتا ہے۔

ماہرین کوشش کر رہے ہیں کہ کسی طرح اس غدہ کو دوبارہ چالو کرنے کا میکنزم مل جائے۔ تب وہ پھر ٹی خلیے بنانے لگے گا اور ان خلیوں کی موجودگی سے بڑھاپے کو روکنے میں بہت مدد ملے گی۔

ہمارا مدافعتی نظام

انسان کا مدافعتی نظام خلیوں کی کئی اقسام اور مختلف جسمانی نظاموں کی مدد سے کام کرتا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس کے خلیے اور ذیلی نظام کمزور ہو جاتے ہیں۔ لیکن ان خلیوں اور نظاموں کو دوبارہ نیا کرنے کا میکنزم مل جائے تو مدافعتی نظام خودبخود پہلے کی طرح طاقتور ہو جائے گا۔ اور اس کے قوت پکڑتے ہی انسان پھر جوان ہونے لگے گا۔

اسی لیے بعض اوقات دیکھا جاتا ہے کہ بوڑھا ہوتا انسان دوبارہ جوان ہونے لگا۔ بال سیاہ ہو گئے۔ جلد کی جھریاں جاتی رہیں۔ چہرے پر بھی رونق آ گئی۔ اس تبدیلی کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ کسی وجہ سے انسان کا مدافعتی نظام پھر مضبوط ہونے لگتا ہے اور وہ مثبت تبدیلیاں سامنے لے آتا ہے۔

غرض طبی سائنس دانوں کو بڑھاپا روکنے والا ''روڈ میپ ''یا طریق کار تو مل گیا ہے۔ اب انھیں اس شاہراہ پہ چلتے ہوئے ایسے سنگ ہائے میل تلاش کرنے ہیں جو انسانی بڑھاپا دور کر کے انسان کو پھر نہ صرف جوان بنا دیں بلکہ اس کی عمر میں بھی خاطر خواہ اضافہ کر دیں۔ ایک دلچسپ مگر مشکلات سے پُر سفر بنی نوع انسان کو درپیش ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں