سردیوں میں صحت کے مسائل اور ان کا حل

موسم سرما میں خواتین اور بچوں کو بہت احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے


ڈاکٹر راحت جبین December 14, 2023
سردیوں میں صحت کے مسائل اور ان کا حل ۔ فوٹو : فائل

علاقائی اعتبار سے پاکستان کے موسم میں بہت زیادہ تغیر پایا جاتا ہے۔ ایسے علاقے بھی ہیں جو ملک کے سرد ترین علاقوں میں شمار کیے جاتے ہیں جیسے مری، قلات، کوئٹہ، زیارت اور شمالی علاقہ جات جہاں کم از کم درجہ حرارت منفی گیارہ ڈگری سینٹی گریڈ تک بھی پہنچ جاتا ہے اور ایسے علاقے بھی ہیں جہاں زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت پچپن سینٹی گریڈ تک پہنچ جاتا ہے۔ اسکول اور کالجوں میں سالانہ چھٹیاں بھی اسی لحاظ ہوتی ہیں۔

موسم سرما میں عوام کو صحت سے متعلق مختلف مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، بالخصوص خواتین اور بچوں کو بہت احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے کیوں کہ جسمانی طور پر ان میں قوت مدافعت مردوں کی نسبت کم ہوتی ہے، اس لیے وہ بیماریوں کا شکار بھی نسبتاً زیادہ ہوتے ہیں۔

سردیوں کے حوالے سے اگر صحت کے مسائل کو دیکھا جائے تو ملک کے تمام علاقوں میں عموماً ایک جیسی صورت حال ہے۔ سردیوں کی آمد کے ساتھ ہی موسمی بیماریاں بن بلائے مہمان کی طرح چلی آتی ہیں۔

سردیوں میں دھوپ کی کمی اور گھریلو معمولات کی وجہ سے وٹامن ڈی کی کمی انسانی جسم کے دفاعی نظام کو کمزور کر دیتی ہے اور کئی موسمی بیماریاں حملہ آور ہوتی ہیں۔

ان میں الرجی، کھانسی، زکام، گلے کا خراب ہونا، بخار، جوڑوں میں درد، ہاتھ پاؤں خاص طور پر انگلیاں ٹھنڈی ہو جانا، جِلد خشک ہوجانا، فلو کے ساتھ ساتھ دل کا دورہ، ہونٹوں پہ اور ان کے گرد چھالے پڑنا اور الٹیاں شامل ہیں۔

فلو، نزلہ، زکام، کھانسی اور بخار

موسم کے تغیر کے ساتھ ساتھ فلو، نزلہ، زکام اور بخار کے حملے اپنے عروج پر پہنچ جاتے ہیں۔ سرد علاقوں میں بسنے والا کوئی بھی فرد اس وائرل فلو سے بچ نہیں پاتا۔ کورونا کی طرح اس میں بھی قوت مدافعت کا اہم کردار ہے۔

اس وجہ سے بچوں میں صورت حال پیچیدہ ہوسکتی ہے۔ تیز تیز سانس چلنے کی علامت کے ساتھ نمونیا یا ٹی بی کی پیچیدگی ہوجاتی ہے۔ جو کہ جان لیوا بھی ہوتی ہے۔ نمونیا پوری دنیا میں پانچ سال سے کم عمر بچوں میں موت کا سبب بننے والی بیماریوں میں پہلے نمبر پر ہے۔

نظام تنفس یعنی سانس لینے کا نظام جو ناک، سانس لینے والی نالی اور پھیپھڑوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس کا کام باہر کی صاف آکسیجن پر مشتمل ہوا کو اندر لے جانا اور اندر کی نقصان دہ کاربن ڈائی آکسائیڈ والی ہوا کو باہر نکالنا ہے۔

نظام تنفس اپر ریسپائریٹری ( ناک اور سانس والی نالی) اور لوئر ریسپائریٹری سسٹم ( پھیپھڑے) پر مشتمل ہوتا ہے۔ الرجی، نزلہ اور زکام کی صورتحال میں عموماً نظام تنفس کا اوپر والا حصہ متاثر ہوتا ہے۔ مگر وائرل یا بیکٹیریل، انفیکشن، نمونیا، ٹی بی اور دمہ کی صورت میں مریض کے پھیپھڑے بھی متاثر ہوجاتے ہیں۔ پچیس فیصد بچوں میں برونکائٹس کا خطرہ ہوسکتا ہے۔

حفاظتی اقدامات

عام علامات کی صورت میں بچے کو باقی بچوں سے دور صاف اور ہوا دار کمرے میں رکھیں۔ اسے گرم کپڑے پہنائیں۔ کھانے پینے کو کچھ نہ کچھ ضرور دیں۔ اس دوران مائیں اپنے نوزائیدہ بچوں کو چھ ماہ تک اپنا دودھ ضرور پلائیں اور چھ ماہ سے بڑے بچے کو اپنے دودھ کے ساتھ غذایت سے بھرپور ہلکی پھلکی خوراک شروع کریں۔

تیز بخار کی صورت میں نلکے کے پانی میں پٹیاں بگھو کر رکھیں ساتھ ہی پیناڈول یا بروفین کا شربت دیں۔ 12سال سے کم عمر بچوں میں اسپرین یا ڈسپرین نہ دیں کیونکہ یہ جگر اور دماغ کو متاثر کر سکتے ہیں۔ سردیوں میں زیادہ تر یہ وائرل ہوتا ہے۔ وائرل انفیکشن میں اینٹی بائیوٹکس کا کوئی کردار نہیں ۔

اگر ہدایات پر عمل کرنے سے بچے کا بخار کم نہ ہو اور سانس میں رکاوٹ بد ستور قائم رہے تو پھر قریبی مرکز صحت میں بچے کا معائنہ ضروری ہے۔ ساتھ ہی حفاظتی ٹیکوں کا کورس مکمل کریں۔

نمونیا سے بچاؤ کی ویکسین vaccines Pneumococcal (PCV) ایجاد ہو چکی ہے۔ تاہم تیسری دنیا کے ممالک میں ابھی تک مکمل طور شروع نہیں کی گئی ہے۔ بڑے بچوں اور خواتین کے لیے اس حوالے سے شہد، کھجور اور مچھلی کا تیل نظام تنفس کے حوالے سے بہترین غذا ہیں۔

کھانسی اور چھینک کا آنا ایک نعمت بھی ہے اس سے پھیپھڑوں میں یا سانس کی نالی میں انفیکشن یا جمی ہوئی بلغم کو صاف کرنے میں مدد ملتی ہے اور یہ قوت مدافعت کا ایک بہترین نظام بھی ہے۔ اس لیے باقی علامات کی غیر موجودگی میں کسی دوا کی ضرورت نہیں ہے۔

گرم پانی اور نمک کے غرارے کرنے یا پھر بھاپ لینے سے کھانسی دور ہو جاتی ہے۔ البتہ انفیکشن کی صورت میں بخار بھی ہوجاتا ہے تب دوا کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی طرح زکام یا فلو میں جو کہ زیادہ تر وائرس کی وجہ سے ہوتا ہے۔

دوائیوں کا کوئی خاص کردار نہیں۔ بھاپ لینا، وٹامن سی، سوپ اور جوشاندہ وغیرہ کا استعمال کرنا چاہیے۔ اس سے صورت حال ممکنہ حد تک کنٹرول کی جا سکتی ہے۔ ناک میں ڈالنے والی یا بند ناک کھولنے والی دواؤں سے پرہیز کریں کیونکہ اس سے بلڈ پریشر اور خون کی نالیاں سکڑنے کا خطرہ ہوتا ہے۔

جوڑوں کا درد

زیادہ تر لوگوں میں سردیوں میں جوڑوں میں درد اور اکڑن بڑھ جانے کی شکایت عام ہے۔ یہ وٹامن ڈی کی کمی کی وجہ سے بھی ہوتا ہے۔

ایسے مریضوں کو زیادہ سے زیادہ گرم رکھنا چاہیے۔ درد کی گولیوں کے ساتھ ساتھ، وٹامن اور کیلشیم کی گولیاں اور غذایت سے بھرپور غذا نہایت ضروری ہے۔ ساتھ ہی دھوپ میں بیٹھنا بھی کسی حد تک فائدہ مند ہے مگر صبح گیارہ بجے سے شام چار کے دوران دھوپ کی شعائیں نقصان کا باعث بن سکتی ہیں اس لیے ایسے اوقات میں دھوپ میں بیٹھنے سے پرہیز کرنا چاہیے۔

دل کا دورہ پڑنا

اکثر دیکھا گیا ہے کہ سردیوں کے موسم میں دل کا دورہ عام ہے۔ اس موسم میں بلڈ پریشر زیادہ ہونے کی وجہ سے دل پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور دل کا دور ہ بھی ہوسکتا ہے۔ کمرے کو گرم رکھنا چاہیے۔

اس کے لیے کمرے کا اندرونی درجہ حرارت اٹھارہ ڈگری سینٹی گریڈ سے اوپر رکھنا ضروری ہے۔ باہر جاتے وقت خود کو حتی الامکان گرم رکھیں۔ اونی گرم ٹوپی، مفلر، اسکارف، ہاتھوں کے گرم دستانے اور موزے ضرور پہنیں۔

ہاتھوں اور پاؤں کی انگلیوں کا ٹھنڈا ہونا

سرد اور برف باری والے علاقوں کے مکینوں میں یہ بیماری بہت دیکھنے میں آتی ہے۔ شریانوں کے سکڑنے کی وجہ سے انگلیوں میں خون کی فراہمی بہت کم ہوجاتی ہے۔ انگلیوں کی رنگت پہلے سفید، پھر نیلے اور آخر میں سرخ رنگ کی ہونے لگتی ہیں۔

ساتھ ہی شدید درد بھی محسوس ہوتا ہے۔ اکثر برفانی علاقوں میں رہنے والے یا وہاں سخت ڈیوٹی کرنے والے سیکیورٹی اہل کاروں کی انگلیاں پگھل جاتی ہیں۔ ساتھ ہی جلد کے نیچے موجود خون کی رگیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتی ہیں اور ہاتھوں اور پاؤں میں سرخی، خارش ، چھالے اور سوزش ہوتی ہے۔ اس شکایت سے بچنے کے لئے گرم دستانے اور موزے مدد گار ثابت ہوسکتے ہیں اور ساتھ ہی تمباکو اور کیفین کا استعمال ترک کرنا چاہئے۔

ایکزیمہ اور زیروسس

سردیاں اور خشکی ایک دوسرے کے ساتھ لازم و ملزوم ہیں۔ جلد کے حوالے سے دیکھا جائے تو سردیوں کے آتے ہی خشکی بھی پورے جوش و خروش سے گھر میں ڈھیرے ڈال لیتی ہے۔ جس میں ایڑھیاں پھٹنا، ہونٹ پھٹنا اور بالوں کے ساتھ ساتھ پورے جسم میں خشکی پیدا ہوتی ہے۔

اس موسم میں جلد میں پانی کی کمی اور acids fatty کی پیدوار کم ہو جاتی ہے اور جلد خشک اور خارش زدہ ہو جاتی ہے۔ اسے ایکزیمہ کہتے ہیں جو کہ ایٹوپک بھی ہوسکتی ہے۔ ایٹوپک ایکزیمہ کو موروثی بھی کہہ سکتے ہیں۔

اگر کسی کے والدین کو یہ بیماری رہی ہو وہ بچوں میں بھی دیکھنے میں آتی ہے۔ اس صورت میں جلدی علامات کے ساتھ الرجی اور دمہ کی بھی شکایت ہوتی ہے۔ سردیوں میں مرض دوبارہ ہوسکتا ہے یا پہلے سے متاثرہ مریض کی حالت بگڑ بھی سکتی ہے۔

خشکی سے بچنے کی تدابیر

1: سردیوں میں ہاتھ پاؤں دیر تک پانی میں رکھنے سے گریز کریں اس سے جلد خشک ہو جاتی ہے۔

2: خشکی سے بچنے کے لیے ایسا موئسچرائزر استعمال کریں جس میں روغن موجود ہو۔ یہ کسی حد تک قدرتی روغن کا نعم البدل ہوتی ہے۔ موئسچرائزر کا استعمال دن میں دو سے تین بار کریں۔

3: رات کو ہاتھ پاؤں اچھی طرح دھو کر ان پر کولڈ کریم یا پٹرولیم جیلی لگائیں۔ دن کو بھی پاؤں پر کریم لگا کر موزے پہن لیں۔ اگر ممکن ہو تو پورے جسم پر پٹرولیم جیلی لگائیں، یہ بہت دیر تک جلد کی نمی کو برقرار رکھنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔

4: دن میں زیادہ نہانے سے پرہیز کریں۔ نہانے اور ہاتھ پاؤں دھونے کے لیے ایسا صابن استعمال کریں جس میں موائسچرائزر موجود ہو۔ یا پھر تھوڑی مقدار میں روغن بادام بھی نہانے والے پانی میں ملا سکتے ہیں۔ اس کے علاؤہ بہت زیادہ گرم پانی سے نہانا بھی خشکی کا سبب بنتا ہے اس لیے مناسب حد تک گرم پانی سے نہائیں۔

5:جسم کی نمی کو برقرار رکھنے کے لیے وقتاً فوقتاً بھاپ بھی لی جائے۔

6: چہرہ دھونے کے لیے ایلورا والے فیس واش استعمال کریں۔

7:سردیوں میں خشکی کی ایک بڑی وجہ پانی کم پینا بھی ہے۔ جس کے نتیجے میں ڈی ہائیڈریشن ہوتی ہے۔ اس لیے سردیوں میں بھی پانی زیادہ سے زیادہ پینا ضروری ہے۔ پانی کو ہلکا گرم کرکے پیا جاسکتا ہے۔ دیگر مشروبات جیسے کہ چائے، کافی اور مختلف قسم کے پھلوں کے تازہ جوس سے بھی یہ کمی دور کی جاسکتی ہے۔

8:جلد کی طرح سردیوں میں بال بھی خشکی کا شکار ہوتے ہیں۔ اس کے لیے سردیوں میں بالوں میں کم شیمپو کریں۔ ساتھ ہی بالوں کی غذائی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے خوراک کے ساتھ ساتھ مختلف قسم کے تیل استعمال کرنے چاہئیں۔ جن میں ناریل ، زیتون اور بادام کا تیل اہم ہیں۔ یہ سب ملا کر بھی لگا سکتے ہیں۔

9: ہونٹوں کو پھٹنے سے بچانے کے لیے ان پر کولڈ کریم یا پٹرولیم جیلی لگائی جاسکتی ہے۔

10: مجموعی طور پر خشکی سے بچنے کے لیے غذا میں روغنی اجزاء والی خوراک استعمال کرنا چاہیے۔ مثلاً دودھ، مچھلی، دہی، بالائی، اور پنیر وغیرہ۔

11: کچھ گھریلو ٹوٹکے بھی ہیں جن میں دودھ ، دہی، نیم کے پتے، بالائی، عرق گلاب، گلیسرین کو استعمال کرکے جسم کو خشکی سے بچایا جاسکتا ہے۔

نوٹ: ایکزیما اور زیروسس والے مریضوں میں علامت دوبارہ ظاہر ہونے یا مرض بگڑنے کی صورت میں مستند ڈاکٹر سے علاج شروع کرنا چاہیے۔

دمہ

سردیوں میں خشکی بڑھ جاتی ہے اور ہوا میں نمی کا تناسب کم ہوتا ہے۔ اس وجہ سے ہوا میں زیادہ تر الرجی کرنے والی اشیاء مثلاً گرد، ہاؤس مائٹ، پولن گرین آسانی سے شامل ہوجاتی ہیں۔ کھانے پینے کی اشیاء کی وجہ سے بھی الرجی ہوجاتی ہے یا پھر انفیکشن کی وجہ سے سانس کی نالیوں میں بلغم جمع ہوجاتا ہے۔

اس کے علاوہ لکڑیوں کے دھوئیں اور آلودگی کی وجہ سے بھی دمہ ہوسکتا ہے۔ آج کل موسمی تغیر اور فیکٹریوں کے دھوئیں کی وجہ سے دھند کی کیفیت بھی دمے کا باعث بن سکتا ہے۔

حفاظتی اقدامات

دمہ سے بچاؤ کا بہترین علاج الرجی کرنے والے عناصر سے مکمل پرہیز ہے۔ زیادہ سردی میں گھر ہی پر رہنا چاہئے۔ باہر جانا انتہائی ضروری ہو تو ماسک کا استعمال یا ناک اور منہ کو سکارف سے ڈھانپ لینا چاہئے، اس کے ساتھ دمہ کے مریض کو دوا یا پمپ کا استعمال جاری رکھنا چاہیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں