سارہ انعام قتل کیس میں شوہر شاہنواز کو سزائے موت کا حکم
ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ناصر جاوید رانا نے محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے 10 لاکھ روپے جرمانہ بھی عائد کیا
کینیڈین شہری سارہ انعام قتل کیس میں ملزم شوہر شاہنواز امیر کو عدالت نے سزائے موت کا حکم دے دیا۔
ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ناصر جاوید رانا نے محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے ملزم شاہنواز امیر کو سزائے موت کا حکم دیتے ہوئے 10 لاکھ روپے جرمانہ بھی عائد کیا ہے۔
سارہ انعام کو 23 ستمبر 2022 کو اسلام آباد میں قتل کردیا گیا تھا جس کے بعد پولیس نے ان کے شوہر شاہنواز امیر کیخلاف مقدمہ درج کرتے ہوئے گرفتار کرلیا تھا۔
مقدمے میں ملزم کی والدہ ثمینہ شاہ بھی نامزد ہیں، عدالت نے پانچ دسمبر 2022 کو ملزمان پر فرد جرم عائد کرتے ہوئے ٹرائل کا آغاز کیا تھا۔
سارہ انعام قتل کیس میں ملزمان نے صحت جرم سے انکار کیا تھا، عدالت نے استغاثہ کے گواہوں کے بیانات قلمبند کرنے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
تحریری فیصلہ
اسلام آباد کی مقامی عدالت نے سارا انعام قتل کیس کا 75 صفحات پر مشتمل تفصیلی تحریری فیصلہ جاری کردیا، جسے سیشن جج ناصر جاوید راجہ نے تحریر کیا ہے۔
تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ استغاثہ ملزم شاہنواز امیر کیخلاف مقدمہ ثابت کرنے میں کامیاب رہا ہے، شاہنواز امیر نے جان بوجھ کر سارہ انعام کا بے رحمانہ قتل کیا جس کی بنیاد پر عدالت شاہنواز امیر کو مجرم قرار دیتی ہے۔
تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ شاہنواز امیر نے سارہ انعام کو سر پر وزنی ڈمبل کی بار بار بے رحم ضربات لگا کر قتل کیا، مجرم شاہنواز امیر نے ظالمانہ اور بے رحمانہ قتل کا ارتکاب کیا جس پر مجرم کسی بھی قسم طرح کے رحم کا مستحق نہیں ہے۔
عدالت نے لکھا کہ شاہنواز امیر کو تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302 بی کے تحت سزائے موت کا حکم سنایا جاتا ہے، مجرم شاہنواز امیر کو مرنے تک پھانسی کے پھندے سے لٹکایا جائے۔
تحریری فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ مجرم شاہنواز امیر پر 10 لاکھ روپے کا جرمانہ سارہ انعام کے لواحقین کو ادا کرے، مجرم شاہنواز امیر جرمانہ ادا کرنے میں ناکام رہتا ہے تو اس سے زمین کے واجبات کی مد میں جرمانہ وصول کیا جائے۔
سیشن جج نے کہا کہ دیوالیہ ہونے کی صورت میں شاہنواز امیر کو چھ ماہ کی قید مزید بھگتنا ہوگی، پولیس کی جانب سے مال مقدمہ کی مد میں تحویل میں لیے گئے سارا انعام کے خون آلودہ کپڑے اور دیگر چیزیں سارا انعام کے والد کو کوٹا دی جائیں۔
تحریری فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ شاہنواز امیر کے ساتھ شریک ملزمہ ثمینہ شاہ کو ایف آئی آر میں نامزد نہیں کیاگیا تھا، انہیں بعد میں قتل میں معاونت کے مقدمے میں نامزد کیا گیا، ثمینہ شاہ پر قتل میں معاونت کے الزام کے حوالے سے کوئی ثبوت پیش نہیں کیا گیا۔
تحریری فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ وقوعہ کے وقت ثمینہ شاہ فارم ہاؤس پر موجود تھیں مگر ان کی قتل میں معاونت کا کوئی ثبوت موجود نہیں ہے، تفتیش اور ٹرائل کے دوران بھی ثمینہ شاہ کے خلاف کوئی مجرمانہ مواد ریکارڈ پر نہیں لایا گیا اور واقعے کے فوراً بعد ثمینہ شاہ نے خود پولیس کو فون کر کے سارا انعام کے قتل کے حوالے سے آگاہ کیا۔
جج نے لکھا کہ شریک ملزمہ ثمینہ شاہ کو شک کا فائدہ دے کر مقدمے سے بری کیا جارہا ہے۔
ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ناصر جاوید رانا نے محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے ملزم شاہنواز امیر کو سزائے موت کا حکم دیتے ہوئے 10 لاکھ روپے جرمانہ بھی عائد کیا ہے۔
سارہ انعام کو 23 ستمبر 2022 کو اسلام آباد میں قتل کردیا گیا تھا جس کے بعد پولیس نے ان کے شوہر شاہنواز امیر کیخلاف مقدمہ درج کرتے ہوئے گرفتار کرلیا تھا۔
مقدمے میں ملزم کی والدہ ثمینہ شاہ بھی نامزد ہیں، عدالت نے پانچ دسمبر 2022 کو ملزمان پر فرد جرم عائد کرتے ہوئے ٹرائل کا آغاز کیا تھا۔
سارہ انعام قتل کیس میں ملزمان نے صحت جرم سے انکار کیا تھا، عدالت نے استغاثہ کے گواہوں کے بیانات قلمبند کرنے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
تحریری فیصلہ
اسلام آباد کی مقامی عدالت نے سارا انعام قتل کیس کا 75 صفحات پر مشتمل تفصیلی تحریری فیصلہ جاری کردیا، جسے سیشن جج ناصر جاوید راجہ نے تحریر کیا ہے۔
تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ استغاثہ ملزم شاہنواز امیر کیخلاف مقدمہ ثابت کرنے میں کامیاب رہا ہے، شاہنواز امیر نے جان بوجھ کر سارہ انعام کا بے رحمانہ قتل کیا جس کی بنیاد پر عدالت شاہنواز امیر کو مجرم قرار دیتی ہے۔
تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ شاہنواز امیر نے سارہ انعام کو سر پر وزنی ڈمبل کی بار بار بے رحم ضربات لگا کر قتل کیا، مجرم شاہنواز امیر نے ظالمانہ اور بے رحمانہ قتل کا ارتکاب کیا جس پر مجرم کسی بھی قسم طرح کے رحم کا مستحق نہیں ہے۔
عدالت نے لکھا کہ شاہنواز امیر کو تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302 بی کے تحت سزائے موت کا حکم سنایا جاتا ہے، مجرم شاہنواز امیر کو مرنے تک پھانسی کے پھندے سے لٹکایا جائے۔
تحریری فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ مجرم شاہنواز امیر پر 10 لاکھ روپے کا جرمانہ سارہ انعام کے لواحقین کو ادا کرے، مجرم شاہنواز امیر جرمانہ ادا کرنے میں ناکام رہتا ہے تو اس سے زمین کے واجبات کی مد میں جرمانہ وصول کیا جائے۔
سیشن جج نے کہا کہ دیوالیہ ہونے کی صورت میں شاہنواز امیر کو چھ ماہ کی قید مزید بھگتنا ہوگی، پولیس کی جانب سے مال مقدمہ کی مد میں تحویل میں لیے گئے سارا انعام کے خون آلودہ کپڑے اور دیگر چیزیں سارا انعام کے والد کو کوٹا دی جائیں۔
تحریری فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ شاہنواز امیر کے ساتھ شریک ملزمہ ثمینہ شاہ کو ایف آئی آر میں نامزد نہیں کیاگیا تھا، انہیں بعد میں قتل میں معاونت کے مقدمے میں نامزد کیا گیا، ثمینہ شاہ پر قتل میں معاونت کے الزام کے حوالے سے کوئی ثبوت پیش نہیں کیا گیا۔
تحریری فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ وقوعہ کے وقت ثمینہ شاہ فارم ہاؤس پر موجود تھیں مگر ان کی قتل میں معاونت کا کوئی ثبوت موجود نہیں ہے، تفتیش اور ٹرائل کے دوران بھی ثمینہ شاہ کے خلاف کوئی مجرمانہ مواد ریکارڈ پر نہیں لایا گیا اور واقعے کے فوراً بعد ثمینہ شاہ نے خود پولیس کو فون کر کے سارا انعام کے قتل کے حوالے سے آگاہ کیا۔
جج نے لکھا کہ شریک ملزمہ ثمینہ شاہ کو شک کا فائدہ دے کر مقدمے سے بری کیا جارہا ہے۔