ایکسپو سینٹر میں 18ویں کراچی بین الاقوامی کتب میلے کا افتتاح
کتب میلہ پانچ روز تک جاری رہے گا جس میں کتابوں کے 330 اسٹالز لگائے گئے ہیں
پاکستان پبلشرز اینڈ بک سیلرز ایسوسی ایشن کے تحت ایکسپو سینٹر کراچی میں 18ویں بین الاقوامی کتب میلے کا افتتاح کر دیا گیا اور اسے عوام کے لیے کھول دیا گیا۔
کتب میلہ پانچ روز تک جاری رہے گا جس میں کتابوں کے 330 اسٹالز لگائے گئے ہیں۔ میلے میں پہلے ہی روز عوام کا رش دیکھنے میں آیا۔ کتب میلے کا افتتاح نگراں وزیر اعلیٰ سندھ جسٹس (ر) مقبول باقر نے کیا۔
افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے نگراں وزیراعلیٰ سندھ جسٹس (ر) مقبول باقر نے کہا کہ کسی معاشرے کی تکمیل و ترقی کے لیے کتاب کی اہمیت کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ یہاں اسٹال پر کھڑے ہوکر بچے کس طرح کتاب پڑھ رہے ہیں۔
انھوں نے پاکستان پبلشرز اینڈ بک سیلرز ایسوسی ایشن کو اس بات کی یقین دہانی کرائی کہ وہ کاغذ اور درآمدی کتاب پر لگنے والی ڈیوٹی پر وفاقی حکومت سے بات کریں گے۔
ذرائع ابلاغ سے بات کرتے ہوئے نگراں وزیر اعلیٰ سندھ کا کہنا تھا کہ سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کے چیئرمین کو بہتری لانے کے لیے ہٹایا گیا کہ تعلیمی بورڈ کا جامعات کو وزیر اعلیٰ سندھ سے گورنر سندھ کو منتقل کرنے کا معاملہ قانونی ہے اس پر فوری بات نہیں کی جا سکتی۔
چیئرمین پاکستان پبلشرز اینڈ بک سیلرز ایسوسی ایشن کے صدر عزیز خالد نے کہا کہ پاکستان میں ڈالر کی قدر بڑھنے کے ساتھ ساتھ نئی درآمدی پالیسی میں کاغذ اور کتابوں پر بے انتہا ڈیوٹی لگا دی گئی ہے، لوکل مینوفیکچر کاغذ کی ڈیمانڈ پوری نہیں کر پا رہے جس کے سبب پرائیویٹ پبلشرز کی نصابی کتابیں بہت مہنگی ہوگئی ہیں جبکہ ادبی کتابوں کا خریدار اب موجود ہی نہیں ہے کیونکہ یہ کتابیں بھی مہنگی ہوچکی ہے۔ انھوں نے وزیر اعلیٰ سندھ سے مطالبہ کیا کہ وہ اس سلسلے میں وفاقی حکومت سے بات کریں اور اپنا کردار ادا کریں۔
چیئرمین عزیز خالد کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان میں کتاب کی ثقافت اور لائبریری کلچر کو فروغ دینے کے لیے اس میلے کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ نجی اسکولز نے بک کلچر کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا ہے، نجی اسکولز نے اپنے اداروں میں لائبریریز اور بک کارنر قائم کیے ہیں، وہ طلبہ میں کتب بینی کے فروغ میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ عزیز خالد نے کہا کہ ہم نے بڑے اور اچھے مصنفین کو یہاں بلایا ہے تاکہ انھوں نے جو کاوشیں کی ہیں ان کی ستائش کی جائے۔
ایم کیو ایم کے رہنما فیصل سبزواری نے اپنی تقریر میں کہا کہ ہماری کتاب سے دوری کا مسئلہ یہ ہے کہ پڑھے لکھے لوگوں میں سے 95 فیصد وہ ہیں جنھوں نے صرف نصابی کتابیں ہی پڑھی ہیں، ہمارے یہاں مذاکرے اور مباحثے پر پابندی ہے۔ انھوں نے افغانستان میں قائم طالبان حکومت کو آئیڈیل کہنے والے اور ان کی کرنسی کی قدر کو بہتر کہنے والوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اگر ہم اپنے ملک کی نصف آبادی خواتین کو گھر بٹھا دیں یا اسکول، کالج اور یونیورسٹیز کے دروازے ان پر بند کر دیں اور مختلف طبقہ ہائے زندگی سے انھیں باہر کر دیں تو شاید ہماری کرنسی کی قدر بھی بڑھ جائیں اور ہمارے اخراجات بھی کم ہوجائیں۔
اس موقع پر کتب میلے کے کنوینر وقار متین نے مہمانوں کا شکریہ ادا کیا جبکہ معروف مصنف اور اردو لغت بورڈ کے سابق سربراہ عقیل عباس جعفری اور اردو ادب کے معروف شاعر ڈاکٹر ہلال نقوی، آکسفورڈ پبلشرز کی سابق سربراہ امینہ سید، مذہبی اسکالر علیم قریشی کو ایوارڈ دیے گئے۔
کتب میلہ پانچ روز تک جاری رہے گا جس میں کتابوں کے 330 اسٹالز لگائے گئے ہیں۔ میلے میں پہلے ہی روز عوام کا رش دیکھنے میں آیا۔ کتب میلے کا افتتاح نگراں وزیر اعلیٰ سندھ جسٹس (ر) مقبول باقر نے کیا۔
افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے نگراں وزیراعلیٰ سندھ جسٹس (ر) مقبول باقر نے کہا کہ کسی معاشرے کی تکمیل و ترقی کے لیے کتاب کی اہمیت کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ یہاں اسٹال پر کھڑے ہوکر بچے کس طرح کتاب پڑھ رہے ہیں۔
انھوں نے پاکستان پبلشرز اینڈ بک سیلرز ایسوسی ایشن کو اس بات کی یقین دہانی کرائی کہ وہ کاغذ اور درآمدی کتاب پر لگنے والی ڈیوٹی پر وفاقی حکومت سے بات کریں گے۔
ذرائع ابلاغ سے بات کرتے ہوئے نگراں وزیر اعلیٰ سندھ کا کہنا تھا کہ سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کے چیئرمین کو بہتری لانے کے لیے ہٹایا گیا کہ تعلیمی بورڈ کا جامعات کو وزیر اعلیٰ سندھ سے گورنر سندھ کو منتقل کرنے کا معاملہ قانونی ہے اس پر فوری بات نہیں کی جا سکتی۔
چیئرمین پاکستان پبلشرز اینڈ بک سیلرز ایسوسی ایشن کے صدر عزیز خالد نے کہا کہ پاکستان میں ڈالر کی قدر بڑھنے کے ساتھ ساتھ نئی درآمدی پالیسی میں کاغذ اور کتابوں پر بے انتہا ڈیوٹی لگا دی گئی ہے، لوکل مینوفیکچر کاغذ کی ڈیمانڈ پوری نہیں کر پا رہے جس کے سبب پرائیویٹ پبلشرز کی نصابی کتابیں بہت مہنگی ہوگئی ہیں جبکہ ادبی کتابوں کا خریدار اب موجود ہی نہیں ہے کیونکہ یہ کتابیں بھی مہنگی ہوچکی ہے۔ انھوں نے وزیر اعلیٰ سندھ سے مطالبہ کیا کہ وہ اس سلسلے میں وفاقی حکومت سے بات کریں اور اپنا کردار ادا کریں۔
چیئرمین عزیز خالد کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان میں کتاب کی ثقافت اور لائبریری کلچر کو فروغ دینے کے لیے اس میلے کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ نجی اسکولز نے بک کلچر کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا ہے، نجی اسکولز نے اپنے اداروں میں لائبریریز اور بک کارنر قائم کیے ہیں، وہ طلبہ میں کتب بینی کے فروغ میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ عزیز خالد نے کہا کہ ہم نے بڑے اور اچھے مصنفین کو یہاں بلایا ہے تاکہ انھوں نے جو کاوشیں کی ہیں ان کی ستائش کی جائے۔
ایم کیو ایم کے رہنما فیصل سبزواری نے اپنی تقریر میں کہا کہ ہماری کتاب سے دوری کا مسئلہ یہ ہے کہ پڑھے لکھے لوگوں میں سے 95 فیصد وہ ہیں جنھوں نے صرف نصابی کتابیں ہی پڑھی ہیں، ہمارے یہاں مذاکرے اور مباحثے پر پابندی ہے۔ انھوں نے افغانستان میں قائم طالبان حکومت کو آئیڈیل کہنے والے اور ان کی کرنسی کی قدر کو بہتر کہنے والوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اگر ہم اپنے ملک کی نصف آبادی خواتین کو گھر بٹھا دیں یا اسکول، کالج اور یونیورسٹیز کے دروازے ان پر بند کر دیں اور مختلف طبقہ ہائے زندگی سے انھیں باہر کر دیں تو شاید ہماری کرنسی کی قدر بھی بڑھ جائیں اور ہمارے اخراجات بھی کم ہوجائیں۔
اس موقع پر کتب میلے کے کنوینر وقار متین نے مہمانوں کا شکریہ ادا کیا جبکہ معروف مصنف اور اردو لغت بورڈ کے سابق سربراہ عقیل عباس جعفری اور اردو ادب کے معروف شاعر ڈاکٹر ہلال نقوی، آکسفورڈ پبلشرز کی سابق سربراہ امینہ سید، مذہبی اسکالر علیم قریشی کو ایوارڈ دیے گئے۔