سپریم جوڈیشل کونسل کی جسٹس مظاہر کو یکم جنوری تک جواب جمع کرانے کی مہلت

جسٹس مظاہر نے اپنے خط میں کہا تھا کہ ان کیمرا اجلاس کی وجہ سے میڈیا ٹرائل اور تضحیک کا نشانہ بنایا جا رہا ہے

(فوٹو فائل)

سپریم جوڈیشل کونسل نے جسٹس مظاہر کے خلاف کیس کی اوپن سماعت کرتے ہوئے جسٹس مظاہر نقوی کو تیسرا موقع فراہم کرتے ہوئے یکم جنوری تک جواب جمع کرانے کی مہلت دیدی۔

کونسل کی جانب سے جسٹس مظاہر نقوی کی درخواست منظور کرتے ہوئے ان کے خلاف کارروائی کی اوپن سماعت کی۔ اس سلسلے میں جوڈیشل کونسل کے پانچوں ارکان نے اوپن سماعت کی درخواست کو منظور کیا۔

سپریم جوڈیشل کونسل میں جسٹس مظاہر نقوی کیخلاف چئیرمین چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں اوپن اجلاس منعقد ہوا ، کونسل ممبران میں سپریم کورٹ کے ججز جسٹس سردار طارق مسعود اور جسٹس اعجاز الاحسن ، لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس امیر بھٹی اور بلوچستان ہائیکورٹ کے چیف جسٹس نعیم اختر افغان شریک تھے۔

جوڈیشل کونسل نے جسٹس مظاہرنقوی کو جواب دینے کیلیے یکم جنوری تک وقت دے دیا۔ چئیرمین کونسل جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہا اگر جسٹس مظاہر نقوی کا جواب تسلی بخش ہوا تو کونسل کارروائی ختم کر دے گی۔

سپریم جوڈیشل کونسل نے جسٹس مظاہر نقوی سے شو کاز کے جواب کے ہمراہ گواہان کی فہرست بھی پیش کرنے کی ہدایت کر دی۔ کونسل نے اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان کو سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کنڈکٹ کرانے کیلیے پراسیکوٹر مقرر کیا تو جسٹس مظاہر نقوی کے وکیل خواجہ حارث نے اٹارنی جنرل پر اعتراض اٹھایا کہ وہ شکایت کنندہ پاکستان بار کونسل کے چئیرمین ہیں، تاہم جوڈیشل کونسل نے اعتراض مسترد کردیا۔

چیئرمین جوڈیشل کونسل جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کارروائی کے دوران ریمارکس دیے کہ آئین میں کہیں نہیں لکھا کہ جوڈیشل کونسل کیخلاف درخواست دیکر کارروائی روکی جائے،ایسے تو ہر جج آرٹیکل ایک سو چوراسی تین کی درخواست دے کر کہے گا کہ میرے خلاف کاروائی روکی جائے۔ آڈیو لیکس میں دیکھنا ہو گا کہ آڈیوز درست ہیں یا نہیں، آج کل تو کوئی بھی آڈیوز توڑ مروڑ کر بنا دیتا ہے۔


شکایت کنندہ پاکستان بار کونسل نے پرویز الہیٰ، محمد خان بھٹی کے علاوہ وراثتی جائیداد سے محروم رکھے گئے دو افراد کو بھی بطور گواہ طلب کرنے کی استدعا کی۔

کونسل نے کہا کہ اٹارنی جنرل، جسٹس مظاہر نقوی سمیت دیگر گواہان کی فہرست پیش کر سکتے ہیں۔ کونسل نے قرار دیا اگر جسٹس مظاہر نقوی کے جوابات سے مطمئن ہوئے تو کارروائی روک دیں گے، اگر جواب غیر تسلی بخش ہوا تو گواہان کو طلب کیا جائے گا۔ مزید کارروائی گیارہ جنوری ڈھائی بجے تک ملتوی کر دی گئی۔

قبل ازیں جسٹس مظاہر نقوی نے جوڈیشل کونسل کو خط لکھا تھا، جس میں انہوں نے کارروائی اوپن کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ خط میں کہا گیا تھا کہ شوکت عزیز صدیقی کیس میں سپریم کورٹ نے جوڈیشل کونسل کی کھلی سماعت کا حق تسلیم کیا۔ میری درخواست ہے کہ میرے خلاف جوڈیشل کونسل کی کارروائی کی بھی اوپن سماعت کی جائے۔

خط میں جسٹس مظاہر نقوی نے استدعا کی کہ آئین پاکستان مجھے کھلی سماعت کا حق دیتا ہے، میں نے جوڈیشل کونسل کی تشکیل پر اعتراضات اٹھائے ہیں، کونسل کے ان کیمرا اجلاس کی وجہ سے میرا میڈیا ٹرائل کیا جا رہا ہے۔ کونسل کی کارروائی کی وجہ سے مجھے تضحیک کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا تھا کہ شفاف ٹرائل کا تقاضا ہے کہ انصاف صرف ہونا نہیں چاہیے بلکہ ہوتا ہوا نظر آنا چاہیے، جب تک میری درخواستوں پر فیصلہ نہیں آتا تب تک جوڈیشل کونسل کی کارروائی روک دی جائے۔

جسٹس مظاہر نے خط میں مزید لکھا کہ میری جوڈیشل کونسل کے سامنے متعدد درخواستیں زیر التوا ہیں۔ 13 نومبر کو میں نے نوٹس کی قانونی حیثیت پر سوال اٹھایا اور اسے واپس لینے کا مطالبہ کیا تھا۔ میری دونوں درخواستیں 15 دسمبر کو سماعت کے لیے مقرر ہیں۔

اوپن ٹرائل کی درخواست کے بعد سپریم جوڈیشل کونسل نے جسٹس مظاہر نقوی کی استدعا منظور کرتے ہوئے کارروائی کی اوپن سماعت کی۔
Load Next Story