قومی اداروں کی نجکاری

دیگر اداروں کی طرح بد انتظامی اور کرپشن کی بھینٹ چڑھ کر یہ ادارہ بھی ایک عظیم اثاثہ کے بجائے ایک بوجھ بن گیا

S_afarooqi@yahoo.com

ملک کی معیشت کا حال مت پوچھیے۔ بظاہر اصلاح کی کوئی صورت دکھائی نہیں دے رہی۔ بقولِ غالبؔ :

کوئی امید بر نہیں آتی

کوئی صورت نظر نہیں آتی

حالت یہ ہے کہ ڈاکٹروں پر ڈاکٹر تبدیل کیے جا رہے ہیں، لیکن مریض کی حالت ہے کہ بہتر ہونے کے بجائے مزید بگڑتی جا رہی ہے۔ مختلف قومی ادارے جو کبھی آمدنی کا بہت بڑا ذریعہ ہوا کرتے تھے، ملک کی معیشت کے لیے بوجھ بن چکے ہیں۔

سب سے بڑی مثال قومی ایئر لائن پی آئی اے کی ہے جس کا سلوگن ہوا کرتا تھاGreat people to fly with ملک کے ہی نہیں غیر ملکی مسافر بھی پی آئی اے سے سفر کرنے پر فخر کیا کرتے تھے۔

یہ وہ ایئر لائن تھی جس نے کئی مشہور غیر ملکی ایئر لائنوں کو جنم دیا تھا جو آج پھل پھول رہی ہیں۔ وقت کی پابندی کا عالم یہ تھا کہ پی آئی اے کی پرواز سے لوگ اپنی گھڑیاں ملایا کرتے تھے۔ دورانِ پرواز مسافروں کی جو خاطر تواضع کی جاتی تھی اب وہ قصہ پارینہ ہے۔

ایئر مارشل نور خان (مرحوم) کی یاد بُری طرح ستا رہی ہے جنھوں نے اِس پودے کی اپنے خون سے آبیاری کی جس کے نتیجے میں یہ پودا ایک تناور درخت بن گیا۔ آج اِس درخت کا حال یہ ہے کہ شاخیں ٹوٹ رہی ہیں اور پتے جھڑ رہے ہیں۔ یہ کیسے ہوا اور کون اِس کا ذمے دار ہے، یہ کہانی بہت رقت انگیز ہے۔ قصہ مختصر:

وقت کرتا ہے پرورش برسوں

حادثہ ایک دم نہیں ہوتا

نوبت یہ آن پہنچی ہے کہ مریضہ کو خون پر خون چڑھایا جارہا ہے اور اس کی حالت کسی طور سُدھر نہیں رہی ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اِس وقت ملک میں 4 پرائیوٹ فضائی کمپنیاں کام کر رہی ہیں اور ہر کمپنی منافع میں جارہی ہے جب کہ پی آئی اے کا معاملہ اِس کے الٹ ہے۔ شنید یہ ہے کہ اِس کی نجکاری کا فیصلہ ہوچکا ہے۔ صرف وقت کا انتظار ہے۔

عشق ہمارے خیال پڑا ہے خواب گئی آرام گیا


جی کا جانا ٹھہر رہا ہے صبح گیا یا شام گیا

منافع تو کُجا پی آئی اے کو گزشتہ سال 88 بلین روپے کا خسارہ اٹھانا پڑا۔ اِس سے بھی قبل ایئر لائن کو 50 بلین روپے کا نقصان ہوا تھا۔ پی آئی اے کو سال بہ سال ہونے والے نقصانات کی کُل رقم 717 بلین روپے بنتی ہے جب کہ اِس کی موجودہ قیمت 900 روپے بلین ہے۔

900 بلین روپے کی یہ رقم کسی بڑے 15 اسپتال،کسی بڑی جدید 60 جامعات اور پورے پاکستان میں 18,000 اسکول تعمیر کرنے کے لیے کافی ہے۔ پی آئی اے کا یہ حشر کیوں اور کیسے ہوا؟ اِس کی سب سے بڑی وجہ اووَر اسٹافنگ ہے۔

موٹی سی بات ہے کہ اگر بڑے سے بڑے بحری جہاز پر اُس کی گنجائش سے کئی گُنا سامان لاد دیا جائے تو اُس کا ڈوبنا یقینی ہے۔ سیاسی سفارشوں کے دباؤ تلے بے تحاشہ اور اندھا دھُند بھرتیاں کی گئیں جس نے اس ادارے کا دیوالیہ نکال دیا۔ دوسری جانب ضرورت سے زیادہ اسٹاف ہونے کی وجہ سے اِس کی کارکردگی بُری طرح متاثر ہوئی۔ اس ادارے پر چاہے جتنا پیسہ لگا دیا جائے لیکن تلخ حقیقت یہ ہے کہ یہ اقدام ریگستان میں آبیاری کرنے کے مترادف ہوگا۔

ایک پی آئی اے کا ہی رونا کیا دیگر قومی اداروں کا بھی ایسا ہی حال ہے۔ پاکستان ریلوے بھی نزع کی حالت میں ہے۔ یہ قومی ادارہ بھی مسافروں کی آمد ورفت اور مال برداری کا اہم ترین اور نہایت با کفایت ذریعہ تھا لیکن کرپشن اور بدانتظامی نے اِس کا بھی بیڑا غرق کردیا ہے۔

گزشتہ سال حکومت نے اِس کے نقصانات کی تلافی کے لیے اِس کو 45 بلین روپے کی خطیر رقم مہیا کی تھی۔ اِس کے علاوہ 25 بلین روپے کی اضافی رقم اِس کی ترقی کی مَد میں دی تھی۔ مجموعی صورتحال یہ ہے کہ گزشتہ 15 سالوں میں ملک کے ٹیکس دہندگان نے بطورِ اعانت پاکستان ریلویز کو 783 بلین روپے کی بھاری رقم فراہم کی تھی مگر نتیجہ وہی صفر کا صفر رہا۔ اِس محکمہ کی موجودہ قیمت 1000 بلین روپے ہے۔

ایک کلو گرام وزنی کارگوکی نقل و حمل پر خرچ ہونے والے ڈیزل کی قیمت ریل کے مقابلے میں ٹرک سے 3 سے 4 گُنا زیادہ ہے۔ اِس کے باوجود پاکستان ریلوے کارگو پر ٹرک کے مقابلے میں زیادہ قیمت وصول کرتی ہے۔ ریل سے سفر مسافروں کے لیے زیادہ آرام دہ اور محفوظ ذریعہ ہے لیکن پھر بھی مسافروں کی ایک بڑی تعداد ریل کے مقابلے میں بس کے لمبے سفر کو ترجیح دیتی ہے۔

ایک زمانہ وہ تھا جب ریلوے کے محکمہ کی وزارت کا قلم دان محمد خان جونیجو جیسے انتہائی ذمے دار اور فرض شناس شخص کے پاس تھا۔

پاکستان ریلوے کی کارکردگی کا وہ سنہرا دور تھا جسے کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ اُس وقت ٹرینوں کی آمد ورفت نہ صرف بروقت ہوا کرتی تھی بلکہ ٹرین کی بوگیوں اور اسٹیشنوں کی حالت بھی اچھی ہوا کرتی تھی اور مسافروں کو ٹکٹ باآسانی دستیاب ہوتے تھے اور ٹکٹوں کی بلیک میں فروخت کا کوئی تصور ہی نہیں تھا۔

ریلوے کے ملازم بھی آسودہ اور خوشحال اور ایماندار ہوتے تھے اور کرپشن کا نام و نشان نہیں تھا۔ پھر یوں ہوا کہ وقت بدلنے کے ساتھ ساتھ ریلوے کی انتظامیہ میں بھی تبدیلیاں آتی چلی گئیں۔ہوتے ہوتے وہ وقت بھی آگیا جب وزیرِ اعظم میاں محمد نواز شریف کی حکومت میں اِس کی وزارت کا قلم دان خواجہ سعد رفیق کے سپرد کردیا گیا جنھوں نے انتہائی دیانت، فراست اور بساط کے مطابق اِس اونٹ کی کَلیں سیدھی کرنے کی انتھک کوششیں کیں جس کے نتیجے میں نہ صرف اِس قومی ادارے کی کارکردگی بہتر ہوئی بلکہ مسافروں کی سہولتوں میں بھی اضافہ ہوا اور بہتری ہوئی۔پی آئی اے اور پاکستان ریلوے کی حالت جاننے کے بعد اب آئیے! پاکستان اسٹیل مِلز کی حالت پر ایک سَر سَری نظر ڈالی جائے۔

اِس عظیم اور غیر معمولی اہمیت کے حامل ادارے کے قیام کا سہرا سابق وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی کرشماتی شخصیت کے سَر ہے۔پاکستان اور روس کے درمیان انتہائی کشیدہ تعلقات کے پَس منظر میں اِس ادارے کا قیام محض ایک خواب تھا جس کی تعبیر ناممکن تھی لیکن کمال ہے بھٹو صاحب کا کہ نہ صرف انھوںنے اپنی بے مثل ذہانت کی بدولت دونوں ممالک کے تعلقات کی کشیدگی کو اپنی سحر انگیز ڈپلومیسی کے ذریعے دوستی میں تبدیل کردیا بلکہ پاکستان اسٹیل ملز کے قیام کو بھی ممکن بنا دیا۔

افسوس صد افسوس بعض دیگر اداروں کی طرح بد انتظامی اور کرپشن کی بھینٹ چڑھ کر یہ ادارہ بھی ایک عظیم اثاثہ کے بجائے ایک بوجھ بن گیا اور نوبت یہ ہے کہ اِس کے ملازمین کے واجبات کی عدم ادائیگی کی وجہ سے اِس کے ملازمین اور پینشنرز ایک عذاب میں مبتلا ہیں۔ چار و ناچار یہ عظیم ادارہ بھی نجکاری کی زد میں ہے۔
Load Next Story