سی پیک اور اس کے فوائد
ہمیں اس کو سمجھنا چاہیے کہ سی پیک عوامی جمہوریہ چین کا ایک پروجیکٹ ہے نہ کہ پاکستان کا
چائنا،پاکستان اکنامک کوریڈار جسے عرفِ عام میں سی پیک کہا جاتا ہے چین کے ایک بڑے منصوبے بیلٹ اینڈ روڈ انی شی ایٹو)بی آر آئی( کا ایک کمپوننٹ ہے۔
ہمیں اس کو سمجھنا چاہیے کہ سی پیک عوامی جمہوریہ چین کا ایک پروجیکٹ ہے نہ کہ پاکستان کا۔ہمارے سیاسی زعماء دن رات عوام کو بتا رہے ہوتے ہیں کہ میں نے سی پیک کا منصوبہ شروع کیا۔ کوئی بات بھی حقیقت سے اتنی دور نہیں جتنا یہ دعویٰ۔سی پیک کے نام سے ہی حقیقت سامنے آ جاتی ہے کہ یہ چین کا پاکستان کے لیے ایک پروجیکٹ ہے۔
یہ چائنا پاکستان اکنامک کوریڈار ہے نہ کہ پاکستان چائنا اکنامک کوریڈار۔بی آر آئی میں سی پیک جیسے 5 اور پروجیکٹس ہیں۔
اسی طرح کا ایک اور پروجیکٹ چائنا،بنگلہ دیش، برما اور سری لنکا ہے۔باقی پانچ پروجیکٹس بھی اہم ہیں لیکن یہ واضح ہے کہ چین کے اوورسیز پروجیکٹس میں سب سے Vibrant پروجیکٹ سی پیک ہی ہے۔
اس پروجیکٹ کی بنیاد2013میں رکھی گئی اور اس کے سب پروجیکٹس پر کام کا آغاز بھی ہو گیا لیکن اس کا افتتاح 2015میں چینی صدر جناب شی کے دورہٗ پاکستان کے موقع پر ہوا۔اس کو شروع کرتے ہوئے چینی قیادت نے پاکستانی قیادت پر واضح کر دیا کہ اگر سی پیک سے صحیح فائدہ اٹھاناہے تو پاکستان کو اس پر چین کی رفتار سے کام کرنا ہو گا۔
اس وقت کی پاکستانی قیادت نے یقین دلایا کہ پاکستان تیزی سے اس پر کام کرے گا۔ہر چند کہ پاکستان کی تمام سیاسی پارٹیاں سی پیک کو اون کرتی ہیں لیکن ہم جانتے ہیں کہ بوجوہ سی پیک پر مطلوبہ رفتار سے کام نہیں ہوا۔
یہ پروجیکٹ چین کا ہے۔اس پر سرمایہ کاری بھی چین کر رہا ہے اس لیے چین سب سے پہلے اپنے Interestکو دیکھے گا لیکن کیا چین پاکستان کے نقصان کے درپے ہے تو ہم پاکستانیوں کو یہ یقین رکھنا ہو گا کہ چین پاکستان کے نقصان کا سوچتا بھی نہیں۔دراصل سی پیک دونوں ممالک کے لیے انتہائی فائدہ مند پروجیکٹ ہے۔پاکستان سی پیک سے فائدہ اٹھانے میں جتنی سرعت اور سنجیدگی سے کام کرے گا اتنا ہی فائدے میں رہے گا۔
ہمارا یہ بہت بڑا مسئلہ ہے کہ ہماری بیوروکریسی اور ادارے مغرب سے بہت متاثر ہیں اور ہر فرد یہ امید لگائے بیٹھا ہوتا ہے کہ مغرب میں جانے کا موقع ملے،کہ مغرب ہمیں کچھ دے۔وہ اس حقیقت سے آنکھیں بند کیے بیٹھے ہیں کہ اکیسویں صدی ایشیا کی صدی ہے،کہ طاقت کا توازن مغرب سے مشرق کی طرف منتقل ہو رہا ہے۔
ایک اور مشکل یہ ہے ہمارے زعماء سی پیک کو موٹر وے کی طرز کا ایک روڈ پروجیکٹ سمجھتے ہیں۔ہر سیاسی لیڈر یہ واویلا مچا رہا ہوتا ہے کہ فلاں سڑک میرے حلقے سے کیوں نہیں گزر رہی،جب کہ یہ روڈ پروجیکٹ نہیں بلکہ انفرااسٹرکچر ڈویلپمنٹ پروجیکٹ ہے۔یہ بہت سے شعبوں پر مشتمل ایک اکنامک منصوبہ ہے۔
دونوں ممالک کے بہت سے سرکاری اور غیر سرکاری ادارے اس میں Involve ہیں اور ہوں گے۔اس میں انرجی سیکٹر پر بہت دھیان دیا جا رہا ہے۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی ضرورت سے کچھ زیادہ ہی بجلی پیدا کی جا رہی ہے جس سے حکومت اگر چاہے تو لوڈ شیڈنگ مکمل ختم کر دے۔
پاکستان میں سی پیک مخالف لابی بہت متحرک ہے۔یہ لابی صرف ایسا پروجیکٹ کرنے میں دلچسپی رکھتی ہے جس میں مغربی طاقتیں حصہ دار ہوں اور چین کو آگے بڑھنے کا کوئی موقع نہ ملے تاکہ ہمارے افسران اور زعماء کو مغرب یاترا کا موقع میسر آئے۔
چونکہ یہ چین کا پروجیکٹ ہے اور امریکاChina Containment پالیسی پر زور شور سے عمل پیرا ہے اس لیے امریکا اور اس کے اسٹرٹیجک پارٹنر انڈیا نے اس پروجیکٹ کے آگے رکاوٹیں کھڑی کرنی ہیں۔امریکا چاہتا ہے کہ پاکستانیوں کو ہمنوا بنا کر سی پیک کے خلاف اپنے مذموم مقاصد حاصل کرے۔پچھلے سال امریکی کانگریس نے ایک قانون منظور کیا جسے Stretegic Competitive Act کہا گیا۔
اس قانون نے امریکی انتظامیہ کو یہ اختیار دیا کہ وہ چین کو بدنام کرنے کے لیے 500ملین ڈالر خرچ کر سکے۔
6فروری 2022کو امریکی اخبار Atlantis میں دو ممتاز اخبار نویسوں Deborah اور Magrith نے The myth of China debt trap کے عنوان سے ایک آرٹیکل لکھا جس میں بتایا گیا کہ یہ بات محض پروپیگنڈا ہے کہ چین اپنے پروجیکٹس کے ذریعے ملکوں کو قرض میں جکڑ لیتا ہے۔اسی آرٹیکل میں سری لنکا کی بندرگاہ کا کیس بھی زیرِ بحث لایا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ چین کے اس کیس میں کوئی منفی عزائم نہیں ۔
سی پیک کا سب سے بڑا مقصد بلوچستان کی ساحلی پٹی پر گوادر بندر گاہ کو ایک وسیع روڈ،ریلوے اور پائپ لائنز نیٹ ورک کے ذریعے چین کے صوبے سنکیانگ کے ساتھ ملانا ہے۔اس بڑے مقصد کے حصول کے لیے پاکستان کے اندر بے شمار سب پروجیکٹس شروع کیے جا چکے ہیں۔یہ پروجیکٹس سارے پاکستان کو چین سے جوڑتے ہیں پاکستان کے اندر کنکٹوٹی connectivity بڑھاتے اور کئی شعبوں میں تیزی سے ترقی کے ضامن ہیں۔
سی پیک پاکستان کے اندر وسیع پیمانے پر انفرا اسٹرکچر ڈویلپ کرنے پر کام کر رہا ہے۔ہم دیکھتے ہیں کہ کئی اہم سڑکیں بن رہی ہیں۔ ریلوے کے نظام کو اپ گریڈ کیا جا رہا ہے۔ پاکستان میں انرجی کے متعدد منصوبوں کے ذریعے عوام کو لوڈشیڈنگ کی لعنت سے چھٹکارا مل رہا ہے۔پاکستان کے بہت سے علاقے اس منصوبے کی بدولت ایک دوسرے سے مل رہے ہیں اور باہمی میل جول کے مواقع پیدا ہو رہے ہیں۔
پاکستان کے انفرا اسٹرکچر میں جو بھی گیپس gapsہیں ان کی طرف بھی توجہ دی جا رہی ہے،جس سے ٹرانسپورٹیشن اور لاجسٹکس میں بہت بہتری آنے کی توقع ہے۔سی پیک کے اندر یہ صلاحیت موجود ہے کہ اس سے پاکستان کی اکنامک گروتھ بڑھے۔Improved Connectivity کی وجہ سے ٹریڈ بڑھے گی اور بیرونی و اندرونی سرمایہ کاری میں اضافہ ہو گا۔ انفرا اسٹرکچر ڈویلپمنٹ،صنعتی ترقی اور بڑھتی تجارت سے بے شمار ملازمتیں پیدا ہوں گی۔
سی پیک میں بجلی کی پیداوار بڑھانے کے لیے منصوبے لگانا بھی شامل ہے تاکہ انرجی کی کمی کو ایڈریس کیا جا سکے۔بڑھتی آبادی انرجی کی کھپت کو بڑھا رہی ہے۔چین اور پاکستان کے مابین بہتر connectivity کے طفیل علاقائی تجارت میں اضافہ متوقع ہے۔
گوادر بندر گاہ کی لوکیشن بہت اہم اور اسٹرٹیجک ہے۔گوادر بندر گاہ کے مکمل فنکشنل ہونے اور گوادر ہوائی اڈے کی توسیع و ترقی سے گوادر ایک تجارتی مرکز بن کر ابھرے گا۔مقامی افراد کو روزگار کے مواقع میسر ہونے کے ساتھ ان کے ہنر کو بھی چار چاند لگیں گے۔علاقائی میل جول میں اضافہ ہو گا۔چین اور پاکستان معاشی طور پر ایک دوسرے سے جڑ جائیں گے۔
قارئینِ کرام کل ڈھاکہ فال کا دن16دسمبر ہے۔ہم اتنی بڑی ناکامی و شکست کو بھولے بیٹھے ہیں۔کیا ہی اچھا ہو کہ ہم اس حوالے سے مکمل تحقیق کر کے حقائق سامنے لائیں۔منگل کو ٹی ٹی پی نے نئے نام سے حملہ کر کے 26جوانوں کو شہید کر دیا۔ میانوالی ایئر بیس کے بعد یہ حملہ ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہونا چاہیے لیکن ہم مطمئن ہیں کہ گری ہے جس پہ کل بجلی،وہ میرا آشیاں کیوں ہو۔
ہمیں اس کو سمجھنا چاہیے کہ سی پیک عوامی جمہوریہ چین کا ایک پروجیکٹ ہے نہ کہ پاکستان کا۔ہمارے سیاسی زعماء دن رات عوام کو بتا رہے ہوتے ہیں کہ میں نے سی پیک کا منصوبہ شروع کیا۔ کوئی بات بھی حقیقت سے اتنی دور نہیں جتنا یہ دعویٰ۔سی پیک کے نام سے ہی حقیقت سامنے آ جاتی ہے کہ یہ چین کا پاکستان کے لیے ایک پروجیکٹ ہے۔
یہ چائنا پاکستان اکنامک کوریڈار ہے نہ کہ پاکستان چائنا اکنامک کوریڈار۔بی آر آئی میں سی پیک جیسے 5 اور پروجیکٹس ہیں۔
اسی طرح کا ایک اور پروجیکٹ چائنا،بنگلہ دیش، برما اور سری لنکا ہے۔باقی پانچ پروجیکٹس بھی اہم ہیں لیکن یہ واضح ہے کہ چین کے اوورسیز پروجیکٹس میں سب سے Vibrant پروجیکٹ سی پیک ہی ہے۔
اس پروجیکٹ کی بنیاد2013میں رکھی گئی اور اس کے سب پروجیکٹس پر کام کا آغاز بھی ہو گیا لیکن اس کا افتتاح 2015میں چینی صدر جناب شی کے دورہٗ پاکستان کے موقع پر ہوا۔اس کو شروع کرتے ہوئے چینی قیادت نے پاکستانی قیادت پر واضح کر دیا کہ اگر سی پیک سے صحیح فائدہ اٹھاناہے تو پاکستان کو اس پر چین کی رفتار سے کام کرنا ہو گا۔
اس وقت کی پاکستانی قیادت نے یقین دلایا کہ پاکستان تیزی سے اس پر کام کرے گا۔ہر چند کہ پاکستان کی تمام سیاسی پارٹیاں سی پیک کو اون کرتی ہیں لیکن ہم جانتے ہیں کہ بوجوہ سی پیک پر مطلوبہ رفتار سے کام نہیں ہوا۔
یہ پروجیکٹ چین کا ہے۔اس پر سرمایہ کاری بھی چین کر رہا ہے اس لیے چین سب سے پہلے اپنے Interestکو دیکھے گا لیکن کیا چین پاکستان کے نقصان کے درپے ہے تو ہم پاکستانیوں کو یہ یقین رکھنا ہو گا کہ چین پاکستان کے نقصان کا سوچتا بھی نہیں۔دراصل سی پیک دونوں ممالک کے لیے انتہائی فائدہ مند پروجیکٹ ہے۔پاکستان سی پیک سے فائدہ اٹھانے میں جتنی سرعت اور سنجیدگی سے کام کرے گا اتنا ہی فائدے میں رہے گا۔
ہمارا یہ بہت بڑا مسئلہ ہے کہ ہماری بیوروکریسی اور ادارے مغرب سے بہت متاثر ہیں اور ہر فرد یہ امید لگائے بیٹھا ہوتا ہے کہ مغرب میں جانے کا موقع ملے،کہ مغرب ہمیں کچھ دے۔وہ اس حقیقت سے آنکھیں بند کیے بیٹھے ہیں کہ اکیسویں صدی ایشیا کی صدی ہے،کہ طاقت کا توازن مغرب سے مشرق کی طرف منتقل ہو رہا ہے۔
ایک اور مشکل یہ ہے ہمارے زعماء سی پیک کو موٹر وے کی طرز کا ایک روڈ پروجیکٹ سمجھتے ہیں۔ہر سیاسی لیڈر یہ واویلا مچا رہا ہوتا ہے کہ فلاں سڑک میرے حلقے سے کیوں نہیں گزر رہی،جب کہ یہ روڈ پروجیکٹ نہیں بلکہ انفرااسٹرکچر ڈویلپمنٹ پروجیکٹ ہے۔یہ بہت سے شعبوں پر مشتمل ایک اکنامک منصوبہ ہے۔
دونوں ممالک کے بہت سے سرکاری اور غیر سرکاری ادارے اس میں Involve ہیں اور ہوں گے۔اس میں انرجی سیکٹر پر بہت دھیان دیا جا رہا ہے۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی ضرورت سے کچھ زیادہ ہی بجلی پیدا کی جا رہی ہے جس سے حکومت اگر چاہے تو لوڈ شیڈنگ مکمل ختم کر دے۔
پاکستان میں سی پیک مخالف لابی بہت متحرک ہے۔یہ لابی صرف ایسا پروجیکٹ کرنے میں دلچسپی رکھتی ہے جس میں مغربی طاقتیں حصہ دار ہوں اور چین کو آگے بڑھنے کا کوئی موقع نہ ملے تاکہ ہمارے افسران اور زعماء کو مغرب یاترا کا موقع میسر آئے۔
چونکہ یہ چین کا پروجیکٹ ہے اور امریکاChina Containment پالیسی پر زور شور سے عمل پیرا ہے اس لیے امریکا اور اس کے اسٹرٹیجک پارٹنر انڈیا نے اس پروجیکٹ کے آگے رکاوٹیں کھڑی کرنی ہیں۔امریکا چاہتا ہے کہ پاکستانیوں کو ہمنوا بنا کر سی پیک کے خلاف اپنے مذموم مقاصد حاصل کرے۔پچھلے سال امریکی کانگریس نے ایک قانون منظور کیا جسے Stretegic Competitive Act کہا گیا۔
اس قانون نے امریکی انتظامیہ کو یہ اختیار دیا کہ وہ چین کو بدنام کرنے کے لیے 500ملین ڈالر خرچ کر سکے۔
6فروری 2022کو امریکی اخبار Atlantis میں دو ممتاز اخبار نویسوں Deborah اور Magrith نے The myth of China debt trap کے عنوان سے ایک آرٹیکل لکھا جس میں بتایا گیا کہ یہ بات محض پروپیگنڈا ہے کہ چین اپنے پروجیکٹس کے ذریعے ملکوں کو قرض میں جکڑ لیتا ہے۔اسی آرٹیکل میں سری لنکا کی بندرگاہ کا کیس بھی زیرِ بحث لایا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ چین کے اس کیس میں کوئی منفی عزائم نہیں ۔
سی پیک کا سب سے بڑا مقصد بلوچستان کی ساحلی پٹی پر گوادر بندر گاہ کو ایک وسیع روڈ،ریلوے اور پائپ لائنز نیٹ ورک کے ذریعے چین کے صوبے سنکیانگ کے ساتھ ملانا ہے۔اس بڑے مقصد کے حصول کے لیے پاکستان کے اندر بے شمار سب پروجیکٹس شروع کیے جا چکے ہیں۔یہ پروجیکٹس سارے پاکستان کو چین سے جوڑتے ہیں پاکستان کے اندر کنکٹوٹی connectivity بڑھاتے اور کئی شعبوں میں تیزی سے ترقی کے ضامن ہیں۔
سی پیک پاکستان کے اندر وسیع پیمانے پر انفرا اسٹرکچر ڈویلپ کرنے پر کام کر رہا ہے۔ہم دیکھتے ہیں کہ کئی اہم سڑکیں بن رہی ہیں۔ ریلوے کے نظام کو اپ گریڈ کیا جا رہا ہے۔ پاکستان میں انرجی کے متعدد منصوبوں کے ذریعے عوام کو لوڈشیڈنگ کی لعنت سے چھٹکارا مل رہا ہے۔پاکستان کے بہت سے علاقے اس منصوبے کی بدولت ایک دوسرے سے مل رہے ہیں اور باہمی میل جول کے مواقع پیدا ہو رہے ہیں۔
پاکستان کے انفرا اسٹرکچر میں جو بھی گیپس gapsہیں ان کی طرف بھی توجہ دی جا رہی ہے،جس سے ٹرانسپورٹیشن اور لاجسٹکس میں بہت بہتری آنے کی توقع ہے۔سی پیک کے اندر یہ صلاحیت موجود ہے کہ اس سے پاکستان کی اکنامک گروتھ بڑھے۔Improved Connectivity کی وجہ سے ٹریڈ بڑھے گی اور بیرونی و اندرونی سرمایہ کاری میں اضافہ ہو گا۔ انفرا اسٹرکچر ڈویلپمنٹ،صنعتی ترقی اور بڑھتی تجارت سے بے شمار ملازمتیں پیدا ہوں گی۔
سی پیک میں بجلی کی پیداوار بڑھانے کے لیے منصوبے لگانا بھی شامل ہے تاکہ انرجی کی کمی کو ایڈریس کیا جا سکے۔بڑھتی آبادی انرجی کی کھپت کو بڑھا رہی ہے۔چین اور پاکستان کے مابین بہتر connectivity کے طفیل علاقائی تجارت میں اضافہ متوقع ہے۔
گوادر بندر گاہ کی لوکیشن بہت اہم اور اسٹرٹیجک ہے۔گوادر بندر گاہ کے مکمل فنکشنل ہونے اور گوادر ہوائی اڈے کی توسیع و ترقی سے گوادر ایک تجارتی مرکز بن کر ابھرے گا۔مقامی افراد کو روزگار کے مواقع میسر ہونے کے ساتھ ان کے ہنر کو بھی چار چاند لگیں گے۔علاقائی میل جول میں اضافہ ہو گا۔چین اور پاکستان معاشی طور پر ایک دوسرے سے جڑ جائیں گے۔
قارئینِ کرام کل ڈھاکہ فال کا دن16دسمبر ہے۔ہم اتنی بڑی ناکامی و شکست کو بھولے بیٹھے ہیں۔کیا ہی اچھا ہو کہ ہم اس حوالے سے مکمل تحقیق کر کے حقائق سامنے لائیں۔منگل کو ٹی ٹی پی نے نئے نام سے حملہ کر کے 26جوانوں کو شہید کر دیا۔ میانوالی ایئر بیس کے بعد یہ حملہ ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہونا چاہیے لیکن ہم مطمئن ہیں کہ گری ہے جس پہ کل بجلی،وہ میرا آشیاں کیوں ہو۔