اسلام میں بیواؤں کے حقوق
بیوہ کے عقد ثانی کو بُرا نہیں سمجھنا چاہیے، کیوں کہ عدت گزرنے کے بعد وہ اپنے معاملے میں آزاد اور خود مختار ہے
نبی کریم ﷺ کو رحمۃ للعالمین بنا کر مبعوث کیا گیا۔ آپ ﷺ کی شانِ رحمت سے کرہ ارض پر بسنے والی مخلوقات کی کوئی بھی نوع بالخصوص بنی آدم کا کوئی بھی طبقہ ایسا نہیں ہے جو اس بحرِ رحمت سے فیض یاب نہ ہوا ہو۔
آپ ﷺ کی بعثت سے قبل بنی آدم کے کم زور طبقات ظلم کی چکی میں پس رہے تھے ان پر ہر طرح کے مظالم ڈھائے جا رہے تھے ان کا استحصال عروج پر تھا۔ جب آپ ﷺ کی بعثت ہوئی تو انسانوں کو ہر طرح کے حقوق ملنے شروع ہوئے۔ قرآن کریم کی رو سے کم زور طبقات کی فہرست تو بہت طویل ہے ان کم زور طبقات میں بیوہ بھی شامل ہے۔
زمانۂ جاہلیت میں لوگ مظلوم عورت کو ہمیشہ اپنی عیش و عشرت کے لیے استعمال کرتے اور ان سے حیوانوں جیسا سلوک کرتے تھے، ان کو معاشرے میں حقیر و ذلیل سمجھا جاتا تھا۔ یہاں تک کہ عرب میں بعض شقی القلب عورت کو عار سمجھتے اور معصوم لڑکی کی پیدائش پر اسے باعث ذلت و عار سمجھتے ہوئے زندہ درگور کر دیتے تھے۔ اسلام نے ان کے اس فعل قبیح کی مذمت فرمائی۔
ارشادِ ربانی کا مفہوم ہے: ''اور جب زندہ درگور کی گئی لڑکی سے پوچھا جائے گا کہ وہ کس گناہ کی وجہ سے قتل کی گئی تھی۔'' ایک طرف جہاں ان بچیوں پہ ظلم ڈھانے کی بابت سزا کی وعید سنائی گئی وہیں دوسری طرف ایسے لوگوں کو جنہوں نے لڑکے اور لڑکیوں میں کوئی تفریق نہیں کی انہیں جنّت کی خوش خبری سنائی گئی۔
اسلامی نظامِ حیات نے عورت کو ذلت و پستی سے نکال کر بے پناہ حقوق دیے، اسلام نے عورت کو اس کی فطرت کے مطابق ذمے داریاں سونپ کر اس پر خصوصی توجہ دی۔
آئیے! قبل اسلام صنفِ ضعیف یعنی بیوہ کی مختلف مذاہب میں حیثیت کا جائزہ لے لیتے ہیں۔ بیوہ کو عربی زبان میں ارملہ کہا جاتا ہے، اصطلاح میں ارملہ اس عورت کو کہا جاتا ہے جس کا خاوند فوت ہو جائے۔ عورت کا خاوند جب فوت ہوتا ہے تو وہ انتہائی کم زور حالت میں ہوتی ہے کیوں کہ اس کا راحت و سکون ختم ہو جاتا ہے۔
بچے ہر قسم کی رعایت سے محروم ہو جاتے ہیں اور وہ بہت تلخی و درد محسوس کرتی ہے اس کا ذریعۂ معاش بھی ختم ہو جاتا ہے اس وجہ سے اس کو ارملہ کہا جاتا ہے جب کہ اردو میں ایسی عورت کو بیوہ کہا جاتا ہے کہ اس کا مان اور فخر شوہر کی وفات سے ختم ہوگیا۔
اسلام سے قبل زمانہ جاہلیت میں یہ رسم تھی کہ جو عورت بیوہ ہوتی اس کو ایک سال کی عدت گزارنا پڑتی اور اس کو نہایت منحوس سمجھا جاتا اور اس کو ایک سال تک نہایت تنگ و تاریک کوٹھڑی میں ٹھہرایا جاتا۔ ایک سال تک اسے غسل اور منہ ہاتھ دھونے کے لیے پانی تک نہ دیا جاتا اور نہ پہننے کے لیے لباس فراہم کیا جاتا۔
اہل عرب میں بیوہ شوہر کے وارثوں کی ملکیت بن جاتی اور وہ جو چاہتے اس کے ساتھ کر سکتے تھے اس سے مہر معاف کروا لیتے اور اس کو اپنی مرضی سے شادی نہیں کرنے دیتے تھے۔
دوسرے حیوانات کی طرح وہ بھی وراثت میں منتقل ہوتی رہتی تھی۔ یہودی مذہب میں بیوہ کی کوئی حیثیت نہیں تھی عورت مرد کی کنیز اور لونڈی ہوتی تھی۔ اولاد نرینہ کی موجودی میں حق وراثت کا تصور نہیں کیا جا سکتا تھا۔ وہ دوسری شادی کے حق سے بھی محروم رکھی جاتی تھی۔ یہودی مذہب میں عورت کو منقولہ جائیداد اور شوہر کو مالک کہا گیا ہے۔
یہودی مذہب میں بھائی کی وفات کے بعد بیوہ عورت دوسرے بھائی کی ملکیت ہو جاتی تھی وہ جس طرح چاہتا اس کے ساتھ معاملہ کر سکتا تھا۔ نصرانی مذہب میں عورت مکمل طور پر مرد کے قابو میں تھی اسے طلاق و خلع کی اجازت بھی نہ تھی اگرچہ زوجین میں کتنی ہی ناچاقی کیوں نہ ہو وہ ایک دوسرے کے ساتھ زبردستی بندھے رہنے پر مجبور ہوتے تھے۔
ہندوستان میں ہندو مت کے پیروکاروں میں ''ستی'' جیسی بھیانک رسم رہی ہے کہ بیوہ عورت کو خاوند کی وفات کے بعد زندہ رہنے کا کوئی حق حاصل نہ تھا اس کو دو حال میں سے ایک حال اختیار کرنا ہوتا یا زندگی بھر بیوہ رہے یا جل کر ہلاک ہو جائے اور اس کے لیے ستی ہونا زیادہ بہتر شمار کیا جاتا جب کہ زندہ رہنے کی صورت میں اس کی حالت موت سے بھی بدتر ہوتی۔
دین اسلام اور بیوہ عورت:
اسلام کی آمد سے قبل دنیا کے معاشرے اور تہذیبوں کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ بیوہ کی تاریخ بڑی درد ناک رہی ہے، وہ معاشرے میں در بہ در ٹھوکریں کھانے پر مجبور تھی لیکن اسلام نے اسے ظلم کی چکی سے نکال کر انصاف مہیا کیا۔
خود ساختہ دقیانوسی خیالات کا قلعہ قمع کر کے اس اپنے دامن رحمت و حمایت کا سایہ بخشا۔ معاشرے کو اس کا مقام سکھایا اور اس کو بلند مقام عطا فرمایا۔ اسلام نے بیوہ عورتوں کے حقوق کے بارے میں اتنا خیال رکھا ہے کہ دنیا کے کسی مذہب و معاشرے میں اس کی نظیر نہیں مل سکتی۔
قرآن پاک میں ارشاد باری تعالی کا مفہوم: ''اور جو لوگ مر جائیں تم میں سے اور چھوڑ جائیں اپنی عورتیں تو چاہیے کہ وہ عورتیں انتظار میں رکھیں اپنے آپ کو چار مہینے اور دس دن پھر جب پورا کر چکیں اپنی عدت کو تم پر کچھ گناہ نہیں اس بات میں کہ وہ کریں فائدے کے موافق اور اﷲ کو تمہارے تمام کاموں کی خبر ہے۔''
یعنی عدت گزرنے کے بعد بیوہ عورتیں دستور کے مطابق جو کریں اس میں ورثا پر کوئی گناہ نہیں ہے، کیوں کہ عدت گزرنے کے بعد ان کو زیب و زینت اختیار کرنے اور نئے نکاح کی اجازت ہے، وہ اپنے معاملے میں آزاد اور خود مختار ہیں، اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ بیوہ کے عقد ثانی کو بُرا نہیں سمجھنا چاہیے نہ ہی اس میں رکاوٹ ڈالنی چاہیے۔
اسلام انسان کے لیے ازدواجی زندگی گزارنے کی اہمیت پہ بہت زور دیتا ہے اس نے پورے معاشرے کو ازدواجی زندگی گزارنے میں بے نکاح افراد کی مدد کرنے کی ہدایت کی ہے۔
ارشاد باری تعالی کا مفہوم ہے کہ اور نکاح کر دو اپنوں میں ان کا جو بے نکاح ہوں اور اپنے لائق بندوں اور لونڈیوں کا اگر وہ فقیر ہوں تو اﷲ انہیں غنی کر دے گا اپنے فضل سے اور اﷲ تعالی وسعت والا علم والا ہے۔
اس آیت سے معلوم ہوا کہ بغیر نکاح کے عمر کے کسی مرحلہ میں بھی رہنا مرد و عورت کے لیے مناسب نہیں۔ اسی لیے فقیہ الامت حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں اگر میری زندگی کے صرف دس دن باقی ہوں اور مجھے یقین ہو کہ آج میرا مرنا یقینی ہے تو فتنے کے خوف سے میں نکاح کرنا پسند کروں گا۔
ایک حدیث میں آپ ﷺ نے بغیر بیوی کے شخص کو مسکین اور بغیر خاوند کے عورت کو مسکینہ فرمایا۔ آپ ﷺ نے نکاح نہ کرنے کے عمل کو ناپسند فرمایا۔ چناں چہ حدیث میں ہے کہ تین باتوں کے کرنے میں دیر نہ کیا کرو ایک نماز ادا کرنے میں جب کہ وقت ہو جائے۔ دوسرے جنازے میں جب تیار ہو جائے اور تیسرا بے خاوند عورت کے نکاح میں جب کہ اس کا کفو یعنی ہم پلہ شخص مل جائے ۔
اس حدیث کی رو سے بیوہ عورت کو عقد ثانی میں جلدی کرنی چاہیے جبکہ موجودہ دور میں بیوہ کے نکاح کو انتہائی معیوب سمجھا جاتا ہے اس کے نکاح میں کبھی سسرال کبھی میکے کی طرف سے رکاوٹیں ڈالی جاتی ہیں یہ ناصرف اسلام کی روح کے خلاف ہے بل کہ بیواؤں کے جذبات کا گلہ گھونٹ کر ان پر ظلم کے مترادف ہے۔
آپ ﷺ نے خود بیوہ عورتوں سے نکاح کرکے انہیں معاشرے میں اہم مقام عطا فرمایا، انہیں تحفظ فراہم کیا انہیں معاشرے کا ایک فرد گردانا اور انسانیت کو بیوہ عورتوں اور یتیموں کی کفالت اور غم خواری کرنے کا درس دیا۔
آپؐ نے فرمایا کہ بیوہ عورت اور مسکین کے لیے کوشش کرنے والا راہ خدا میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے اور اس کے برابر ہے جو دن بھر روزہ رکھے اور رات بھر نماز پڑھے۔ آپ ﷺ کی دیکھا دیکھی صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین نے بیوگان سے شادیاں کیں جس سے کئی بے آسرا گھر آباد ہوئے اور انہیں تحفظ ملا۔
اﷲ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہمیں مظلوم بیواؤں کی مدد کرنے والا اور ان کا دفاع و تحفظ کرنے والا بنائے اور اﷲ تعالی ہر بیوہ کی اپنے غیب کے خزانے سے مدد فرمائے۔ آمین