نواز شریف مودی ملاقات کے خطے پر کیا اثرات ہوں گے

نریندرا مودی نے دوران ملاقات ممبئی حملوں اور دراندازی سمیت تمام حساس معاملات پر انتہائی سخت روّیہ اپنایا، ذرائع

نریندرا مودی نے دوران ملاقات ممبئی حملوں اور دراندازی سمیت تمام حساس معاملات پر انتہائی سخت روّیہ اپنایا، ذرائع فوٹو : فائل

میاں محمد نواز شریف تیسری بار وزیراعظم پاکستان بنے تو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ 2014ء میں ہونے والے بھارتی انتخابات کے نتیجے میں وزارتِ عظمیٰ سنبھالنے والے نریندر مودی سے ان کا پالا پڑے گا۔

1980ء سے 1995ء تک مسلمان دشمن انتہا پسند ہندو تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے زیر تربیت رہنے والے مودی اس پاکستان مخالف نصاب کی حامل تنظیم کے اتنے اچھے سٹوڈنٹ رہے کہ 87ء سے 95ء تک انہیں پارٹی کے سیکرٹری کی اہم ترین ذمہ داری بھی سونپ رکھی گئی۔

95ء میں انہوں نے آر ایس ایس کے سیاسی ونگ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) میں شمولیت اختیار کی اور 2001 میں وزیراعلیٰ گجرات بننے تک انہوں نے انتہائی صبر و تحمل سے اپنی مسلمان مخالف تربیت ظاہر ہونے میں احتیاط سے کام لیا مگر 7 اکتوبر 2001ء کو وزارت عظمیٰ سنبھالنے کے بعد وہ زیادہ عرصہ تک آر ایس ایس کی 15 سالہ تربیت اور برین واشنگ کو پس پشت نہ ڈال سکے اور بالآخر 27 فروری 2002ء سے گجرات میں مسلمان مخالف پرتشدد کارروائیوں کا آغاز ہو گیا۔

اس کے بعد کیا ہوا ساری دنیا نے دیکھا۔ امریکہ جیسے لبرل ملک اور اس کی انتظامیہ نے مسلم کش فسادات کا موجب بننے پر نریندرا مودی کو ویزہ تک دینے سے انکار کر دیا۔ اس سارے عمل کے دوران یقیناً نریندرا مودی کے لیے بھی سیکھنے کو بہت کچھ تھا اور شاید اسی لیے انہوں نے اپنی توجہ 14 سالہ وزارت اعلیٰ کے دور میں گجرات کی اقتصادی و معاشی ترقی پر صرف کر دی۔

اسی شاندار کارکردگی کی بناء پر تمام تر ممکنہ مخالفت کے باوجود بی جے پی نے انہیں وزارتِ عظمیٰ کا امیدوار ظاہر کرکے بہت بڑا رسک لیا۔ انتخابی مہم کے دوران نریندر مودی نے پاکستان مخالف تقریروں میں کوئی کسر باقی اٹھا نہ رکھی۔ نریندر مودی کی پاکستان مخالف تقاریر اور خیالات کے باعث عام تاثر یہ رہا کہ وہ برسراقتدار آنے کے بعد پاکستان مخالف کارروائیوں کا باقاعدہ آغاز کر دیں گے۔

ذرائع بتاتے ہیں کہ وزیراعظم نواز شریف کو دیگر سارک ممالک کے سربراہان کی طرح نریندر مودی کی تقریب حلف برداری میں شرکت کی دعوت دی گئی تو وزیراعظم پاکستان نے اپنے سیاسی رفقاء اور عسکری قیادت سے بھارت جانے یا نہ جانے کے حوالے سے بھرپور مشاورت کی۔ ان رابطوں اور مشاورت کے دوران سو فیصد رفقاء و قائدین نے بھارت جانے کا مشورہ نہ دیا۔ انہیں خدشات سے بھی آگاہ کیا، البتہ حتمی فیصلہ انہی پر چھوڑ دیا گیا اور چیف ایگزیکٹو آف پاکستان کی معیشت سے فیصلہ کرنا بھی انہوں نے خود تھا۔

وزیراعظم نواز شریف نے بھارت جانے کا انتہائی جارحانہ فیصلہ کرتے ہوئے جارح مزاج نریندرا مودی کو یہ پیغام دے دیا کہ انہیں بھی کریز سے نکل کے کھیلنا آتا ہے۔ بھارت پہنچنے پر نریندرا مودی نے جس پرتپاک انداز میں وزیراعظم نواز شریف کا استقبال کیا، اس سے یہ یقین ہو چلا ہے کہ انہیں پاکستانی قیادت کے جارحانہ روّیے اور فیصلہ کن انداز کا ادراک بھی ہوگیا ہے۔


اب اگر انہیں وزیراعظم نواز شریف کی سوچ کے مطابق مشترکہ قدروں کو طاقت میں بدلتے ہوئے خطے سے غربت، ناخواندگی، جہالت اور بے روزگاری کا خاتمہ کرنا ہے تو انہیں وزیراعظم نواز شریف کی طرح ماضی کو بھول جانے کی عادت اپناتے ہوئے تصفیہ طلب معاملات کو دونوں اطراف کے عوام کی فلاح و بہبود کی خاطر ترجیحی بنیادوں پر حل کرنا ہوگا۔ شروعات وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے کر دی گئی ہے اب گیند بھارتی ہیوی مینڈیٹ یافتہ وزیراعظم نریندر مودی کی گود میں ہے۔ انہیں اپنی ذمہ داریاں باقاعدہ سنبھالنے کے بعد اب پاکستان سے تعلقات اور معاملات کو ترجیح دینا ہوگا۔

وزیراعظم نواز شریف کے دورۂ بھارت سے کوئی خوش ہو یا ناراض یہ بات طے ہے کہ وزیراعظم نواز شریف پاکستان کو توانائی کے بحران سے نجات دلانے، کاروبار کے مواقع عام کرنے اور قوم کو معاشی ترقی کے نئے سفر پر گامزن کرنے کے لیے سخت سے سخت ترین مخالفانہ روّیہ بھی برداشت کرنے کے لیے تیار ہیں۔ ان کے اس دو ٹوک روّیے کے عالمی سطح کے علاوہ مقامی سطح پر بھی بے پناہ فوائد ہوں گے جن کے اثرات وقت گزرنے کے ساتھ ظاہر ہونا شروع ہو جائیں گے۔

ذرائع بتاتے ہیں کہ نریندرا مودی نے دوران ملاقات ممبئی حملوں اور دراندازی سمیت تمام حساس معاملات پر بات چیت کرتے ہوئے انتہائی سخت روّیہ اپنایا۔ اسے بھی نریندر مودی کی مجبوری سمجھیں کے ابھی حال ہی میں وہ انتخابی مہم کے دوران کئی ماہ تک مسلسل پاکستان مخالف تقریریں کرتے رہے ہیں اور اب وزارتِ عظمیٰ کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے دوسرے روز ہی ان سے یہ توقع ہرگز نہ کی جائے کہ وہ پاکستان سے دوستی کی پینگیں بڑھانے کی میٹھی میٹھی باتیں شروع کر دیں گے۔

البتہ خوش آئند بات یہ ہے کہ وزیراعظم پاکستان نے بھی انہیں بلوچستان میں بھارتی مداخلت، افغانستان میں غیر ضروری بھارتی سفارتی عملے کے حوالے سے پیدا شدہ شکایات اور پانیوں کی تقسیم کے معاہدات کی دیدہ دلیری سے خلاف ورزیوں کے معاملات بھی واشگاف الفاظ میں گوش گزار کیے۔ اب دونوں رہنما آئندہ دنوں میں اپنے اپنے دفاتر بیٹھیں گے کیا کھویا کیا پایا کے میزانیے پر تفصیلی غور کریں گے تو پھر پاک بھارت تعلقات کے فروغ کے لیے سیکرٹری اور وزراء کی سطح پر رابطوں کا سلسلہ شروع ہوگا تو بات آگے بڑھے گی۔

اسلام آباد میں گزشتہ دنوں چند گھنٹوں کے وقفے کے دوران سپر مارکیٹ اور کراچی کمپنی کے علاقے میں ہونے والے دھماکوں اور سکھ برادری سے تعلق رکھنے والے مظاہرین کی جانب سے پارلیمنٹ بلڈنگ میں گھس آنے کے واقعات نے وفاقی دارالحکومت میں سکیورٹی انتظامات کی قلعی بھی کھول دی ہے، اسی کے نتیجے میں 27 مئی کی صبح 6 بجے سے پہلی بار غیر معینہ مدت کے لیے رینجرز اور پولیس کی مشترکہ ٹیموں نے گشت شروع کر دی ہے۔ یہ انتظامات اپنی جگہ مگر ہمارے وزیر داخلہ اور دیگر حکومتی زعماء کو ذاتی پسند و ناپسند سے قطع نظر محض کارکردگی کی بنیاد پر پولیس و انتظامی افسران کی تعیناتیاں کرنا ہو گی۔

صدر مملکت ممنون حسین بھی 2 جون کو پارلیمنٹ کے مشترکہ سیشن سے خطاب کریں گے اب تک کی اطلاعات کے مطابق عملی طور پر اپوزیشن کا کردار ادا کرنے والے تحریک انصاف والوں نے انتخابی دھاندلی کی تحقیقات نہ ہونے کے حوالے سے صدر کے خطاب کے دوران ہلہ گلہ کا کوئی پروگرام تو ترتیب نہیں دیا اور حقیقی قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ اور ان کی جماعت کی جانب سے راوی چین ہی چین لکھتا ہے۔

وزیر خزانہ اسحاق ڈار بھی بجٹ 2014-15 کو حتمی شکل دے رہے ہیں اور 3 جون کو پیش کیا جانے والا بجٹ حقیقی معنوں میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت کا پہلا بجٹ ہو گا اس میں ملکی تاریخ میں پہلی بار سب سے زیادہ رقم ترقیاتی منصوبوں کے لیے اور فیصد کے اعتبار سے سب سے زیادہ رقم تعلیم کے لیے مختص کیے جانے کی توقع ہے۔ معاشی خوشحالی کے زیادہ سے زیادہ اثرات عام آدمی تک پہنچانے کی وزیراعظم نواز شریف کی ہدایت کی روشنی میں امکان ہے کہ اسحاق ڈار اب کی بار ملازمین کی تنخواہوں میں اور مزدور کی کم سے کم اجرت میں بھی خاطر خواہ اضافہ کریں گے۔
Load Next Story