ڈگر ایک راہی تین

فخرالدین ابراہیم اور سابقہ چیف جسٹس کو مبینہ دھاندلی کاموردِالزام ٹہرانے والے عمران خان یہ بھول گئے ۔۔۔

mnoorani08@gmail.com

عمران خان، شیخ رشید اور طاہرالقادری آج کل جس راستے اور ڈگر پر ایک ساتھ چل رہے کیا وہ اِس قوم اور اِس ملک کے مفادات کے عین مطابق ہے۔ سیاست میں ایک طویل عرصے کی ناکامیوں کے بعد جناب عمران خان صاحب کو 2011میں جس طرح اچانک عوامی پذیرائی ملنے لگی تو وہ اِس حیران کن تبدیلی پر اپنے جذبات اور اوسان قابو میں نہ رکھ سکے اور بے اختیار بڑی بڑی شیخیاں بھگارنے لگے۔

وہ کبھی سونامی لانے اور کبھی بلے سے پھینٹی مارنے کی باتیں کرنے لگے، گرچہ اُنکی اِس عوامی پذیرائی کے پیچھے اُن کا کوئی حسنِ کمال نہ تھا ۔ وہ تو زرداری کی پانچ سالہ ناکام حکومت اور پس پردہ قوتوںکی حمایت اور مددکی وجہ سے یہ مقام حاصل کر گئے۔ ورنہ اُن کے اندر وہ قائدانہ صلاحیتیںہر گز نہ تھیں جو کسی عوامی تحریک برپا کرنے او ر ملک کے اندر انقلاب لانے والے لیڈر میں ہوا کرتی ہیں۔

پاکستان کی سیاسی تاریخ میں اب تک صرف ایک ہی لیڈر اِس اعلیٰ مقام اور صلاحیتوں کا حامل ہو سکا ہے جسے ہم سب ذوالفقار علی بھٹو کے نام سے جانتے ہیں۔ تمام تر اختلافات کے باوجود اُن کے مخالفین اُن کی اِن قائدانہ صلاحیتوں کے معترف اور دلدادہ ہیں۔ عمران خان کی باتوں سے ابھی تک ذہنی نا پختگی اور سیاسی نابالغی کی بو آتی ہے۔ اُنکی دانشمندی اورسیاسی بصیرت ابھی اُس مقام تک نہیں پہنچ پائی ہے جو کسی بھی انقلاب برپا کرنے کے لیے ضروری تصور کی جاتی ہیں۔

وہ ابھی تک اُن ہی راہوں میں بھٹک رہے ہیں جس کی ابتدا اُنہوں نے سیاست میں نئے نئے وارد ہونے کی بعد کی تھی۔کرکٹ میں کپتان کی حیثیت میں ورلڈ کپ جیت جاناکوئی اتنا بڑا کارنامہ نہیں کہ جس کے بل بوتے پر ملک و قوم کی کمان اُن کے ہاتھ میں دے دی جائے۔ دنیا میں بہت سے کھلاڑیوں نے اپنے ملک کے لیے مختلف کھیلوں میں اعلیٰ مقام حاصل کیا ہے اور فٹ بال اور کرکٹ میں ورلڈ کپ جیتے ہیں لیکن وہ ہرگز اِن کارناموں پرحکمرانی کے دعوے دار نہیں بن گئے۔ عمران خان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اپنی کسی ایک بات پر چند مہینوں سے زیادہ قائم نہیں رہ سکتے۔

معاملہ خواہ پرویز مشرف کی غیر مشروط حمایت کا ہو، چیف جسٹس افتخار چوہدری کا ہو یا الیکشن کمیشن کے چیف کی حیثیت میں فخرالدین ابراہیم کا ہو ہر موقعے پر صرف چند ماہ میں اپنے و قول و فعل سے منحرف اور منکر ہوجانا صرف عمران خان ہی کا خاصہ اور وطیرہ رہا ہے۔ اتنی جلدی اپنے کسی سابقہ فیصلہ سے انکار کر جاناکسی اور کے بس کی بات نہیں ۔ کپتان آج کل گزشتہ برس ہونے والے انتخابت میں مبینہ دھاندلی کے خلاف سربستہ ہیں ۔ اِسی ایک بہانے کو لے کر وہ موجودہ حکمرانوں کے خلاف ایک عوامی تحریک شروع کر رہے ہیں۔

کہنے کو وہ صرف چار حلقوں میں ووٹروں کے انگوٹھے کے نشانات جانچنے کی تحقیق کروانا چاہتے ہیں لیکن اگراُن کا یہ مطالبہ مان بھی لیا جائے تو اِس بات کی کیا گارنٹی اور ضمانت ہے کہ عمران خان اِس کے بعد سکون و آرام سے اگلے الیکشنوں تک خاموش بیٹھ جائیں گے۔ حالانکہ ہم سب یہ بخوبی جانتے ہیں یہ صرف انگوٹھے کے نشانوں سے یہ بات ہر گز نہیں معلوم ہو پائے گی کہ ایک سے زیادہ انگوٹھے کے نشانات لگانے والا شخص کِس پارٹی کا ووٹر تھا۔ اور پھر مبینہ دھاندلی اور ووٹوں کی دوبارہ گنتی سے متعلق پانچ سو سے زائد پٹیشنیں ابھی تک زیرِ التوا ہیں۔ الیکشن کمیشن اگر صرف چار حلقوں کی تحقیق کے لیے رضامند ہو جائے تو پھر دیگر پٹیشنرز بھی اپنے مطالبات لے کر سامنے آجائیں گے۔


فخرالدین ابراہیم اور سابقہ چیف جسٹس کو مبینہ دھاندلی کاموردِالزام ٹہرانے والے عمران خان یہ بھول گئے ہیں کہ یہ دونوں شخصیات کبھی اُنکی پسندیدہ شخصیات رہی ہیں ۔ آج وہ الیکشن ہار جانے کے بعد اُنکے زبردست مخالف ہو چکے ہیں۔ اب اگر اُن کا نامزد کردہ کوئی دوسرا چیف الیکشن کمشنر بھی لگا دیا جائے تو وہ اگلا الیکشن ہار جانے کے بعد اُسکے بھی ایسے ہی مخالف ہو جائیں گے۔ اپنی کہی ہوئی باتوں پر قائم نہ رہنے والے جناب عمران خان اگر یہی رویہ اور حسن سلوک جاری رکھتے ہیں تو بہت جلد عوام کے دلوں اور نظروں سے اُتر جائیں گے اور پھر تنِ تنہا شیخ رشید کی مانند صرف الیکٹرانک میڈیا پر اپنا دل کا غبار اُتارتے رہیں گے ۔

شیخ رشید کا آج کل جو حال ہے وہ یقیناً قابلِ رحم ہے۔ سات سال سے وہ اکیلے ہی اپنی عوامی مسلم لیگ کے سربراہ بھی ہیں اور واحد ممبر بھی۔ روزانہ ٹیلی ویژن پر آ کر حکومتِ وقت کے زوال اور اختتام کی پیشن گوئیاں کر کے اور مضحکہ خیز ڈرامائی گفتگو کر کے لوگوں کو محظوظ کر نے کے سوا اُن کا اب کوئی کام نہیں ہے۔ فارغ بیٹھے ہیں اور سابقہ حکومت کے جانے کی بریکنگ نیوز دیتے دیتے اب وہ ایک دوسری نئی جمہوری حکومت کے جانے کی خبریں بھی دینے لگے ہیں۔

پہلے صرف چھ ماہ، پھر ایک سال اور اب دو سال کا وقت دینے اور پھر اُس میں ناکام ہو جانے پر اُنہیں کوئی ملال اور افسوس بھی نہیں ہوتا۔ یہ سلسلہ وہ بغیر کسی حجت اور ندامت کے یونہی جاری و ساری رکھتے ہیں۔اُن کے اپنے اندر اتنا دم خم تو نہیں ہے کہ وہ کسی بھر پور عوامی تحریک کے ذریعے کوئی انقلاب برپا کر سکیں لہذا وہ عمران خان کو اُکسانے اور گرمانے کے کام پر آجکل مامور ہیں ۔ دیکھتے ہیں اُن کے ارمانوں اور حسرتوں کو کب سکون اور قرار آتا ہے۔ فی الحال ایسا دور دور تک دکھائی نہیں دیتا ہے۔

اُدھر ہزاروں میل دور کینیڈا میں بیٹھے بیٹھے ایک اور نابغہ روزگار مسیحاء قوم بھی ملک کے اندرانقلاب لانے کی باتیں کر رہے ہیں لیکن اُس انقلاب کے معرضِ وجود میں لانے کے طریقہ کار پر کوئی بات نہیں کرتے ۔ موجودہ جمہوری نظام سے اُنھیں زبردست اختلاف اور زمانے کا بیر ہے، اِسی لیے وہ انتخابات میں حصہ بھی نہیں لینا چاہتے ۔ بس سڑکوں پر اپنے حامیوں کے ذریعے چند روزکا دھرنا دیکر ایک ایسا انقلاب لانا چاہتے ہیں جس کے خدو خال اور حالتِ کیمیا پر کسی کو بھی یقین نہیں ہے۔

باتیں وہ اسلام اور مذہب کی دلنشین انداز میں کرتے ہیں لیکن متاثر وہ چین جیسے کمیونسٹ ملک کے انقلاب سے ہیں ۔گزشتہ برس انتخابات سے چند ماہ بیشتر وہ اسلام آباد میں پارلیمنٹ کے سامنے دھرنا دیکر ہونے والے الیکشن کو رکوانے کی سر توڑ کوشش کرتے ہیں اور حکومت ِ وقت کو یزیدی حکومت کا نام دیکر اُن سے کنٹینر میں کامیاب مذاکرات بھی کرتے ہیں ۔ سابق چیف جسٹس کو خراجِ تحسین بھی پیش کر تے ہیں اور پھر اپنی ناکام حسرتوں کے ساتھ واپس کینیڈا چلے جاتے ہیں ۔

اب ایک بار پھر وہ کمر بستہ ہوکر ایک کروڑ نمازیوںکو یکجا کر کے ملک کے اندر اُسی انقلاب کی مسرور کن خبریں دے رہے ہیں جسے اِس ملک کے عوام پہلے ہی مسترد کر چکے ہیں۔ یہ ہماری خوش بختی ہے کہ ہمارے عوام فی الحال جمہوری حکومت کے خاتمے کی کسی تحریک کا حصہ نہیں بننا چاہتے ہیں ۔ جب کہ میاں نواز شریف کی موجودہ حکومت بھی اپنی کارکردگی اور عوامی خدمت کے لحاظ سے سابقہ حکومت سے کہیں زیادہ بہتر ہے ۔ ہمارے یہ تینوں عوامی رہنما جمہوریت کو ڈی ریل کرنے کے اپنے مخصوص ایجنڈے پرمضبوطی سے قائم و دائم ہیں مگر کیا کیا جائے اِن عوام کا جو بڑی قربانیوں کے بعد حاصل ہونے والی اِس جمہوریت کو ابھی یونہی پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتے ہیں۔
Load Next Story