عالمی دہشت گردی اور اس کے اثرات …
کسی ملک پر دبائو ڈالنا مقصود ہو تو عدم پھیلائو کے کسی بھی بیکار پڑے ہوئے معاہدے کو اٹھایا جاتا ہے ۔۔۔
دنیا میں امن کے نام پر ہلاکت خیز ہتھیاروں کی تیاری اور خرید و فروخت کا عمل، تخفیف اسلحہ اور ہتھیاروں کے عدم پھیلائو پر مبنی معاہدوں، ضابطوں اور اس ضمن میں کی جانے والی تمام کوششوں کا مذاق اڑایا جا رہا ہے۔ عالمی طاقتوں کی اکثر پالیسیاں اس ضمن میں بے حد ستم ظریف واقع ہوئی ہیں۔ ایک طرف تو تخفیف اسلحہ اور عدم پھیلائو کی باتیں کی جاتی ہیں اور دوسری طرف ہتھیاروں کی پیداوار اور بڑھتی ہوئی خرید و فروخت کا بازار بھی ہمیشہ گرم رہتا ہے۔
کسی ملک پر دبائو ڈالنا مقصود ہو تو عدم پھیلائو کے کسی بھی بیکار پڑے ہوئے معاہدے کو اٹھایا جاتا ہے اور اس کے اطلاق اور نفاذ کا پروپیگنڈہ کر کے ناپسندیدہ ملک کو دھونس اور دھمکیاں دے کر دبائو ڈالنے کا عمل شروع کر دیا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کے کسی ادارے کو متحرک کرتے ہوئے مخالف ملک پر چڑھائی کرنے کی راہ ہموار کی جاتی ہے، عموماً آئی اے ای اے (I.A.E.A) کواس مقصد کے لیے استعمال میں لایا جاتا ہے۔ ایسا کچھ نہ ہو تو براہ راست الزامات عاید کر دیے جاتے ہیں، جس طرح ایران کے خلاف ایٹمی پھیلائو کی مہم چلائی گئی، لیکن بھارت کے اسٹرٹیجک تعاون کے ایک نئے مرحلے کا آغاز کر دیا گیا۔
امریکا اور فرانس نے بھی بھارت کے ساتھ جوہری معاہدے کر لیے ہیں، یعنی تخفیف اسلحہ کی تمام کوششیں اور سمجھوتے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ امریکا اور اکثر یورپی ممالک کی یہی روایت رہی ہے کہ انھوں نے ہتھیاروں کی تجارت کو کبھی کم نہیں ہونے دیا اور جسے چاہا اور جیسے چاہا اسلحہ فروخت کیا اور ٹیکنالوجی منتقل کی۔2003سے 2006کے دوران یوگنڈا میں اندرونی خلفشار اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی مفلسی اور قحط سالی سے ہزاروں افراد ہلاک ہوئے۔
یوگنڈا کے غریب خاندان اپنی 20 سالہ خانہ جنگی میں تقریباً 2 بلین ڈالر کے ہتھیار استعمال کر چکے ہیں۔ 1996 سے لے کر 2006 تک امریکا نے یوگنڈا کو امداد کی مد میں تقریباً اتنی ہی رقم مہیا کی تھی گویا اگر اس دوران جنگ نہ ہوئی ہوتی تو بیرونی امداد کی ضرورت بھی نہ ہوتی۔ 2006 میں شمالی یوگنڈا کی خانہ جنگی میں 58 ملین ڈالر استعمال ہوئے۔ ان غریب ملکوں میں اتنا قیمتی اسلحہ کہاں سے اور کیسے دیا جاتا ہے یہ انکشاف ابھی تک کسی ادارے نے نہیں کیا۔
آج کی ترقی یافتہ دنیا میں ایک اندازے کے مطابق 85 کروڑ 40 لاکھ افراد بھوک اور قحط سالی کا شکار ہیں جب کہ اس سے بھی زیادہ لوگ اپنی خوراک کے لیے اہم غذائی اجناس خریدنے سے قاصر ہیں۔ دنیا بھر میں وقوع پذیر اس غذائی بحران کی وجہ کیا ہے؟ کیا غذائی اجناس کی فراہمی اور نقل و حمل میں رکاوٹ ہے یا کسی بڑی قدرتی تباہی کے نتیجے میں دنیا میں غذائی اشیاء کا بہت بڑا حصہ ضایع ہو چکا ہے یا پھر زمین بنجر ہے یا پیداوار کی کمی کا شکار ہے؟ آج دنیا کی آبادی محض دو ڈالر فی کس دن پر زندگی بسر کر رہی ہے۔ کروڑوں لوگ صحت تعلیم اور صاف پانی کی سہولتوں سے محروم ہیں۔
دنیا کے غریب ممالک کی بڑی تعداد قرضوں کے بھاری بوجھ تلے دبی ہوئی ہے، جو ان ممالک نے ترقی یافتہ ممالک کے بینکوں اور آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کو ادا کرتے ہیں یعنی اس براعظم کے تمام لوگ سارا سال ایک لقمہ بھی نہ کھائیں اور اپنی تمام پیداوار مغرب اور ان اداروں کی جھولیوں میں ڈال دیں تب بھی وہ قرض کے اس جال سے نجات حاصل نہیں کر سکتے جب کہ سود در سود کے باعث قرضوں کا یہ حجم ہر سال بڑھتا جا رہا ہے۔
عالمی ادارے جن کے قیام کا مقصد کمزور معیشتوں کو سہارا دینا تھا ان مسائل کو حل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ کراہ ارض پر کوئی ایک ملک بھی ایسا موجود نہیں جو IMF اور ورلڈ بینک کی پالیسیوں پر عمل کر کے معاشی خودمختاری اور خوشحالی کو حاصل کر سکا ہو۔ صومالیہ، سوڈان، تنزانیہ، یوگنڈا، ویتنام، مالی، موزمبیق، روانڈا، زمبیا اس قدر غریب ہو چکے ہیں کہ آئی ایم ایف نے انھیں انتہائی غریب ممالک کی فہرست میں شامل کر دیا ہے کہ جن سے قرضوں کی واپسی کی اب کوئی امید باقی نہیں رہی جب کہ اس فہرست میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
ستم یہ ہے کہ IMF قرض لینے والے ممالک کی حکومتوں کی کرپشن کو مورد الزام ٹھہرا کر خود کو بری کر لیتا ہے، یعنی آئی ایم ایف کے نزدیک پالیسیوں کی ناکامی کی وجہ ان کا ناقص ہونا نہیں بلکہ حکومتوںکا کرپٹ ہونا ہے کہ جس کی وجہ سے ان ممالک کے لوگوں تک ان اداروںکی پالیسیوں کے ثمرات نہیں پہنچ پاتے اور یوں یہ ممالک غربت کا شکار ہیں۔ آج اس دنیا میں جہاں ہر سال 780 بلین روپے ہلاکت خیز ہتھیاروں کی خرید و فروخت پر خرچ ہو جاتے ہیں اسی دنیا میں ایک ارب انسان ایسے بھی ہیں جو بے گھر ہیں۔ 82 کروڑ 60 لاکھ افراد کو صرف اس قدر خوراک میسر ہے کہ ان میں روح و بدن کا رشتہ کسی طرح سے برقرار رہ سکے۔ ہر سال دنیا میں دو کروڑ افراد فاقہ کشی کے باعث موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں اور ان میں اکثریت معصوم بچوں کی ہوتی ہے، 70 کروڑ 80 لاکھ افراد کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہے۔
خبر یہ ہے کہ دنیا میں 80 ہزار سے زیادہ ایٹم بم موجود ہیں اور ہر ایک کی ہلاکت خیزی ہیروشیما اور ناگاساکی کے ایٹم بموں سے کئی گنا زیادہ ہے۔ اسلحہ کے انبار اور بموں کے عظیم الشان ذخائر ہی انسانوں کو لرزہ براندام کرنے کے لیے کیا کم تھے کہ انسانی ہوس میں مزید ستم یہ ڈھایا ہے کہ سرمائے کے ارتکاز سے غربت کی کھائی دن بہ دن گہری ہوتی جا رہی ہے، اسلحے کا کھلے عام استعمال ہونا، لوگوں کی جانوں سے کھیلنا ایک عام سی بات ہو گئی ہے۔امریکا ساری دنیا کی معیشت پر قبضہ کر کے اور دنیا بھر کے انسانوں پر اپنی ترقی کی دہشت طاری کر کے انھیں اپنا ذہنی، فکری، علمی اور معاشرتی غلام بنا رہا ہے اور اس مقصد کے حصول کے لیے ''بنیاد پرستی'' کو ہدف بنا کر پیش کیا گیا ہے۔
دور حاضر کی اکثر جنگی مہمات امریکا کے زیر سایہ ہو رہی ہیں اور امریکا ہی ان کو سپورٹ کر رہا ہے، افغانستان اور عراق کی مثال ہمارے سامنے ہے۔یاد رہے کہ تہذیبی تصادم کا مفروضہ یہ تھا کہ ایک تہذیب دوسری تہذیب کو ختم کر دے گی اور یہ عالمی جنگ مغرب اور مسلمانوں کے مابین ہو گی۔ حالانکہ مغربی اور مشرقی تہذیب کی حد بندیاں بھی محض شناخت کی حد تک باقی رہ گئی ہیں۔ اس لیے کہ نہ تو مغرب آج مغرب رہا ہے اور نہ مشرق مشرق۔ ایسا لگتا کہ ہر معاشرہ مغرب بھی اور مشرق بھی بلکہ مسلمان معاشروں میں بھی ایسے طبقات جو بظاہر تو مغرب کی مخالفت میں بہت شدید ہیں لیکن خود ترقی یافتہ ممالک کے طرز زندگی کو اپنائے ہوئے ہیں، لباس، خوراک، مکانات، گھر کے اندر سامانِ آرائش حتیٰ کہ باتھ روم تک کے معاملے میں مغرب کی نقالی یا پیروی ہو رہی ہے۔
یہ لوگ اپنی اولاد کو مغربی تعلیمی اداروں میں اعلیٰ تعلیم دلوا رہے ہیں اور مغربی ممالک میں مستقل قیام کی دلی تمنا رکھتے ہیں، بہت سے لوگ تو اس کی تکمیل کے لیے ہر ممکن حد تک جانے کے لیے بھی تیار ہیں۔ لیکن اس کے باوجود ایسے معاشروں میں مغرب کی مخالفت کو بھی ضروری خیال کرتے ہیں۔ شاید اسی دہرے رویے نے مسلمان معاشروں میں مایوسی کی شدید لہر پیدا کی ہے۔ مسلم معاشروں کی ذہنی پسماندگی اور مایوسی نے عالمی سرمایہ داروں کو ایسا میدان عمل فراہم کر دیا ہے کہ ان کی طے کردہ حکمت عملی کے مطابق نتائج سامنے آتے جا رہے ہیں۔
بیروزگاری اور غربت کی کیچڑ میں ذہنی، جسمانی اور روحانی بیماریاں پروان چڑھتی ہیں، اسلحے کی بھرمار نے لوگوں کا جینا دوبھر کردیا ہے۔ لوگ کیڑے، مکوڑوں کی طرح مر رہے ہیں، کم عمر بچے کمانے پر مجبور ہیں۔ احساس جرم و گناہ ایسے مہیب رستوں پر لے جاتا ہے جہاں جانے والے لوگوں کے لیے واپسی کا راستہ تلاش کرنا عموماً ممکن نہیں ہوتا، لہٰذا مشرق و مغرب کے دانش مند افراد اگر انسانیت کی بقا کے لیے واقعتاً مخلص ہیں تو سب سے پہلے غربت و افلاس کے خاتمے کے لیے عملی جدوجہد کرنا ہوگی۔ جنگی آلات، اسلحہ، ایٹم بم، ڈرون حملوں کی بندش ہوگی تو دنیا سے بھوک اور افلاس کم ہوسکتی ہے، اسی طرح عالمی دہشت گردی پر قابو پایا جاسکتا ہے۔