زر اور محبت کی تقسیم

ڈالر نے ہماری قوم کی جڑوں میں داخل ہوکر زہر گھول دیا ہے ۔۔۔

دنیا میں طبقاتی لحاظ سے اقوام کو تین درجوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ (1) ترقی یافتہ (2) ترقی پذیر (3) غیر ترقی یافتہ۔ اسی کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کسی دانشور نے خوب کہا ہے۔ ''اچھے ذہن تحقیق کی بات کرتے ہیں، عام ذہن حالات کی بات کرتے ہیں، کمزور ذہن لوگوں کی بات کرتے ہیں۔''

تینوں اقوام کے معاشرتی رہن سہن طور طریقے ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔ ترقی یافتہ اقوام زندگی کی تمام آسائشوں سے بہرہ ور ہوتی ہیں جب کہ ترقی پذیر دنیا پست طرز زندگی کی وجہ سے اخلاقی اور نفسیاتی طور پر چڑچڑے پن کا شکار رہتی ہے، اُن کا احساسِ محرومی ہی انسان کو منفی سوچ کا عادی بنا دیتا ہے۔ ایسی صورتحال پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں جگہ جگہ دیکھنے کو ملتی ہے، بالخصوص پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کے دوران۔ جدید ٹیکنالوجی کے حصول میں کامیابی اور اس سے مستفید ہونے کے بعد اس ٹیکنالوجی کا ترقی پذیر ممالک کی طرف ٹرانسفر ہونا ان کی زندگی کا نصب العین رہا ہے۔

ان کی ترقی کے ثمرات خطے کے پڑوسی ممالک پر اثر انداز ہونا ایک فطری عمل ہے یوں ترقی کا عمل بڑھتے بڑھتے خطے کو خوشحالی کی طرف لے جاتا ہے۔ یورپ کی ترقی اسی پس منظر کا پیش خیمہ ہے۔ مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ان اقوام کی شاندار ترقی کے باوجود ان کی ترجیحات انسان سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ مخلوق جانوروں سے پیار میں موقوف رہتی ہے۔ ان کا مؤقف ہے کہ جانور ہر صورت میں انسان کا وفادار ثابت ہوا ہے یہ صرف انسان سے محبت کا متلاشی ہے جب کہ انسان کا اپنے محسن کو نقصان پہنچانا اس کی فطرت میں شامل ہے۔

انسان کے مقدس رشتے ان کے نزدیک محض مدر ڈے، فادر ڈے، وومنز ڈے، ویلنٹائن ڈے تک محدود ہیں جب کہ اسلام ان مقدس رشتوں کے عزت و احترام اور عملی طور پر فوقیت دینے کا درس دیتا ہے دوسری قسم وہ اقوام یا ممالک ہیں جو ابھی ترقی کے حصول کی کوششوں میں متوقع طور پر سرگرم عمل ہیں مگر ابھی تک ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل نہیں ہو سکے اس کی وجہ شاید وہاں کے سیاسی عدم استحکام معاشی، معاشرتی، سماجی اور اخلاقی فقدان کا ہونا ہے۔

ایک جگہ میں پڑھ رہا تھا کہ دنیا کی محبت انسان کو بزدل بنا دیتی ہے انسان موت جیسی حقیقی زندگی سے بلاوجہ خوف زدہ رہتا ہے۔ نفس پرستی، پراگندگی، فتنہ انگیزی، ظلم و ستم عام ہو جاتا ہے۔ دوسری قومیں طرح طرح کی سازشوں کے جال بچھا کر اور مال و زر کی لالچ میں مبتلا ہو کر کم ہمت قوموں کے وجود کو ختم کر دیتی ہیں۔ دنیا سے محبت اور موت سے خوف کھانا چھوڑ دیجیے یہ عمل سکون راحت اور اطمینان قلب کا باعث بنے گا اور دوزخ آپ کے قریب بھی نہیں پھٹکے گی۔

زر اور محبت ہمارے معاشرے کی اہم اکائیاں ہیں دونوں کا ایک دوسرے سے ازلی رشتہ ابد تک ہے بلاشبہ زر ہماری ضروریات کی تکمیل اور معاشی اسٹیٹس کی پہچان ہے۔ انسانی محبت کا رشتہ فطری ہے جب کہ زر کا حصول بذریعہ محنت اور کوشش سے ہے۔ محبت ایک جبلی جذبہ ہے۔ حقیقت کی نظر سے دیکھیں تو پتہ چلے گا کہ اقوام کی ترقی انھی دو اسباب کی بدولت ہوئی۔ محبت یافتہ اور زر یافتہ افراد کے اس گروپ نے دنیا میں ہونے والی فتوحات حاصل کیں اور مفتوح کہلائے۔ اس وقت ترقی یافتہ دنیا میں جو اہمیت ڈالر کی ہے ڈالر میں وہ سحر کن طاقت ہے جس نے پورے معاشرے کو اپنی من پسند سمت میں ڈھال دیا ہے۔ آج ہم جن ناگفتہ بہ حالات سے دو چار ہیں اسی ڈالر کا کرشمہ ہے۔


ڈالر نے ہماری قوم کی جڑوں میں داخل ہوکر زہر گھول دیا ہے ہمارے بیرونی دشمنوں کی بھی یہی خواہش تھی۔ جب کہ اسلام نے زر کی بجائے کائنات کی ہر شے سے محبت اور عشق کا درس دیا۔ زر تو محض انسان کی فلاح و بہبود کے لیے خرچ کرنے پر زور دیا سادہ طرز زندگی اپنانے پر توجہ دی۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کر دہ دولت کی فراوانی ہے تو اسے غریب اور دکھی انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے خرچ کرنے کا درس دیا۔

مادہ پرستی کے اس خود غرض دور نے انسان کو اپنے عزیز و اقارب سے محبت کرنے کی بجائے زیادہ سے زیادہ روپوں پیسوں کے حصول کے لیے ہر جائز و ناجائز طریقہ اختیار کر لیا ہے، قطع نظر اس دولت کے بھیانک نتائج ہی کیوں نہ بھگتنا پڑ جائیں۔ ہم نے بعض اعتدال پسند اللہ کے بندوں کو یہ بھی کہتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ جتنی بھی دے اس میں برکت دے۔ اس جملے میں اللہ تعالیٰ سے انکساری اور عاجزی کا ثبوت ملتا ہے۔ اللہ کی پاک ذات کسی بھی شخص کو دنیا میں غریب بنا کر نہیں بھیجتی غریب ہوتا ہے اپنے قول و فعل اور ناقص حکمت عملی اپنا کر۔ انسان خلوص نیت سے محنت کرتا رہے اور اللہ ہی سے مدد کا طلبگار رہے تو کسی حد تک انسان روحانی طور پر مطمئن رہے گا۔

ترقی یافتہ ممالک سپر پاور کیوں ہیں؟ کیونکہ ان کے پاس دولت اور وسائل کی فراوانی نہیں بلکہ فراہمی ہے اور یہ دولت و وسائل دوسروں کے غصب کردہ ہیں ان کا وتیرہ رہا ہے کہ قوموں کو پہلے غربت کی راہ دکھائو اور انھیں اتنا کمزور اور لاغر بنا دو کہ ہمارے سامنے آنکھ اٹھا کر بات کرنے کے قابل نہ ہوں۔ پولیو کے کیا معاملات ہیں؟ این جی اوز کیا ہیں؟ عام آدمی کو اس سے غرض نہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمیں ان تمام معاملات کو کھلی آنکھوں اور حاضر دماغی سے اصل حقائق تک پہنچنا ہو گا۔

مسلمانوں میں پیدا کردہ تفرقہ اسی ڈالر کی بدولت ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم لاشعور ی طور پر جذباتیت کا شکار ہیں۔ ہم قطعاً اس حقیقت سے ناواقف ہیں کہ بیرونی دنیا آ پ کے خلاف کیا کیا منصوبے بنا رہی ہے۔ اس کا اصول ہے کہ اپنے وسائل کا ذخیرہ محفوظ رکھو اور دوسروں کے وسائل کو استعمال میں لائو۔ ایک اخباری اطلاع کے مطابق دنیا کے شہرت یافتہ دولت مند بل گیٹس اپنی دولت کو غرباء کی فلاح و بہبود کے لیے خرچ کرنے میں با رہا دلچسپی کا اظہار کر چکے ہیں انسانوں کی فلاح و بہبود کے نام پر زیادہ سے زیادہ منافعے کا حصول ان کی ترقی کا راز ہے۔

ہر طرف زر ہی زر کا کھیل ہے ہر تیسرا آدمی ضرورتمند ہو کر آپ کے سامنے کھڑا ہے جس میں اچھے اچھے انسانوں کو انسانوں ہی کے بہیمانہ قتل و غارت کا بازار گرم کرنے پر اسی ڈالر کی طاقت نے مجبور کیا ہے۔ بیرونی دنیا میں انسان نرم مزاج اور خوش اخلاق کیوں ہے اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ انھیں بنیادی ضروریات کے تمام وسائل وافر مقدار میں میسر ہیں۔ قانون کی بالا دستی ہے۔ عدالتوں کا احترام ہے۔ جمہوریت درست سمت میں ہے۔

موبائل کی حیران کن ٹیکنالوجی نے پوری دنیا کو ایک دوسرے سے بہت قریب کر دیا ہے۔ ہر خاص و عام تک اس کی رسائی کثرت سے ہو چکی ہے۔ ایس ایم ایس بھی موبائل کا بہت اہم، مفید اور ارزاں پیغام رسائی کا ذریعہ ہے۔ میری بھانجی انم زہرہ اکثر مجھے دلچسپ لطیفوں اور واقعات پر مبنی ایس ایم ایس بھیجتی ہے اور میری عادت ہے کہ میں کسی کو رسپانس دوں یا نہ دوں اس کو ضرور فوری رسپانس دیتا ہوں۔ انھی میں ایک دلچسپ ایس ایم ایس گزشتہ دنوں اُس کی طرف سے موصول ہوا جس کو کوشش کے باوجود میرا دل اُس کو Delete کرنے کو نہیں مانا میری خواہش ہے کہ یہ ایس ایم ایس میں اپنے معزز قارئین کے ساتھ شیئر کروں۔

''دو باتیں ہمیشہ یاد رکھنا! (1) پہلی بات ہر عورت اتنی بری نہیں ہوتی جتنی پاسپورٹ اور شناختی کارڈ کی فوٹو میں نظر آتی ہے اور اتنی اچھی بھی نہیں ہوتی جتنی فیس بک اور واٹس اپ پر نظر آتی ہے۔ (2) دوسری بات! ہر آدمی اتنا برا نہیں ہوتا جتنا اس کی بیوی اس کو سمجھتی ہے اور اتنا اچھا بھی نہیں ہوتا جتنا اس کی ماں اس کو سمجھتی ہے۔''
Load Next Story