صوبے کی ترقی کے لئے سندھ حکومت کے اہم اقدامات
حکومت سندھ نے یہ اقدامات پیپلز پارٹی کے سرپرست اعلیٰ بلاول بھٹو زرداری اورشریک چیئرمین آصف علی زرداری کی ہدایت پر کیے
سندھ حکومت نے بھنبھور ڈویژن کے قیام کے بعد صوبے میں ایک اور نئے شہید بے نظیر آباد ڈویژن کے قیام کا اعلان کردیا ہے۔
اس نئے ڈویژن میں ضلع شہید بے نظیر آباد ( نواب شاہ ) ، ضلع سانگھڑ اور ضلع نوشہروفیروز شامل ہوں گے۔ اب سندھ میں ڈویژنز کی تعداد 7 ہو گئی ہے ۔ ان میں کراچی ، بھنبھور، میرپور خاص، حیدرآباد ، شہید بے نظیر آباد ، لاڑکانہ اور سکھر شامل ہیں ۔ طویل عرصے کے بعد سندھ میں نئے ڈویژنز قائم کیے گئے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ سجاول کو بھی ضلع بنایا گیا ہے۔
حکومت سندھ نے یہ اقدامات پیپلز پارٹی کے سرپرست اعلیٰ بلاول بھٹو زرداری اور شریک چیئرمین آصف علی زرداری کی ہدایت پر کیے تاکہ دور دراز اور پسماندہ علاقوں کے مسائل کو حل کرنے پر توجہ دی جا سکے ۔ شہید بے نظیر آباد ڈویژن کے قیام کا اعلان سابق صدر آصف علی زرداری کے دورہ نوشہرو فیروز کے موقع پر کیا گیا۔ آصف علی زرداری نے وہاں پارٹی کے ضلعی عہدیداروں اور رہنماؤں اور منتخب ارکان کے اجلاس کی صدارت کی ۔ آصف علی زرداری اب ہر ضلع میں اس طرح کے دورے کریں گے۔
نوشہرو فیروز میں انہوں نے جاری ترقیاتی کاموں کا بھی جائزہ لیا اور اس ضلع کے لیے مزید ترقیاتی فنڈز جاری کرنے کی ہدایت کی۔ انہوں نے پارٹی کی تنظیم سازی کے حوالے سے مقامی قیادت کے ساتھ صلاح و مشورے کیے۔ پیپلز پارٹی کی قیادت نے اب ہر علاقے میں جا کر صورت حال کا خود جائزہ لینے اور پارٹی کارکنوں سے براہ راست رابطے کا فیصلہ کیا ہے۔
بھمبھور ڈویژن کے قیام کے اعلان کے بعد جس طرح ٹھٹھہ ، سجاول اور بدین کے ہزاروں عوام نے پی پی پی رہنما سید اویس مظفر کا والہانہ استقبال کرکے خوشی کا اظہار کیا تھا اب یہ خوشی بے نظیر آباد ڈویژن کے قیام کے بعد ضلع بے نظیر آباد ، (نوابشاہ ) ضلع سانگھڑ اور ضلع نوشہروفیروز کے عوام کو بھی میسر ہوگی اور یقیناً عوام اس کا اظہار ایک بار پھر ایک بڑی ریلی کی صورت میں کریں گے۔
دوسری طرف سندھ حکومت نے مشترکہ مفادات کونسل ( سی سی آئی ) کے آئندہ اجلاس میں اپنے معاملات بہتر طور پر اٹھانے کے لیے حکمت عملی طے کر لی ہے۔ اس حوالے سے ایک اعلیٰ سطح کا اجلاس گزشتہ ہفتے وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کی صدارت میں منعقد ہوا ، جس میں 29 مئی کو منعقد ہونے والے سی سی آئی کے اجلاس میں سندھ کا کیس پیش کرنے کے لیے ہر ایک ایشو پر تفصیلی بحث کی گئی اور یہ فیصلہ کیا گیا کہ سندھ حکومت سی سی آئی کے اجلاس میں یہ مطالبہ کرے گی کہ صوبے میں زکوٰۃ اور ایمپلائز اولڈ ایج بینی فٹ انسٹی ٹیوشن (ای او بی آئی) کے کنٹری بیوشن کی وصولی کا اختیار اسے دیا جائے۔
سی سی آئی کے آئندہ اجلاس میں سندھ کی طرف سے یہ بھی مطالبہ کیا جائے گا کہ گوادر پورٹ اتھارٹی کی طرح کراچی پورٹ اور پورٹ قاسم کی چیئرمین شپ اور اس کے بورڈ آف گورنرز میں 50 فیصد رکنیت سندھ کو دی جائے۔ واضح رہے کہ بلوچستان پیکیج کے تحت گوادر پورٹ اتھارٹی میں چیئرمین کا عہدہ اور اتھارٹی کے بورڈ اور گورنرز میں 50 فیصد حصہ بلوچستان کو دیا گیا ہے۔ کراچی پورٹ اور پورٹ قاسم اتھارٹی سندھ میں ہیں، اس لیے سندھ حکومت یہ مطالبہ کرنے میں حق بجانب ہوگی۔
سی سی آئی میں یہ بھی مطالبہ کیا جائے گا کہ بلوچستان کی طرح پاکستان پٹرولیم لمیٹڈ (پی پی ایل) آئل اینڈ گیس ڈویلپمنٹ کارپوریشن (او جی ڈی سی ایل) اور سوئی سدرن گیس (ایس ایس جی سی ایل) کے 20 فیصد حصص کی خریداری کا حق دوسرے صوبوں کو بھی دیا جائے۔ سندھ حکومت وفاقی حکومت سے یہ بھی مطالبہ کرے گی کہ چھٹی مردم اور خانہ شماری ستمبر اکتوبر 2014ء یا مارچ 2015ء میں کرادی جائے۔
وزیراعلیٰ سندھ واپڈا کی طرف سے سندھ حکومت کو بھیجے گئے بجلی کے اضافی بلوں کا بھی معاملہ سی سی آئی میں اٹھائیں گے اور یہ موقف اختیار کریں گے کہ حکومت سندھ یہ بل ادا نہیں کرے گی، جو اپنی مرضی سے بنائے گئے ہوں۔ وہ یہ بھی مطالبہ کریں گے کہ وفاق اس تنازع کو طے کرنے کے لئے ایک اعلیٰ سطح کی کمیٹی تشکیل دے، جو منصفانہ فیصلہ کرے۔ وفاقی حکومت کے ملازمین کے سندھ حکومت میں مستقل انضمام کا مسئلہ بھی وزیراعلیٰ سندھ سی سی آئی کے اجلاس میں اٹھائیں گے اور یہ بتائیں گے کہ وفاقی حکومت کی ان وزارتوں اور اداروں کے ملازمین کو سندھ حکومت میں ضم کیا جائے گاجو 18ویں آئینی ترمیم کے بعد صوبوں کو منتقل ہوگئے ہیں لیکن ان وزارتوں اور اداروں کے ان ملازمین کو ضم نہیں کیا جائے گا، جو 18ویں ترمیم کے بعد بھرتی ہوئے ہیں۔
حکومت سندھ انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) کے قانون میں مجوزہ ترمیم کی بھی مخالفت کرے گی جس کے تحت صوبہ خیبر پختونخوا کو اس پانی کی تلافی کی جائے گی جو انفرا اسٹرکچر نہ ہونے کی وجہ سے اسے نہیں مل سکا ہے یا وہ استعمال نہیں کرسکا ہے۔ حکومت سندھ کا مؤقف یہ ہو گا کہ 1991ء کے پانی کے معاہدے میں ایسی کوئی شق نہیں ہے۔ سی سی آئی میں کراچی کیلئے پانی کا الگ حصہ دینے کا بھی مطالبہ کیا جائیگا کیونکہ حکومت سندھ کا مؤقف یہ ہے کہ شہر میں تمام صوبوں کے لوگ رہتے ہیں اور یہ شہر پورے ملک کیلئے ریونیو کما کر دے رہا ہے۔ سی سی آئی کے اجلاس میں ڈاؤن اسٹریم کوٹری مطلوبہ پانی چھوڑنے کا بھی مطالبہ کیا جائیگا ۔ سندھ کے لوگوں کو سی سی آئی کے آئندہ اجلاس سے بہت توقعات وابستہ ہیں اور وہ امید کرتے ہیں کہ یہ آئینی فورم سندھ کو اس کے حقوق دیگا۔
اس نئے ڈویژن میں ضلع شہید بے نظیر آباد ( نواب شاہ ) ، ضلع سانگھڑ اور ضلع نوشہروفیروز شامل ہوں گے۔ اب سندھ میں ڈویژنز کی تعداد 7 ہو گئی ہے ۔ ان میں کراچی ، بھنبھور، میرپور خاص، حیدرآباد ، شہید بے نظیر آباد ، لاڑکانہ اور سکھر شامل ہیں ۔ طویل عرصے کے بعد سندھ میں نئے ڈویژنز قائم کیے گئے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ سجاول کو بھی ضلع بنایا گیا ہے۔
حکومت سندھ نے یہ اقدامات پیپلز پارٹی کے سرپرست اعلیٰ بلاول بھٹو زرداری اور شریک چیئرمین آصف علی زرداری کی ہدایت پر کیے تاکہ دور دراز اور پسماندہ علاقوں کے مسائل کو حل کرنے پر توجہ دی جا سکے ۔ شہید بے نظیر آباد ڈویژن کے قیام کا اعلان سابق صدر آصف علی زرداری کے دورہ نوشہرو فیروز کے موقع پر کیا گیا۔ آصف علی زرداری نے وہاں پارٹی کے ضلعی عہدیداروں اور رہنماؤں اور منتخب ارکان کے اجلاس کی صدارت کی ۔ آصف علی زرداری اب ہر ضلع میں اس طرح کے دورے کریں گے۔
نوشہرو فیروز میں انہوں نے جاری ترقیاتی کاموں کا بھی جائزہ لیا اور اس ضلع کے لیے مزید ترقیاتی فنڈز جاری کرنے کی ہدایت کی۔ انہوں نے پارٹی کی تنظیم سازی کے حوالے سے مقامی قیادت کے ساتھ صلاح و مشورے کیے۔ پیپلز پارٹی کی قیادت نے اب ہر علاقے میں جا کر صورت حال کا خود جائزہ لینے اور پارٹی کارکنوں سے براہ راست رابطے کا فیصلہ کیا ہے۔
بھمبھور ڈویژن کے قیام کے اعلان کے بعد جس طرح ٹھٹھہ ، سجاول اور بدین کے ہزاروں عوام نے پی پی پی رہنما سید اویس مظفر کا والہانہ استقبال کرکے خوشی کا اظہار کیا تھا اب یہ خوشی بے نظیر آباد ڈویژن کے قیام کے بعد ضلع بے نظیر آباد ، (نوابشاہ ) ضلع سانگھڑ اور ضلع نوشہروفیروز کے عوام کو بھی میسر ہوگی اور یقیناً عوام اس کا اظہار ایک بار پھر ایک بڑی ریلی کی صورت میں کریں گے۔
دوسری طرف سندھ حکومت نے مشترکہ مفادات کونسل ( سی سی آئی ) کے آئندہ اجلاس میں اپنے معاملات بہتر طور پر اٹھانے کے لیے حکمت عملی طے کر لی ہے۔ اس حوالے سے ایک اعلیٰ سطح کا اجلاس گزشتہ ہفتے وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کی صدارت میں منعقد ہوا ، جس میں 29 مئی کو منعقد ہونے والے سی سی آئی کے اجلاس میں سندھ کا کیس پیش کرنے کے لیے ہر ایک ایشو پر تفصیلی بحث کی گئی اور یہ فیصلہ کیا گیا کہ سندھ حکومت سی سی آئی کے اجلاس میں یہ مطالبہ کرے گی کہ صوبے میں زکوٰۃ اور ایمپلائز اولڈ ایج بینی فٹ انسٹی ٹیوشن (ای او بی آئی) کے کنٹری بیوشن کی وصولی کا اختیار اسے دیا جائے۔
سی سی آئی کے آئندہ اجلاس میں سندھ کی طرف سے یہ بھی مطالبہ کیا جائے گا کہ گوادر پورٹ اتھارٹی کی طرح کراچی پورٹ اور پورٹ قاسم کی چیئرمین شپ اور اس کے بورڈ آف گورنرز میں 50 فیصد رکنیت سندھ کو دی جائے۔ واضح رہے کہ بلوچستان پیکیج کے تحت گوادر پورٹ اتھارٹی میں چیئرمین کا عہدہ اور اتھارٹی کے بورڈ اور گورنرز میں 50 فیصد حصہ بلوچستان کو دیا گیا ہے۔ کراچی پورٹ اور پورٹ قاسم اتھارٹی سندھ میں ہیں، اس لیے سندھ حکومت یہ مطالبہ کرنے میں حق بجانب ہوگی۔
سی سی آئی میں یہ بھی مطالبہ کیا جائے گا کہ بلوچستان کی طرح پاکستان پٹرولیم لمیٹڈ (پی پی ایل) آئل اینڈ گیس ڈویلپمنٹ کارپوریشن (او جی ڈی سی ایل) اور سوئی سدرن گیس (ایس ایس جی سی ایل) کے 20 فیصد حصص کی خریداری کا حق دوسرے صوبوں کو بھی دیا جائے۔ سندھ حکومت وفاقی حکومت سے یہ بھی مطالبہ کرے گی کہ چھٹی مردم اور خانہ شماری ستمبر اکتوبر 2014ء یا مارچ 2015ء میں کرادی جائے۔
وزیراعلیٰ سندھ واپڈا کی طرف سے سندھ حکومت کو بھیجے گئے بجلی کے اضافی بلوں کا بھی معاملہ سی سی آئی میں اٹھائیں گے اور یہ موقف اختیار کریں گے کہ حکومت سندھ یہ بل ادا نہیں کرے گی، جو اپنی مرضی سے بنائے گئے ہوں۔ وہ یہ بھی مطالبہ کریں گے کہ وفاق اس تنازع کو طے کرنے کے لئے ایک اعلیٰ سطح کی کمیٹی تشکیل دے، جو منصفانہ فیصلہ کرے۔ وفاقی حکومت کے ملازمین کے سندھ حکومت میں مستقل انضمام کا مسئلہ بھی وزیراعلیٰ سندھ سی سی آئی کے اجلاس میں اٹھائیں گے اور یہ بتائیں گے کہ وفاقی حکومت کی ان وزارتوں اور اداروں کے ملازمین کو سندھ حکومت میں ضم کیا جائے گاجو 18ویں آئینی ترمیم کے بعد صوبوں کو منتقل ہوگئے ہیں لیکن ان وزارتوں اور اداروں کے ان ملازمین کو ضم نہیں کیا جائے گا، جو 18ویں ترمیم کے بعد بھرتی ہوئے ہیں۔
حکومت سندھ انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) کے قانون میں مجوزہ ترمیم کی بھی مخالفت کرے گی جس کے تحت صوبہ خیبر پختونخوا کو اس پانی کی تلافی کی جائے گی جو انفرا اسٹرکچر نہ ہونے کی وجہ سے اسے نہیں مل سکا ہے یا وہ استعمال نہیں کرسکا ہے۔ حکومت سندھ کا مؤقف یہ ہو گا کہ 1991ء کے پانی کے معاہدے میں ایسی کوئی شق نہیں ہے۔ سی سی آئی میں کراچی کیلئے پانی کا الگ حصہ دینے کا بھی مطالبہ کیا جائیگا کیونکہ حکومت سندھ کا مؤقف یہ ہے کہ شہر میں تمام صوبوں کے لوگ رہتے ہیں اور یہ شہر پورے ملک کیلئے ریونیو کما کر دے رہا ہے۔ سی سی آئی کے اجلاس میں ڈاؤن اسٹریم کوٹری مطلوبہ پانی چھوڑنے کا بھی مطالبہ کیا جائیگا ۔ سندھ کے لوگوں کو سی سی آئی کے آئندہ اجلاس سے بہت توقعات وابستہ ہیں اور وہ امید کرتے ہیں کہ یہ آئینی فورم سندھ کو اس کے حقوق دیگا۔