16 دسمبر سبق سیکھنے کا دن
بنگال کی تاریخ گواہ ہے کہ وہاں کے باشندوں نے اپنی زبان اور ثقافت کے تحفظ کے لیے ہمیشہ جدوجہد کی
بنگال کی تاریخ گواہ ہے کہ وہاں کے باشندوں نے اپنی زبان اور ثقافت کے تحفظ کے لیے ہمیشہ جدوجہد کی۔ بنگال کے لوگوں نے کبھی مکمل طور پر مغلیہ سلطنت کے اقتدار کو قبول نہیں کیا۔
ایسٹ انڈیا کمپنی نے اپنے اقتدار کو مستحکم کرنے کے لیے بنگال کے کسانوں کے ساتھ بیہمانہ سلوک کیا، یوں بنگال کے عوام ہر دور میں انگریز سامراج کے خلاف جدوجہد میں مصروف رہے۔ بنگال کے عوام نے انگریزوں کی بالادستی کے خاتمے اور اپنا علیحدہ تشخص قائم کرنے کے لیے مسلم لیگ کے قیام میں اہم کردار ادا کیا۔
آل انڈیا مسلم لیگ کی بنیاد ڈھاکا میں پڑی۔ بنگال کی اسمبلی نے سب سے پہلے پاکستان کے حق میں قرارداد منظور کی۔ حسین شہید سہروردی، مولانا بھاشانی اور شیخ مجیب الرحمن پاکستان کے قیام کے لیے جدوجہد کرنے والے اولین رہنماؤں میں شامل تھے۔
مولانا بھاشانی اور شیخ مجیب الرحمن نے تو پاکستان کے قیام کی جدوجہد میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کی تھیں مگر جب 15 اگست 1947 کو ہندوستان کا بٹوارہ ہوا اور پاکستان وجود میں آیا تو انگریزوں سے اقتدار لینے والی حکومت نے مشرقی بنگال کے عوام کے ساتھ برابری کا سلوک نہیں کیا۔
مشرقی بنگال ملک کا سب سے بڑا صوبہ تھا مگر گورنر جنرل اور وزیر اعظم کے عہدوں کے لیے بنگال کے رہنماؤں کو نظر انداز کیا گیا۔ پہلے گورنر جنرل بیرسٹر محمد علی جناح نے اردو کو قومی زبان بنانے کے فیصلے کا اعلان انگریزی میں کیا۔
برصغیر کی قدیم زبان کو نظرانداز کیا گیا، جب ڈھاکا کے طالب علموں نے بنگالی زبان کو قومی زبان کا درجہ دلوانے کے لیے جدوجہد شروع کی تو 21 فروری 1952 کو پولیس نے نوجوانوں پر گولی چلا دی۔ بنگالی طلبہ کی تحریک اتنی تاریخی اہمیت کی حامل تھی کہ زبانوں اور ورثہ کے تحفظ کے اقوام متحدہ کے ادارہ یونیسکو نے 21 فروری کی طلبہ تحریک کی یاد منانے کے لیے اس دن کو مادری زبان کا دن قرار دیدیا۔
گورنر جنرل غلام محمد نے بنگالی وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کی حکومت کو بر طرف کیا۔ گورنر جنرل غلام محمد نے اپنی امتیازی پالیسی اختیار کی۔
ڈھاکا ہائی کورٹ کے پہلے چیف جسٹس ابو صالح اکرم فیڈرل کورٹ کے سینئر ترین جج تھے مگر غلام محمد نے جسٹس اکرم کو چیف جسٹس بنانے کے بجائے برطانیہ کی حکومت سے درخواست کی کہ کسی انگریز جج کو پاکستان بھیج دیا جائے مگر مشرقی بنگال سے تعلق رکھنے والے سینئر جج نے فیصلہ کیا کہ انگریز چیف جسٹس کے ساتھ کام کرنے سے بہتر ہے کہ اس عہدے سے دستبردار ہوا جائے، یوں جسٹس منیر دوسرے چیف جسٹس بن گئے جنھوں نے نظریہ ضرورت کے تحت اس ملک میں جمہوریت کو شدید نقصان پہنچایا۔
صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں مغربی بنگال میں مسلم لیگ مخالف 11 جماعتوں کا اتحاد جو جگتو فرنٹ کے نام سے معروف ہوا اکثریت سے کامیاب ہوا۔
جگتو فرنٹ کی کامیابی اس کے 24 نکاتی منشور کی بنا پر ممکن ہوئی۔ تحریک پاکستان کے رہنما اے کے فضل الحق جس کو 23 مارچ 1940 کو لاہور میں قرارداد پاکستان پیش کرنے کا اعزاز حاصل ہوا، 3 اپریل 1950 کو جگتو فرنٹ کے وزیر اعلیٰ بنے۔ 24 مئی 1954کو فضل الحق پر غداری کا الزام لگا کر ان کی حکومت برطرف کردی گئی۔ اسکندر مرزا نے حسین شہید سہروردی کو وزیر اعظم بنایا اور کچھ مہینے بعد ان کی حکومت کو برطرف کردیا گیا۔
1956 کے آئین کے نفاذ کے بعد 1958میں عام انتخابات منعقد ہونے تھے۔ اس وقت حسین شہید سہروردی کی عوامی لیگ مشرقی پاکستان اور مولانا بھاشانی کی نیشنل عوامی پارٹی مشرقی پاکستان ، سندھ، بلوچستان اور خیبر پختون خوا میں مقبول ترین جماعتیں تھیں۔ اس بات کے امکانات پیدا ہورہے تھے کہ 1958میں انتخابات ہوئے تو یہ دونوں جماعتیں اکثریت حاصل کر لیں گی۔
صدر اسکندر مرزا نے 1958 میں 1956 کا آئین منسوخ کر کے مارشل لاء نافذ کیا اور جنرل ایوب خان چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بن گئے۔ جنرل ایوب خان نے اسکندر مرزا کا تختہ الٹ دیا اور خود صدر بن گئے۔ جنرل ایوب خان نے پھر 1962 کا آئین بنایا جس میں سارے اختیارات صدر کے عہدے کے گرد بند تھے۔ اس آئین کے تحت صدارتی انتخابات ہوئے۔
بیرسٹر محمد علی جناح کی ہمشیرہ فاطمہ جناح نے ایوب خان کو چیلنج کیا۔ شیخ مجیب الرحمٰن فاطمہ جناح کی مشرقی پاکستان میں مہم کے انچارج تھے۔ مشرقی پاکستان کے عوام نے فاطمہ جناح کی بھرپور حمایت کی مگر فاطمہ جناح کو انتخابات میں دھاندلی کر کے ہرا دیا گیا۔ 1965 میں بھارت اور پاکستان میں دوسری جنگ ہوئی ۔
60ء کی دہائی میں کئی ہونہار بنگالی طالب علم برطانیہ میں زیرِ تعلیم تھے۔ ان میں ڈاکٹر کمال حسین اور رحمٰن سبحان وغیرہ شامل تھے۔ ان نوجوان دانشوروں نے جگتو فرنٹ کے 24 نکات کو 6 نکات میں سمو دیا۔ شیخ مجیب الرحمن نے 6 نکات کو عوامی لیگ کا منشور بنایا۔ شیخ مجیب الرحمن کو گرفتار کر لیا گیا۔
شیخ مجیب الرحمن نے 1968 تک مختلف جیلوں میں نظربندی کاٹی۔ شیخ صاحب کو گرفتاری کے دو سال بعد اگرتلہ سازش کیس میں شامل کیا گیا۔
یوں شیخ مجیب الرحمٰن کی مقبولیت حیرت انگیز طور پر بڑھ گئی۔ جنرل ایوب خان نے سیاسی جماعتوں کے سربراہوں کی گول میز کانفرنس طلب کی۔ مخالف جماعتوں کے رہنماؤں کے اصرار پر شیخ مجیب الرحمن کو رہا کیا گیا اور اگرتلہ سازش کیس ختم کردیا گیا۔
شیخ مجیب الرحمن نے ایوب خان کی گول میز کانفرنس میں صوبائی خودمختاری کا مطالبہ کیا۔ مغربی پاکستان کے سیاست دانوں نے اس کی حمایت نہیں کی، یوں یہ تاریخی موقع ضایع ہوا۔ 1970میں مشرقی پاکستان میں تاریخ کا بدترین طوفان آیا۔
اس طوفان میں لاکھوں افراد جاں بحق ہوئے۔ معروف صحافی عبداﷲ ملک واحد پاکستانی صحافی تھے جنھوں نے مشرقی پاکستان کے اس طوفان زدہ علاقے میں پہنچ کر وہاں کے حالات روزنامہ آزاد میں تحریر کیے۔ انھوں نے لکھا کہ مغربی پاکستان کی طرف سے کوئی مدد لوگوں کو بچانے کے لیے نہیں آئی۔ 1970میں اس ماحول میں عام انتخابات منعقد ہوئے۔
مولانا بھاشانی نے انتخابات میں حصہ نہیں لیا، یوں عوامی لیگ اکثریت سے کامیاب ہوئی، مگر جنرل یحییٰ خان نے اقتدار مجیب الرحمنٰ کو منتقل نہیں کیا۔ ذوالفقار علی بھٹو ، میاں طفیل، مفتی محمود اور نور الامین وغیرہ نے عوامی لیگ کو اقتدار دینے کی مخالفت کی۔ عوامی لیگ نے سول نافرمانی کی تحریک شروع کر دی۔
جنرل یحییٰ خان نے آپریشن شروع کیا۔ یہ واحد موقع تھا جب امریکا ، برطانیہ، روس اور چین نے پاکستانی قیادت پر زور دیا کہ عوامی لیگ کی قیادت سے مذاکرات کیے جائیں۔
ایک طویل خانہ جنگی کے نتیجے میں مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا۔ فوجی بین الاقوامی قانون کے تحت جنگی قیدی بن گئے، بہاری بیچارے غلط فیصلوں کی بناء پر تباہی کا شکار ہوئے اور بنگلہ دیش کی ترقی نے بنگالی قوم پرستوں کا یہ دعویٰ درست ثابت کردیا کہ ان کا استحصال ہو رہا تھا مگر افسوس ناک صورتحال یہ ہے کہ 16 دسمبر کے سانحے سے سبق نہیں سیکھا گیا۔
ایک منظم منصوبے کے تحت تاریخ کو مسخ کیا جارہا ہے اور نئی نسل کو گمراہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے مگر حقائق مسخ کرنے کا نقصان بنگلہ دیش کو نہیں ہوگا۔