مقبوضہ کشمیر کا اب مستقبل کیا
بدقسمتی سے عالمی بساط پر بڑی طاقتوں کے اپنے اپنے مفادات، تضادات اور منافقت کے جال بچھے ہوئے ہیں
مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے جب بھی کوئی دن منایا جاتا ہے یا ذکر کیا جاتا ہے تو چند اشعار کو بار بار سننے کا موقع ملتا ہے۔ ان اشعار میں یہ مصرع شاید مقبول ترین ہے؛
میرے وطن تیری جنت میں آئیں گے اک دن...
بھارت اور پاکستان کے درمیان مقبوضہ کشمیر ایک متنازع علاقہ ہے۔ اقوام متحدہ نے اپنی قراردادوں میں وادی کے عوام کے حق خود مختاری کو تسلیم کیا۔
عالمی فورمز پر جب بھی مقبوضہ کشمیر کا ذکر ہوا، ان قراردادوں کا حوالہ بنیاد رہا۔ بھارت کے آئین میں بھی اس کی متنازع حیثیت کو تسلیم کیا گیا۔ آرٹیکل 370 کے تحت اور شق 35 اے کے تحت کشمیر کے باسیوں کو محدود خود مختاری اور ان کے خصوصی مالکانہ حقوق تسلیم کیے گئے۔
ان تاریخی حقائق کے باوجود بھارت کی ہندوتوا سرکار اور بی جے پی کے وزیراعظم نریندر مودی نے یکطرفہ طور پر پانچ اگست 2019کو پارلیمنٹ کے ذریعے کشمیر کی اس خصوصی حیثیت کو ختم کر کے اسے بھارت کے ساتھ ضم کرنے کا اعلان کر دیا۔ اس کے بعد وادی میں امن و امان کے شدید مسائل اٹھ کھڑے ہوئے۔
ہزاروں فوجیوں کی موجودگی میں پکڑ دھکڑ اور کرفیو کا سماں سال ہا سال رہا۔ انسانی حقوق کی پامالی دنیا بھر نے دیکھی۔ پریس اور آزادی رائے کو جس ظالمانہ طریقے سے دبایا گیا، عالمی پریس میں اس کا بار بار ذکر ہوا۔
دوسری جانب اس یکطرفہ آئینی بلڈوزنگ کو عدالتوں میں چیلنج کیا گیا۔ کئی سال کی صبر آزما عدالتی کارروائیوں کے بعد بالآخر اس ہفتے بھارت کی سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا جو کشمیریوں کے لیے سیاہ ترین فیصلہ ثابت ہوا۔ فیصلے کی رو سے پارلیمنٹ کا فیصلہ قانونی مانا گیا۔ آئین میں آرٹیکل 370 اور 35 اے کی شقوں کو کالعدم مان لیا گیا۔
یوں وقتی طور پر بی جے پی سرکار نے قانونی کارروائی جیت لی۔ تاہم اس کے ساتھ ہی وادی کشمیر کے باسیوں کے لیے بے یقینی اور جبر کی ایک طویل سرد رات کا آغاز ہو گیا۔
حالات کا جبر کہ پچھتر سال بھی سیاسی جبر اور جدو جہد میں گزرے مگر اب ایک نئے کٹھن سفر کا آغاز ہو رہا ہے جہاں وادی کشمیر کے باسیوں کے پاس موجود آئینی آپشنز بزور چھین لیے گئے ہیں۔
مودی حکومت نے اسے اپنی سیاسی اور نظریاتی کامیابی سے تعبیر کیا ہے۔ حال ہی میں ہونے والے ریاستی انتخابات میں بی جے پی کو زبردست کامیابی حاصل ہوئی۔
بی جے پی کی حکومت 2024 میں ہونے والے انتخابات کے لیے پوری طرح میدان میں سرگرم عمل ہے اور ہر حد تک جانے پر کمر بستہ ہے۔ یہ فیصلہ ان کے لیے ایک زبردست سیاسی ہتھیار کے طور پر ہاتھ آیا ہے۔ مودی سرکار اس فیصلے کو ہندوتوا بھارت مشن کی تکمیل اور مودی کے شخصیاتی طلسم کے کرشمے کے طور پہ پیش کر کے بھرپور سیاسی فائدے کی کوشش کرے گی۔
بدقسمتی سے عالمی بساط پر بڑی طاقتوں کے اپنے اپنے مفادات، تضادات اور منافقت کے جال بچھے ہوئے ہیں۔ اس عالمی بساط پر یوکرین پر روس کی جارحیت کے خلاف امریکا اور یورپ اپنے نیٹو اتحاد کے ساتھ ہر طرح یوکرائن کو مالی ،سیاسی اور عسکری امداد فراہم کررہے ہیں۔ تاہم اس کے برعکس غزہ اور مغربی کنارے فلسطینیوں پر سالہا سال سے زندگی جہنم بنانے کی ریاستی پالیسی پر خاموشی ہے۔
غزہ پر اسرائیل کی وحشیانہ بمباری پر فلسطینیوں کے حق میں اٹھنے والی آوازوں کو ان ممالک میں بزور اور قانوناً دبانے کی کوششیں سب کے سامنے ہیں۔جارح ہونے کے باوجود اسرائیل پر تنقید تو کجا مظلوم فلسطینیوں کے حق میں کسی آواز کو برداشت کرنا بھی مشکل ہے۔
ایسی صورتحال میں کشمیر جس پر بھارت قابض ہے ،بھارت کی عالمی منظر پر بڑھتی ہوئی اہمیت کی پیش نظر یہ توقع رکھنا فضول ہے کہ امریکا یورپ یا عالمی سطح پر کوئی ملک کشمیر کے حق میں اواز بلند کرنے کے لیے بے تاب ہوگا۔ سفارتی محاذ پر کشمیر کاز کے لیے ایک طویل چپ کا اندیشہ ہی تلخ حقیقت دکھائی دے رہا ہے۔
آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد سیکشن 35 اے بھی کالعدم ہو گیا۔آرٹیکل 35 اے کیا ہے؟ یہ 1954 میں نافذ کیا گیا اور بنیادی طور پر آرٹیکل 370 کا ہی تسلسل ہے جس کے تحت یہ تسلیم کیا گیا کہ انڈین کشمیر میں ایک مقامی اسمبلی ہوگی۔
یہ کلاز مقامی لوگوں کو ووٹ، ملازمتوں اور جائیداد کا حق دیتا ہے۔ اس کلاز کے خاتمے کے بعد مرکزی سرکار کے لیے راستہ کھل گیا ہے کہ وہ وادی جموں و کشمیر کی آبادی کا توازن بدل سکے، ڈومیسائل کے قوانین بدلے جا چکے ہیں۔ ایک اطلاع کے مطابق پانچ لاکھ سے زائد غیر مقامی لوگوں کو ڈومیسائل جاری کیے جا چکے ہیں۔
ان اقدامات کے بعد پاکستان کہاں کھڑا ہے؟ ماضی اس امر کا گواہ ہے کہ پاکستان کی سفارتی اور سیاسی کوششیں پچھلی دو دہائیوں کے دوران کمزور سے کمزور تر ہوتی گئی ہے 2019میں بھارت کے یک طرفہ اقدامات کے بعد وقتی طور پر پاکستان میں سرگرمی دیکھنے میں آئی لیکن بعد میں دھیرے دھیرے ایک سرد مہری غالب آ گئی۔
بھارتی سپریم کورٹ کے اس افسوسناک فیصلے کے بعد نگران وزیراعظم نے کشمیریوں کا دل رکھنے اور اپنی سفارتی ذمے داری نبھانے کے لیے دو روز قبل آزاد کشمیر کی قانون ساز اسمبلی سے خطاب کیا۔ وہی پرانی باتوں کا اعادہ کہ کشمیر پاکستان کے شہ رگ ہے، بھارتی سپریم کورٹ نے کشمیر پر غیر آئینی اور غیر قانونی فیصلہ دیا ہے۔
ان رسمی بیانات سے کشمیر کاز کو ماضی میں کوئی سہارا ملا اور نہ شاید آیندہ مل سکے۔ ہاں، سفارتی اور سرکاری سطح پر ایک موقف کی حد تک اس کی اہمیت ہو گی۔
بے بسی اور مایوسی کے اس لمحے امید کی کرن روشن رکھتے ہوئے مظہر الدین مظہر کی نظم کے کچھ اشعار؛
مرے وطن ! تری جنت میں آؤں گا اک دن
بہشت گوش تھے نغمات آبشاروں کے
نظر نواز تھے نظارے مرغزاروں کے
بھلاؤں کیسے مناظر تری بہاروں کے
ستم شعاروں سے تجھ کو چھڑاؤں گا اک دن
مرے وطن! تری جنت میں آؤں گا اک دن
٭٭٭
شگفتگی گل و نسترن نہیں بھولی
حسین پھولوں کی وہ انجمن نہیں بھولی
وطن نجیر ، بہار وطن نہیں بھولی
اسی بہار میں پھر مسکراؤں گا اک دن
مرے وطن! تری جنت میں آئیں گے اک دن
میرے وطن تیری جنت میں آئیں گے اک دن...
بھارت اور پاکستان کے درمیان مقبوضہ کشمیر ایک متنازع علاقہ ہے۔ اقوام متحدہ نے اپنی قراردادوں میں وادی کے عوام کے حق خود مختاری کو تسلیم کیا۔
عالمی فورمز پر جب بھی مقبوضہ کشمیر کا ذکر ہوا، ان قراردادوں کا حوالہ بنیاد رہا۔ بھارت کے آئین میں بھی اس کی متنازع حیثیت کو تسلیم کیا گیا۔ آرٹیکل 370 کے تحت اور شق 35 اے کے تحت کشمیر کے باسیوں کو محدود خود مختاری اور ان کے خصوصی مالکانہ حقوق تسلیم کیے گئے۔
ان تاریخی حقائق کے باوجود بھارت کی ہندوتوا سرکار اور بی جے پی کے وزیراعظم نریندر مودی نے یکطرفہ طور پر پانچ اگست 2019کو پارلیمنٹ کے ذریعے کشمیر کی اس خصوصی حیثیت کو ختم کر کے اسے بھارت کے ساتھ ضم کرنے کا اعلان کر دیا۔ اس کے بعد وادی میں امن و امان کے شدید مسائل اٹھ کھڑے ہوئے۔
ہزاروں فوجیوں کی موجودگی میں پکڑ دھکڑ اور کرفیو کا سماں سال ہا سال رہا۔ انسانی حقوق کی پامالی دنیا بھر نے دیکھی۔ پریس اور آزادی رائے کو جس ظالمانہ طریقے سے دبایا گیا، عالمی پریس میں اس کا بار بار ذکر ہوا۔
دوسری جانب اس یکطرفہ آئینی بلڈوزنگ کو عدالتوں میں چیلنج کیا گیا۔ کئی سال کی صبر آزما عدالتی کارروائیوں کے بعد بالآخر اس ہفتے بھارت کی سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا جو کشمیریوں کے لیے سیاہ ترین فیصلہ ثابت ہوا۔ فیصلے کی رو سے پارلیمنٹ کا فیصلہ قانونی مانا گیا۔ آئین میں آرٹیکل 370 اور 35 اے کی شقوں کو کالعدم مان لیا گیا۔
یوں وقتی طور پر بی جے پی سرکار نے قانونی کارروائی جیت لی۔ تاہم اس کے ساتھ ہی وادی کشمیر کے باسیوں کے لیے بے یقینی اور جبر کی ایک طویل سرد رات کا آغاز ہو گیا۔
حالات کا جبر کہ پچھتر سال بھی سیاسی جبر اور جدو جہد میں گزرے مگر اب ایک نئے کٹھن سفر کا آغاز ہو رہا ہے جہاں وادی کشمیر کے باسیوں کے پاس موجود آئینی آپشنز بزور چھین لیے گئے ہیں۔
مودی حکومت نے اسے اپنی سیاسی اور نظریاتی کامیابی سے تعبیر کیا ہے۔ حال ہی میں ہونے والے ریاستی انتخابات میں بی جے پی کو زبردست کامیابی حاصل ہوئی۔
بی جے پی کی حکومت 2024 میں ہونے والے انتخابات کے لیے پوری طرح میدان میں سرگرم عمل ہے اور ہر حد تک جانے پر کمر بستہ ہے۔ یہ فیصلہ ان کے لیے ایک زبردست سیاسی ہتھیار کے طور پر ہاتھ آیا ہے۔ مودی سرکار اس فیصلے کو ہندوتوا بھارت مشن کی تکمیل اور مودی کے شخصیاتی طلسم کے کرشمے کے طور پہ پیش کر کے بھرپور سیاسی فائدے کی کوشش کرے گی۔
بدقسمتی سے عالمی بساط پر بڑی طاقتوں کے اپنے اپنے مفادات، تضادات اور منافقت کے جال بچھے ہوئے ہیں۔ اس عالمی بساط پر یوکرین پر روس کی جارحیت کے خلاف امریکا اور یورپ اپنے نیٹو اتحاد کے ساتھ ہر طرح یوکرائن کو مالی ،سیاسی اور عسکری امداد فراہم کررہے ہیں۔ تاہم اس کے برعکس غزہ اور مغربی کنارے فلسطینیوں پر سالہا سال سے زندگی جہنم بنانے کی ریاستی پالیسی پر خاموشی ہے۔
غزہ پر اسرائیل کی وحشیانہ بمباری پر فلسطینیوں کے حق میں اٹھنے والی آوازوں کو ان ممالک میں بزور اور قانوناً دبانے کی کوششیں سب کے سامنے ہیں۔جارح ہونے کے باوجود اسرائیل پر تنقید تو کجا مظلوم فلسطینیوں کے حق میں کسی آواز کو برداشت کرنا بھی مشکل ہے۔
ایسی صورتحال میں کشمیر جس پر بھارت قابض ہے ،بھارت کی عالمی منظر پر بڑھتی ہوئی اہمیت کی پیش نظر یہ توقع رکھنا فضول ہے کہ امریکا یورپ یا عالمی سطح پر کوئی ملک کشمیر کے حق میں اواز بلند کرنے کے لیے بے تاب ہوگا۔ سفارتی محاذ پر کشمیر کاز کے لیے ایک طویل چپ کا اندیشہ ہی تلخ حقیقت دکھائی دے رہا ہے۔
آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد سیکشن 35 اے بھی کالعدم ہو گیا۔آرٹیکل 35 اے کیا ہے؟ یہ 1954 میں نافذ کیا گیا اور بنیادی طور پر آرٹیکل 370 کا ہی تسلسل ہے جس کے تحت یہ تسلیم کیا گیا کہ انڈین کشمیر میں ایک مقامی اسمبلی ہوگی۔
یہ کلاز مقامی لوگوں کو ووٹ، ملازمتوں اور جائیداد کا حق دیتا ہے۔ اس کلاز کے خاتمے کے بعد مرکزی سرکار کے لیے راستہ کھل گیا ہے کہ وہ وادی جموں و کشمیر کی آبادی کا توازن بدل سکے، ڈومیسائل کے قوانین بدلے جا چکے ہیں۔ ایک اطلاع کے مطابق پانچ لاکھ سے زائد غیر مقامی لوگوں کو ڈومیسائل جاری کیے جا چکے ہیں۔
ان اقدامات کے بعد پاکستان کہاں کھڑا ہے؟ ماضی اس امر کا گواہ ہے کہ پاکستان کی سفارتی اور سیاسی کوششیں پچھلی دو دہائیوں کے دوران کمزور سے کمزور تر ہوتی گئی ہے 2019میں بھارت کے یک طرفہ اقدامات کے بعد وقتی طور پر پاکستان میں سرگرمی دیکھنے میں آئی لیکن بعد میں دھیرے دھیرے ایک سرد مہری غالب آ گئی۔
بھارتی سپریم کورٹ کے اس افسوسناک فیصلے کے بعد نگران وزیراعظم نے کشمیریوں کا دل رکھنے اور اپنی سفارتی ذمے داری نبھانے کے لیے دو روز قبل آزاد کشمیر کی قانون ساز اسمبلی سے خطاب کیا۔ وہی پرانی باتوں کا اعادہ کہ کشمیر پاکستان کے شہ رگ ہے، بھارتی سپریم کورٹ نے کشمیر پر غیر آئینی اور غیر قانونی فیصلہ دیا ہے۔
ان رسمی بیانات سے کشمیر کاز کو ماضی میں کوئی سہارا ملا اور نہ شاید آیندہ مل سکے۔ ہاں، سفارتی اور سرکاری سطح پر ایک موقف کی حد تک اس کی اہمیت ہو گی۔
بے بسی اور مایوسی کے اس لمحے امید کی کرن روشن رکھتے ہوئے مظہر الدین مظہر کی نظم کے کچھ اشعار؛
مرے وطن ! تری جنت میں آؤں گا اک دن
بہشت گوش تھے نغمات آبشاروں کے
نظر نواز تھے نظارے مرغزاروں کے
بھلاؤں کیسے مناظر تری بہاروں کے
ستم شعاروں سے تجھ کو چھڑاؤں گا اک دن
مرے وطن! تری جنت میں آؤں گا اک دن
٭٭٭
شگفتگی گل و نسترن نہیں بھولی
حسین پھولوں کی وہ انجمن نہیں بھولی
وطن نجیر ، بہار وطن نہیں بھولی
اسی بہار میں پھر مسکراؤں گا اک دن
مرے وطن! تری جنت میں آئیں گے اک دن