پنجاب تیزاب گردی کا شکار افراد کیلیے ’’نئی زندگی پروگرام‘‘ فعال

پروگرام کے تحت متاثرہ شخص کی جس قدر سرجریز کی ضرورت ہوگی، وہ کی جائیں گی

متاثرہ افراد کو متعدد سرجریز کی ضرورت ہوتی ہے لیکن حکومتی ادارے ابتدائی علاج کے بعد فارغ کردیتے ہیں

پنجاب حکومت نے تیزاب گردی کا نشانہ بننے والے افراد کے لیے ''نئی زندگی پروگرام'' کو فعال کردیا۔

تیزاب گردی کانشانہ بننے والے افراد خاص طورپر خواتین کے چہرے اور جسم پر آنے والے زخم توشاید مندمل ہو جاتے ہیں لیکن ان کی زندگی کے شب و رو زبگڑ جاتے ہیں ۔ تیزاب سے متاثرہ افراد کو متعددبار سرجری کی ضرورت ہوتی ہے لیکن حکومتی ادارے ابتدائی علاج کے بعد مریض کو فارغ کردیتے ہیں اورپھر یہ مریض ری کنسٹرکٹو سرجری کے لیے دربدر ٹھوکریں کھاتے ہیں۔

پنجاب حکومت نے اب نئی زندگی پروگرام کو فعال کردیا ہے جس کے تحت متاثرہ شخص کی جس قدر سرجریز کی ضرورت ہوگی، وہ کی جائیں گی۔

35 سالہ سمیعہ شاہد لیاقت آباد لاہور کی رہائشی اور 3 بچوں کی ماں ہیں۔مئی 2021ء میں سمیعہ شاہد پر اس وقت تیزاب پھینکا گیا جب وہ اپنے شوہرکے ہمراہ ڈاکٹر کے پاس جارہی تھیں۔ 2 موٹرسائیکل سوارملزمان نے ان کے چہرے پر تیزاب پھینکا تاہم تیزاب چہرے کے بجائے بازو پرگرا جس سے ان کا بازو اور ٹانگ جب کہ ان کے شوہر کی کمر متاثرہوئی تھی۔

سمیعہ شاہد نے ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ملزم ان کا مالک مکان تھا جو ان سے دوستی کرناچاہتا تھا، لیکن ان کے مسلسل انکارپر اس نے ان پرتیزاب پھینک دیا۔ ان کا ابتدائی علاج جنرل اسپتال لاہورمیں ہوا، بعد میں ڈاکٹروں نے کہا کہ زخم خراب ہوگیا، اس لیے بازوکاٹنا پڑے گا لیکن انہوں نے انکارکردیا تھا۔ بعد میں تیزاب گردی کاشکارافراد کے علاج کے لیے کام کرنے والی این جی او کے تعاون سے ان کی سرجری ہوئی، اب ان کے بازو کے زخم مندمل ہوچکے ہیں لیکن مزید سرجری کی ضرورت ہے کیونکہ نشانات کافی واضح ہیں اور سردیوں میں درد شروع ہوجاتا ہے۔

ماہرین کے مطابق تیزاب گردی کا شکارہونے والے افراد کو ایک سے زائد سرجریوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ بعض اوقات 8 سے 10 سرجریاں کرنا پڑتی ہیں۔ ایک سرجری میں کم وبیش 60 سے 70 ہزار روپے خرچ آتے ہیں اوریہ اخراجات متاثرہ فرد اوراس کے خاندان کو برداشت کرنا پڑتے ہیں۔ حکومت کی طرف سے سرکاری اسپتالوں میں مفت علاج کی سہولت میں ری کنسٹرکشن سرجری شامل نہیں ہے۔


پاکستان میں کام کرنے والی بیمہ کمپنیاں اپنی ہیلتھ پالیسی میں پلاسٹک سرجری کو شامل نہیں کرتی ہیں۔ بیمہ کمپنیوں کی پالیسی کے مطابق ری کنسٹرکٹو سرجری ،پلاسٹک سرجری میں شمار ہوتی ہے اور اس کا انسان کی صحت اور زندگی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

پنجاب حکومت نے 2020 میں نئی زندگی پروگرام کے نام سے تیزاب گردی اوردیگرحادثات میں جلنے والے افراد کے علاج کے لیے منصوبہ شروع کیا تھا۔ پنجاب سوشل پروٹیکشن اتھارٹی کے مطابق اس پروگرام کے لیے 100 ملین روپے کی رقم جاری کی گئی تھی، جس سے لاہور،ملتان، فیصل آباد، راولپنڈی، بہاولپور اور رحیم یارخان میں برن یونٹ قائم کیے گئے۔

ابتدائی طورپر ہرایک برن یونٹ کے لیے 2 ملین روپے جاری کیے گئے تھے۔ پنجاب سوشل پروٹیکیشن اتھارٹی کی چیئرپرسن جہاں آرا وٹو نے ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اس وقت 28 مریض رجسٹرڈ ہیں جن کا علاج کیا جارہا ہے۔ انہوں نے کہ تیزاب گردی کا شکارافراد کے علاج کے لیے نئی زندگی پروگرام شروع کیا گیا ہے۔ متاثرہ افراد کا مکمل علاج کیا جائے گا بلکہ متاثرہ فرد کے خاندان کی قانونی اورمالی معاونت بھی کی جائے گی۔

سمائل اگین فاؤنڈیشن کی ریجنل ہیڈ فروا توقیر نے ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ تیزاب گردی کا نشانہ بننے والوں کو سب سے پہلے توکسی سرکاری اسپتال میں ہی جاناپڑتا ہے کیوں کہ کرمنل کیسز میں ایف آئی آر اور سرکاری اسپتال کی رپورٹ ہونا ضروری ہے۔ اس کے بعد ان مریضوں کی ری کنسٹرکٹو سرجری سمائل اگین فاؤنڈیشن کرواتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ فاؤنڈیشن ہرسال 100 مریضوں کی ری کنسٹرکٹو سرجری کرواتی ہے۔ ایک سرجری پرکم وبیش 60 سے 70 ہزار روپے لاگت آتی ہے۔ مختلف نجی اسپتالوں سے خصوصی ڈسکاونٹ کے ساتھ سرجری کروائی جاتی ہے۔ فروا توقیر کے مطابق رواں سال جنوری سے جون تک 36 نئے مریض رجسٹرڈ کیے گئے ہیں۔

لاہورکے جناح اسپتال میں بنائے گئے برن سینٹر کے چیف ایگزیکٹو پروفیسرڈاکٹر کامران خالد کا کہنا تھا جناح برن سینٹر میں اس وقت 35 مریضوں کا علاج کیا جارہا ہے۔ ایک خاتون مریض کا گزشتہ 5 سال سے علاج جاری ہے اور ان کی متعدد سرجریاں ہوچکی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ نئی زندگی پروگرام کے تحت ایک مریض کے جسم کے مختلف حصوں کو واپس اصل شکل کے قریب ترین لانے کے لیے جتنی بھی سرجریاں کرنا پڑیں وہ مفت کی جائیں گی۔

انہوں نے بتایا کہ جسم کے مختلف حصوں کی ایک ہی بارسرجری ممکن نہیں ہوتی ہے۔ ایک سے دوسری سرجری کےلیے کم ازکم 3 سے 4 ماہ کا وقفہ ضروری ہے۔
Load Next Story