بہاولپور میں 5 ہزار سال قدیم شہر کی کھدائی کا فیصلہ
آثار قدیمہ کی کھدائی کا تجربہ رکھنے والی کمپنیوں سے آئندہ چند روز میں درخواستیں طلب کی جائیں گی
پنجاب حکومت نے چولستان کے صحرا میں مدفون پانچ ہزار سال پرانے شہر گنویری والا کی کھدائی کا فیصلہ کرلیا۔
اس قدیم شہر کی کھدائی میں دلچسپی رکھنے والوں سے آئندہ چند روز میں درخواستیں طلب کی جائیں گی۔ ماہرین آثار قدیمہ کی ٹیم نے گزشتہ دنوں گنویری والا کے آثار کا دورہ کیا۔
ٹیم میں شامل سینئرآرکیالوجسٹ اور سابق ڈائریکٹر پنجاب آرکیالوجی افضل خان نے بتایا کہ ان کی ٹیم کھدائی کے عمل کی نگرانی کرے گی تاہم کھدائی کرنے کیلئے نجی کمپنی کی خدمات حاصل کی جائیں گی۔ ایسی کمپنیاں جن کے پاس تاریخی مقامات پر کھدائی کے لئے ماہرین موجود ہیں ان سے معاہدہ کیا جائے گا۔
اطلاعات کے مطابق کھدائی کا کام کرنیوالی نجی کمپنیوں کو ٹھیکہ دینے کے لئے ٹینڈر آئندہ چند روز میں کمشنربہاولپور کی طرف سے جاری ہوں گے۔ ٹھیکے کا عمل مکمل ہونے کے بعد ہی کھدائی شروع کی جاسکے گی۔
وزیراعلیٰ پنجاب کی ہدایت پر ماہرین آثار قدیمہ کی 8 رکنی ٹیم تشکیل دی جاچکی ہے جس کی سربراہی ماہرآثارقدیمہ اورسابق ڈائریکٹرجنرل آرکیالوجی ڈاکٹر محمدرفیق مغل کررہے ہیں جبکہ ٹیم میں سابق ڈائریکٹرآرکیالوجی سلیم الحق، سابق ڈائریکٹرآرکیالوجی محمدافضل خان، سابق ڈائریکٹرآرکیالوجی مقصود احمد، موجودہ ڈائریکٹرآرکیالوجی محمد حسن سمیت دیگر افراد شامل ہیں۔
واضح رہے کہ گنویری والا کے آثار کا سراغ 1975 میں ڈاکٹر محمد رفیق مغل سابق ڈائریکٹر جنرل پنجاب آرکیالوجی نے لگایا تھا۔ آج تک یہاں کھدائی نہیں کی جاسکی۔ جس کی بڑی وجہ وسائل کی کمی، سائٹ کے قریب پانی اور افرادی قوت کی عدم دستیابی ہے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ وادی سندھ کی قدیم تہذیب کے شہروں ہڑپہ اور موہنجوداڑو کے بعد گنویری والا تیسرا بڑا شہر تھا۔ یہ ٹیلے قلعہ دراوڑ سے تقریباً 60 کلومیٹر جنوب مغرب میں واقع ہیں۔ یہ مقام موہنجوداڑو اور ہڑپہ کے درمیان میں واقع ہے۔ موہنجوداڑو سے اس کا فاصلہ 340 جبکہ ہڑپہ سے 260 کلومیٹر ہے۔
ماہرین کے مطابق یہ علاقہ دریائے ہاکڑہ کے کنارے آباد تھا اور اس شہر کے باسی کاشت کاری کرتے اور مویشی پالتے تھے لیکن اب یہاں اس شہر کے کھنڈرات اور دریائے ہاکڑہ کے آثار ہی نظرآتے ہیں۔ صحرائے چولستان میں تقریباً 500 سائٹس ہیں جن میں سب سے اہم گنویری والا ہے۔
اس قدیم شہر کی کھدائی میں دلچسپی رکھنے والوں سے آئندہ چند روز میں درخواستیں طلب کی جائیں گی۔ ماہرین آثار قدیمہ کی ٹیم نے گزشتہ دنوں گنویری والا کے آثار کا دورہ کیا۔
ٹیم میں شامل سینئرآرکیالوجسٹ اور سابق ڈائریکٹر پنجاب آرکیالوجی افضل خان نے بتایا کہ ان کی ٹیم کھدائی کے عمل کی نگرانی کرے گی تاہم کھدائی کرنے کیلئے نجی کمپنی کی خدمات حاصل کی جائیں گی۔ ایسی کمپنیاں جن کے پاس تاریخی مقامات پر کھدائی کے لئے ماہرین موجود ہیں ان سے معاہدہ کیا جائے گا۔
اطلاعات کے مطابق کھدائی کا کام کرنیوالی نجی کمپنیوں کو ٹھیکہ دینے کے لئے ٹینڈر آئندہ چند روز میں کمشنربہاولپور کی طرف سے جاری ہوں گے۔ ٹھیکے کا عمل مکمل ہونے کے بعد ہی کھدائی شروع کی جاسکے گی۔
وزیراعلیٰ پنجاب کی ہدایت پر ماہرین آثار قدیمہ کی 8 رکنی ٹیم تشکیل دی جاچکی ہے جس کی سربراہی ماہرآثارقدیمہ اورسابق ڈائریکٹرجنرل آرکیالوجی ڈاکٹر محمدرفیق مغل کررہے ہیں جبکہ ٹیم میں سابق ڈائریکٹرآرکیالوجی سلیم الحق، سابق ڈائریکٹرآرکیالوجی محمدافضل خان، سابق ڈائریکٹرآرکیالوجی مقصود احمد، موجودہ ڈائریکٹرآرکیالوجی محمد حسن سمیت دیگر افراد شامل ہیں۔
واضح رہے کہ گنویری والا کے آثار کا سراغ 1975 میں ڈاکٹر محمد رفیق مغل سابق ڈائریکٹر جنرل پنجاب آرکیالوجی نے لگایا تھا۔ آج تک یہاں کھدائی نہیں کی جاسکی۔ جس کی بڑی وجہ وسائل کی کمی، سائٹ کے قریب پانی اور افرادی قوت کی عدم دستیابی ہے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ وادی سندھ کی قدیم تہذیب کے شہروں ہڑپہ اور موہنجوداڑو کے بعد گنویری والا تیسرا بڑا شہر تھا۔ یہ ٹیلے قلعہ دراوڑ سے تقریباً 60 کلومیٹر جنوب مغرب میں واقع ہیں۔ یہ مقام موہنجوداڑو اور ہڑپہ کے درمیان میں واقع ہے۔ موہنجوداڑو سے اس کا فاصلہ 340 جبکہ ہڑپہ سے 260 کلومیٹر ہے۔
ماہرین کے مطابق یہ علاقہ دریائے ہاکڑہ کے کنارے آباد تھا اور اس شہر کے باسی کاشت کاری کرتے اور مویشی پالتے تھے لیکن اب یہاں اس شہر کے کھنڈرات اور دریائے ہاکڑہ کے آثار ہی نظرآتے ہیں۔ صحرائے چولستان میں تقریباً 500 سائٹس ہیں جن میں سب سے اہم گنویری والا ہے۔