ہمارا ادب زوال کا شکار کیوں
بدقسمتی سے ہمارا ادب گزشتہ کئی برسوں سے علمی بانجھ پن کا شکار ہے
موجودہ معاشرہ مادیت پرستی کا شکار ہے سیاسی سماجی اور معاشی ناہمواریوں، بدعنوانی، انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ایسے عوامل ہیں جس نے معاشرے کی اکثریت کو جذبات سے عاری بنا دیا ہے عوام کا ہر اچھی قدر سے اعتماد اٹھ گیا ہے لوگ اپنی بنیادی ضرورتوں کی کفالت میں اس قدر الجھ کر رہ گئے ہیں کہ انھیں اپنے سائے سے آگے زندگی کے آثار نظر نہیں آتے۔
اس رویے نے انسان کو بے سکونی کے دلدل میں دھکیل دیا ہے ایسے حالات میں معاشرے کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ معاشرے کو بدلنے کا کام محض سیاسی قوتوں کا ہی نہیں ہے بلکہ اس تبدیلی کے عمل میں معاشرے کے تمام طبقات کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا، بالخصوص دانشور اور ادیبوں کا کردار زیادہ اہم ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ ادیبوں کو اپنے خیالات اور جذبات دوسروں تک منتقل کرنے کے فن میں قدرت حاصل ہوتی ہے یہ اپنی تحریروں کے ذریعے وہ کچھ کہہ ڈالتے ہیں اور سمجھا دیتے ہیں جو بعض اوقات کسی اور طریقے سے کہنا اور سمجھانا ناممکن ہوتا ہے۔ ان کی باتیں غیر محسوس انداز میں ہمارے باطن میں داخل ہوکر ہماری سوچ کے دھارے کو بدل دیتی ہیں۔
بدقسمتی سے ہمارا ادب گزشتہ کئی برسوں سے علمی بانجھ پن کا شکار ہے، اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ادب کی صفوں میں ادب سے غیر متعلقہ افراد اس شعبے میں داخل ہوگئے ہیں جو اپنا قد اونچا کرنے کے لیے مختلف جگہوں سے اشتہارات لے کر پیسے اکٹھا کرتے ہیں یا جن کے پاس ضرورت سے زیادہ پیسہ ہے ایسے لوگ ان کا کلام کیسا ہی ہو، افسانے، کہانیوں اور ناول کا معیار کیسا ہی ہو وہ لکھ کر اسے کتابی شکل میں چھاپ دیتے ہیں اس سے ادب میں اس بے ادبی کی بدولت ادب کا معیار گرگیا ہے۔
ان افراد کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ ہر تحریر ادب نہیں ہوتی، ہر تحریر کو ادب سمجھ کر لکھنا ایک حماقت ہے اور ایسی تحریر کو ادبی تحریر سمجھ کر پڑھنا مزید حماقت ہے۔
ایسے ادب کا کیا حاصل ہے جو ہماری سوچ کے دھارے کو نہ بدل سکے اور نئے شعور کو عام نہ کر سکے۔ ہمیں اس پر غور ضرور کرنا چاہیے۔ ادب کے زوال کی دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ ادیب کا اپنے قاری سے رابطہ منقطع ہو گیا ہے۔ اس بے تعلقی میں ادیب اور قاری دونوں برابرکے شریک ہیں۔
لکھنے والے کی یہ ضد ہے کہ وہ اپنی بلندی فکر سے نیچے نہیں آئے گا اور پڑھنے والا اپنی ذہنی سطح اور علمی پس منظرکے مطابق ادب کا طلب گار ہے ایسے حالات میں ادیبوں کو چاہیے کہ ادب کے قاری کی ذہنی تربیت کی خاطر ادب کو عام فہم بنائے اس کے لیے ضروری ہے کہ عوام کا ساتھ انھی کی زبان میں انھیں کے محاوروں اور لب و لہجے میں ان کی ذہنی سطح سامنے رکھ کر ادب تخلیق کرے۔
دوسری طرف ادب کے قاری کو بھی چاہیے کہ وہ ایسی تحریروں کو خارج از مطالعہ قرار نہ دیں بلکہ انھیں سمجھنے کی کوشش بھی کریں اور اپنے مطالعے کے معیار کو قدرے بلند کریں۔ ادب کو محض رسمی، وقتی اور تفریحی مزاج سے پڑھنے سے گریز کریں۔
جس طرح سیاسی کلچر میں محلاتی سازشوں اور سیاست کی بساط پر کھیلی جانے والی شاطرانہ چالوں نے جمہوریت اور جمہوری نظام کو نقصان پہنچایا ہے اسی طرح ادیبوں کے مابین گروہ بندیوں نے ادب کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔
ہمارے بعض ادیب گروہ بندی کا شکار ہو کر ذاتی مفادات کے حصول میں سرگرداں اور مصروف عمل دکھائی دیتے ہیں۔ انھوں نے ادب کو تعلقات استوارکرنے کا زینہ بنایا ہوا ہے۔ میری ذاتی رائے میں ادیب کے قلم کو مذہبی، مسلکی، علاقائی، لسانی اور نسلی تعصب سے پاک ہونا چاہیے اور ادب میں آفاقی سوچ کو فروغ دیا جانا چاہیے۔
ادب کے زوال کا ایک سبب ادبی اداروں کا ادب کے فروغ میں غیر موثر کردار ہے۔ بعض اداروں میں جیسا ہے اور جہاں ہے کی بنیاد پر وقت گزاری ہو رہی ہے۔ اس سے متعلقہ افراد کو ماہانہ تنخواہ اور الاؤنسز سے ہی دلچسپی ہوتی ہے ان کا قومی احساس بھی قومی دنوں تک ہی محدود ہے جس کی وجہ سے ادب کے فروغ کے امکانات محدود ہوگئے ہیں۔
تنقید کی دھڑے بندیوں نے بھی ادب کو بے آبروکیا ہے۔ معاشرے کا کوئی فرد بھی ہو وہ تعصب، تضادات اور ترجیحات سے عاری نہیں ہوتا، اس لیے کوئی بڑے سے بڑا نقاد کلی طور پر غیر جانب دار ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتا البتہ یہ کوشش ضرورکی جا سکتی ہے کہ مختلف ہائے خیال کا غیر جانب داری سے تجزیہ کیا جائے میری ذاتی رائے میں تنقید نگاروں کو چاہیے کہ وہ تبصرہ اور تجزیہ کرتے وقت لکڑ ہارے کا کردار ادا کرنے کے بجائے باغ کے مالی کا کردار ادا کریں۔
ادب احساس کی قوت کو جگاتا ہے، یہی کام مذہب بھی کرتا ہے یعنی ادب اور مذہب زندگی کو معنی عطا کرتے ہیں لیکن دونوں میں بنیادی فرق بھی ہے۔ ادب اپنے ابلاغ میں صرف رسائی چاہتا ہے جب کہ مذہب اپنی تبلیغ میں ایمان کی رسید طلب کرنے کے ساتھ اطاعت کا بھی طلبگار ہوتا ہے یعنی یہ شعوری طور پر اثر پذیر ہوتا ہے جب کہ ادب غیر شعوری طور پر اثر پذیر ہوتا ہے۔
بدقسمتی سے مذہبی طبقے نے ادب سے بے اعتنائی اختیار کر رکھی ہے یہی وجہ ہے کہ ادب کی دنیا میں دائیں بازو کے ادیبوں کا پلہ زیادہ بھاری رہا ہے۔ مذہبی طبقے کو اس جانب توجہ دینی چاہیے اس ضمن میں یہ بات یاد رکھیں کہ اسلوب موضوعات اور لفظیات سے نہیں احساس سے تشکیل پاتا ہے۔ اس میں جگر کو خون اور پتہ کو پانی کرنا ہوتا ہے۔ آج کا ادب '' ادب برائے مفاد پرست'' بن کر رہ گیا ہے۔
ادب کے عروج کے لیے ضروری ہے کہ اس سے نجات حاصل کی جائے۔ میں نہ کسی سیاسی تحریک کا ترجمان ہوں نہ ہی کسی مخصوص نظریاتی ادب کا مبلغ، میرے نزدیک وطن عزیز میں جس زبان میں بھی قومی وقار، اعلیٰ اقدار، زندہ روایات، صحت مند تصورات اور اجتماعی شعور کے تحت جو معیاری ادب لکھا جا رہا ہے وہ تمام قومی ادب ہے ہمیں ایسے ادب کو فروغ دینا چاہیے۔
اس رویے نے انسان کو بے سکونی کے دلدل میں دھکیل دیا ہے ایسے حالات میں معاشرے کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ معاشرے کو بدلنے کا کام محض سیاسی قوتوں کا ہی نہیں ہے بلکہ اس تبدیلی کے عمل میں معاشرے کے تمام طبقات کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا، بالخصوص دانشور اور ادیبوں کا کردار زیادہ اہم ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ ادیبوں کو اپنے خیالات اور جذبات دوسروں تک منتقل کرنے کے فن میں قدرت حاصل ہوتی ہے یہ اپنی تحریروں کے ذریعے وہ کچھ کہہ ڈالتے ہیں اور سمجھا دیتے ہیں جو بعض اوقات کسی اور طریقے سے کہنا اور سمجھانا ناممکن ہوتا ہے۔ ان کی باتیں غیر محسوس انداز میں ہمارے باطن میں داخل ہوکر ہماری سوچ کے دھارے کو بدل دیتی ہیں۔
بدقسمتی سے ہمارا ادب گزشتہ کئی برسوں سے علمی بانجھ پن کا شکار ہے، اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ادب کی صفوں میں ادب سے غیر متعلقہ افراد اس شعبے میں داخل ہوگئے ہیں جو اپنا قد اونچا کرنے کے لیے مختلف جگہوں سے اشتہارات لے کر پیسے اکٹھا کرتے ہیں یا جن کے پاس ضرورت سے زیادہ پیسہ ہے ایسے لوگ ان کا کلام کیسا ہی ہو، افسانے، کہانیوں اور ناول کا معیار کیسا ہی ہو وہ لکھ کر اسے کتابی شکل میں چھاپ دیتے ہیں اس سے ادب میں اس بے ادبی کی بدولت ادب کا معیار گرگیا ہے۔
ان افراد کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ ہر تحریر ادب نہیں ہوتی، ہر تحریر کو ادب سمجھ کر لکھنا ایک حماقت ہے اور ایسی تحریر کو ادبی تحریر سمجھ کر پڑھنا مزید حماقت ہے۔
ایسے ادب کا کیا حاصل ہے جو ہماری سوچ کے دھارے کو نہ بدل سکے اور نئے شعور کو عام نہ کر سکے۔ ہمیں اس پر غور ضرور کرنا چاہیے۔ ادب کے زوال کی دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ ادیب کا اپنے قاری سے رابطہ منقطع ہو گیا ہے۔ اس بے تعلقی میں ادیب اور قاری دونوں برابرکے شریک ہیں۔
لکھنے والے کی یہ ضد ہے کہ وہ اپنی بلندی فکر سے نیچے نہیں آئے گا اور پڑھنے والا اپنی ذہنی سطح اور علمی پس منظرکے مطابق ادب کا طلب گار ہے ایسے حالات میں ادیبوں کو چاہیے کہ ادب کے قاری کی ذہنی تربیت کی خاطر ادب کو عام فہم بنائے اس کے لیے ضروری ہے کہ عوام کا ساتھ انھی کی زبان میں انھیں کے محاوروں اور لب و لہجے میں ان کی ذہنی سطح سامنے رکھ کر ادب تخلیق کرے۔
دوسری طرف ادب کے قاری کو بھی چاہیے کہ وہ ایسی تحریروں کو خارج از مطالعہ قرار نہ دیں بلکہ انھیں سمجھنے کی کوشش بھی کریں اور اپنے مطالعے کے معیار کو قدرے بلند کریں۔ ادب کو محض رسمی، وقتی اور تفریحی مزاج سے پڑھنے سے گریز کریں۔
جس طرح سیاسی کلچر میں محلاتی سازشوں اور سیاست کی بساط پر کھیلی جانے والی شاطرانہ چالوں نے جمہوریت اور جمہوری نظام کو نقصان پہنچایا ہے اسی طرح ادیبوں کے مابین گروہ بندیوں نے ادب کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔
ہمارے بعض ادیب گروہ بندی کا شکار ہو کر ذاتی مفادات کے حصول میں سرگرداں اور مصروف عمل دکھائی دیتے ہیں۔ انھوں نے ادب کو تعلقات استوارکرنے کا زینہ بنایا ہوا ہے۔ میری ذاتی رائے میں ادیب کے قلم کو مذہبی، مسلکی، علاقائی، لسانی اور نسلی تعصب سے پاک ہونا چاہیے اور ادب میں آفاقی سوچ کو فروغ دیا جانا چاہیے۔
ادب کے زوال کا ایک سبب ادبی اداروں کا ادب کے فروغ میں غیر موثر کردار ہے۔ بعض اداروں میں جیسا ہے اور جہاں ہے کی بنیاد پر وقت گزاری ہو رہی ہے۔ اس سے متعلقہ افراد کو ماہانہ تنخواہ اور الاؤنسز سے ہی دلچسپی ہوتی ہے ان کا قومی احساس بھی قومی دنوں تک ہی محدود ہے جس کی وجہ سے ادب کے فروغ کے امکانات محدود ہوگئے ہیں۔
تنقید کی دھڑے بندیوں نے بھی ادب کو بے آبروکیا ہے۔ معاشرے کا کوئی فرد بھی ہو وہ تعصب، تضادات اور ترجیحات سے عاری نہیں ہوتا، اس لیے کوئی بڑے سے بڑا نقاد کلی طور پر غیر جانب دار ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتا البتہ یہ کوشش ضرورکی جا سکتی ہے کہ مختلف ہائے خیال کا غیر جانب داری سے تجزیہ کیا جائے میری ذاتی رائے میں تنقید نگاروں کو چاہیے کہ وہ تبصرہ اور تجزیہ کرتے وقت لکڑ ہارے کا کردار ادا کرنے کے بجائے باغ کے مالی کا کردار ادا کریں۔
ادب احساس کی قوت کو جگاتا ہے، یہی کام مذہب بھی کرتا ہے یعنی ادب اور مذہب زندگی کو معنی عطا کرتے ہیں لیکن دونوں میں بنیادی فرق بھی ہے۔ ادب اپنے ابلاغ میں صرف رسائی چاہتا ہے جب کہ مذہب اپنی تبلیغ میں ایمان کی رسید طلب کرنے کے ساتھ اطاعت کا بھی طلبگار ہوتا ہے یعنی یہ شعوری طور پر اثر پذیر ہوتا ہے جب کہ ادب غیر شعوری طور پر اثر پذیر ہوتا ہے۔
بدقسمتی سے مذہبی طبقے نے ادب سے بے اعتنائی اختیار کر رکھی ہے یہی وجہ ہے کہ ادب کی دنیا میں دائیں بازو کے ادیبوں کا پلہ زیادہ بھاری رہا ہے۔ مذہبی طبقے کو اس جانب توجہ دینی چاہیے اس ضمن میں یہ بات یاد رکھیں کہ اسلوب موضوعات اور لفظیات سے نہیں احساس سے تشکیل پاتا ہے۔ اس میں جگر کو خون اور پتہ کو پانی کرنا ہوتا ہے۔ آج کا ادب '' ادب برائے مفاد پرست'' بن کر رہ گیا ہے۔
ادب کے عروج کے لیے ضروری ہے کہ اس سے نجات حاصل کی جائے۔ میں نہ کسی سیاسی تحریک کا ترجمان ہوں نہ ہی کسی مخصوص نظریاتی ادب کا مبلغ، میرے نزدیک وطن عزیز میں جس زبان میں بھی قومی وقار، اعلیٰ اقدار، زندہ روایات، صحت مند تصورات اور اجتماعی شعور کے تحت جو معیاری ادب لکھا جا رہا ہے وہ تمام قومی ادب ہے ہمیں ایسے ادب کو فروغ دینا چاہیے۔