کتابوں کا اسمگلر

احمد سلیم پنجابی ادب میں بائیں بازو اور سیکولر ازم کی ایک نمایندہ آواز تھی


توقیر چغتائی December 17, 2023

اُس کے پاس بہت بڑی گٹھڑی تھی جسے انڈین پولیس کے سپاہی اور سادہ کپڑوں میں ملبوس اہلکار مشکوک انداز سے گھور رہے تھے۔

میں اُس کے ساتھ رکشے میں سوار تھا اور میرے پاس کچھ کتابوں کے علاوہ ایک سوٹ کیس بھی موجود تھا، لیکن اُس کی گٹھڑی میرے سامان سے کہیں زیادہ بڑی اور مشکوک تھی۔

سرحد پر پہنچنے کے بعد ہم دو مسافروں کو پیدل ہی واہگہ بارڈر سے اس طرف آنا تھا۔ ہم پچھلے کچھ دنوں سے کول کتہ میں منعقدہ ایک کانفرنس میں شرکت کے بعد امرتسر کے تاریخی مقامات دیکھنے کے علاوہ وہاں کے سرکردہ پنجابی اہل قلم سے بھی مل رہے تھے اور اس بات پر بھی خوش تھے کہ امرتسر جیسے تاریخی شہر میں ویزے کی پابندی کے باوجود ہم آسانی سے یہاں موجود ہیں۔

اُس طرف سے اِس طرف آنے کا پہلا مرحلہ انتہائی مشکل تھا کہ ہم نے جو گٹھڑی اٹھا رکھی تھی وہ سرکاری اہلکاروں کے لیے ایک معمہ بنی ہوئی تھی، جب یہ بوری نما گٹھڑی کھلی تو کسٹم کا اہل کار اور اُس کے ساتھ کھڑا پولیس والا یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ اس میں نہ تو ساڑھیاں، نہ کپڑا، نہ ہی پان اور چھالیہ تھی بلکہ وہ اُن کے دیس میں ہی چھپی تاریخ، شاعری اور افسانوں کی کتابوں سے بھری ہوئی تھی تو انھوں نے سکھ کا سانس لیا۔

یہ احمد سلیم تھے جن سے میری دو دہائیوں سے واقفیت تھی اور ہم دونوں ایک ادبی کانفرنس میں شرکت کے بعد وطن واپس آرہے تھے ۔ احمد سلیم نے کتابوں کی گٹھڑی کی تلاشی کے بعد جب کسٹم اہلکاروں سے یہ کہا کہ '' کیا اب ہم جا سکتے ہیں !'' تو انھوں نے انتہائی شرمندگی اور معذرت کے ساتھ کہا کہ '' ہمیں روزانہ ایسے کئی لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے جو پان چھالیہ اور کئی دیگر اشیاء دونوں ممالک کے آر پار لے جانے کی کوشش کرتے ہیں جو اسمگلنگ میں شمار ہوتی ہیں، لیکن ایسے کم ہی افراد نظر سے گزرتے ہیں جو کتابوں سے دل چسپی رکھتے ہوں۔''

احمد سلیم اور نایاب کتابیں گویا ایک ہی نام تھا جس کا اندازہ اُن کے گھر جانے کے بعد،کسی ادبی کانفرنس، کتابوں کے میلے یا سفر کے دوران ملاقات سے بخوبی ہوتا تھا۔ ایک دفعہ مجھے اسلام آباد میں اُن کے گھر جانے کا اتفاق ہوا۔ میں اُن دنوں اسلام آباد میں ہی رہائش پذیر تھا اور شدید بے روزگاری کی زندگی گزار رہا تھا ۔ ملاقات کے دوران انھوں نے پوچھا کیا کررہے ہیں تو میں نے انھیں بتایا کہ بے روزگار ہوں اور اس مہنگے شہر میں مالی مشکلات کا سامنا ہے، آپ کے پاس ایک دوست کے کہنے پر آیا ہوں کہ شاید کہیں کسی نوکری کا بندوبست ہو جائے۔

پہلے تو انھوں نے اس بات کا گلہ کیا کہ آپ کو کسی دوست کے کہنے پر نہیں بلکہ خود ہی میرے پاس آنا چاہیے تھا ، پھر کہنے لگے جہاں میں کام کرتا ہوں وہاں تو کوئی جگہ نہیں ہے، لیکن میں کوشش کروں گا۔ وہ اٹھے اور چند ہزار روپے میری جیب میں ڈالنے کے بعد مجھے دو آڈیو کیسٹ تھما کر کہنے لگے '' یہ ایک دوست کا انٹرویو ہے جسے جتنی جلدی ممکن ہو ٹرانسکرائب کر کے میرے پاس لے آئیں۔ مزید پیسوں اورکام کی بات بعد میں ہو گی۔''

چائے پینے کے بعد جب میں واپس آنے لگا تو میں نے اُن سے کہا کہ آج کل 'جین مت ' پر کچھ کام کر رہا ہوں ، مگر کتابیں نہیں مل رہیں۔ وہ صوفے سے اٹھے اور دائیں بائیں لگی کتابوں سے بھری الماریوں کے پاس ٹہلتے ہوئے ایک شیلف کے پاس آکر رُکے اور اس میں سے کچھ تلاش کرنے لگے ۔ جب واپس آئے تو اُن کے ہاتھ میں خدا بخش لائبریری پٹنہ کا چھپا ہوا لگ بھک ایک سو سال پرانا سفر نامہ ' جین دھرم کے مقدس مقامات' موجود تھا۔

مجھے کتاب دیتے ہوئے کہنے لگے، اسے رکھیں میں کوشش کروں گا کہ کچھ انگریزی کی کتابیں بھی مل جائیں تو آپ کا کام آسان ہو جائے گا۔ میں نے اُن سے کہا کہ یہ کتاب کب تک واپس کروں تو وہ کہنے لگے'' اس کی ضرورت نہیں میں پڑھ چکا ہوں۔''احمد سلیم نے پاک بھارت دوستی کے لیے بہت کام کیا اور اُن دنوں کیا جب دونوں ممالک میں خط و کتابت کا سلسلہ تقریبا ختم ہوچکا تھا۔ بعد میں جب اُن کا ممبئی جانا ہوا تو انھوں نے اہم ادیبوں کے ساتھ جن فلمی شخصیات کے انٹرویو کیے اُن میں سمیتا پاٹل اور متبادل سینما میں کام کرنے والے کئی دیگر اہم نام بھی شامل تھے۔

جب وہ پاکستان واپس آئے تو انھوں نے مختلف رسائل میں یہ انٹرویو چھپوائے اور پھر انھیں کتابی شکل بھی دی۔ جب دونوں ممالک میں امن اور دوستی کی کانفرنسز کا سلسلہ شروع ہوا تو احمد سلیم اُن میں بھی شریک ہوئے اور سائوتھ ایشیا کی سطح پر ادب کے ذریعے دوستی کو پروان چڑھانے کے لیے پہلے سے زیادہ فعال کردار ادا کرنے لگے۔ احمد سلیم خود سے کم عمر اور نوجوان لکھاریوں کی ہر ممکن رہنمائی کیا کرتے تھے۔

80 کی دہائی اور اُس سے قبل ہندوستان سے پنجابی کے دوسرے اخبارات ورسائل کے علاوہ تین بڑے پنجابی رسالے ناگ منی، پریت لڑی اور آرسی چھپا کرتے تھے جن میں پنجابی کے سرکردہ شاعروں اور ادیبوں کی تخلیقات شامل ہوتی تھیں۔ احمد سلیم نے مجھے اُن تینوں پرچوں سے متعارف کروایا جس کے بعد میں امرتا پریتم سے بھی متعارف ہوا اور اُن کے مشہور رسالے' ناگ منی' کے علاوہ ' پریت لڑی' اور' آرسی 'میں بھی چھپنے لگا ۔ ان تینوں رسالوں میں احمد سلیم پہلے ہی باقاعدگی کے ساتھ چھپ رہے تھے۔

احمد سلیم کی زندگی میں کئی اتار چڑھائو آئے۔ وہ ایک غریب گھرانے کے فرزند تھے اور اپنی تعلیم سے لے کر روزگار کے حصول اور سیاسی سوچ سے وابستگی کی وجہ سے کبھی بھی اچھی اور پرسکون زندگی نہ گزار سکے۔ انھیں قیدوبند کی سہولتیں بھی برداشت کرنا پڑیں اور اُن پر ایسا زمانہ بھی آیا جب وہ سندھ سے سرحد اور پنجاب سے بلوچستان تک سفر کرنے کے باوجود بہتر روزگار حاصل نہ کر سکے۔

اپنی رحلت سے لگ بھگ ایک دہائی قبل وہ اسلام آباد کے ایک سماجی ادارے سے وابستگی کی وجہ سے کچھ عرصے تک پرسکون زندگی گزارنے میں ضرور کامیاب ہوئے، مگر اس دوران بھی اُن کے گھر میں ڈاکا پڑا اور اُن کا سب کچھ لوٹ لیا گیا جس سے وہ بہت دل برداشتہ ہوئے، پھر جگر کے عارضے میں مبتلا ہوئے تو اُن کی مصروفیات میں خاصی کمی آئی، لیکن کتابوں سے ان کا ساتھ نہ چھوٹ سکا۔

احمد سلیم مختلف موضوعات پر لکھتے رہے اور بہت سارے موضوعات پر اُن کے غیر شایع شدہ مسودے بھی موجود تھے۔ ان کی ذاتی لائبریری میں ایسی کئی کتابیں موجود تھیں جو بڑی بڑی لائبریریوں میں بھی ڈھونڈے سے نہیں ملتیں، لیکن یہ کتابیں ہر اُس شخص کی پہنچ سے باہر نہیں تھیں جو انھیں پڑھنا چاہتا یا ان کے سہارے کسی تحقیقی کام کا خواہش مند ہوتا۔ اُن کے گھر میں جو بھی جاتا واپسی پر اُس کے ہاتھ میں احمد سلیم کی کوئی تصنیف یا کسی دوست کی کوئی نہ کوئی نئی کتاب ضرور موجود ہوتی۔

مسلسل جدو جہد اور مشکلات سے بھری زندگی گزارنے کے باوجود احمد سلیم ایک سادہ دل اور بے ضرر انسان تھے۔ پنجابی کے ایک نامور ادیب جن کی کلاس اور مرتبہ احمد سلیم سے مختلف تھا اُن سے کچھ اختلافات رکھتے تھے جس کی وجہ سے بہت ساری اہم پنجابی کانفرنسوں اور دیگر پروگراموں میں انھیں نہیں بلایا جاتا تھا۔

احمد سلیم پنجابی ادب میں بائیں بازو اور سیکولر ازم کی ایک نمایندہ آواز تھی جو زندگی بھر اپنی دھرتی کے خلاف ہونے والے جرائم کے خلاف لڑتے لڑتے خاموش ہوگئی، لیکن اُس کی گونج کئی صدیوں تک سنائی دیتی رہے گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں