ناز پرور ناز آفریں شاعر … ادریس ناز
ادریس نازؔنے نوعمری میں قلم ہاتھ میں تھامااور مختصرعرصے میں شاعری اورنثرجیسی اصنافِ سخن میں اپنی صلاحیتوں کالوہامنوایا
ادریس ناز بنیادی طور پر کثیر الجہت، صاحبِ مطالعہ، ہر فن مولا، قوی حافظہ کے مالک، قادر الکلام شاعر، کالم نگار، تجزیہ کار، افسانہ نگار، موسیقار اور نظامت کار جیسی متعدد خوبیوں کے خالق ہیں۔ ان کی غزل کسی بھی ماحول میں سدا بہار اور خوشبو دار کیفیتوں، رعنائیوں اور گہرائیوں جیسا منفرد مزاج رکھتی ہے۔
ادریس نازؔ نے نوعمری میں قلم ہاتھ میں تھاما اور مختصر عرصے میں شاعری اور نثر جیسی اصنافِ سخن میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ غزل، نظم، رباعیات، قطعات، ہائیکو، ماہیا، حمد و نعت، سلام و منقبت، افسانہ، کالم نگاری جیسی اصناف میں طبع آزمائی عصرِ رواں کے لیے باعثِ افتخار ہے۔
ادریس نازؔ نے شاعری میں اپنے اسلوب کے آئینوں میں ذات کے دکھ، سکھ اور ساتھ ہی معاشرے کے تضادات کو نہ صرف منعکس کیا ہے بلکہ پسِ پردہ حقائق کی حقیقت کو بڑی صاف گوئی اور ماہرانہ انداز میں بیان کیا ہے۔ ادریس نازؔ کا اولین شعری مجموعہ 1996 میں '' گلِ نو شگفتہ'' کے نام سے منظرِ عام پر آیا، آج سے کئی برس قبل اس با کمال اور ہنر مند شاعر نے ادب کے نامی گرامی شعرا کی نیندیں اُڑا دی کہ میں کوئی شوقیہ شاعر نہیں ہوں اور نہ ہی نمائشی شہرت کا قائل ہوں۔
اپنے عہد کے سخنوروں اور دوستوں کی محبتیں سمیٹنے والے ادریس ناز کو آج بھی سب عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے اُن کی بارگاہ میں محبت کے پھول میں پیش کرتے ہیں۔
ادریس ناز کے شاعر ہونے کا راز مجھ پر تب کھلا جب محفلِ مسالمہ کی ایک تقریب میں ان سے پہلی ملاقات ہوئی، اُس کے بعد رفاقت کا ایک طویل سلسلہ چل پڑا جو آج بھی رواں دواں ہے۔ اس دوران ان کے اخبار میں شایع ہونے والے بہت سے کالم میرے مطالعے کا حصہ رہے، اکثر و بیشتر ملاقاتوں میں ان سے پُرانا اور تازہ کلام بھی سننے کو ملتا رہا، آخر کار ایک روز ان کی شاعری کی کتاب ''گلِ نوشگفتہ'' کی زیارت ان کے فرزند احمد بلال کے توسط سے ہو ئی۔
اس کتاب کے مطالعے سے فیض یاب ہونے پر اس بات کا شدت سے احساس ہُوا کہ ادریس نازؔ کے کلام میں جمال پسندی کے ساتھ زبان و بیان کی لطافت اور شاعری کے اوزان و بحور کے علاوہ منفرد کافیوں اور مشکل ردفیوں پر یوں توجہ مرکوز رکھے ہوئے ہیں کہ جیسے ان پر قدرت کی خاص عنایت ہو۔
ادریس ناز کے روشن خیالات کی گواہی دیتے ہوئے ڈاکٹر انور سدید لکھتے ہیں کہ '' ان کی تازہ کلامی موضوعات کے نئے شگوفے ہی نہیں کھلاتی بلکہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ان نئے مضامین تاریک رات میں جگنو کی طرح چمک اٹھتے ہیں اور افقِ آسمان تھوڑی دیر تک روشن ہو جاتا ہے۔ اس کتاب میں چونکہ بے شمار جگنو سلسلہ در سلسلہ جمع کیے گئے ہیں، اس لیے میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ ان کا یہ دیوان '' جگنوئوں کی کہکشاں'' ہے۔
اس کتاب کی اشاعت سے بہتر توقعات وابستہ کر لی ہیں۔'' ادریس ناز ؔ نے اپنی متعدد صلاحیتوں سے اپنے بڑوں کو مایوس نہیں ہونے دیا، بلکہ انھوں نے ایسا ادب تخلیق کیا جس کی مثال تاریخِ ادب کے ماتھے کا جھومر بن کر رہ جائے گی۔ ''گلِ نو شگفتہ'' کا انتساب انھوں نے اپنی والدہ کے خاکِ پا کے نام کیا ہے، تاہم انھوں نے جدت کے اعتبار سے ثانوی انتساب'' بھنورا مزاج ہرجائی'' کے لیے ایک اور ''گلِ نو شگفتہ'' جس کی کہانی اس کتاب میں پڑھی جا سکتی ہے۔
سنا ہے بیس شمعیں وہ جلا کے کیک کاٹیں گے
صفِ ماتم بچھائو آج پروانوں کی شامت ہے
اس خوبصورت خیال کے بعد باقی کی کہانی میں ادریس نازؔ بتاتے ہیں کہ'' اس شعر میں تنافر حرفی ہونے کے باوجود میں نے اسے تبدیل نہیں کیا کیوں کہ یہی تو وہ شعر ہے جو اس کتاب کو منصہ شہود پر لانے کا باعث بنا، پھر بھلا میں اس کے ساتھ '' چھیڑخانی'' کیسے کر سکتا تھا ؟
ایسے ہی چند ایک اشعار اور بھی ہیں جنھیں میں نے عمدا جوں کا توں رہنے دیا۔ میں چاہتے ہوئے بھی ان کی نوک پلک درست کرنے سے قاصر رہا ہوں، ان کا ایسے ہی رہنا میرے نزدیک ضروری تھا۔ کیوں کہ یہ خالی خولی اشعار تھوڑے ہی ہیں یہ تو میرا ماضی ہیں اور کچھ بھی رہا ہو مجھے اپنا ماضی '' بے عیب'' نظر آتا ہے۔''
اپنے غلطی کو تسلیم کرنا ایک بڑے آدمی کا کام ہے، ہمارے ہاں بہت سے شعرا کے کلام میں '' تنافر حرفی'' اور '' شترگربہ'' جیسی غلطیاں عام طور پر پائی جاتی ہیں۔ ہمارے ہاں بہت سے شعرا کا پہلا شعری مجموعہ بے وزن یا کسی کا چوری کیا ہُوا کلام ہوتا ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ ادریس نازؔ ایک جینوئن قلم کار ہے جو اپنی شاعری میں زمانے کی زباں بولتا ہے اور زمانہ اس کے اشعار گنگناتا ہے۔
ادریس ناز کو مستقبل کا اہم شاعر قرار دیتے ہوئے دورِ حاضر کے نامور شاعر جان کاشمیری '' گلِ نوشگفتہ'' کے دیباچہ میں رقم طراز ہے کہ '' ادریس نازؔ نے منفی اندازِ تفکر کو اپنے قریب نہیں آنے دیا بلکہ اپنی تمام توجہ حرف آگہی، شعر شناسی اور بیباک نوائی پر صرف کی ہے۔ نتیجتا اس کے کلام میں معنوی جامعیت کے بین بین وجد آفریں کشادہ روی کا احساس بھی ہوتا ہے۔ اس کی بیباک بیانی، سچ کی کہانی اور صدق کی نشانی ہے۔ یہ قدرے تلخ ضرور ہے لیکن ادریس نازؔ کے ناز پرور اور ناز آفریں قلم کا کمال یہ ہے کہ نہ یہ خود بیزار ہوتا ہے اور نہ ہی دوسرے اس سے بیزار ہوتے ہیں۔''
ادریس نازؔ آج شہرت اور عزت کے جس روشن مقام پر کھڑے ہیں وہاں اللہ کے فضل و کرم سے دور دور تک تیرگی کے سائے نہیں اُجالے ہیں۔ نو عمری میں جسے لوگ جگنوئوں کی کہکشائوں میں ڈھونڈتے تھے اُسے اب لوگ ادب کے قیمتی ستاروں میں چاند کی صورت تلاش کرتے ہیں۔
ادریس نازؔ نے نوعمری میں قلم ہاتھ میں تھاما اور مختصر عرصے میں شاعری اور نثر جیسی اصنافِ سخن میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ غزل، نظم، رباعیات، قطعات، ہائیکو، ماہیا، حمد و نعت، سلام و منقبت، افسانہ، کالم نگاری جیسی اصناف میں طبع آزمائی عصرِ رواں کے لیے باعثِ افتخار ہے۔
ادریس نازؔ نے شاعری میں اپنے اسلوب کے آئینوں میں ذات کے دکھ، سکھ اور ساتھ ہی معاشرے کے تضادات کو نہ صرف منعکس کیا ہے بلکہ پسِ پردہ حقائق کی حقیقت کو بڑی صاف گوئی اور ماہرانہ انداز میں بیان کیا ہے۔ ادریس نازؔ کا اولین شعری مجموعہ 1996 میں '' گلِ نو شگفتہ'' کے نام سے منظرِ عام پر آیا، آج سے کئی برس قبل اس با کمال اور ہنر مند شاعر نے ادب کے نامی گرامی شعرا کی نیندیں اُڑا دی کہ میں کوئی شوقیہ شاعر نہیں ہوں اور نہ ہی نمائشی شہرت کا قائل ہوں۔
اپنے عہد کے سخنوروں اور دوستوں کی محبتیں سمیٹنے والے ادریس ناز کو آج بھی سب عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے اُن کی بارگاہ میں محبت کے پھول میں پیش کرتے ہیں۔
ادریس ناز کے شاعر ہونے کا راز مجھ پر تب کھلا جب محفلِ مسالمہ کی ایک تقریب میں ان سے پہلی ملاقات ہوئی، اُس کے بعد رفاقت کا ایک طویل سلسلہ چل پڑا جو آج بھی رواں دواں ہے۔ اس دوران ان کے اخبار میں شایع ہونے والے بہت سے کالم میرے مطالعے کا حصہ رہے، اکثر و بیشتر ملاقاتوں میں ان سے پُرانا اور تازہ کلام بھی سننے کو ملتا رہا، آخر کار ایک روز ان کی شاعری کی کتاب ''گلِ نوشگفتہ'' کی زیارت ان کے فرزند احمد بلال کے توسط سے ہو ئی۔
اس کتاب کے مطالعے سے فیض یاب ہونے پر اس بات کا شدت سے احساس ہُوا کہ ادریس نازؔ کے کلام میں جمال پسندی کے ساتھ زبان و بیان کی لطافت اور شاعری کے اوزان و بحور کے علاوہ منفرد کافیوں اور مشکل ردفیوں پر یوں توجہ مرکوز رکھے ہوئے ہیں کہ جیسے ان پر قدرت کی خاص عنایت ہو۔
ادریس ناز کے روشن خیالات کی گواہی دیتے ہوئے ڈاکٹر انور سدید لکھتے ہیں کہ '' ان کی تازہ کلامی موضوعات کے نئے شگوفے ہی نہیں کھلاتی بلکہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ان نئے مضامین تاریک رات میں جگنو کی طرح چمک اٹھتے ہیں اور افقِ آسمان تھوڑی دیر تک روشن ہو جاتا ہے۔ اس کتاب میں چونکہ بے شمار جگنو سلسلہ در سلسلہ جمع کیے گئے ہیں، اس لیے میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ ان کا یہ دیوان '' جگنوئوں کی کہکشاں'' ہے۔
اس کتاب کی اشاعت سے بہتر توقعات وابستہ کر لی ہیں۔'' ادریس ناز ؔ نے اپنی متعدد صلاحیتوں سے اپنے بڑوں کو مایوس نہیں ہونے دیا، بلکہ انھوں نے ایسا ادب تخلیق کیا جس کی مثال تاریخِ ادب کے ماتھے کا جھومر بن کر رہ جائے گی۔ ''گلِ نو شگفتہ'' کا انتساب انھوں نے اپنی والدہ کے خاکِ پا کے نام کیا ہے، تاہم انھوں نے جدت کے اعتبار سے ثانوی انتساب'' بھنورا مزاج ہرجائی'' کے لیے ایک اور ''گلِ نو شگفتہ'' جس کی کہانی اس کتاب میں پڑھی جا سکتی ہے۔
سنا ہے بیس شمعیں وہ جلا کے کیک کاٹیں گے
صفِ ماتم بچھائو آج پروانوں کی شامت ہے
اس خوبصورت خیال کے بعد باقی کی کہانی میں ادریس نازؔ بتاتے ہیں کہ'' اس شعر میں تنافر حرفی ہونے کے باوجود میں نے اسے تبدیل نہیں کیا کیوں کہ یہی تو وہ شعر ہے جو اس کتاب کو منصہ شہود پر لانے کا باعث بنا، پھر بھلا میں اس کے ساتھ '' چھیڑخانی'' کیسے کر سکتا تھا ؟
ایسے ہی چند ایک اشعار اور بھی ہیں جنھیں میں نے عمدا جوں کا توں رہنے دیا۔ میں چاہتے ہوئے بھی ان کی نوک پلک درست کرنے سے قاصر رہا ہوں، ان کا ایسے ہی رہنا میرے نزدیک ضروری تھا۔ کیوں کہ یہ خالی خولی اشعار تھوڑے ہی ہیں یہ تو میرا ماضی ہیں اور کچھ بھی رہا ہو مجھے اپنا ماضی '' بے عیب'' نظر آتا ہے۔''
اپنے غلطی کو تسلیم کرنا ایک بڑے آدمی کا کام ہے، ہمارے ہاں بہت سے شعرا کے کلام میں '' تنافر حرفی'' اور '' شترگربہ'' جیسی غلطیاں عام طور پر پائی جاتی ہیں۔ ہمارے ہاں بہت سے شعرا کا پہلا شعری مجموعہ بے وزن یا کسی کا چوری کیا ہُوا کلام ہوتا ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ ادریس نازؔ ایک جینوئن قلم کار ہے جو اپنی شاعری میں زمانے کی زباں بولتا ہے اور زمانہ اس کے اشعار گنگناتا ہے۔
ادریس ناز کو مستقبل کا اہم شاعر قرار دیتے ہوئے دورِ حاضر کے نامور شاعر جان کاشمیری '' گلِ نوشگفتہ'' کے دیباچہ میں رقم طراز ہے کہ '' ادریس نازؔ نے منفی اندازِ تفکر کو اپنے قریب نہیں آنے دیا بلکہ اپنی تمام توجہ حرف آگہی، شعر شناسی اور بیباک نوائی پر صرف کی ہے۔ نتیجتا اس کے کلام میں معنوی جامعیت کے بین بین وجد آفریں کشادہ روی کا احساس بھی ہوتا ہے۔ اس کی بیباک بیانی، سچ کی کہانی اور صدق کی نشانی ہے۔ یہ قدرے تلخ ضرور ہے لیکن ادریس نازؔ کے ناز پرور اور ناز آفریں قلم کا کمال یہ ہے کہ نہ یہ خود بیزار ہوتا ہے اور نہ ہی دوسرے اس سے بیزار ہوتے ہیں۔''
ادریس نازؔ آج شہرت اور عزت کے جس روشن مقام پر کھڑے ہیں وہاں اللہ کے فضل و کرم سے دور دور تک تیرگی کے سائے نہیں اُجالے ہیں۔ نو عمری میں جسے لوگ جگنوئوں کی کہکشائوں میں ڈھونڈتے تھے اُسے اب لوگ ادب کے قیمتی ستاروں میں چاند کی صورت تلاش کرتے ہیں۔