روسی اور امریکی چپقلش میں فلسطینی پس رہے ہیں
اس سازش کا مودی کے حق میں فیصلہ مودی کے 2024 کے الیکشن میں اسے ضرور فائدہ دے گا
ابھی کچھ ہی دنوں کی بات ہے کہ یوکرین کی جنگ نے پوری دنیا کو خطرے میں ڈالا ہوا تھا۔ روس نے اچانک یوکرین پر حملہ کر دیا تھا۔
پہلے کبھی یوکرین روس کا حصہ تھا مگر 1991 میں اس وقت کی سوویت یونین حکومت نے یوکرین ہی نہیں اپنی کئی ریاستوں کو آزاد کردیا تھا یوکرین نے بھی اسی وقت آزادی حاصل کی تھی اور تب سے ہی وہ ایک آزاد اور خودمختار ملک کے طور پر دنیا کے نقشے پر موجود ہے۔ جب یوکرین ایک آزاد ملک بن گیا تو پھر روس کا اس پر حملہ کر کے اسے پھر سے اپنا حصہ بنانا کہاں کا انصاف ہے؟
یوکرینی عوام اب کسی طرح روس کے ساتھ ملنا نہیں چاہتے۔ وہ اپنی آزادی اور خود مختاری کو برقرار رکھنے پر ڈٹے ہوئے ہیں تو ایسی صورتحال میں روس کا یوکرین کو اپنا حصہ بنانا کہاں کا انصاف ہے یہ تو اقوام متحدہ کے چارٹر کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ روس نے یہ غلطی کر کے حقیقتاً دوسرے ممالک کو من مانی کرنے کی کھلی چھٹی دے دی ہے کہ کوئی بھی ملک جب چاہے کسی دوسرے ملک پر چڑھ دوڑے اور اس کی آزادی کو ختم کر کے اس پر قبضہ کر لے۔
روس کی اس مثال سے کسی اور ملک کو تو اس جیسا کرنے کی ہمت نہیں ہوئی البتہ روس کے دائمی دشمن امریکا نے اسرائیل کو غزہ پر حملے کی ترغیب دی اور اس نے حماس کے میزائل حملے کو جواز بنا کر اس پر پوری قوت سے حملہ کردیا۔ اب اس جنگ کو دو ماہ سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے مگر یہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہے۔
ادھر یوکرین کی جنگ میں بھی ایسا ہی ہوا تھا کہ اکثر ممالک بشمول مغربی ممالک نے روس کو جنگ بند کرنے کے لیے مسلسل مطالبے کیے تھے مگر روس نے کسی کی بھی نہیں سنی تھی اب اسرائیل بھی ایسا ہی کر رہا ہے مگر اس کے اس عمل کے پس پشت امریکا ہے وہ روس کو یہ بتا رہا ہے کہ جب تم جنگ نہیں روک رہے ہو تو اسرائیل جنگ سے کیوں باز آئے۔
دنیا کے ان دو بڑے ملکوں کی باہمی کشمکش سے غزہ میں فلسطینیوں کا حال برے سے برا ہو رہا ہے۔ غزہ پر اسرائیلی حملوں کو روکنے کے لیے اقوام متحدہ میں قرارداد پاس ہو چکی ہے مگر اسے امریکا نے ویٹو کردیا تھا اب حال ہی میں سلامتی کونسل میں اقوام متحدہ کے چارٹر کی جاندار شق 99 کے تحت جنگ روکنے کے لیے قرارداد پیش کردی گئی مگر امریکا نے اسے بھی ویٹو کردیا ہے۔
امریکا کا حال تو یہ ہے کہ اس نے تو دنیا میں جنگیں چھیڑنا اپنا ایک محبوب مشغلہ بنا لیا ہے مگر قابل ذکر بات یہ ہے کہ وہ ہر جنگ میں اپنا اربوں ڈالر کا اسلحہ اور ہزاروں فوجیوں کو جھونکنے کے بعد بھی شکست خوردہ ہی رہا ہے۔
کوریا، ویتنام، شام، افغانستان اور عراق کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ اس وقت وہ غزہ میں اسرائیل کی آڑ لے کر جنگ میں مصروف ہے۔ تاہم یہاں بھی وہ پرعزم فلسطینیوں کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہوگا۔ لگتا ہے اب امریکا کو یقینا اسرائیل سے ہاتھ دھونا پڑیں گے اس لیے کہ فلسطینی بہت طیش میں ہیں اور وہ بالآخر اسرائیل کی اینٹ سے اینٹ بجا کر ہی دم لیں گے۔
حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل جیسے ناجائز جارح اور ظالم ملک کو ختم ہی ہو جانا چاہیے۔ یہودی خود کو جرمنی میں ان کے ساتھ ہونیوالے ہولو کاسٹ کے عذاب کا مارا بتاتے ہیں۔ افسوس کہ اس وقت ان پر جرمنی میں ہٹلر نے جو ظلم ڈھایا تھا اس سے کئی گنا زیادہ نیتن یاہو فلسطینیوں پر ڈھا رہا ہے۔ پوری دنیا اس سے جنگ کو بند کرنے کی اپیل کر رہی ہے مگر وہ جنگ میں مزید تیزی لا رہا ہے۔
اس کی وجہ امریکا ہے جو جنگ کو جاری رکھنا چاہتا ہے اسی لیے بائیڈن نے سینیٹ سے منظوری کے بغیر ہی اسرائیل کو کئی ہزار مہلک میزائل بھجوا دیے ہیں۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ اس جنگ کے پیچھے امریکا ہے جو پورے فلسطین پر اسرائیل کو قابض کرانا چاہتا ہے تاکہ اسے وہاں مزید فوجی اڈے قائم کرنے کے لیے جگہ مل سکے اور اس طرح وہ مشرق وسطیٰ سے روسی اور چینی اثر و نفوذ کا خاتمہ کرسکے مگر یہ اس کی خام خیالی ہے۔
مشرق وسطیٰ کے تمام ممالک امریکی عزائم سے واقف ہو چکے ہیں وہ ایک زمانے سے اس کے اشاروں پر چل رہے ہیں مگر اس کے نتیجے میں انھیں سوائے تباہی بربادی اور باہمی انتشار کے کچھ حاصل نہیں ہوا ہے۔ اب خوش قسمتی سے سعودی عرب نے برسوں سے ایران سے بگڑے ہوئے تعلقات کو بحال کر لیا ہے۔ ادھر اس نے ترکی سے بھی پرانی مخاصمت ختم کردی ہے اور اب دونوں کے درمیان تعلقات معمول پر آگئے ہیں۔
چند سال قبل متحدہ عرب امارات اور بحرین نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات بحال کیے تھے۔ اسرائیل دراصل نہ صرف فلسطینیوں کی سرزمین پر قابض ہو گیا ہے بلکہ ان کے حق خود اختیاری کو بھی خاطر میں نہیں لا رہا ہے۔ حالانکہ فلسطینیوں کو یہ حق اقوام متحدہ نے تفویض کیا ہے جس پر عمل درآمد ضروری ہے۔ وہ تو اب اوسلو معاہدے سے بھی منحرف ہوگیا ہے۔ اس معاہدے کے تحت فلسطین کے مسئلے کا دو ریاستی حل مقرر کیا گیا ہے۔
اسرائیل کو اس معاہدے کے تحت فلسطین اتھارٹی بمعہ غزہ کو ایک ملک کے طور پر تسلیم کرنا ہے مگر وہ تو اب پورے فلسطین پر قابض ہونے کی تیاری کر رہا ہے۔ جہاں تک حق خود اختیاری کا معاملہ ہے فلسطینیوں کی طرح کشمیریوں کو بھی بھارت مسلسل 75 برس سے محروم رکھ رہا ہے۔
کشمیری مسلسل اپنی آزادی کے لیے بھارتی فوج سے لڑ رہے ہیں مگر بھارت سلامتی کونسل کی قراردادوں کو خاطر میں نہیں لا رہے اور کشمیریوں کی نسل کشی کرنے میں مصروف ہے۔
مقبوضہ کشمیر کو 2019 تک بھارتی آئین میں ایک خصوصی درجہ حاصل تھا وہاں کے عوام اپنا وزیر اعظم جسے اب وزیر اعلیٰ کہا جاتا ہے خود ہی منتخب کرتے تھے۔ وادی کا اپنا الگ پرچم تھا۔ یہ بھارت کا اٹوٹ انگ نہیں تھا یہاں کوئی بھارتی نہ زمین خرید سکتا تھا اور نہ ہی نوکری حاصل کر سکتا تھا۔ بھارتی انتہا پسند بی جے پی پارٹی نے جب سے اقتدار سنبھالا ہے جہاں بھارت میں مسلمانوں کے خلاف متعدد کارروائیاں کی گئی ہیں وہاں جموں کشمیر کی پرانی حیثیت کو ختم کر کے اسے بھارت کا اٹوٹ انگ بنا لیا گیا ہے۔
مودی کی یہ حرکت سراسر اس کے اپنے ملکی آئین کے منافی ہے بلکہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے خلاف ہے۔ کشمیریوں سمیت بھارتی کانگریس پارٹی اور دیگر کئی سیاسی جماعتوں نے مودی کی اس گھناؤنی سازش کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا تھا۔ اب سپریم کورٹ نے چار سال بعد اس مسئلے کا فیصلہ کر دیا ہے مگر مودی کی سازش کو ہری جھنڈی دکھا دی ہے۔
اس وقت اس سازش کا مودی کے حق میں فیصلہ مودی کے 2024 کے الیکشن میں اسے ضرور فائدہ دے گا اس لیے کہ بھارت کے انتہا پسند ہندوؤں کو یہ فیصلہ بہت پسند آئے گا اور بدقسمتی سے بھارت میں وہ سب ہی مودی کے حامی ہیں۔
حکومت پاکستان نے اس انصاف کے قتل کی سخت مذمت کی ہے اور پھر سے اعادہ کیا ہے کہ وہ کشمیریوں کی حمایت سے کبھی دست بردار نہیں ہوگی ادھر چینی حکومت نے بھی اس فیصلے پر سخت برہمی کا اظہار کیا ہے کیونکہ اس کے اکسائی چین کے علاقے کو بھی بھارت کا حصہ قرار دیا گیا ہے۔
پہلے کبھی یوکرین روس کا حصہ تھا مگر 1991 میں اس وقت کی سوویت یونین حکومت نے یوکرین ہی نہیں اپنی کئی ریاستوں کو آزاد کردیا تھا یوکرین نے بھی اسی وقت آزادی حاصل کی تھی اور تب سے ہی وہ ایک آزاد اور خودمختار ملک کے طور پر دنیا کے نقشے پر موجود ہے۔ جب یوکرین ایک آزاد ملک بن گیا تو پھر روس کا اس پر حملہ کر کے اسے پھر سے اپنا حصہ بنانا کہاں کا انصاف ہے؟
یوکرینی عوام اب کسی طرح روس کے ساتھ ملنا نہیں چاہتے۔ وہ اپنی آزادی اور خود مختاری کو برقرار رکھنے پر ڈٹے ہوئے ہیں تو ایسی صورتحال میں روس کا یوکرین کو اپنا حصہ بنانا کہاں کا انصاف ہے یہ تو اقوام متحدہ کے چارٹر کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ روس نے یہ غلطی کر کے حقیقتاً دوسرے ممالک کو من مانی کرنے کی کھلی چھٹی دے دی ہے کہ کوئی بھی ملک جب چاہے کسی دوسرے ملک پر چڑھ دوڑے اور اس کی آزادی کو ختم کر کے اس پر قبضہ کر لے۔
روس کی اس مثال سے کسی اور ملک کو تو اس جیسا کرنے کی ہمت نہیں ہوئی البتہ روس کے دائمی دشمن امریکا نے اسرائیل کو غزہ پر حملے کی ترغیب دی اور اس نے حماس کے میزائل حملے کو جواز بنا کر اس پر پوری قوت سے حملہ کردیا۔ اب اس جنگ کو دو ماہ سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے مگر یہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہے۔
ادھر یوکرین کی جنگ میں بھی ایسا ہی ہوا تھا کہ اکثر ممالک بشمول مغربی ممالک نے روس کو جنگ بند کرنے کے لیے مسلسل مطالبے کیے تھے مگر روس نے کسی کی بھی نہیں سنی تھی اب اسرائیل بھی ایسا ہی کر رہا ہے مگر اس کے اس عمل کے پس پشت امریکا ہے وہ روس کو یہ بتا رہا ہے کہ جب تم جنگ نہیں روک رہے ہو تو اسرائیل جنگ سے کیوں باز آئے۔
دنیا کے ان دو بڑے ملکوں کی باہمی کشمکش سے غزہ میں فلسطینیوں کا حال برے سے برا ہو رہا ہے۔ غزہ پر اسرائیلی حملوں کو روکنے کے لیے اقوام متحدہ میں قرارداد پاس ہو چکی ہے مگر اسے امریکا نے ویٹو کردیا تھا اب حال ہی میں سلامتی کونسل میں اقوام متحدہ کے چارٹر کی جاندار شق 99 کے تحت جنگ روکنے کے لیے قرارداد پیش کردی گئی مگر امریکا نے اسے بھی ویٹو کردیا ہے۔
امریکا کا حال تو یہ ہے کہ اس نے تو دنیا میں جنگیں چھیڑنا اپنا ایک محبوب مشغلہ بنا لیا ہے مگر قابل ذکر بات یہ ہے کہ وہ ہر جنگ میں اپنا اربوں ڈالر کا اسلحہ اور ہزاروں فوجیوں کو جھونکنے کے بعد بھی شکست خوردہ ہی رہا ہے۔
کوریا، ویتنام، شام، افغانستان اور عراق کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ اس وقت وہ غزہ میں اسرائیل کی آڑ لے کر جنگ میں مصروف ہے۔ تاہم یہاں بھی وہ پرعزم فلسطینیوں کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہوگا۔ لگتا ہے اب امریکا کو یقینا اسرائیل سے ہاتھ دھونا پڑیں گے اس لیے کہ فلسطینی بہت طیش میں ہیں اور وہ بالآخر اسرائیل کی اینٹ سے اینٹ بجا کر ہی دم لیں گے۔
حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل جیسے ناجائز جارح اور ظالم ملک کو ختم ہی ہو جانا چاہیے۔ یہودی خود کو جرمنی میں ان کے ساتھ ہونیوالے ہولو کاسٹ کے عذاب کا مارا بتاتے ہیں۔ افسوس کہ اس وقت ان پر جرمنی میں ہٹلر نے جو ظلم ڈھایا تھا اس سے کئی گنا زیادہ نیتن یاہو فلسطینیوں پر ڈھا رہا ہے۔ پوری دنیا اس سے جنگ کو بند کرنے کی اپیل کر رہی ہے مگر وہ جنگ میں مزید تیزی لا رہا ہے۔
اس کی وجہ امریکا ہے جو جنگ کو جاری رکھنا چاہتا ہے اسی لیے بائیڈن نے سینیٹ سے منظوری کے بغیر ہی اسرائیل کو کئی ہزار مہلک میزائل بھجوا دیے ہیں۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ اس جنگ کے پیچھے امریکا ہے جو پورے فلسطین پر اسرائیل کو قابض کرانا چاہتا ہے تاکہ اسے وہاں مزید فوجی اڈے قائم کرنے کے لیے جگہ مل سکے اور اس طرح وہ مشرق وسطیٰ سے روسی اور چینی اثر و نفوذ کا خاتمہ کرسکے مگر یہ اس کی خام خیالی ہے۔
مشرق وسطیٰ کے تمام ممالک امریکی عزائم سے واقف ہو چکے ہیں وہ ایک زمانے سے اس کے اشاروں پر چل رہے ہیں مگر اس کے نتیجے میں انھیں سوائے تباہی بربادی اور باہمی انتشار کے کچھ حاصل نہیں ہوا ہے۔ اب خوش قسمتی سے سعودی عرب نے برسوں سے ایران سے بگڑے ہوئے تعلقات کو بحال کر لیا ہے۔ ادھر اس نے ترکی سے بھی پرانی مخاصمت ختم کردی ہے اور اب دونوں کے درمیان تعلقات معمول پر آگئے ہیں۔
چند سال قبل متحدہ عرب امارات اور بحرین نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات بحال کیے تھے۔ اسرائیل دراصل نہ صرف فلسطینیوں کی سرزمین پر قابض ہو گیا ہے بلکہ ان کے حق خود اختیاری کو بھی خاطر میں نہیں لا رہا ہے۔ حالانکہ فلسطینیوں کو یہ حق اقوام متحدہ نے تفویض کیا ہے جس پر عمل درآمد ضروری ہے۔ وہ تو اب اوسلو معاہدے سے بھی منحرف ہوگیا ہے۔ اس معاہدے کے تحت فلسطین کے مسئلے کا دو ریاستی حل مقرر کیا گیا ہے۔
اسرائیل کو اس معاہدے کے تحت فلسطین اتھارٹی بمعہ غزہ کو ایک ملک کے طور پر تسلیم کرنا ہے مگر وہ تو اب پورے فلسطین پر قابض ہونے کی تیاری کر رہا ہے۔ جہاں تک حق خود اختیاری کا معاملہ ہے فلسطینیوں کی طرح کشمیریوں کو بھی بھارت مسلسل 75 برس سے محروم رکھ رہا ہے۔
کشمیری مسلسل اپنی آزادی کے لیے بھارتی فوج سے لڑ رہے ہیں مگر بھارت سلامتی کونسل کی قراردادوں کو خاطر میں نہیں لا رہے اور کشمیریوں کی نسل کشی کرنے میں مصروف ہے۔
مقبوضہ کشمیر کو 2019 تک بھارتی آئین میں ایک خصوصی درجہ حاصل تھا وہاں کے عوام اپنا وزیر اعظم جسے اب وزیر اعلیٰ کہا جاتا ہے خود ہی منتخب کرتے تھے۔ وادی کا اپنا الگ پرچم تھا۔ یہ بھارت کا اٹوٹ انگ نہیں تھا یہاں کوئی بھارتی نہ زمین خرید سکتا تھا اور نہ ہی نوکری حاصل کر سکتا تھا۔ بھارتی انتہا پسند بی جے پی پارٹی نے جب سے اقتدار سنبھالا ہے جہاں بھارت میں مسلمانوں کے خلاف متعدد کارروائیاں کی گئی ہیں وہاں جموں کشمیر کی پرانی حیثیت کو ختم کر کے اسے بھارت کا اٹوٹ انگ بنا لیا گیا ہے۔
مودی کی یہ حرکت سراسر اس کے اپنے ملکی آئین کے منافی ہے بلکہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے خلاف ہے۔ کشمیریوں سمیت بھارتی کانگریس پارٹی اور دیگر کئی سیاسی جماعتوں نے مودی کی اس گھناؤنی سازش کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا تھا۔ اب سپریم کورٹ نے چار سال بعد اس مسئلے کا فیصلہ کر دیا ہے مگر مودی کی سازش کو ہری جھنڈی دکھا دی ہے۔
اس وقت اس سازش کا مودی کے حق میں فیصلہ مودی کے 2024 کے الیکشن میں اسے ضرور فائدہ دے گا اس لیے کہ بھارت کے انتہا پسند ہندوؤں کو یہ فیصلہ بہت پسند آئے گا اور بدقسمتی سے بھارت میں وہ سب ہی مودی کے حامی ہیں۔
حکومت پاکستان نے اس انصاف کے قتل کی سخت مذمت کی ہے اور پھر سے اعادہ کیا ہے کہ وہ کشمیریوں کی حمایت سے کبھی دست بردار نہیں ہوگی ادھر چینی حکومت نے بھی اس فیصلے پر سخت برہمی کا اظہار کیا ہے کیونکہ اس کے اکسائی چین کے علاقے کو بھی بھارت کا حصہ قرار دیا گیا ہے۔