شعروسخن اور تصنیف و تالیف
قلم کار کو اپنا تعارف کرانے کی ہرگز ضرورت پیش نہیں آتی ہے کہ علم و آگہی، شعر و سخن، نثر نگاری خود اپنا تعارف ہوتا ہے
اس وقت چارکتابیں میرے سامنے ہیں اور مجھ سے تقاضا کر رہی ہیں کہ انھیں دائرہ تحریر میں لایا جائے، تو حکم بجا لاتی ہوں۔
دو کتابیں ممتاز افسانہ نگار و شاعر علی عرفان عابدی کی ہیں، عنوانات ہیں '' تحریر مرتی نہیں'' اور '' زخم سخن'' جیسا کہ نام سے ظاہر ہے یہ شاعری کا مجموعہ ہے، تیسری کتاب ماریہ مہ وش کی ہے یہ نظموں اور اختراعات پر مشتمل ہے، ماریہ مہ وش ادبی حلقوں میں جانی پہچانی جاتی ہیں، ڈاکٹر سید شرجیل احمد کی کتاب ''سحر عشق'' نظمیہ شاعری کا احاطہ کرتی ہے۔ انھوں نے انگریزی زبان میں بھی شاعری کی ہے اور اتنی نظمیں لکھ لی ہے کہ ایک کتاب Enigmatic کے نام سے منصہ شہود پر آگئی۔
'' تحریر مرتی نہیں'' اہم ناقدین کی آراء سے مرصع ہے، جن میں ڈاکٹر جمیل الدین عالی، ڈاکٹر فرمان فتح پوری، سلطانہ مہر اور تنویرکاظمی کے اسم گرامی نمایاں ہیں۔ اس کتاب کی خصوصیت یہ ہے کہ علی عرفان عابدی کے لکھے ہوئے تبصرے، مضامین اور ساتھ میں ان ادبا، شعرا اور محققین کی تحریریں شامل اشاعت ہیں، ہر مضمون اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہے کہ قلمکاروں نے علی عرفان عابدی کو لفظوں کی شکل میں تہنیت اور ان کے علمی و ادبی کاموں کا اعتراف کیا ہے، ضخامت کے اعتبار سے 441 صفحات دس ابواب کتاب کی زینت ہیں۔
کتاب کا قاری علی عرفان عابدی کے حوالے سے بہت سی معلومات سے آگاہ ہو جاتا ہے۔ علی عرفان عابدی ایک طویل عرصے سے لکھ رہے ہیں گویا لکھنا پڑھنا ان کی زندگی کی مقصد رہا ہے۔ ڈاکٹر جمیل الدین عالی نے لکھا ہے کہ '' عرفان عابدی کے ہاں وقوعی فراوانی کی وجہ سے قاری کی دلچسپی کا سامان بے تحاشا ہے۔''
ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے اپنی تقریر میں کہا کہ وہ تصنع سے مبرا فطری شاعر ہے اس کے شعر میں آمد کا رنگ ہے اس کا کلام حالات اور ماحول سے متاثر ہے، عرفان کو زندگی کا پورا عرفان ہے۔ اس کی شاعری یقینا طبعاً اور فطرت کے حوالے سے مستقبل میں مقبول ہوگی۔
یہ حقیقت اپنی جگہ مسلم ہے کہ علی عرفان عابدی بہترین افسانہ نگار ہیں ان کے افسانوں میں ارد گرد کے کردار اپنی توانائی کے ساتھ کہانی کے پیچ و خم کے ساتھ آغاز سے انجام تک متحرک رہتے ہیں ان کے افسانوں میں تلخ حقائق کہانی کی شکل میں نظر آتے ہیں بیانیہ افسانوں کی تخلیقیت میں بنت، ماحول سازی اور تجربے کی آنچ نے ایک نئی اور طلسماتی زندگی بخشی ہے اسی وجہ سے یہ افسانے اپنے آپ کو پڑھوانے کا کمال رکھتے ہیں۔ علی عرفان عابدی افسانہ نگاری کے ساتھ ساتھ بہترین اور منفرد لب و لہجے کے شاعر ہیں ان کی نظم شعلہ جوالہ سے چند شعر:
ایک تیری یاد ہی ترغیب وفا دیتی ہے
میرے افکار کا ایوان سجا دیتی ہے
سرد آہوں میں مری سانس کی آوارہ پون
آتشِ شوق کو کچھ اور جلا دیتی ہے
ماریہ مہ وش باصلاحیت شاعرہ ہیں اور اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں، درس و تدریس اور صحافت سے بھی تعلق ہے، ان کا حال ہی میں شعری مجموعہ ''مہوشاں'' کے عنوان سے شایع ہوا ہے ان کی شاعری پر کئی اہم قلم کاروں اور دانشوروں نے اظہار خیال کیا ہے اور انھیں داد و تحسین سے نوازا ہے کہ وہ اس کی مستحق تھیں۔
ماریہ مہ وش کی شاعری کی خصوصیت ان کا فکری رجحان ہے جو انھیں غور و خوض کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے، خیال کی بلندی اور لفظوں کا خوبصورت انتخاب ماریہ کی شاعری کو انفرادیت بخشتا ہے، جدید شاعری کے رنگ میں تخلیق کی ہوئی نظمیں، عورت کی بے بسی اور اس کے درد و غم کی عکاس ہیں، ان کے کلام میں سچائی کی روشنی عیاں ہے، انھوں نے زمانے کے دکھ اور مردوں کی بے وفائی کو شاعری کے پیکر میں ڈھالا ہے، ان کی ایک نظم بعنوان '' مجبوری'' قاری کی توجہ کا باعث اس لیے بن جاتی ہے کہ کس طرح شاعرہ کی معصومیت اور سادگی اسے ماضی کے دریچے میں بند رکھتی ہے وقت گزر جاتا ہے لیکن بچپن اس سے جدا نہیں ہوتا ہے وہ اسی فریب میں شب و روز بسر کرتی ہے۔
اس نے اپنے احساس کو بے حد قرینے کے ساتھ شعری پیراہن میں ملبوس کیا ہے: میں نے بچپن بہت دیر تک پہن رکھا/ میرے بچپن کے خواب کا کلپ/ میرے بالوں میں گندھی چوٹی میں لگا رہا/ مجھے لگتا تھا بچپن تا مرگ پہن سکتے ہیں/ مجھے لگتا تھا/ میرا کلپ/ میرے بالوں میں چمکتا رہے گا/ میں ہنستی رہوں گی/ جیون گزرتا رہے گا۔ان کی ایک اور نظم '' کنجیاں'' قارئین کی بصارتوں کی نذر۔ یہ نظم عورت پر حاکمیت اور حقوق تلفی کا نوحہ بیان کرتی نظر آ رہی ہے۔
لفظوں کے تالے کی کنجی تھما کے
چپ کا اشارہ دیا گیا مجھ کو
زبان کب کھولنی ہے اب کے بعد
اس بات کا استعارہ دیا گیا مجھ کو
دم گھٹ رہا تھا میرے سبھی الفاظ کا
گلا گھونٹ دو پھر حکم ہوا مجھ کو
لاشیں لے کر ماتم کناں بھی نہیں ہو سکتی،
سوگ حرام ہے مجھ کو
تعفن سے اب روح بھی جھنجھلا رہی ہے،
قفس سے اب رہائی کون دلائے مجھ کو
ماریہ مہ وش بہت سی خوبیوں کی مالک ہیں' وہ افسانے لکھتی ہیں، برج میڈیا شکاگو انٹرنیشنل میں بحیثیت کری ایٹیو ڈائریکٹر کے طور پر کام کر رہی ہیں، دی برج انٹرنیشنل میگزین کی ایڈیٹر ہونے کے ساتھ یو ٹیوبر بھی ہیں۔ ماریہ کے ادبی امور کو دیکھتے ہوئے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگر وہ یوں ہی محنت کرتی رہیں تو انشا اللہ بہت جلد میدان ادب میں اپنی خصوصی جگہ بنا لیں گی۔
''سحر عشق'' ڈاکٹر سید شرجیل احمد کی نظموں کا مجموعہ ہے، کتاب '' کے کے'' پبلشرز سے شایع ہوئی ہے، ان کے شعر و سخن کے حوالے سے رائے بریلوی نے ایک معلوماتی تحریر قلم بندکی ہے، ان کا تعلق بھارت یوپی سے ہے۔
وہ لکھتے ہیں کہ '' ڈاکٹر شرجیل احمد طویل مدت سے امریکا میں سکونت پذیر ہیں، اسی لیے اردو معاشرے سے دوری کے سبب زبان پر مضبوط گرفت تو نہیں رکھتے لیکن موصوف نے اپنی جڑوں سے دور رہتے ہوئے بھی اردو زبان اور تہذیب سے اپنا تعلق برقرار رکھا ہے۔''
ڈاکٹر شرجیل کی شاعری کا مطالعہ کرنے کے بعد مجھے اس بات کا اندازہ ہوا کہ شرجیل احمد محبت کے شاعر ہیں وہ رشتوں، ناتوں سے دل کی گہرائیوں سے محبت کرتے ہیں، ان کی زیادہ تر نظمیں محبت کے گرد گھومتی ہیں، بہت کم نظمیں ایسی ہیں جہاں وہ تقدیر سے شکوہ کرتے نظر آتے ہیں، اپنی ایک نظم '' تقدیر'' میں وہ خوابوں کی کرچیوں، دھندلے خواب اور زندگی میں ملنے والی محرومیوں کا نوحہ بیان کرتے ہیں، ان کی شاعری سے چند اشعار نظم ''آنکھیں'' سے۔ یہ جو تمہاری آنکھیں ہیں / یہ جو مجھے دیکھتی ہیں/ یہ جو مجھے کھوجتی ہیں/ یہ جو مجھے سوچتی ہیں/اک سحر سا پھیلا دیتی ہیں/ یہ پیار سا بڑھا دیتی ہیں/ اک احساس سا جگا دیتی ہیں/ ایک حقیقت سی دکھا دیتی ہیں۔
ایک اور نظم، عنوان ہے ''یہ کہانی مجھے دے دو''
تم اپنی گمشدہ سانسوں کا احوال مجھے دے دو
الجھی ہوئی ایک کہانی ہی سہی، یہ کہانی مجھے دے دو
تم اپنی نم پلکوں کا احوال مجھے دے دو
دکھوں کا ایک سمندر ہی سہی، یہ سمندر مجھے دے دو
شرجیل احمد شاعری کے علاوہ نثر بھی لکھتے ہیں، ایک ناول بھی لکھ رہے ہیں کب تکمیل کے مراحل سے گزرتا ہے شاعری ہو یا ادب ہر تخلیق خون جگر مانگتی ہے، تجربات، مشاہدات، آپ بیتی اور جگ بیتی کا سنگم تحریر کو جلا بخشتا ہے، پھر تحریر زندہ رہتی ہے، قلم کار کو اپنا تعارف کرانے کی ہرگز ضرورت پیش نہیں آتی ہے کہ علم و آگہی، شعر و سخن، نثر نگاری خود اپنا تعارف ہوتا ہے۔ اچھا لکھنے کے لیے عمیق مطالعے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ میری دعا ہے کہ نقش اول سے نقشِ ثانی زیادہ دلکش ہو۔
دو کتابیں ممتاز افسانہ نگار و شاعر علی عرفان عابدی کی ہیں، عنوانات ہیں '' تحریر مرتی نہیں'' اور '' زخم سخن'' جیسا کہ نام سے ظاہر ہے یہ شاعری کا مجموعہ ہے، تیسری کتاب ماریہ مہ وش کی ہے یہ نظموں اور اختراعات پر مشتمل ہے، ماریہ مہ وش ادبی حلقوں میں جانی پہچانی جاتی ہیں، ڈاکٹر سید شرجیل احمد کی کتاب ''سحر عشق'' نظمیہ شاعری کا احاطہ کرتی ہے۔ انھوں نے انگریزی زبان میں بھی شاعری کی ہے اور اتنی نظمیں لکھ لی ہے کہ ایک کتاب Enigmatic کے نام سے منصہ شہود پر آگئی۔
'' تحریر مرتی نہیں'' اہم ناقدین کی آراء سے مرصع ہے، جن میں ڈاکٹر جمیل الدین عالی، ڈاکٹر فرمان فتح پوری، سلطانہ مہر اور تنویرکاظمی کے اسم گرامی نمایاں ہیں۔ اس کتاب کی خصوصیت یہ ہے کہ علی عرفان عابدی کے لکھے ہوئے تبصرے، مضامین اور ساتھ میں ان ادبا، شعرا اور محققین کی تحریریں شامل اشاعت ہیں، ہر مضمون اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہے کہ قلمکاروں نے علی عرفان عابدی کو لفظوں کی شکل میں تہنیت اور ان کے علمی و ادبی کاموں کا اعتراف کیا ہے، ضخامت کے اعتبار سے 441 صفحات دس ابواب کتاب کی زینت ہیں۔
کتاب کا قاری علی عرفان عابدی کے حوالے سے بہت سی معلومات سے آگاہ ہو جاتا ہے۔ علی عرفان عابدی ایک طویل عرصے سے لکھ رہے ہیں گویا لکھنا پڑھنا ان کی زندگی کی مقصد رہا ہے۔ ڈاکٹر جمیل الدین عالی نے لکھا ہے کہ '' عرفان عابدی کے ہاں وقوعی فراوانی کی وجہ سے قاری کی دلچسپی کا سامان بے تحاشا ہے۔''
ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے اپنی تقریر میں کہا کہ وہ تصنع سے مبرا فطری شاعر ہے اس کے شعر میں آمد کا رنگ ہے اس کا کلام حالات اور ماحول سے متاثر ہے، عرفان کو زندگی کا پورا عرفان ہے۔ اس کی شاعری یقینا طبعاً اور فطرت کے حوالے سے مستقبل میں مقبول ہوگی۔
یہ حقیقت اپنی جگہ مسلم ہے کہ علی عرفان عابدی بہترین افسانہ نگار ہیں ان کے افسانوں میں ارد گرد کے کردار اپنی توانائی کے ساتھ کہانی کے پیچ و خم کے ساتھ آغاز سے انجام تک متحرک رہتے ہیں ان کے افسانوں میں تلخ حقائق کہانی کی شکل میں نظر آتے ہیں بیانیہ افسانوں کی تخلیقیت میں بنت، ماحول سازی اور تجربے کی آنچ نے ایک نئی اور طلسماتی زندگی بخشی ہے اسی وجہ سے یہ افسانے اپنے آپ کو پڑھوانے کا کمال رکھتے ہیں۔ علی عرفان عابدی افسانہ نگاری کے ساتھ ساتھ بہترین اور منفرد لب و لہجے کے شاعر ہیں ان کی نظم شعلہ جوالہ سے چند شعر:
ایک تیری یاد ہی ترغیب وفا دیتی ہے
میرے افکار کا ایوان سجا دیتی ہے
سرد آہوں میں مری سانس کی آوارہ پون
آتشِ شوق کو کچھ اور جلا دیتی ہے
ماریہ مہ وش باصلاحیت شاعرہ ہیں اور اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں، درس و تدریس اور صحافت سے بھی تعلق ہے، ان کا حال ہی میں شعری مجموعہ ''مہوشاں'' کے عنوان سے شایع ہوا ہے ان کی شاعری پر کئی اہم قلم کاروں اور دانشوروں نے اظہار خیال کیا ہے اور انھیں داد و تحسین سے نوازا ہے کہ وہ اس کی مستحق تھیں۔
ماریہ مہ وش کی شاعری کی خصوصیت ان کا فکری رجحان ہے جو انھیں غور و خوض کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے، خیال کی بلندی اور لفظوں کا خوبصورت انتخاب ماریہ کی شاعری کو انفرادیت بخشتا ہے، جدید شاعری کے رنگ میں تخلیق کی ہوئی نظمیں، عورت کی بے بسی اور اس کے درد و غم کی عکاس ہیں، ان کے کلام میں سچائی کی روشنی عیاں ہے، انھوں نے زمانے کے دکھ اور مردوں کی بے وفائی کو شاعری کے پیکر میں ڈھالا ہے، ان کی ایک نظم بعنوان '' مجبوری'' قاری کی توجہ کا باعث اس لیے بن جاتی ہے کہ کس طرح شاعرہ کی معصومیت اور سادگی اسے ماضی کے دریچے میں بند رکھتی ہے وقت گزر جاتا ہے لیکن بچپن اس سے جدا نہیں ہوتا ہے وہ اسی فریب میں شب و روز بسر کرتی ہے۔
اس نے اپنے احساس کو بے حد قرینے کے ساتھ شعری پیراہن میں ملبوس کیا ہے: میں نے بچپن بہت دیر تک پہن رکھا/ میرے بچپن کے خواب کا کلپ/ میرے بالوں میں گندھی چوٹی میں لگا رہا/ مجھے لگتا تھا بچپن تا مرگ پہن سکتے ہیں/ مجھے لگتا تھا/ میرا کلپ/ میرے بالوں میں چمکتا رہے گا/ میں ہنستی رہوں گی/ جیون گزرتا رہے گا۔ان کی ایک اور نظم '' کنجیاں'' قارئین کی بصارتوں کی نذر۔ یہ نظم عورت پر حاکمیت اور حقوق تلفی کا نوحہ بیان کرتی نظر آ رہی ہے۔
لفظوں کے تالے کی کنجی تھما کے
چپ کا اشارہ دیا گیا مجھ کو
زبان کب کھولنی ہے اب کے بعد
اس بات کا استعارہ دیا گیا مجھ کو
دم گھٹ رہا تھا میرے سبھی الفاظ کا
گلا گھونٹ دو پھر حکم ہوا مجھ کو
لاشیں لے کر ماتم کناں بھی نہیں ہو سکتی،
سوگ حرام ہے مجھ کو
تعفن سے اب روح بھی جھنجھلا رہی ہے،
قفس سے اب رہائی کون دلائے مجھ کو
ماریہ مہ وش بہت سی خوبیوں کی مالک ہیں' وہ افسانے لکھتی ہیں، برج میڈیا شکاگو انٹرنیشنل میں بحیثیت کری ایٹیو ڈائریکٹر کے طور پر کام کر رہی ہیں، دی برج انٹرنیشنل میگزین کی ایڈیٹر ہونے کے ساتھ یو ٹیوبر بھی ہیں۔ ماریہ کے ادبی امور کو دیکھتے ہوئے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگر وہ یوں ہی محنت کرتی رہیں تو انشا اللہ بہت جلد میدان ادب میں اپنی خصوصی جگہ بنا لیں گی۔
''سحر عشق'' ڈاکٹر سید شرجیل احمد کی نظموں کا مجموعہ ہے، کتاب '' کے کے'' پبلشرز سے شایع ہوئی ہے، ان کے شعر و سخن کے حوالے سے رائے بریلوی نے ایک معلوماتی تحریر قلم بندکی ہے، ان کا تعلق بھارت یوپی سے ہے۔
وہ لکھتے ہیں کہ '' ڈاکٹر شرجیل احمد طویل مدت سے امریکا میں سکونت پذیر ہیں، اسی لیے اردو معاشرے سے دوری کے سبب زبان پر مضبوط گرفت تو نہیں رکھتے لیکن موصوف نے اپنی جڑوں سے دور رہتے ہوئے بھی اردو زبان اور تہذیب سے اپنا تعلق برقرار رکھا ہے۔''
ڈاکٹر شرجیل کی شاعری کا مطالعہ کرنے کے بعد مجھے اس بات کا اندازہ ہوا کہ شرجیل احمد محبت کے شاعر ہیں وہ رشتوں، ناتوں سے دل کی گہرائیوں سے محبت کرتے ہیں، ان کی زیادہ تر نظمیں محبت کے گرد گھومتی ہیں، بہت کم نظمیں ایسی ہیں جہاں وہ تقدیر سے شکوہ کرتے نظر آتے ہیں، اپنی ایک نظم '' تقدیر'' میں وہ خوابوں کی کرچیوں، دھندلے خواب اور زندگی میں ملنے والی محرومیوں کا نوحہ بیان کرتے ہیں، ان کی شاعری سے چند اشعار نظم ''آنکھیں'' سے۔ یہ جو تمہاری آنکھیں ہیں / یہ جو مجھے دیکھتی ہیں/ یہ جو مجھے کھوجتی ہیں/ یہ جو مجھے سوچتی ہیں/اک سحر سا پھیلا دیتی ہیں/ یہ پیار سا بڑھا دیتی ہیں/ اک احساس سا جگا دیتی ہیں/ ایک حقیقت سی دکھا دیتی ہیں۔
ایک اور نظم، عنوان ہے ''یہ کہانی مجھے دے دو''
تم اپنی گمشدہ سانسوں کا احوال مجھے دے دو
الجھی ہوئی ایک کہانی ہی سہی، یہ کہانی مجھے دے دو
تم اپنی نم پلکوں کا احوال مجھے دے دو
دکھوں کا ایک سمندر ہی سہی، یہ سمندر مجھے دے دو
شرجیل احمد شاعری کے علاوہ نثر بھی لکھتے ہیں، ایک ناول بھی لکھ رہے ہیں کب تکمیل کے مراحل سے گزرتا ہے شاعری ہو یا ادب ہر تخلیق خون جگر مانگتی ہے، تجربات، مشاہدات، آپ بیتی اور جگ بیتی کا سنگم تحریر کو جلا بخشتا ہے، پھر تحریر زندہ رہتی ہے، قلم کار کو اپنا تعارف کرانے کی ہرگز ضرورت پیش نہیں آتی ہے کہ علم و آگہی، شعر و سخن، نثر نگاری خود اپنا تعارف ہوتا ہے۔ اچھا لکھنے کے لیے عمیق مطالعے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ میری دعا ہے کہ نقش اول سے نقشِ ثانی زیادہ دلکش ہو۔