الزام تراشیوں پر مبنی انتخابی مہم

عوامی مفادات پر مبنی سیاست ہی سیاسی اور جمہوری نظام کو مستحکم کرنے کا سبب بنتی ہے

salmanabidpk@gmail.com

پاکستان کے سیاسی، جمہوری و انتخابی نظام کی سیاست کا جائزہ لیں تو اس میں بنیادی بات حقیقی یا اصل مسائل کے بجائے غیر ضروری مسائل یا ایجنڈا ہوتا ہے۔

انتخابی مہم جو انتخابی منشور کی بنیاد پر آگے بڑھنی چاہیے۔ اسی طرح ووٹروں کویہ تجزیہ کرنے میں آسانی ہوتی ہے کہ وہ یہ فیصلہ کرسکے کہ سیاسی جماعتیں اور ان کے حقیقی مسائل یا مسائل کے حل میں روڈمیپ یا منصوبہ بندی کیا ہے لیکن پاکستان میں '' سیاسی جماعتوں کے منشور '' کی بنیاد پر نہیں لڑا جاتا ۔

سیاسی جماعتوں کے منشور ایک انتظامی ضرورت یعنی الیکشن کمیشن کے سامنے جمع کروانے کے تحت بنائے جاتے ہیں ۔یہ ہی وجہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کے منشور انتخابات سے محض چند دن پہلے سامنے آتے ہیں۔ میڈیاکی سطح پر بھی جو انتخابی بحثیں ہیں، ان کا دائرہ کار نان ایشوزتک محدود ہوتا ہے۔ اس وقت سیاسی جماعتوں کی مجموعی انتخابی مہم دیکھیں تو اس میں سوائے الزامات کی سیاست کے اور کچھ نظر نہیں آتا ۔

اس وقت جب لوگ یا سنجیدہ افراد قومی سیاست دانوں کی تقریروں کو سنتے ہیں یا ان کا جو بیانیہ ہوتا ہے اس کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ہماری سیاسی قیادت واقعی سیاسی تدبر سے خالی ہے یا ان کی فہم وفراست واقعی بہت چھوٹی اور ذاتیات پر مبنی ہوتی ہے ۔ واقعی دکھ ہوتا ہے کہ ہماری سیاسی قیادتوں نے ماضی کی غلطیوں سے کچھ بھی نہیں سیکھا ۔پاکستان میں لوگ اپنے مسائل کا حل چاہتے ہیں ۔

اسی بنیاد پر جمہوریت و انتخابی ماحول سجایا جاتا ہے لیکن ہماری سیاسی جماعتوں کی مجموعی حیثیت میں بیشتر سیاسی جماعتوں کے پاس کوئی ٹھوس ہوم ورک نظر نہیں آتا۔ایک طرف الزامات او رکردار کشی پر مبنی سیاست تو دوسری طرف ہر بڑی جماعت یا توماضی کا ماتم کرتی ہے یا اپنے دور اقتدار کو پاکستان کا بہترین سیاسی دور قرار دیتی ہے۔

سیاسی جماعتوں کو یہ ہی لگتا ہے کہ صرف ان کے پاس جادو کی چھڑی ہے او راس بنیاد پر اقتدار میں آنے کے بعد ہم بہت کچھ کرسکتے ہیں لیکن جب اقتدار میں سیاسی جماعتیں آتی ہیں تو ان کو لگتا ہے کہ جو کچھ ہم نے سوچا تھا وہ ممکن نہیں بلکہ بہت سے معاملات پر ان کے اپنے بھی ہاتھ پاوں بندھے ہوتے ہیں ۔اقتدار سے نکلنے کے بعد ان کے پاس اپنی ناکامی کا کوئی داخلی تجزیہ نہیں ہوتا بلکہ وہ یہ سارا ملبہ بڑی طاقتوں پر ڈال دیتے ہیں۔

ہمارے سیاستدانوں کی انتخابی مہم میں یا تو ماضی کا ماتم ہے یا مستقبل کے بارے میں جذباتیت پر مبنی سیاسی نعرے ہیں جو سیاسی و معاشی سطح کے حقایق سے کافی مختلف ہوتے ہیں۔ ایسے لگتا ہے کہ ہمارے سیاستدانوں کی اکثریت ماضی کے اندر ہی رہنا چاہتی ہے او ران کی اپنی تقریروں کا مجموعی بیانیہ ماضی کے واقعات کے ساتھ جڑا ہوتا ہے ۔ عمران خان تو اس وقت جیل میں ہیں مگر نواز شریف اوربلاول بھٹو کی تقریروں کا تجزیہ کریں تو ایسے لگتا ہے کہ دونوں ماضی سے نکلنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔


قومی سیاست میں اس وقت پانچ بڑے ایشوز غالب ہیں ۔ اول، سیاسی اور جمہوری سیاست کی بالادستی وخود مختاری سمیت آئین و قانون کی برتری ۔ دوئم ، معیشت کی بحالی جس میں عام آدمی کی حالت کو بدلنے کا عملی ایجنڈا ترجیحی بنیادوں پر شامل ہو۔ سوئم، سیکیورٹی یا دہشت گردی کو کنٹرول کرنا ۔ چہارم ، افراد کی جگہ اداروں کی آئینی و قانونی بالادستی یا ان کی خود مختاری سمیت شفافیت کا عمل ۔ پنجم، گورننس یا حکمرانی کے نظام کی شفافیت جس میں مرکزیت کے مقابلے میں عدم مرکزیت کو فوقیت ہو جیسے اہم امور شامل ہیں ۔

ووٹرز کو دیکھیں تو ان کی مجموعی حالت میں مایوسی وبے بسی کا غلبہ ہے ۔ لوگ معاشی طور پر جس بدترین بدحالی کا شکار ہیں۔لوگوں کی حالت کو بدلا جائے وہ ہمیں مکمل طور پر انتخابی نظام کی سیاست میں کہیں نظر نہیں آرہی ۔مسائل کے حل سے زیادہ شخصیات کے گرد گھومتی سیاست او ران کے مفادات کی کہانی کا عمل لوگوں میں اور زیادہ مایوسی پیدا کرنے کا سبب بن رہا ہے۔

کوئی بھی سیاسی جماعت ایسی نہیں جس کے پاس تحریری طور پر ایسی کوئی تحریری دستاویز نہیں جو معاشی بحران سے نمٹنے کا درست اور شفاف حل بتاتی ہے ۔ایک ایسی ریاست جس کا تمام تر انحصار اپنی داخلی سیاست پر کم اور عالمی معیشت سے جڑے اداروں پر زیادہ ہے کہ وہ ہماری مدد کریں۔ یہ سوچ ہمیں آگے کے بجائے پیچھے کی طرف دکھیل رہی ہے اور ہم ان حالات میں جو غیر معمولی ہیں کوئی غیر معمولی کام کرنے کے لیے تیار نہیں ۔

ہماری قومی سیاست نے ووٹروں کو مختلف سیاسی ، علاقائی ، لسانی، فرقہ وارانہ او رمذہبی تقسیم میں مبتلا کردیا ہے اور یہ عمل ووٹروں کو بڑی جماعتوں کا سیاسی یرغمال بھی بناتا ہے او ران میں شخصیت پرستی کو بھی فروغ دیتا ہے ۔جس نظام میں ووٹروں کو مختلف مفادات کے تحت ہی اپنے تابع کیا جاتا ہو یا ان پر کوئی دباو یا لالچ دے کر اپنے قریب لایا جاتا ہو وہاں سیاست اور جمہوریت کی خود مختاری او رانتخابی نظام کی عملی شفافیت کا عمل کہیں بھی غالب نظر نہیں آئے گا۔

ہماری سیاسی جماعتوں اور سیاسی قیادتوں کو واقعی یہ سمجھنا ہوگا کہ جو وہ باتیں کررہے ہیں ان کا کوئی بھی تعلق عوامی مسائل کے حل سے جڑا ہوا نظر نہیں آتا ۔لوگوں کو لگتا ہے کہ ہمارے مسائل حل بھی نہیں ہونگے بلکہ ان میں کمی کے بجائے ان میں اور زیادہ اضافہ ہوگا۔ بدقسمتی سے سیاست ، جمہوریت، انتخابات اور ووٹرز کے درمیان جو باہمی تعلق جڑت کی بنیاد پر ہونا چاہیے، اس کا فقدان ہر سطح پر غالب ہے۔

ایک طرف ہم انتخابی سیاست میں عدم منشور کی پالیسی پر تنقید کرتے ہیں تو دوسری طرف ہمارے یہاں جو بھی انتخابی عمل ہے اس کی عدم شفافیت کا مسئلہ بھی موجود ہے ۔ نوجوان نسل میں یہ اعتماد ہی نہیں کہ ہم ووٹ کی بنیاد پر حکومت کی تشکیل کرسکتے ہیں ان کے بقول یہ حق عوام کے پاس نہیں بلکہ طاقت ور لوگوں کے ہاتھوں میں ہے۔

ایسی سوچ اور فکر کے ساتھ ووٹرز کا مقدمہ جیتنا کوئی آسان کام نہیں ہے ۔ اس کے لیے پورے سیاسی نظام میں نئی جہتیں اور نئی حکمت عملیاں وضع کرنا ہونگی اور سیاست کو ایک نیا رخ دینا ہوگا جس میں اصل طاقت کا مرکز عوام کو بنایا جائے ۔

کیونکہ عوامی مفادات پر مبنی سیاست ہی سیاسی اور جمہوری نظام کو مستحکم کرنے کا سبب بنتی ہے۔کیونکہ ریاست او رحکومت کا نظام بنیادی طور پر عوام کے ساتھ جڑا ہوتا ہے او رجب عوام کو طاقت دی جاتی ہے تو عوام ریاستی نظام کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں ۔اس لیے سیاسی جماعتوں کی سطح پر ہمارا بنیادی تجزیہ سیاسی جماعتیں اور عوامی مفادات پر سے جڑا ہونا چاہیے۔
Load Next Story