سقو ط ڈھاکا…غلطیاں بانجھ نہیں ہوتی
یاد رکھیں غلطیاں کبھی بانجھ نہیں ہوتی، اگر ان کو درست نہ کیا گیا تو تاریخ خود کو دوہراتی رہے گی
52 سال پہلے 16دسمبر 1971کو مشرقی پاکستان کا بنگلہ دیش بن جانا ایک ایسا المناک سانحہ اور قومی المیہ ہے۔ 51سال گزرنے کے باوجود ہم آج تک اس بات کا تعین نہ کر سکے ہیں کہ پاکستان کے دو لخت ہونے کی اصل اور مرکزی وجہ کیا ہے۔
1971 میں جب سقوط ڈھاکا ہوا تو یحییٰ خان صدر اور چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر تھے، ان کے بعد پیپلز پارٹی کے بانی اور چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو پہلے عبوری صدر اور سویلین چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بنے۔ پھر آئین کی تشکیل کے وقت وہ باقاعدہ وزیراعظم بن گئے۔
بھٹو کے بعد جنرل ضیاء الحق ،ان کی طیارہ حادثہ میں موت کے بعد ان کی لیگسی اسلم بیگ اور غلام اسحاق خان کی شکل میں پاکستان کے اقتدار پر قابض رہی، درمیان میں بے نظیر بھٹو اور نواز شریف وزیراعظم رہے۔پرویز مشرف کے بعد پھر پیپلز پارٹی پانچ سال تک برسر اقتدار رہی۔
حمود الرحمن کمیشن رپورٹ اس وقت تک عوام سے پوشیدہ رہی جب تک انڈیا کے اخبارات نے اس کے کچھ مندرجات کو اخفاء کرنا شروع کر دیے ۔صدر مشرف کو مجبوراً پاکستان میں بھی اس کے کچھ حصے پبلک کرنا پڑے۔ ان کے مطالعے سے کئی کردار سامنے آتے ہیں، یحییٰ خان، بھٹو، جنرل عمر ، شیخ مجیب الرحمن اور دوسرے کئی اہم لوگون کا تذکرہ سامنے آتا ہے۔
حمود الرحمن کمیشن رپورٹ نے سقوط ڈھاکا کے ہر پہلو کو کھول کر رکھ دیا ہے ۔ اس رپورٹ کی بنیاد پر قانونی چارہ جوئی ہو سکتی ہے کیونکہ ضروری ہے کہ اس سانحہ کے اصل حقائق سامنے آسکیںلیکن ہم حقائق سے آنکھیں چرارہے ہیں۔ سقوط مشرقی پاکستان کے حقیقی عوامل سے جب تک پاکستان کا عام شہری با خبر نہ ہو گا اس وقت تک ہم اپنی غلطیوں کی اصلاح کیسے کر سکیں گے۔
جس طرح صحیح تشخیص کے بغیر علاج ممکن نہیں اسی طرح عکسری اور سیاسی غلطیوں کا ادراک کیے بغیر اصلاح کیسے ممکن ہے؟ سقوط ڈھاکا ایک سوچی سمجھی بین الاقومی سازش تھی یا ہماری غلط اور متصبانہ پالیسی کا منطقی انجام ، اس کا جواب حمود الرحمن کمیشن نے اپنی رپورٹ میں دے دیا گیا لیکن عام آدمی کی رسائی سے یہ رپورٹ دور ہے۔
یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ایک طرف تو بنگلہ دیش کی وزیراعظم حسینہ واجد(جو شیخ مجیب الرحمن کی بیٹی ہیں) نے ان افراد کے خلاف نہ صرف مقدمات قائم کیے بلکہ ان کو پھانسی بھی دی جو 1971 میں تحریک بنگلہ دیش کے خلاف اور پاکستان کے حامی تھے اور دوسری طرف ہم ہیں کہ جن کا ملک دولخت ہو گیا۔ہم ان کرداروں پر مقدمات تو چلانا درکنار ان کے جرائم سے بھی قوم کوبے خبر رکھے ہوئے ہیں۔
حمود الرحمن کمیشن رپورٹ نے بڑے واضح انداز میں ان صاحب اختیار لوگوں کی نشاندہی کی ہے جن پر کھلی عدالت میں مقدمہ چلانا یا کورٹ مارشل کیا جانا ضروری ہے۔وقت کا تقاضہ ہے کہ حمود الرحمن کمیشن کی رپورٹ کو پوری طرح آشکارہ کیا جائے۔ اسے ہمارے تعلیمی نصاف میں شامل کیا جائے۔ پاکستان کے وکلاء اور سول سوسائٹی اس رپورٹ کی بنیاد پر پاکستان توڑنے والے کرداروں کے خلاف مقدمات عدالت میں لے کر جائے ۔ قوم یہ توقع بھی رکھتی ہے کہ سپریم کورٹ ا س رپورٹ کو عام کرنے کا حکم دے۔
جب تک ہم اپنی تاریخ کے اس المناک ترین سانحے کے اسباب و عواقب اور حالات سے بے خبر رہیں گے یہاں عوامی حاکمیت کا خواب پورا نہ ہو سکے گا۔ یہ انتہائی اہم ہے کہ ہم تاریخ پاکستان کے اس تلخ باب کے حقائق کو اس طرح سامنے لائیں کہ آیندہ آنے والی نسلیں اور حکومتیں ان غلطیوں کو نہ دوہرائیں۔
یاد رکھیں غلطیاں کبھی بانجھ نہیں ہوتی، اگر ان کو درست نہ کیا گیا تو تاریخ خود کو دوہراتی رہے گی۔ قوموں کی تاریخ میں آزمائشوں اور چیلنجز کا آنا ایک فطری عمل ہے۔ تاریخ کا دھاوا تسلسل سے رواں دواں رہتا ہے۔ سقوط ڈھاکا نے ہمیں یہ پیغام دیا ہے کہ عوامی مینڈیٹ کا احترام کریں۔آئین اور قانون کی حکمرانی کو اولیت دیں اور ذاتی مفاد پر قومی مفاد کو فوقیت دیں۔ اﷲ تعالیٰ ہمیں تاریخ سے سبق سیکھنے اور اپنی غلطیوں کی اصلاح کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
1971 میں جب سقوط ڈھاکا ہوا تو یحییٰ خان صدر اور چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر تھے، ان کے بعد پیپلز پارٹی کے بانی اور چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو پہلے عبوری صدر اور سویلین چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بنے۔ پھر آئین کی تشکیل کے وقت وہ باقاعدہ وزیراعظم بن گئے۔
بھٹو کے بعد جنرل ضیاء الحق ،ان کی طیارہ حادثہ میں موت کے بعد ان کی لیگسی اسلم بیگ اور غلام اسحاق خان کی شکل میں پاکستان کے اقتدار پر قابض رہی، درمیان میں بے نظیر بھٹو اور نواز شریف وزیراعظم رہے۔پرویز مشرف کے بعد پھر پیپلز پارٹی پانچ سال تک برسر اقتدار رہی۔
حمود الرحمن کمیشن رپورٹ اس وقت تک عوام سے پوشیدہ رہی جب تک انڈیا کے اخبارات نے اس کے کچھ مندرجات کو اخفاء کرنا شروع کر دیے ۔صدر مشرف کو مجبوراً پاکستان میں بھی اس کے کچھ حصے پبلک کرنا پڑے۔ ان کے مطالعے سے کئی کردار سامنے آتے ہیں، یحییٰ خان، بھٹو، جنرل عمر ، شیخ مجیب الرحمن اور دوسرے کئی اہم لوگون کا تذکرہ سامنے آتا ہے۔
حمود الرحمن کمیشن رپورٹ نے سقوط ڈھاکا کے ہر پہلو کو کھول کر رکھ دیا ہے ۔ اس رپورٹ کی بنیاد پر قانونی چارہ جوئی ہو سکتی ہے کیونکہ ضروری ہے کہ اس سانحہ کے اصل حقائق سامنے آسکیںلیکن ہم حقائق سے آنکھیں چرارہے ہیں۔ سقوط مشرقی پاکستان کے حقیقی عوامل سے جب تک پاکستان کا عام شہری با خبر نہ ہو گا اس وقت تک ہم اپنی غلطیوں کی اصلاح کیسے کر سکیں گے۔
جس طرح صحیح تشخیص کے بغیر علاج ممکن نہیں اسی طرح عکسری اور سیاسی غلطیوں کا ادراک کیے بغیر اصلاح کیسے ممکن ہے؟ سقوط ڈھاکا ایک سوچی سمجھی بین الاقومی سازش تھی یا ہماری غلط اور متصبانہ پالیسی کا منطقی انجام ، اس کا جواب حمود الرحمن کمیشن نے اپنی رپورٹ میں دے دیا گیا لیکن عام آدمی کی رسائی سے یہ رپورٹ دور ہے۔
یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ایک طرف تو بنگلہ دیش کی وزیراعظم حسینہ واجد(جو شیخ مجیب الرحمن کی بیٹی ہیں) نے ان افراد کے خلاف نہ صرف مقدمات قائم کیے بلکہ ان کو پھانسی بھی دی جو 1971 میں تحریک بنگلہ دیش کے خلاف اور پاکستان کے حامی تھے اور دوسری طرف ہم ہیں کہ جن کا ملک دولخت ہو گیا۔ہم ان کرداروں پر مقدمات تو چلانا درکنار ان کے جرائم سے بھی قوم کوبے خبر رکھے ہوئے ہیں۔
حمود الرحمن کمیشن رپورٹ نے بڑے واضح انداز میں ان صاحب اختیار لوگوں کی نشاندہی کی ہے جن پر کھلی عدالت میں مقدمہ چلانا یا کورٹ مارشل کیا جانا ضروری ہے۔وقت کا تقاضہ ہے کہ حمود الرحمن کمیشن کی رپورٹ کو پوری طرح آشکارہ کیا جائے۔ اسے ہمارے تعلیمی نصاف میں شامل کیا جائے۔ پاکستان کے وکلاء اور سول سوسائٹی اس رپورٹ کی بنیاد پر پاکستان توڑنے والے کرداروں کے خلاف مقدمات عدالت میں لے کر جائے ۔ قوم یہ توقع بھی رکھتی ہے کہ سپریم کورٹ ا س رپورٹ کو عام کرنے کا حکم دے۔
جب تک ہم اپنی تاریخ کے اس المناک ترین سانحے کے اسباب و عواقب اور حالات سے بے خبر رہیں گے یہاں عوامی حاکمیت کا خواب پورا نہ ہو سکے گا۔ یہ انتہائی اہم ہے کہ ہم تاریخ پاکستان کے اس تلخ باب کے حقائق کو اس طرح سامنے لائیں کہ آیندہ آنے والی نسلیں اور حکومتیں ان غلطیوں کو نہ دوہرائیں۔
یاد رکھیں غلطیاں کبھی بانجھ نہیں ہوتی، اگر ان کو درست نہ کیا گیا تو تاریخ خود کو دوہراتی رہے گی۔ قوموں کی تاریخ میں آزمائشوں اور چیلنجز کا آنا ایک فطری عمل ہے۔ تاریخ کا دھاوا تسلسل سے رواں دواں رہتا ہے۔ سقوط ڈھاکا نے ہمیں یہ پیغام دیا ہے کہ عوامی مینڈیٹ کا احترام کریں۔آئین اور قانون کی حکمرانی کو اولیت دیں اور ذاتی مفاد پر قومی مفاد کو فوقیت دیں۔ اﷲ تعالیٰ ہمیں تاریخ سے سبق سیکھنے اور اپنی غلطیوں کی اصلاح کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔