نومبر کمرشل بینکوں کے ذخائر کا 92فیصد حکومت نے قرض لے لیا
حکومت کمرشل بینکوں سے مجموعی طور پر24.58ہزار ارب روپے کا قرض لے چکی ہے
نومبر میں کمرشل بینکوں کی جانب سے حکومت کو قرضے فراہم کرنے کی شرح 92 فیصد کے ساتھ تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے، جس کے بعد نجی اداروں کیلیے بینکوں سے قرض حاصل کرنے میں کوئی دلچسپی باقی نہیں رہی۔
بینکوں کے ذخائر سے متعلق اسٹیٹ بینک کے اعداد و شمار کے مطابق کمرشل بینکوں نے نومبر میں اپنے موجودہ26.79 ہزار ارب روپے کے مجموعی ذخائر میں سے حکومت کو 24.58 ہزار ارب روپے بطور قرض فراہم کیے ہیں، یہ قرضہ جات ڈیبٹ سیکیورٹیز جیسا کہ ٹی بلز اور پاکستان انویسٹمنٹ بانڈز کی صورت میں دیے گئے ہیں۔
گزشتہ ایک سال کے دوران ڈیبٹ سیکیورٹیز میں بینکوں کی سرمایہ کاری کی شرح بڑھ کر 33 فیصد اضافے سے 18.48 ہزار ارب روپے سے بڑھ کر 24.58 ہزار ارب روپے ہوگئی ہے، اسی طرح بینکوں کا انویسٹمنٹ ٹو ڈپوزٹ ریشو ( آئی ڈی آر ) 10.44 پرسنٹیج پوائنٹ اضافے سے 81.3 فیصد سے بڑھ کر 91.7 فیصد ہوگیا ہے۔
ایکسپریس ٹریبیون سے گفتگو کرتے ہوئے ریسرچ ہیڈ عارف حبیب لمیٹڈ طاہر عباس نے کہا کہ بلند شرح سود نے سرمایہ کاروں کو کاروبار کیلیے بینکوں سے قرضے حاصل کرنے سے روک دیا ہے، جس کی وجہ سے بینکوں کا سارا بہائو حکومت کی طرف ہے، حکومت کو سب سے زیادہ قرضہ ملازمین کی تنخواہوں اور پینشن کی ادائیگیوں کی وجہ سے لینا پڑ رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: قرضے 81.8 ہزار ارب روپے کی بلند ترین سطح پر پہنچنے کا تخمینہ
انھوں نے کہا کہ سرمایہ کاروں کی جانب سے قرضوں کے حصول کے امکانات اگلے سال پیدا ہوں گے، کیوں کہ اسٹیٹ بینک نے دسمبر 2024 تک شرح سود کو کم کرکے 15 فیصد تک لانے کا امکان ظاہر کررکھا ہے، اسٹیٹ بینک کے مطابق گزشتہ ایک سال کے دوران بینکوں کے ذخائر میں 18 فیصد اضافہ ہوا ہے، لیکن یہ رقوم قرضوں کی نذر ہونے کی وجہ سے معاشی سرگرمیوں پر کوئی مثبت اثر نہیں ڈال سکی ہیں۔
طاہر عباس نے مزید کہا کہ بلند شرح سود کی وجہ سے لوگوں نے اپنی رقوم بینکوں میں رکھنے کو ترجیح دی ہے اور اس طرح نقدی کی سرکولیشن میں کمی ہوئی ہے، جو معیشت کو دستاویزی بنانے کیلیے مددگار ہے، انھوں نے کہا کہ بینکوں کے ذخائر میں سب سے زیادہ اضافہ ترسیلات زر سے ہوا ہے۔
انھوں نے کہا کہ مختصر مدت تک یہ رجحان برقرار رہے گا، انھوں نے امید ظاہر کی کہ بیرونی فنانسنگ بڑھنے سے حکومت کا ڈومیسٹک قرضوں پر انحصار کم ہوجائے گا۔
بینکوں کے ذخائر سے متعلق اسٹیٹ بینک کے اعداد و شمار کے مطابق کمرشل بینکوں نے نومبر میں اپنے موجودہ26.79 ہزار ارب روپے کے مجموعی ذخائر میں سے حکومت کو 24.58 ہزار ارب روپے بطور قرض فراہم کیے ہیں، یہ قرضہ جات ڈیبٹ سیکیورٹیز جیسا کہ ٹی بلز اور پاکستان انویسٹمنٹ بانڈز کی صورت میں دیے گئے ہیں۔
گزشتہ ایک سال کے دوران ڈیبٹ سیکیورٹیز میں بینکوں کی سرمایہ کاری کی شرح بڑھ کر 33 فیصد اضافے سے 18.48 ہزار ارب روپے سے بڑھ کر 24.58 ہزار ارب روپے ہوگئی ہے، اسی طرح بینکوں کا انویسٹمنٹ ٹو ڈپوزٹ ریشو ( آئی ڈی آر ) 10.44 پرسنٹیج پوائنٹ اضافے سے 81.3 فیصد سے بڑھ کر 91.7 فیصد ہوگیا ہے۔
ایکسپریس ٹریبیون سے گفتگو کرتے ہوئے ریسرچ ہیڈ عارف حبیب لمیٹڈ طاہر عباس نے کہا کہ بلند شرح سود نے سرمایہ کاروں کو کاروبار کیلیے بینکوں سے قرضے حاصل کرنے سے روک دیا ہے، جس کی وجہ سے بینکوں کا سارا بہائو حکومت کی طرف ہے، حکومت کو سب سے زیادہ قرضہ ملازمین کی تنخواہوں اور پینشن کی ادائیگیوں کی وجہ سے لینا پڑ رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: قرضے 81.8 ہزار ارب روپے کی بلند ترین سطح پر پہنچنے کا تخمینہ
انھوں نے کہا کہ سرمایہ کاروں کی جانب سے قرضوں کے حصول کے امکانات اگلے سال پیدا ہوں گے، کیوں کہ اسٹیٹ بینک نے دسمبر 2024 تک شرح سود کو کم کرکے 15 فیصد تک لانے کا امکان ظاہر کررکھا ہے، اسٹیٹ بینک کے مطابق گزشتہ ایک سال کے دوران بینکوں کے ذخائر میں 18 فیصد اضافہ ہوا ہے، لیکن یہ رقوم قرضوں کی نذر ہونے کی وجہ سے معاشی سرگرمیوں پر کوئی مثبت اثر نہیں ڈال سکی ہیں۔
طاہر عباس نے مزید کہا کہ بلند شرح سود کی وجہ سے لوگوں نے اپنی رقوم بینکوں میں رکھنے کو ترجیح دی ہے اور اس طرح نقدی کی سرکولیشن میں کمی ہوئی ہے، جو معیشت کو دستاویزی بنانے کیلیے مددگار ہے، انھوں نے کہا کہ بینکوں کے ذخائر میں سب سے زیادہ اضافہ ترسیلات زر سے ہوا ہے۔
انھوں نے کہا کہ مختصر مدت تک یہ رجحان برقرار رہے گا، انھوں نے امید ظاہر کی کہ بیرونی فنانسنگ بڑھنے سے حکومت کا ڈومیسٹک قرضوں پر انحصار کم ہوجائے گا۔