روس کا آخری بادشاہ نکو لس دوئم

جس کے غلط فیصلوں نے اشتراکی انقلاب کی راہ ہموار کی اور بادشاہت کا خاتمہ ہوگیا


عرفان احمد بیگ December 17, 2023
جس کے غلط فیصلوں نے اشتراکی انقلاب کی راہ ہموار کی اور بادشاہت کا خاتمہ ہوگیا ۔ فوٹو : فائل

ماہر ین کے مطابق ہماری زمین یعنی دنیا کی عمر ساڑھے چار ارب سال ہے جب کہ اس دنیا میں حضرتِ انسان 25 لاکھ سال قبل وارد ہوئے اور انسان کی تاریخ اُس وقت لکھی جا نے لگی جب انسان نے تقریباً ساڑھے تین ہزار سال قبل مسیح حروف ِ تہجی ایجاد کئے ۔

اگرچہ قبل ازتاریخ کے وہ واقعات جو حروف ِ تہجی کی ایجاد کے وقت تک نسل در نسل اور سینہ بہ سینہ اُس وقت تک کے انسانوں تک پہنچے تھے اِن میں سے بہت سے غیرتصدیق شدہ انداز میں آج بھی ہمارے علم میں ہیں، پھر قبل از تاریخ کے کچھ حالات، واقعات اور شخصیات کے اعتبار سے ماہرین اور محققین نے دنیا بھر کے آثار قدیمہ سے بھی اخذ کئے ہیں جن کی بنیاد پر یہ واضح ہے کہ بادشاہت کا نظام ہزاروں برس پرانا ہے۔

الہامی مذاہب اور اِن کی کتابوں کے اعتبار سے ہمیں حضرت داؤد علیہ السلام اور حضرت سلیمان علیہ السلام کی بادشاہتوں کا ذکر ملتا ہے۔ پھر داستانوں کے لحا ظ سے دیکھیں تو ہمیں 4000 سال قبل عراقی تہذیب میں یعنی 2279 قبل مسیح شہنشاہ سارگون کی سلطنت کے آثار ملتے ہیں۔ اس کی حکومت دریائے دجلہ وفرات کے علاقے میں تھی، یہ بہت زرخیز علاقہ تھا۔ انسانی تہذیب میں اس پہلے بادشاہ کو بطور بادشاہ اس لئے تسلیم کیا جاتا ہے کہ اس کی سلطنت میں اس کی نہ صرف فوجی قوت بہت زیادہ تھی بلکہ اس کا نظام حکومت بھی پہلی بار بادشاہت کے اعتبار سے بہت منظم تھا۔

امن و امان کے ساتھ عدل و انصاف کے الگ شعبے تھے اور کاروبار اور تجارت کے لیے بھی قوانین تھے، انصاف کی فراہمی اور معاشرے کے مختلف شعبوں میں سرکاری طور پر انتظامی شعبے قائم تھے جب کہ جدید انداز کے نظام حکومت کے اعتبار سے سلطنتِ روم کی بنیاد پر رومولس''Romulus '' کو دنیا کی تاریخ میں پہلا بادشاہ قرار دیا جاتا ہے۔

اسی کے نام سے روم کا شہر آباد ہوا جو اس سے پہلے ایک گاؤں تھا ۔ رومن میتھالوجی یا دیومالا کے مطابق Romulus رومولس جنگ کے دیوتا یا خدا King Numitorبادشاہ نیومیٹورکی بیٹی کا بیٹا تھا۔ اس کا دور حکومت 753-717 قبل مسیح تھا ۔ یوں دیکھا جائے تو دنیا کے قدیم ترین معاشروں میں بھی بادشاہت کو عوام معتبر اور مقدس سمجھتے تھے اور مذاہب کی تعلیمات میں اِن کوشروع ہی سے عام لوگوں کے مقابلے میں اعلیٰ مرتبہ کا حامل اس بنیاد پر سمجھا جاتا کہ بادشاہ خدا کی طرف سے بنایا جاتا ہے یا بھیجا جاتا ہے بلکہ بادشاہت کے مستحکم رکھنے میں مذہبی پیشوا اہم کردار ادا کرتے تھے۔

یوں بادشاہت کے لیے نسل درنسل صدیوں سے عوام میں اِن بادشاہوں کو عقائد کی بنیاد پر مقدس تصور کروایا جاتا تھا، مذہبی پیشوا اِن بادشاہوں کے حوالے سے ایسے ناقابل یقین قصے اور واقعات وابستہ کر دیتے تھے کہ اُس زمانے کے لوگ اِن مذہبی عقائد کی بنیاد پر یقین کرتے تھے اور اِن کے خلاف بغاوت کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے ۔

ہمارے ہاں بھی داستانوی ادب میں ایک جانب غیرمرئی یعنی غیرحقیقی کردار ، دیو، جن ، بھوت ، پریاں ، جادونگری کے جادوگر یا باکرامات بزرگ ہوتے تھے اور جو انسانی کردار ہوتے تھے ۔

وہ بادشاہ ، ملکہ ، شہزادہ ، شہزادی ، وزیر اور کھبی کبھار شہزادی کی سہیلی وزیرزادی ہوا کرتے تھے اور یہی کردار طاقتور اور ظالم جادوگر سے لڑتے اپنی ناقابل یقین فن سپہ گری اور فہم و فراست اور سب سے اہم یہ کہ خدا کی جانب سے خصوصی مدد جو اکثر باکرامت بزرگ کی صورت میں ہوتی۔

اللہ تعالیٰ کے یہ بزرگ مدد کے لیے صرف بادشاہ ، ملکہ ، شہزادے اور شہزادی کی دعا پر نمودار ہوتے تھے اور اِن کے مسئلے حل کر کے ظالم جادوگر یا دیو کو ختم کر کے سامنے سے غائب ہو جاتے تھے یعنی ہزاروں سال سے مذہبی پیشوا اور ادیب و دانشور اپنی دانش سے عوام کو یہ باور کر واتے رہے کہ بادشاہ پر خدا کا سایہ ہوتا ہے اور اس طرح بادشاہ عوام پر خدا کے سائے کی حیثیت رکھتا ہے اور اُس زمانے میں اگر کو ئی دانشور یا باشعور شخص اِ ن بادشاہوں کو اپنی طرح کا انسان قرار دیتا تو اُس کے خلاف انتہائی اقدامات کئے جاتے تھے۔



اگرچہ مذہبی اعتبار سے دیکھا جائے تو دین ِاسلام کو شرف حاصل ہے کہ نبی کریم محمد ﷺ نے جمہوریت کی بنیاد پر ملوکیت کی بجائے خلافت کا نظام پیش کیا جو حضورؐ کے و صال کے بعد بھی حضرت علیؓ کی شہادت تک جاری رہا۔ اس کے بعد دنیا میں تقریباً دو سوسال قبل ہر جگہ باد شاہت ہی رہی ۔ دنیا میں بادشاہت کا نظام قبائلیت یا جاگیردارانہ بنیادوں پر قائم رہا ۔ قبائلی نظام میں ہر قبیلے کا سردار اہم اور طاقتور ہوتا ہے اور پورا قبیلہ اُس کی بات مانتا ہے اور قبیلے کی اہمیت اُس قبیلے کے افراد کی تعداد گھوڑوں اور ہتھیاروں کی تعداد پر منحصر ہوتی تھی اور آج بھی افریقہ اور ایشیا کے کچھ علاقوں میں ایسا ہی قبائلی نظام موجود ہے۔

بادشاہت کے نظام سے متعلق یہ مفروضہ دلائل اور تحقیق کے اعتبار سے تقریباً درست ہی تسلیم کیا جاتا ہے کہ دنیا میں بادشاہت کے نظام کی بنیاد اسی قبائلی نظام سے پڑی یعنی یہ مفروضہ ہے کہ پہلی بار کوئی قبائلی سردار جو زیادہ طاقتور ہوا ہو گا اُس نے اپنی طاقت کی بنیاد پر باقی قبیلوں اور اُ ن کے سرداروں کو اپنے ماتحت کر لیا ہوگا ۔

تاریخ میں ہمارے ہاں اس کی حقیقی اور تاریخی مثالیں یعنی قبائلیت سے بادشاہت اور پھر بادشاہت میں جاگیردارانہ نظام کے اعتبار سے کافی ہیں، مگر تین مغل فاتحین اور شہنشاہ اس لحاظ سے اہم ہیں، پہلا مغل فاتح (تموچین) چنگیز خان تھا جو منگولیہ کے علاقے میں ایک قبائلی سردار تھا اُس نے باقی سرداروں کو اپنا ماتحت بنایا اور پھر بہت سے ملک فتح کیے۔

اس کا دور حکو مت 1206 ء سے1227 ء تک رہا اس کے بعد دوسرا مغل فاتح امیر تیمور تھا جس کا دور حکومت 1294 ء سے 1307 ء تک رہا اس کے بعد تیسرا مغل فاتح ظہیر الدین بابر تھا جس کا پہلا دور بطور امیر کابل 1504 ء سے 1526 ء تھا اور دوسرا دورِ حکو مت بطور شہنشاہ ہند 20 اپریل 1526 ء سے 26 دسمبر 1530 ء تک رہا۔ چنگیز خان اور امیرتیمور نے پہلے قبائل کو ماتحت کیا اور پھر بہت سے ملکوں کو فتح کیا ، اِن کے ہاں بادشاہت کے لحاظ سے وارثت کا کوئی نظام نہیں تھا۔

اس لیے چنگیز خان اور تیمور کی وفات کے بعد اُن کی بادشاہتیں ملکوں اور خطوں یا علاقوں کی بنیادوں اور پھر چھوٹی چھوٹی ریاستوں کی بنیاد پر نسل در نسل تقسیم ہوتی رہیں ، ظہیر الدین بابر جس کی ماں چنگیز خان کی نسل سے اور باپ عمر شیخ مرزا، امیر تیمور کی نسل سے تھا ، تیمور کی وفات کے بعد بابر کے باپ عمر شیخ مرزا تک تیمور کی سلطنت نسل در نسل تقسیم ہوتی گئی۔

عمر شیخ مرزا کے حصے میں ازبکستان کی ایک چھوٹی ریاست فرغانہ آئی ۔ جب عمر شیخ مرزا فوت ہوا تو بابر کی عمر صرف بارہ سال تھی، باپ کی وفات پر چچا نے اُس کی ریاست پر حملہ کیا تو اُس نے بھاگ کر اپنی جان بچائی اور پھر عرصے بعد ساتھیوں کی مدد سے اور قبائل کو جمع کر کے کابل فتح کیا اور اس کے بعد انہی سرداروں کی مدد سے 1526 ء میں پانی پت کی پہلی جنگ میں ہندوستان کے بادشاہ ابراہیم لودھی کو شکست دے کر ہندوستان پر قبضہ کر لیا۔

تاریخ کا یہ عمل رہا ہے کہ شروع میں قبائل عموماً پہاڑی علاقوں میں خانہ بدوش ثقافت کو اپنائے ایک وسیع علاقے میں اپنے مال مویشی کے ساتھ رہتے، یہ قبائل نسلی لحاظ سے ایک ہوتے زبان، لباس، روایات، رسم و رواج، مذہب یعنی ثقافت بھی ایک ہوتی مگر یہ اپنے اپنے مخصوص علاقے میں آزاد ہوتے اور اپنے سردار ہی کے وفادار ہوتے اور اس وفادار ی میں بھی غیرت و حمیت خصوصاً ایک دوسرے کی خواتین اور مال کا احترام قبائلی نظام اور جرگہ کی بنیاد پر بہت مستحکم ہوتا۔

یہ قبائل عموماً آپس میں لڑتے جھگڑتے بھی پھر اِن میں صلح صفائی بھی ہو جاتی ، پہاڑی علاقوں میں رہنے کی وجہ سے اِن کی زندگی میں جفاکشی عام ہوتی تھی ۔ شکار،گھوڑ سواری ، نیزہ بازی ، تیر اندازی اور شمشیر زنی کے ساتھ بہادری اِن کے اوصاف میں شامل ہوتی ۔ جب کسی بیرونی طاقت کا خطرہ ہوتا تو یہ قبائل قومی اور نسلی بنیادوں پر اکھٹے ہو جاتے اور دشمن کا مقابلہ کرتے ۔

اگر علاقے میں خشک سالی یا قحط کی صورتحال ہوتی تو بھی قبائل یک جا ہو جاتے اور اپنے میں سے کسی ایک بڑے قبیلے کے سردار کو بطور سربراہ تسلیم کر لیتے اور پھر اپنی اور اپنے مال مویشیوں کی بقا کے لیے خوشحال ملکوں اور سرسبز و شاداب علاقوں کا رخ کرتے ۔ یہ علاقے عموماً بڑی سلطنتوں کا حصہ ہوتے۔

اس لیے اِن قبائل کو سخت مقابلے کا سامنا کرنا پڑتا۔ سلطنتوں کے بادشاہ عموماً اپنی بڑی افواج کے ساتھ مقابلہ کرتے بعض اوقات قلعہ بند ہو جاتے اور یہ قبائل اُن کا محاصرہ کرتے ۔ کبھی خوراک ختم ہو جانے پر محاصرہ ترک کر کے واپس چلے جاتے اور کبھی قلعے بھی مسمار کر کے فتح حاصل کر لیتے اور پھر یہاں سے عموماً لوٹ مار کر کے اور کچھ روز قیام کر کے واپس لوٹ جاتے، کیونکہ اس دوران اِن کے آبائی علاقوں میں موسم بہتر ہو جاتے ،خشک سالی اور قحط کی صورتحال ختم ہو جاتی ، مگر بعض اوقات یوں بھی ہوتا کہ وہ بڑا قبائلی سردار جو اِن قبائل کا سربراہ ہوتا یہا ں اُن قبائل کی طاقت کی بنیاد پر اپنی سلطنت قا ئم کر لیتا اور مفتوحہ ملک کے صوبوں میں اپنے بیٹوں ، بھائیوں ، چچا وغیرہ یعنی قریبی رشتہ داروں کو گورنر مقر ر کر دیتے اور پھر پورے مفتوحہ ملک کے اَن صوبوں میں اُن قبائل کے سرداروں کو جو اُس کے لشکر کے ساتھ مفتوحہ ملک کو فتح کر نے میں شامل ہوتے تھے ۔

اِن سرداروں کو اُن کے قبائل کی تعداد کو مدنظر رکھتے ہوئے بڑے بڑے زرعی رقبوں پر مشتمل جاگیریں دے دی جاتیں ، یوں یہ قبائلی نظام جو بادشاہت قائم کرتا فوراً جا گیردارنہ نظام کی بنیاد پر مفتوحہ ملک جہاں پہلے ہی برسوں اور بعض اوقات صدیوں جاگیردارانہ بنیادوں پر ایسے ہی کسی قبائلی نظام کی بنیاد پر بادشاہت قائم کی ہوئی ہوتی تھی ۔

وہاں نئی بادشاہت ایک نئے یا قدرے نیم انداز کے نئے جاگیردارانہ نظام کے ساتھ نئی بادشاہت یا سلطنت قائم ہو جاتی تھی اس طرح یہ جاگیردارانہ بنیاد پر قائم ہو نے والی سلطنت کا نظام اس طرح کام کرتا تھا۔

تاریخ میں ہمارے ہاں اور دنیا کی بیشتر سلطنتوں میں بادشاہ جو جاگیر کسی کو عطا کرتا تھا وہ جاگیر اُس کی ذاتی ملکیت نہیں ہوتی تھی اور جب تک وہ جاگیردار بادشاہ کا وفادار ہوتا تھا یہ جاگیر اُس کے یا اُس کے جا نشینوں کے پاس رہتی تھی اور یہ جاگیر بادشاہی کی طرح جاگیردار کی وفات کے بعد عموماً جاگیردار کے بڑے بیٹے یا جانشین کو منتقل ہو جاتی تھی جس کے لیے بھی بنیادی شرط بادشاہ سے وفاداری ہوتی تھی ۔

جاگیردار اُن افراد سے اُس لشکر کے ساتھ جو اُس کے قبیلے کی حیثیت سے اُس ملک کی فتح میں بادشاہ کے ساتھ ہوتا ، اُس کے قبیلے کے افراد ہی وہاں اُس جاگیر یا علاقے میں امن و امان قائم کرنے کے لیے فوج اور پولیس کے فرائض انجام دیتے اور بادشاہ کو جب ضرورت پیش آتی تو یہی جاگیردار اپنی اسی فوج کو لے کر بادشاہ کی مدد کو پیش ہو جاتا اور یہ بھی تلخ مگر تاریخی حقیقت ہے کہ جب محلاتی سازش ہوتی تو یہی جاگیردار سازش میں شریک ہوتے یا بادشاہت کے کمزور ہونے پر آنے والے بادشاہ کے حامی ہو جاتے یا خودمختار ہو جاتے تھے ۔

ہمارے ہاں برصغیر میں اِس کی بہترین مثال پہلے مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر کی تھی، بابر کے دور ِحکومت میںقبائل جو 1526 ء کی پانی پت کی پہلی جنگ میں ظہیر الدین بابر کے ساتھ تھے ، اُن سردار وں کو نئے جاگیردار بنا کر ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کی بنیاد رکھی ، یہی ظہیر الدین بابر تھے جنہوں نے مغلوں کے جانشینی کے نظام کو تبدیل کیا اور اپنے بیٹے ہمایوں کو جانشین یعنی ولی عہد مقرر کیا تھا ، مگر بابر کی وفات کے بعد اِ س کو اس کے بھائیوں نے تسلیم نہیں کیا اور ہمایوں کے خلاف بغاوت کر دی۔

اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے بنگال کے علاقے سراسرم کے جاگیردار شیر شاہ سوری نے ہمایوں کو شکست دے کر بادشاہت پرقبضہ کر لیا تو ہمایوں یہاں سے فرار ہوا اور ایران میں پناہ حاصل کی۔ شیر شاہ سوری بوڑھا ہو چکا تھا بادشاہت حاصل کرنے کے پانچ سال بعد فوت ہو گیا، اس کے جا نشین نا اہل تھے۔

اس لیے ہمایوں نے ایران کی مدد سے دوبارہ ہندوستان کی بادشاہت حاصل کر لی۔ پھر دوسری مرتبہ مغلوں میں جانشینی اور سلطنت کی تقسیم پر مغل بادشاہ شاہجہان کے بیٹوں میں جنگ تخت نشینی ہوئی اور ، اورنگزیب عالمگیر نے اس میں فتح حاصل کی اسی جنگ کے نتیجے میں ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کمزور ہوئی اور اورنگزیب عالمگیر کی وفات 1707 ء میں سلطنت اُس کے تین بیٹوں میں تقسیم ہوگئی، اور وہ جاگیردار جو مغلیہ سلطنت کے ساتھ تھے عملی طور پر خودمختار ہو گئے ۔ البتہ روایتی طور پر یہ جاگیر دار دہلی کی مغلیہ بادشاہت کو اپنا بادشاہ تسلیم کرتے تھے مگر مالی اور فوجی طور پر دہلی کی مغلیہ بادشاہت کی مدد نہیں کرتے تھے ۔

جب ہمارے ہاں یہ دور گزر رہا تھا تو اِس سے تقریباً پانچ سوسال قبل برطانیہ میں جاگیردارنہ نظام نے بادشاہت کو ختم نہیں کیا بلکہ ہاؤس آف لارڈ یعنی دربار میں وہ جاگیردار جن کی بنیاد پر سلطنت برطانیہ قائم تھی اُن کے جاگیردارانہ نظام نے بادشاہ کے اختیارات کم کر دیئے اور یہ معاہدہ برطانیہ کی تاریخ میں میگناکارٹا (Magna Carta )کہلایا ۔ یہ معاہدہ 1215ء میں بادشاہ جان کے دور میں ہوا تھا اور یہاں ہی سے برطانیہ میں بادشاہت روایتی انداز سے اور جمہوری اعتبار سے ارتقائی مراحل طے کرتی مستحکم ہوتی گئی۔



اس کے تقریباً ساڑھے پانچ سو برس بعد انقلابِ فرانس آیا۔ اٹھارویں صدی کے آخر میں فرانس کے چند رائٹر، دانشور جن میں روسو اور والئٹیز زیادہ اہم ہیں یہ فلاسفرز اور دانشور دنیا بھر میں اور خصوصاً فرانس میں بادشاہت اور جاگیردارانہ نظام کے خلاف اپنے نظریات عوام کے سامنے لائے ، اس کی چند ایک وجوہات میں سے ایک وجہ دنیا میں رونما ہونے والی صنعتی ترقی اور نو آبادیاتی نظام بھی تھا ۔

مصر کے آخری باد شاہ شاہ فاروق نے کہا تھا کہ دنیا میں آخر میں صرف پانچ بادشاہ رہ جائیں گے جن میں چار بادشاہ تاش کے ہوں گے اور ایک بادشاہ برطانیہ کا ہو گا اور واقعی یہ درست ہے کیونکہ برطانیہ میں میگنا کارٹا نے بادشاہت کے اختیار کو تو محدود کیا جو آنے والے زمانوں میں ہاوس آف لارڈ کے ہاتھوں سے بھی نکل کر ہاؤس آف کامن یعنی عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والی جمہوری پارلیمنٹ کے پاس آ گئے لیکن بادشاہت کو جمہوریت کے لیے خطرہ بننے سے روک دیا تو دوسری جانب پارلیمنٹ کو بھی اخلاقی اور قانون طور پر برطانیہ کی روایتی بادشاہت کا محافظ بنا دیا۔

اب یورپ میں ایک جانب تو تاریک دور کے بعد سائنس اور ٹیکنالوجی میں تحقیق کی بنیاد پر تیز رفتار ترقی ہوئی تو اسی علمی اور تحقیقی ترقی کی بنیاد پر صنعتی پیداوا میں اضافے کی وجہ سے تاریخی فتوحات کا پرانا انداز بھی تبدیلی ہوا۔

یورپ میں جاگیردارنہ نظام اسی پوری صنعتی اقتصادی اور تجارتی ترقی کی زد میں آیا، صنعت کاروں نے ایک جانب تو یورپ و امریکہ میں راویتی جاگیردارانہ نظام کو چیلنج کیا اور اس کو آزاد اقتصادیات و تجارت اور جمہوریت کی بنیاد پر پارلیمنٹ کے تابع بنایا اور غلام داری کے نظام کو جو اس صنعتی اور تجارتی نظام کے لیے نقصان کا سبب تھا ترک کر دیا تو دوسری جانب سرمایہ دارانہ نظام کی وجہ سے اِس کا تضاد اشتراکیت کا نظایہ بھی ابھرا مگر اس سے قبل انقلاب ِ فرانس اور انقلابِ فرانس سے چند دہائیوں قبل امریکہ 1775 ء میں امریکہ کی 13 شمالی ریاستوں نے برطانیہ کی جانب سے ٹیکسوں کے عائد کرنے کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے اس جنگ آزادی کا آغاز کیا جس کی قیادت امریکی صدر جارج واشنگٹن نے کی اور اس کے مقابلے کے لیے برطانوی فوج کے کمانڈر سر ولیم ہاو تھے ۔

اس جنگ آزادی میں امریکی فوج کے تقریباً 70000 فوجی جب کہ برطانوی کے 26000 فوجی ہلاک ہوئے ۔ یہ جنگ آزادی 1775 ء سے 1783 ء تک جاری رہی ۔

انقلاب ِ فرانس1848-49 ء دنیا میں انقلابات کی ماں تصور کیا جاتا ہے ۔ یہ دنیا خصوصاً یورپ میں تبدیلوں کا نقطِہ آغاز تھا اور انقلاب سے اُس وقت 50 سے زیادہ ممالک اس سے متاثر ہوئے ، جرمنی میں 5 مئی 1818 ء پیدا ہو نے والے کارل مارکس کی عمر انقلاب فرانس کے وقت تیس اکتیس برس تھی اور 19 سال بعد 49 سال کی عمر میں اُس نے لندن میں اپنی مشہورر زمانہ کتاب داس کیپیٹل لکھی، اس کے 16 سال بعد کارل مارکس 14 مارچ 1883 ء کو انتقال کر گیا۔

کارل مارکس کے ا نتقال سے 13 سال پہلے 22 اپریل 1870 ء پیدا ہو نے والے ولادیمیراللیچ لینن نے اپنے قریبی ساتھی اسٹالن کے ساتھ 17 اکتوبر 1917 ء روس میں کارل مارکس کے اشتراکی نظریات کی بنیاد پر روس کے بادشاہ نیکوس دوئم کا تخت الٹ کر انقلاب برپا کر دیا لیکن انقلاب کے اعتبار سے فکری تسلسل کا اگر جائزہ لیا جائے تو امریکی جنگ آزادی اور اس کے فوراً بعد انقلاب فرانس کی تیسری اور اہم کڑی سابق سوویت یونین کا اشتراکی انقلاب تھایوں جہاں امریکی جنگ آزادی جو دنیا کی سب سے بڑی نو آبادیاتی قوت برطانیہ کے خلاف لڑی اِن کی وجہ سے مغرب یورپ اور امریکہ میں جمہوری بنیادوں پر اور آزادانہ تجارت وصنعت اور جمہوریت کے ساتھ مغرب یورپ اور امریکہ میں تبدیلیوں کا آغاز ہو گیا یا یوں کہا جائے کہ جمہوری عمل کے ساتھ آزادانہ تجارت و اقتصایات کا ارتقا شروع ہوا تو اس کے تضاد میں اشترکی نظام سابق سوویت یونین میں نافذ العمل ہوا۔

واضح رہے کہ روس میں اکتوبر1917 ء میں جب کمیو نسٹ انقلاب آیا تو اُس وقت پہلی جنگ عظیم جاری تھی اور روس برطاینہ، فرانس اور دیگر یورپی ملکوں کے اتحاد میں، جرمنی اور ترکیہ کی سلطنت عثمانیہ کے خلاف شامل تھا۔ یوں انقلاب کے بعد لینن اور اسٹالن نے عوام سے اپنے وعدے کے مطابق روس کو جنگ عظیم اوّل سے باہر نکال لیا اور اس خلا کو امریکہ نے پُر کر دیا۔

روس میں وائٹ آرمی یعنی انقلاب مخالف فوج اور انقلابی حکومت کے درمیان تناؤ اور جنگ جاری تھی لیکن دنیا کی دیگر قوتیں جنگِ عظیم اوّل کی وجہ سے روس کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کر رہی تھیں اور جنگ کے بعد اگرچہ اتحادیوں نے جرمنی اور سلطنتِ عثمانیہ کو شکست دے دی تھی مگر اب خود اتحادی مالی اور اقتصادی بحرانوں کا سامنا کر رہے تھے لیکن اس کے باوجود 1924 ء میں لینن کے انتقال کے بعد 1925 ء میں اسٹالن کے اقتدار میں آنے تک روس میں اشتراکی انقلاب مستحکم نہیں ہو پایا تھا جہاں تک روس کے آخری بادشاہ نکولس دوئم کا تعلق ہے۔

تو اشتراکی انقلاب کے بعد روس کے آخری بادشاہ نیکولیس دوئم اور اِس کے خاندان کو انقلابیوں نے گرفتار کر کے قید کر دیا تھا مگر اُن کا قتل اُس وقت نہیں کیا تھا مگر روسی زار شاہی رومانوف خاندان کے آ خری بادشاہ نکولس دوئم اُن کی بیوی ملکہ الیگزینڈرا اور اِن کے پانچ بچوں اولگا، تاتیانا، ماریا، اناستاسیا اور الیکسی کو یاکاٹربرگ میں 16 اور17 جولائی 1918 ء کی درمیانی رات گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔

اسی رات کو اِن کے علاوہ اِن کے ساتھ آنے والے یوجین ، بوتکن ،انادیمیدووا، الیکسی تروپ، اور ایوان خارتیونوف کو بھی قتل کر کے اِن کی لاشوں کو مسخ کر کے کوپتیا کے جنگل میں دفن کر دیا یو ایس ایس آر حکو مت کے مطابق جب ریڈ اور وائٹ آرمی کے درمیان جنگ جاری تھی اور یاکاٹربرگ پر وائٹ آرمی کے قبضے کا خطرہ بڑھ گیا تو سابق زارنکولس رومانوف کو اِس کے خاندان کے افراد اور دیگر ممبران سیمت فائرنگ اسکواڈ کے ذریعے قتل کر دیا گیا۔

چیکو سلواکہ لیجن کے ریسرچرز کے مطابق اِن کے قتل کا حکم لینن اور یاکوف سیورڈلوف اور فیلکس ڈززنسکی نے دیا تھا اس واقعہ کے 61 برس بعد 1979 ء میں الیگزنڈرایدن وئن نے اِن مقتولین کی تدفین کی جگہ تلاش کر لی مگر 1989 ء میں گاباچوف کے انقلابی اقدامات گلاسنوسٹ تک اِن کی باقیات کو تسلیم نہیں کیا گیا بعد میں بر طانیوی فرانزک اور ڈی این ٹیسٹ سے اِن کی تصدیق ہو گئی 1998 ء میں اس شاہی خاندان کی باقیات کو 80 سال بعد سینٹ پیٹربرگ میں واقع پیٹر اور پال کیتھیڈرل میں ریاستی جنازوں کی آخری رسومات ادا کی گئیں مگر اِن میں روسی آرتھو ڈوکس چرچ کے اہم اراکین نے شرکت نہیں کی جنہوں نے باقیات کی صداقت سے اختلاف کیا تھا کچھ مورخین کا خیال ہے کہ روس کی خانہ جنگی کے دوران جب چیکو سلاواکیہ کی وائٹ آرمی کویاکاٹربرگ میں اس شاہی خاندان کو بچانے کے لیے بہت نزدیک پہنچ گئی تھی تو اِن کو قتل کر نے کا حکم دیا گیا اور اگر ایسا نہ کیا جاتا تو نکولس اور اُس کے خاندان کو یہ بچا کر لے جاتے تو یہ روس کے نئے اشتراکی انقلاب کے لیے ایک مشکل مرحلہ بن جاتا، کیونکہ روسی عوام میں بھی ایک بڑی اکثریت اُس زمانے کے دیگر ملکوں کے عوام کی طرح شاہ پرست تھی۔

نکولس دوئم 18 مئی 1868 ء کو پیدا ہوا، اپنے والد الیگزینڈر سوئم کی وفات کے بعد یکم نومبر 1894ء کو بادشاہ بنا اور 26 مئی 1896 ء کو اس کی تاج پوشی ہوئی۔ روس میں بادشاہت کا پس منظر یو ں ہے کہ روس کی تاریخ اتنی پرانی نہیں ہے۔ 826 ء میں سلاویک کے لوگوں نے یوکرائن اور روس کی جانب ہجرت کی تھی۔ یہاں پہلی بادشاہت بادشاہ روریک نے قائم کی۔ 980 ء میں کیوان بادشاہت آئی۔ 1015 ء میں Yaroslov برسر اقتدار آئے۔ 1237 ء میں منگولوں کے حملے رہے، شہر اور قصبے بر باد ہو گئے۔

1462 ء میں آئیوان سوم گریٹ پرنس آف ماسکو کا دور شروع ہوا۔ 1480 ء میں آئیوان نے منگولوں سے روس کو آزاد کر وا لیا۔ 1547 ء میں آئیوان پنجم کی حکو مت شروع ہوئی۔ اُس نے سلطنت کو وسعت دی یہی پہلا زار بادشاہ کہلا یا۔ 1609 ء میں روس پولینڈ جنگ ہوئی۔ 1613 ء میں رومانوف زار بادشاہ بنا اور اسی کی نسل کا آخری بادشاہ نکولس دوئم تھا۔

اگر چہ 1480 ء سے لے کر آج تک روس دنیا کی ایک اہم قوت تسلیم کیا جاتا رہا ہے، 1689 ء سے پہلے تک مغربی یورپ کے مقابلے میں روس ایک پسماندہ ملک تصور کیا جاتا تھا، مغربی یورپ کے لوگ روسیوں کو اپنے مقابلے میں جاہل، غیرتہذیب یافتہ کہتے تھے اور یہ کچھ غلط بھی نہ تھا کہ روس میں اُس وقت تک غلام داری کا نظام نہ صرف موجود تھا بلکہ بہت مضبوط بھی تھا مگرجب 1689 ء میں زار پیٹر اعظم بادشاہ بلکہ شہنشاہ بنا تو اُس نے ملک میں زبردست اصلاحات کیں ۔

پیٹر اعظم 1672 ء میں پیدا ہوا اور 1725 ء میں وفات پائی۔ جب پیٹر بادشاہ بنا تو اُس وقت 244110 مربع کلومیٹر پر مشتمل جزیزہ ملک برطانیہ تھا۔ 2 کروڑ 23 لاکھ سے زیادہ مربع کلومیٹر رقبے کا حامل ملک روس کے مقابلے میں کہیں زیادہ ترقی یافتہ اور جمہوری، عسکری اور اقصادی قوت تھا اور برطانیہ اُس وقت دنیا کی سپر پاور تھا ۔ برطانیہ نے یہ مقام علم و تحقیق کی بنیاد پر حاصل کیا تھا اور روشن خیالی اور حقیقت پسندی برطانیہ کے عوام کا مزاج بن گیا تھا۔

اُس وقت تک دیگر کئی محققین ، سائنس دانوں اور دانشوروں کے علاوہ فرانسس بیکن ،اولیور گروم ویل ، جان لاگ اور ولیم ہاروے جیسی شخصیات برطانیہ سمیت مغربی یورپ کو مستفید کر چکی تھیں۔ پھر 1533 ء سے 1603 ء تک بر طانیہ میں ملکہ الزبتھ اوّل کی دانا اور روشن خیال حکمران تھی اس ملکہ نے 45 سال تک حکومت کی اور اس دوران اور اس عرصے میں ملکہ الزبتھ نے برطانیہ کی بحریہ کو پوری دنیا کی مضبوط بحریہ بنا دیا۔

1588 ء میں اسپین سے'' جنگِ آرمیڈہ'' میں اسپین کی دنیا کی مضبوط بحریہ کو شکست دی اور پھر پہلی عالمی جنگ ِ تک برطانیہ کی یہ حیثیت قائم رہی۔ اسی ملکہ کے دور میں برطانیہ میں عظیم شاعر ڈرامہ نگار شیکسپئیر پیدا ہوا، اسی دور میں دنیا کا عظیم ترین سائنس دان آئزک نیوٹن 1642 ء میں پیدا ہوا اور 1727 ء وفات پائی۔ جب زار پیٹر اعظم بادشاہ بنا تو نیوٹن اپنی مشہور کتاب principia لکھ چکا تھا ۔

یہاں میں یہ کہنے کی جرات کروں گا کہ بادشاہتوں اور سلطنتوں میں درجنوں اور بعض مرتبہ سینکڑوں بادشاہ اور ملکائیں گزر جاتی ہیں تو کہیں کوئی ایک اعظم پید اہوتا ہے جیسے برصغیر کی تاریخ میں دو شہنشاہ ہی اعظم ہوئے ایک اشوک اعظم اور دوسرا اکبر اعظم تھا اور پیٹر اعظم سے پہلے بھی روس رقبے کے اعتبار سے دنیا کا سب سے بڑا ملک تھا لیکن یہ ملک تر قی یافتہ اور تہذیب یا فتہ ہرگز نہیں تھا ۔ پیٹر اعظم نے اس ملک کو ترقی یافتہ بنایا، البتہ پیٹر اعظم ملک کو جمہوری نہ بنا سکا اور بد قسمتی سے پیٹر اعظم کے بعد آنے والے بادشاہوں نے پیٹر اعظم کی طرح اصلاحات کا عمل جاری نہیں رکھا ۔

پیٹر اعظم جب اقتدار میں آیا تو اس نے تھوڑے عرصے بعد ہی 1697-98 ء میں اپنے 250 اہم ترین مشیروں، دانشوروں کے ہمراہ پیورتور میخائیلوف کے جعلی نام سے مغربی یورپ خصوصاً برطانیہ کا دورہ کیا ۔

پرشیا میں اس نے اسلحہ سازی کی تکنیک کو سمجھا، ہالینڈ میں ڈچ ایسٹ انڈیا کمپنی میں اُس نے ترکھان کی حیثیت سے کام کیا، بر طانیہ کی رائل نیوی میں اُس نے ایک کم درجے کے مزدور کی طرح کام کیا، اُس نے برطانوی پارلیمنٹ کے اجلاس کی کاروائیاں بھی دیکھیں ، اسی طرح اُس کے250 مشیر مختلف شعبوں میں کام کر کے تجربے، مشاہد ے اور علم کی بنیاد پر اس قابل ہو گئے کہ جب وہ واپس ہوئے تو پیٹر اعظم کے ہمراہ روس کے ہر شعبے میں اُس وقت کے مطابق جدید اصلاحات کیں ، روس سے فوری طور پر غلام داری کا نظام ختم کیا اور یوں روس جلد ہی حقیقی معنوں میں ایک جدید اور ترقی یافتہ ملک بن گیا۔ پیٹر دی گریٹ کے دور میں روس فوجی اعتبار سے بھی ایک بڑی قوت بن چکا تھا لیکن اُس نے اپنی زیادہ تر توجہ ملک کی صنعتی اور اقتصادی ترقی کی جانب رکھی۔

پیٹر اعظم کی وفات کے بعد روس کی کئی جنگیں اس کی ہمسایہ ملک ترکی کی سلطنت عثمانیہ سے رہیں ۔ 1736 ء میں روس کی بڑی جنگ سلطنت عثمانیہ سے ہوئی ، پھر 1757 ء سے 1762 ء تک روس سات سالہ جنگ میں بھی شامل رہا اور بغیر کسی معاہدے کے اس جنگ سے باہر آگیا۔ 1762 ء میں زار پیٹر سوئم کو قتل کر دیا گیا تو اُس کی ملکہ کیتھرائن کا 34 سالہ ایک اچھا دور گزرا۔ جب روس میں خوش حالی تھی تو اس کے تھوڑے عرصے بعد ہی 1789 ء سے1799 ء فرانس انقلاب سے گزرا۔

1778 ء میں جب انقلاب فرانس کے مفکرین روسو اور وائلٹیئر انتقال کر گئے تو کارل مارکس 60 سال کی عمر کو پہچ چکا تھا اور اپنی مشہور کتاب داس کیپیٹل اور کیمونسٹ مینیفسٹو لکھ چکا تھا اس کے تھوڑے عرصے بعد ہی نپولین جو 1769 ء میں پید اہوا تھا وہ بعد میں فرانس کی فوج کا سپہ سالار بنا۔ 1795 ء میں فرانس کی افراتفری پر قابو پا کر اُس نے بڑی فتوحات کا آغاز کر دیا لیکن 24 جون 1812 ء میں نیپولین سے بڑی غلطی ہوئی اور اُس نے روس کے خلاف فوج کشی کر دی حالانکہ بارہ سال قبل جب نپولین بوناپارٹ فرانس کا کمانڈر انچیف تھا تو زار روس جان پال نے تجویز دی تھی کہ نپولین اگر ہندوستان پر حملہ کرے تو روس سنٹرل ایشیا اور افغانستان سے ہوتا ہوا بلوچستان کے راستے فرانسیسی فوج کی مدد کو پہنچے گا۔

واضح رہے کہ 1799 ء میں انگریزوں نے میسور میں ٹیپو سلطان کو شہید کر دیا تھا۔ ٹیپو نے شہادت سے تھوڑے عرصے پہلے تک فرانس اور نپولین سے رابط کیا تھا مگر ایک تو فرانس میں انقلاب کے دوران انقلابی لیڈر شب کا بحران تھا اور نپولین بھی اقتدار حاصل کر نے اور فرانس کو مستحکم کر نے کا تصور رکھتا تھا۔

روس کے بادشاہ الیگزنڈر اوّل نے اپنے ملک کے وسیع رقبے اور شدید سرد موسم کا انتظار کیا حالانکہ اس دوران ایسا بھی ہوا کہ ماسکو سے صرف سات میل دور نپولین کی فوج نے ایک دن میں 72 ہزار افرادکو ہلاک کر دیا لیکن روسی فوج نے اپنی اسٹرٹیجی کو تبدیل نہیں کیا اور وہ پسپا ہو تے اور اپنے شہروں کو خود ہی آگ لگا دیتے تھے ، پھر دسمبر 1812 ء تک نپولین کی سپلائی لائن کاٹ دی اور پھر سردی کی شدت سے نپولین کی فوج کے 6 لاکھ فوجی ہلاک ہو گئے، جب کے اس کے مقابلے میں 4 لاکھ روسی بھی ہلاک ہوئے۔ اگر چہ روس نے نپولین کی فوج کو شکست دے دی لیکن روسی فوج اور بادشاہت اس سے کمزور ہوئی۔ 1825 ء میں سینٹ پیٹر برگ میں جمہوریت کے حامیوں کی بغاوت کا واقعہ پیش آیا۔

پھر 1853 ء سے روس کے خلاف کریمیا کا محاذ جنگ کھلنے لگا جس میں ایک جانب روس تھا دوسری جانب فرانس، برطانیہ سلطنت سارڈینیا اور ترکی کی سلطنت عثمانیہ کا اتحاد تھا۔ یہ جنگ 1856 ء تک جارہی اور جنگ کے اختتام پر معاہدہ پیرس ہوا اس جنگ میں روس کے ہاتھوں سے بہت سے علاقے نکل گئے نیکولس دوئم کے بادشاہ بننے کے تقریباً دس سال بعد 1904 ء میں روس کی جا پان سے جنگ ہو ئی یہ جنگ مینچوریا بحیرہزرد yellow Sea جزیرہ نما کوریا ،بحیرہ جاپان کے علاقے میں لڑی گئی اس جنگ کو ٹالنے کے لیے جاپان نے کو شش کی مگر روس کا رویہ ایسا تھا کہ جاپان کو کامیابی نہیں ہو ئی جنگ میں بادشاہ نیکو لس کی فوجوں کی تعداد1365000 تھی اور جا پانی بادشاہ میجی کی فوج کی تعداد 1200000 تھی یہ جنگ 8 فروری 1904 سے5 ستمبر 1905تک ایک ساک سات مہینے جاری رہی اس جنگ میں 526223 روسی فوجی ہلاک ہو ئے اور مزید 18830 بیماری سے مرے 143260 زخمی ہو ئے اور 74369 روسی فوجی جنگی قیدی بنے جب کہ جاپان کی فوج کے 55655 فوجی ہلاک اور بیماری کی وجہ سے 27200 ہلاک ہو ئے اور چند ہزار زخمی بھی ہوئے اگر چہ اس سے پہلے زار روس بادشاہت کے پچاس سال جنگوں کے اعتبار سے روس کے حق میں نہیںرہے تھے لیکن جاپان کی فتح اور روس کی عبرت ناک شکست آج بھی ماڈرن وار ہسٹری میں اپنی خاص اہمیت کی حامل ہے۔

اس جنگ کی وجہ اُس زمانے میں یہ تھیں کہ روس کو بحرالکاہل پر اپنی بحریہ اور بیرونی تجارت کے لیے گرم پانیوں کی بندر گاہ کی ضرورت تھی کیونکہ دلادوستوک کی بندرگاہ صرف گرمیوں میں ہی کام آتی تھی اور سردیوں میں جب کی جاپان کے ذریعے سے لیز پر دئیے جانے بحری اڈے ،،پورٹ آرتھرسارا سال کرتا تھااورروس اس بندر گاہ پر قبضہ چاہتا تھاجاپان کی شاندارفتح اور روس کی عبرت ناک شکست کے بعد روس کے بادشاہ نیکولس کی مقبولیت کو دھچکا پہنچا تھا پھر بد قسمتی کہ اسی سال یعنی 1905 ء میں بادشاہ نیکولیس خاندان میں بد نام زمانہ اور پُر اسرار شخصیت گری گوری راسپوٹین داخل ہوا،نیکولیس کا ولی عہد کو سیلان ِ خون کی مہلک بیماری ہو گئی اور پورے روس میں کو ئی حکیم ڈاکٹر اس کا علاج نہیں کر سکا تو راسپوٹین نے اس ولی عہد کا علاج کیا اور وہ مکمل طور پر صحت یاب ہو گیا اس کے بعد راسپوٹین کی روحانی قوتوں سے زارروس نیکولس اور اُس کی ملکہ زارینہ بہت متاثر ہو ئے راسپوٹین کی مداخت روس کی سیاست ،اقتصایات اوردفاعی امور میں ہوگئی۔

اب نیکولس کوئی بھی اقدام راسپوٹین کے مشورے کے بغیر نہیں اٹھا تا تھا یہاں تک کے ملکہ زارینہ اور نیکولیس نے راسپوٹین کو روسی کلیسا کا سر برہ مقرر کر دیا راسپوٹین کے عجیب و غریب نظریات تھے اُ س کا کہنا تھا کہ انسان خدا کے قریب اُس وقت ہو تا جب اُس کے دل سے گنا ہ کی خو اہش ہی ختم ہو جا ئے یوں انسان اتنے گناہ کرے کہ انسان کے دل سے گناہ کرنے کی خواہش ہی ختم ہو جائے اور پھر خدا سے معافی مانگ کر اپنا روحانی رابطہ بحال کرلے راسپوٹین چونکہ جنسی بنیادوں پرایسے خیالات رکھتا تھا۔

اس لیے عوام میں زار روس نیکولیس اورملکہ کے بارے میں یہ ا فواہیں بہت گردش کرتی رہیں کہ راسپو ٹین کے جنسی تعلقات شاہی خاندان سے ہیں یوں ماہرین یہ کہتے ہیں کہ اصل میں1905 ء سے 1916 ء تک جب راسپوٹین کو قتل کیا گیا روس کے اقتدار پر راسپوٹین کا ہی اختیار تھا اس اعتبار سے زار نیکولیس عوام میں غیر مقبول ہو تے گئے دوسری جانب اس صورتحال میں نیکولیس راسپوٹین اس صورتحال سے گھبرا کر زیادہ سے زیادہ اختیارت اپنے ہاتھ میں لے لیئے پھر روس میں اشتراکیت کے نظریات عوام کی ایک بڑی اکثریت مقبول ہو ئے کیونکہ اُس وقت روس جنگ اوّل میں 1917 ء روس کے تینتیس لاکھ سے زیادہ افراد ہلاک ہو ئے تھے۔

جن میں سے پندرہ لاکھ فوجی تھے اور اس سے اہم یہ کہ روس کو ئی غریب ملک نہیں تھا لیکن یہاں دولت کی تقسیم بہت ہی غیر منصفانہ تھی نہ صرف امرا کے پاس اربوں ڈالر تھے بلکہ خود زار نیکولیس اُ سوقت دنیا کا سب سے امیر آدمی تھا Bloomberg بلمبرگ 2020 ء میں دنیا کا امیر ترین آدمی جیف بیروزس ہے جس کی مجموعی دولت 151 ارب ڈالر ہے پندرویں صدی سے لے کر اب تک نیکو لیس کا درجہ دنیا میں چوتھارہا تھا آج وہ دنیا کا امیر ترین آدمی ہوتا کیونکہ اس کی دولت 250 ارب سے 300 ارب ڈالر کے برابر ہوتی یوں دنیا میں رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑی سلطنت اور ملک کے آخری بادشاہ اور دنیا کے امیرین ترین نیکولیس دوئم کواس کے خاندان کے باقی افراد کے ہمراہ 16 اور17 جو لائی کی درمیانی رات کو قتل کر دیا گیا روس میں آج بھی بادشاہوں میں پیٹردی گریٹ کو یاد کیا جا تا ہے۔

وہ تاریخ میں دس عظیم اور کامیاب باد شاہوں میں شمار ہوتا ہے جب کہ میں یہاں یہ کہوں کہ نیکولیس دوئم کا شمار تاریخ کے اُن تین باشاہوں ہوتا ہے جن کی بادشاہت کا اختتام عوامی انقاب کے نتیجے میں ہو ااِن فرانس کا آخری باشاہ لوئی ہشانز دہم جو 18 سال تک فرانس کا بادشاہ رہا اور انقلاب فرانس کے نتیجے میں انقلابیوں نے 10 اگست1792 ء کو اُس کا سر قلم کر دیا۔

ایران کے بادشاہ کو انقلاب کی وجہ سے جلاوطنی میں موت آئی اور نیکولیس کو سزائے موت دی گئی خلیل بجران کہتا ہے مقتول اپنے قتل میں برا برکاشریک ہو تا ہے روس میں بادشاہت کو اتنی جلدی خطرہ نہ ہو تا اگر نیکولیس دوئم اپنے دور اقتدار کم ازکم جاپان سے جنگ کر نے کی حماقت نہ کرتا یا وہ راسپوٹین جیسی شخصیت کے زیرِ اثرا نہ ہو تا یا کم سے کم وہ کسی طرح جنگ عظیم اوّل کے خاتمے 1918ئتک اقتدارمیں رہ جا تا تو جنگ کے بعدوہ بہت سے علاقے جو نو آبادیات کی صورت روس کو ملنے تھے وہ روس کو مل جاتے اور روسی قوم جب نیکولیس کو33 لاکھ روسیوں کی جانوں کے نذرانوں کے فاتح کے طور پر دیکھتی تو جاپان سے بھی شکست کو بھی بھول جا تی لیکن نکولیس بد قسمت بادشاہ تھا جس کے کئی غلط فیصلوں وجہ ہی سے اشتراکی انقلاب کا راستہ ہموار ہوا اور روس سے بادشاہت کا خاتمہ ہوا ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں