اسلام میں جانوروں کے حقوق
اسلام نے جانور اور حیوان کو عذاب دینا حرام قرار دیا ہے۔
اسلام ہمیں سکھاتا ہے کہ جانوروں کے ساتھ بھی شفقت اور رحم کا معاملہ کرنا چاہیے اور ظلم سے باز رہنا چاہیے۔ اسلام کے جامع مذہب ہونے کی دلیل یہ بھی ہے کہ اس نے جانوروں کے حقوق بھی بیان کردیے ہیں اور ایسا کیوں نہ ہو کہ اللہ تعالی نے اپنے نبی ﷺ کو سراپا رحمت بناکر بھیجا ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے: ترجمہ: اور ہم نے آپ کو سارے عالم کے لیے رحمت بناکر بھیجا۔
نبی کریمﷺ نے جانوروں کے حقوق بھی بیان فرمائے؛ چناں چہ بہت سی احادیث اور نصوص سے ثابت ہے کہ جانوروں پر احسان اور ان کے ساتھ نرمی اور شفقت ورحمت عبادت ہے، جو بعض دفعہ اجروثواب کے اعلٰی درجات اور اسبابِ مغفرت کے سبب تک پہنچاتی ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اس اثنا میں کہ ایک آدمی راستہ چلا جارہا تھا، اسے سخت پیاس لگی (چلتے چلتے) اس کو ایک کنواں ملا، وہ اس کے اندر اترا اور پانی پی کر باہر نکلا، تو کیا دیکھتا ہے کہ ایک کتا ہے جس کی زبان باہر نکلی ہوئی ہے اور پیاس کی شدت سے وہ کیچڑ کھارہا ہے، اس آدمی نے دل میں کہا کہ اس کتے کو بھی پیاس کی ایسی ہی تکلیف ہے جیسی کہ مجھے تھی (اور وہ اس کتے پر رحم کھاکر)پھر کنویں میں اترا اور اپنے چمڑے کے موزے میں پانی بھر کر اس کو اپنے منہ سے پکڑا اور کنویں سے باہر نکل کر اس کتے کو پانی پلایا، اللہ تعالی نے اس کی اس رحم دلی کو قبول فرمایا، اس کو بدلہ دیا اور اسی عمل پر اس کی مغفرت فرمادی۔
صحابہؓ نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ! کیا جانوروں (کی تکلیف دور کرنے) میں بھی ہمارے لیے اجر وثواب ہے؟
آپ نے فرمایا: ہاں، ہر زندہ اور ترجگر رکھنے والے جانور (کی تکلیف دور کرنے) میں ثواب ہے۔ (بخاری حدیث:5009 ، مسلم حدیث:153۔2244)
ایک دوسری حدیث میں ہے، نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ایک زانیہ عورت نے سخت گرمی کے دن ایک کتے کو دیکھا جو ایک کنویں کے گرد چکر لگارہا تھا اور پیاس کی شدت کی وجہ سے اپنی زبان نکالے ہوئے تھا، تو اس نے اپنے چمڑے کے خف سے کنویں سے پانی نکالا اور اس کتے کو پلایا، اللہ تعالی نے اس کے اس عمل کی وجہ سے اس کی مغفرت فرمادی۔ (مسلم حدیث:154۔2245)
ہر ذی روح کو کھلانا پلانا باعث اجر
ایک صحابی ؓنے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں اپنے اونٹ کو پانی پلانے کے لیے حوض میں پانی بھرتا ہوں اور دوسرے کا اونٹ آکر اس میں سے پانی پی لیتا ہے تو کیا مجھے اس پر ثواب ملے گا؟
آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں، اور سنو! ہر زندہ اور تر جگر رکھنے والے جانور کو کھلانا پلانا لائق اجر ہے۔ (ابن ماجہ حدیث:3686، مسند احمد حدیث:7075)
چرندپرند کو دانہ ڈالنے سے صدقے کا ثواب آدمی جو کھیتی کرتا ہے، یا باغ لگاتا ہے اور اس کی کھیتی اور درخت سے کوئی جانور یا پرندہ کچھ کھالیتا ہے، یا چگ لیتا ہے تو اس میں بھی مالک کو ثواب ملتا ہے، خواہ صاحبِ کھیت اور درخت والے کو اس کا علم نہ ہو۔ نبی رحمت ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو مسلمان کوئی درخت لگاتا ہے، یا کھیتی کرتا ہے اور اس درخت یا کھیتی میں سے کوئی چڑیا، یا آدمی، یا جانور کھاتا ہے تو اس لگانے والے یا بونے والے کو صدقہ کا ثواب ملتا ہے۔ (بخاری حدیث:2320، مسلم حدیث12: 1553)
حیوانات کو تکلیف دینا گناہ
شریعت نے جہاں حیوان کے ساتھ نرمی کرنے اور حسن سلوک کو عبادتوں میں شمار کیا ہے وہیں حیوان کے ساتھ برا سلوک، بلاوجہ اس کو تکلیف وعذاب دینے اور پریشان کرنے کو گناہ اور معصیت گردانا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ایک عورت کو ایک بلی کی وجہ سے عذاب دیا گیا، جس کو اس نے باندھ کر رکھا تھا، یہاں تک کہ بھوکی پیاسی مرگئی؛ اس لیے وہ عورت جہنم میں داخل ہوئی، نہ اس نے خود اسے کھلایا پلایا جب اس نے اس کو قید کیا اور نہ ہی اس نے اس کو چھوڑا کہ وہ زمین کے کیڑے مکوڑوں کو کھاکر اپنی جان بچاتی۔
(بخاری حدیث:2482، مسلم حدیث:151۔2242)
جانوروں کو عذاب دینا حرام
اسلام نے جانور اور حیوان کو عذاب دینا حرام قرار دیا ہے۔ مختلف احادیث میں اس کی ممانعت آئی ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا گزر ایک مرتبہ ایک گدھے کے پاس سے ہوا جس کے چہرے کو لوہا گرم کرکے داغا گیا تھا، تو آپ نے فرمایا: کیا تم لوگوں کو یہ بات نہیں پہنچی کہ میں نے لعنت بھیجی ہے اس آدمی پر جو چوپائے کے چہرے کو داغے یا اس کے چہرے پر مارے؟ پس آپ نے اس سے منع فرمایا۔ (ابوداؤد حدیث:2564)
اور ترمذی کی حدیث میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے جانور کے چہرے کو داغنے اور مارنے سے منع فرمایا۔ (ترمذی حدیث:1710)
ایک اور حدیث میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے لعنت بھیجی ہے اس آدمی پر جو جانور کو مثلہ کرے یعنی زندہ جانور کے اعضا (ہاتھ، پیر، ناک، کان، دم وغیرہ) کاٹے۔ (بخاری حدیث: 5515 )
جانوروں پر تیر چلانا
اسلام نے جانور کو قید کرکے اسے نشانہ بنانے سے منع فرمایا، جیسے کسی پرندے کو یا بکری کو باندھ دیا جائے اور اس کو تیر یا گولی سے نشانہ بنایا جائے اور مارا جائے یہاں تک کہ وہ مرجائے؛ اس لیے کہ یہ اس حیوان کو عذاب دینا اور تکلیف پہنچانا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: تم ایسی چیز کو نشانہ مت بناؤ جس میں روح اور جان ہو۔ (مسلم حدیث58:، ترمذی حدیث:1475)
ایک اور حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے لعنت بھیجی ہے اس آدمی پر جو جان دار چیز کو نشانہ بنائے۔ (مسلم حدیث:1985)
جانوروں کو آپس میں لڑانے کی ممانعت
ہر وہ عمل جس سے جانور کو تکلیف اور ایذا دینا لازم آئے شریعت مطہرہ میں ممنوع ہے، جیسے دو بیلوں یا سانڈوں کو آپس میں لڑانا، یا مرغے، یا مینڈھے کو آپس میں لڑانا، یا پرندوں کو بلافائدہ قید کرکے رکھنا، یا عمل دشوار کے ذریعہ جانور کو ذبح کرنا۔ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جانوروں اور چوپایوں کو آپس میں لڑانے سے منع فرمایا۔ (ابوداؤد حدیث:2562 ، ترمذی حدیث: 1708)
حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ اپنے رسالہ جانوروں کے حقوق میں اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
مرغ بازی بٹیربازی اور مینڈھے لڑوانا اسی طرح کسی جانور کو لڑانا سب اس میں داخل ہے او رسب حرام ہے کہ خواہ مخواہ ان کو تکلیف دینا ہے اور اسی کے حکم میں ہے گاڑی بانوں کا بیلوں کو بھگانا کہ وہ بھی ہانپ جاتے ہیں اور بعض اوقات سواریوں کو چوٹ لگ جاتی ہے اور بجز تفاخر اور مقابلے کے اس میں کوئی مصلحت نہیں اور گُھڑدوڑ وغیرہ جب کہ اس میں جوا نہ ہو اس سے مستثنٰی ہے کہ ان کی مشاقی میں مصلحت ہے۔
( ارشاد الہائم فی حقوق البہائم:19)
حاصل یہ ہے کہ چوپایوں کو آپس میں لڑانا، بھڑانا حرام اور ممنوع ہے، کسی کو اس کی اجازت نہیں ہے؛ اس لیے کہ آپس میں لڑنے والے دو جانوروں میں سے ہر ایک دوسرے کو تکلیف پہنچاتا ہے اور زخمی کرتا ہے (جس کا سبب لڑانے والا بنا ہے) اور اگر خود جانوروں کو لڑانے والا اپنے ہاتھ سے ایسا کرے تو اس کے لیے یہ جائز نہیں ہے (لہٰذا جانور کو تکلیف پہنچانے اور زخمی کرنے کا سبب بننا بھی جائز نہیں ہے)۔
ماکول اللحم جانور کو قتل کرکے یوں ہی پھینک دینا درست نہیں
ماکول اللحم جانور کو قتل کرکے یوں ہی پھینک دینا، اس سے فائدہ حاصل نہ کرنا، اس کو کام میں نہ لانا اور انتفاع نہ کرنا درست نہیں ہے؛ اس لیے کہ اللہ تعالی نے اس کے ذبح کو جائز قرار دیا ہے اسے کھانے اور اسے کام میں لانے کے لیے، نہ کہ ذبح کرکے عبث وبے کار چھوڑ دینے کے لیے۔
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے چڑیا، یا اس سے بڑے کسی جانور کو ناحق قتل کیا، اللہ تعالی قیامت کے دن اس سے اس کے بارے میں سوال کرے گا اور پوچھے گا، کسی نے دریافت کیا: یا رسول اللہ! اس کا حق کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: اس کا حق یہ ہے کہ تم اس کو ذبح کرکے کھاؤ، نہ یہ کہ اس کا سر کاٹ کر اس کو پھینک دو۔
(نسائی حدیث:4445)
ایک اور حدیث میں ہے کہ وہ جانور خود قیامت کے دن اللہ کی بارگاہ میں دعویٰ کرے گا:
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے کسی چڑیا کو عبث بلافائدہ قتل کیا وہ قیامت کے دن اللہ تبارک و تعالی سے فریاد کرے گی کہ اے اللہ! اس نے مجھے بے کار قتل کیا اور مجھے منفعت اور فائدے کے لیے قتل نہیں کیا۔ (نسائی حدیث: 4446، مسند احمد حدیث:19470)
بلافائدہ پرندے کو قید کرکے رکھنا گناہ
بلافائدہ کسی پرندے کو پریشان کرنا اور اس کے بچوں کو قید کرنا اور پکڑ کر رکھنا بھی درست نہیں ہے۔ حدیث میں ہے، صحابہؓ فرماتے ہیں کہ ہم ایک سفر میں تھے، حضورﷺ قضائے حاجت کے لیے تشریف لے گئے، اسی اثنا میں ہم نے ایک حمرہ پرندہ دیکھا، جس کے ساتھ دو چوزے (بچے) تھے، تو ہم نے اس کے بچوں کو پکڑلیا، پس وہ پرندہ آیا اور اپنے بچوں پر اپنے پروں کو پھیلانے لگا، اتنے میں نبی کریم ﷺ تشریف لائے اور فرمایا: کس نے اس کو اس کے بچوں کی وجہ سے مصیبت میں مبتلا کردیا ہے؟ اسے اس کے بچے لوٹادو۔ (ابوداؤد حدیث:2675)
جانوروں کو ذبح کرنے میں بھی احتیاط
اللہ تعالی نے بعض جانوروں کو ذبح کرکے اس کے گوشت سے انتفاع جائز قرار دیا ہے، ایسے جانوروں کو ذبح کرنا شریعت کے منشا کے عین مطابق ہے؛ لیکن اس میں بے راہ روی اور ظلم وزیادتی ناروا اور غیردرست ہے۔ ذبح کے سلسلے میں چند فرمانِ رسول اور آداب ملاحظہ فرمائیں:
(1) مسلم حدیث: 1955.57، ابوداؤد حدیث:2814، ترمذی حدیث:1409۔ اس حدیث میں آپ ﷺ نے ذبح کے تین آداب بیان فرمائے ہیں :(1) اچھی طرح ذبح کرے(2) ذبح سے پہلے چھری تیز کرلے(3) ذبح کے جانور کو ٹھنڈا ہونے دے، اس کے بعد کھال اتارے۔
(2)جانور کو مقام ذبح تک نرمی کے ساتھ لے جائے، اس کو بے دردی اور سختی کے ساتھ نہ گھسیٹے، حضرت عمرؓ نے ایک آدمی کو دیکھا جو ایک بکری کو ذبح کرنے کے لیے اس کی ٹانگ پکڑکر گھسیٹتا ہوا لے جارہا تھا تو انہوں نے اس سے فرمایا: اس کو موت کے لیے لے جاؤ اچھے طریقے سے۔ (رواہ عبدالرزاق، باب سنۃ الذبح، حدیث:8605)
(3) ایک جانور کے سامنے دوسرے جانور کو ذبح نہ کرے کہ اس سے اس کو تکلیف ہوگی۔
(5) ذبح کرنے والاجانور کے سامنے چھری تیز نہ کرے۔
(6) ذبح کے لیے جانور کو بے دردی سے نہ گرائے۔
(7) ذبح کرنے میں بھی رحمت وشفقت کا پہلو ملحوظ رہے۔ ایک صحابیؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہﷺ! مجھے بکری کو ذبح کرنے پر رحم آتا ہے؟ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: اگر تم اس پر رحم کروگے تو اللہ تم پر رحم کرے گا۔ (رواہ الحاکم، وقال صحیح الاسناد، حدیث نمبر:7562)
جانور کو چارہ کھلانا اور پانی پلانا اس کا حق ہے
جانور پر سواری اور باربرداری انسان کا حق لیکن اس بارے میں بھی شریعت میں واضح ہدایات موجود ہیں اور جانور کے حق کی رعایت ضروری ہے جیسے جانور کو چارہ کھلاکر سواری کرنا، جانور کی قدرت وطاقت سے زیادہ اس پر بوجھ نہ لادنا، بلاضرورت اس کو مار پیٹ نہ کرنا۔ یہ وہ چیزیں ہیں جن کی رعایت ضروری ہے۔
رسول اللہ ﷺ ایک انصاری کے باغ میں قضائے حاجت کے لیے داخل ہوئے، وہاں ایک اونٹ تھا، جب اس نے نبی کریم ﷺ کو دیکھا تو زور سے آواز نکالی اور اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے، نبی کریمﷺ اس کے پاس تشریف لائے، اس کی گردن پر ہاتھ پھیرا، پھر فرمایا: اس اونٹ کا مالک کون ہے؟ یہ اونٹ کس کا ہے؟ تو انصار کا ایک جوان آیا اور اس نے کہا: میرا ہے، یا رسول اللہ! آپ نے فرمایا: کیا تم ان چوپایوں اور جانوروں کے بارے میں اللہ سے نہیں ڈرتے جن کا اللہ نے تم کو مالک بنایا ہے، اس لیے کہ اس (اونٹ) نے مجھ سے شکایت کی ہے کہ تم اس کو بھوکا رکھتے ہو اور اس سے مسلسل کام لیتے ہو اور اس کو تھکاتے ہو۔ (ابوداؤد حدیث:2549)
ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہﷺ ایک اونٹ کے پاس سے گزرے، جس کی پیٹھ پیٹ سے لگ گئی تھی (بھوک کی وجہ سے) تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ان بے زبان چوپایوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو! پس ان پر اچھی حالت میں سواری کرو اور ان کو اچھی طرح کھلاؤ اور چارہ دو اور ایک روایت میں ہے۔ ان کو کھلاکر موٹا کرو اور ان پر صحیح طریقے سے سواری کرو۔ (ابوداؤد حدیث:2548، مسند احمد حدیث:17625، المعجم الکبیر للطبرانی حدیث:5620)
حضرت معاذ ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ ایک قوم کے پاس سے گزرے، اس حال میں کہ وہ اپنی سواریوں پر کجاوؤں میں بیٹھے ہوئے تھے اور سواریاں کھڑی تھیں ، تو رسول اللہﷺ نے ان سے فرمایا: چوپایوں پر سواری کرو، دراں حالے کہ وہ صحیح سلامت ہوں اور سواری کرکے ان کو چھوڑو، دراں حالے کہ وہ صحیح سلامت ہوں اور ان کو اپنی باتوں کے لیے راستوں اور بازاروں میں کرسیاں مت بناؤ (ان کو کھڑا کرکے ان کی پیٹھ پر بیٹھ کر لمبی لمبی باتیں نہ کرو۔
جس طرح تم کرسیوں پر بیٹھ کر گپ شپ مارتے ہو؛ اس لیے کہ اس سے جانور کو بلاضرورت تکلیف دینا ہے؛ بلکہ اگر باتیں کرنا ہو تو ان کی پشت سے اتر کر باتیں کرو) اس لیے کہ بہت سا مرکوب (سواری کا جانور) اس کے راکب یعنی سواری کرنے والے سے بہتر ہوتا ہے اور راکب سے زیادہ اللہ تبارک وتعالٰی کا ذکر کرنے والا ہوتا ہے۔ (مسند احمد حدیث:15629)
قدرت وطاقت سے زیادہ جانور پر بوجھ لادنا جائز نہیں
جانور پر اتنا بوجھ لادنا جس کی وہ قدرت وطاقت نہ رکھتا ہو جائز نہیں ہے، اسی لیے صحابہ کرامؓ یہ جانتے تھے کہ جو آدمی جانور پر اس کی قدرت سے زیادہ بوجھ لادے گا روزِقیامت اس سے حساب لیا جائے گا۔ حضرت ابودردائؓ کے بارے میں مروی ہے کہ ان کا ایک اونٹ تھا جس کا نام دمون تھا، وہ اس اونٹ کو مخاطب کرکے کہتے تھے: اے دمون! قیامت کے دن اپنے رب کے سامنے مجھ سے مخاصمت مت کرنا؛ اس لیے کہ میں نے تجھ پر تیری قدرت وطاقت سے زیادہ بوجھ کبھی نہیں لادا۔ (تفسیر قرطبی، سورئہ نحل: آیت:73.8-10)
مسیب بن آدم نے فرمایا کہ میں نے حضرت عمر ؓکو دیکھا کہ انہوں نے ایک اونٹ بان کو مارا اور فرمایا: تو اپنے اونٹ پر اتنا بوجھ لادتا ہے جس کی وہ قدرت نہیں رکھتا۔ (حوالہ بالا)
جو جانور سواری کے لیے نہیں ہے ان پر سوار ہونا جائز نہیں
جن جانوروں کو اللہ تعالی نے سواری کے لیے پیدا نہیں کیا ہے جیسے گائے، بیل، بکری وغیرہ ان پر سواری کرنا جائز نہیں ہے۔
قاضی ابوبکرابن العربی تحریر فرماتے ہیں کہ اس بارے میں کسی کا اختلاف نہیں ہے کہ گائے پر بیٹھنا اور سواری کرنا جائز نہیں ہے اور اکثر علماء کی رائے یہ ہے کہ گائے پر سواری کرنے کی ممانعت اس لیے ہے کہ وہ سوار کرنے کی طاقت نہیں رکھتی، اس سے وہی کام لیا جائے گا جس کی وہ قدرت رکھتی ہو جیسے کھیت کی جوتائی وغیرہ۔ (حقوق الحیوان والرفق بہا فی الشریعۃ الاسلامیۃ:31)
رسول اللہﷺ نے فرمایا: اسی درمیان کہ ایک آدمی اپنی ایک گائے پر بیٹھ کر اسے لے جارہا تھا، گائے اس کی طرف متوجہ ہوئی اور کہنے لگی: میں اس (سواری) کے لیے پیدا نہیں کی گئی ہوں، بلاشبہہ میں تو کھیتی کے لیے پیدا کی گئی ہوں۔ (بخاری حدیث:3663، مسلم حدیث:3288-13)
موذی جانور کو قتل کرنے کاضابطہ
اسلام نے موذی جانور کو مارنے اور قتل کرنے کی اجازت دی ہے، لیکن اس میں بھی احسان اور نرمی کا درس دیا ہے۔
حدیث نبوی ہے: اللہ تعالی نے ہر چیز پرخوش اسلوبی کو واجب قرار دیا ہے، پس جب تم کسی چیز کو قتل کرو تو اس کے لیے اچھا طریقہ اپناؤ۔ (مسلم حدیث: 1955-57، ابوداؤد حدیث:2814، ترمذی حدیث:1409)
تنبیہ: لغت عرب میں مشہور یہ ہے کہ لفظ قتل غیرماکول اللحم جانور کے لیے اور لفظ ذبح ماکول اللحم جانور کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی حدیث ہے، فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہﷺ کے ہمراہ ایک سفر میں تھے، رسول اللہﷺ نے چیونٹیوں کے ایک بل کو دیکھا جسے ہم نے جلادیا تھا، تو آپ نے فرمایا: کس نے اس کو جلایا؟ ہم نے کہا: ہم لوگوں نے، آپ نے فرمایا: آگ کے ذریعہ عذاب دینا صرف اللہ کے لیے سزاوار ہے۔ (ابوداؤد حدیث: 2675)
چیونٹی اور جوں کو مارنے کے بارے میں فقہ حنفی کی مشہور کتاب فتاوی بزازیہ میں لکھا ہے:
ترجمہ: مختار مذہب یہ ہے کہ چیونٹی اگر ابتدا کاٹے اور تکلیف پہنچائے تو اس کو مارنا جائز ہے ورنہ مکروہ ہے۔ جوں کو مارنا مکروہ نہیں ہے، جوں اور بچھو کو آگ میں جلانا مکروہ ہے۔
جانوروں اور چوپایوں کے حقوق سے متعلق اس مضمون سے یہ بات بالکل واضح ہوگئی کہ اسلام نے ان کے حقوق بھی کتنی اہمیت کے ساتھ بیان کیے ہیں اور یہ کہ اسلام کی لازوال تعلیمات کا کوئی بھی مذہب ہم سری اور مقابلہ نہیں کرسکتا اور ایسا کیوں نہ ہو کہ اسلام تاقیامت رہنے والا ہمہ گیر و بے نظیر مذہب ہے جس نے پیامِ انسانیت کا درس صرف انسان ہی نہیں بلکہ جن اور تمام مخلوقات کے حق میں پیش کیا ہے۔ اللہ تعالی ہر قسم کے حقوق ادا کرنے کی توفیق بخشے (آمین یارب العالمین)
نبی کریمﷺ نے جانوروں کے حقوق بھی بیان فرمائے؛ چناں چہ بہت سی احادیث اور نصوص سے ثابت ہے کہ جانوروں پر احسان اور ان کے ساتھ نرمی اور شفقت ورحمت عبادت ہے، جو بعض دفعہ اجروثواب کے اعلٰی درجات اور اسبابِ مغفرت کے سبب تک پہنچاتی ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اس اثنا میں کہ ایک آدمی راستہ چلا جارہا تھا، اسے سخت پیاس لگی (چلتے چلتے) اس کو ایک کنواں ملا، وہ اس کے اندر اترا اور پانی پی کر باہر نکلا، تو کیا دیکھتا ہے کہ ایک کتا ہے جس کی زبان باہر نکلی ہوئی ہے اور پیاس کی شدت سے وہ کیچڑ کھارہا ہے، اس آدمی نے دل میں کہا کہ اس کتے کو بھی پیاس کی ایسی ہی تکلیف ہے جیسی کہ مجھے تھی (اور وہ اس کتے پر رحم کھاکر)پھر کنویں میں اترا اور اپنے چمڑے کے موزے میں پانی بھر کر اس کو اپنے منہ سے پکڑا اور کنویں سے باہر نکل کر اس کتے کو پانی پلایا، اللہ تعالی نے اس کی اس رحم دلی کو قبول فرمایا، اس کو بدلہ دیا اور اسی عمل پر اس کی مغفرت فرمادی۔
صحابہؓ نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ! کیا جانوروں (کی تکلیف دور کرنے) میں بھی ہمارے لیے اجر وثواب ہے؟
آپ نے فرمایا: ہاں، ہر زندہ اور ترجگر رکھنے والے جانور (کی تکلیف دور کرنے) میں ثواب ہے۔ (بخاری حدیث:5009 ، مسلم حدیث:153۔2244)
ایک دوسری حدیث میں ہے، نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ایک زانیہ عورت نے سخت گرمی کے دن ایک کتے کو دیکھا جو ایک کنویں کے گرد چکر لگارہا تھا اور پیاس کی شدت کی وجہ سے اپنی زبان نکالے ہوئے تھا، تو اس نے اپنے چمڑے کے خف سے کنویں سے پانی نکالا اور اس کتے کو پلایا، اللہ تعالی نے اس کے اس عمل کی وجہ سے اس کی مغفرت فرمادی۔ (مسلم حدیث:154۔2245)
ہر ذی روح کو کھلانا پلانا باعث اجر
ایک صحابی ؓنے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں اپنے اونٹ کو پانی پلانے کے لیے حوض میں پانی بھرتا ہوں اور دوسرے کا اونٹ آکر اس میں سے پانی پی لیتا ہے تو کیا مجھے اس پر ثواب ملے گا؟
آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں، اور سنو! ہر زندہ اور تر جگر رکھنے والے جانور کو کھلانا پلانا لائق اجر ہے۔ (ابن ماجہ حدیث:3686، مسند احمد حدیث:7075)
چرندپرند کو دانہ ڈالنے سے صدقے کا ثواب آدمی جو کھیتی کرتا ہے، یا باغ لگاتا ہے اور اس کی کھیتی اور درخت سے کوئی جانور یا پرندہ کچھ کھالیتا ہے، یا چگ لیتا ہے تو اس میں بھی مالک کو ثواب ملتا ہے، خواہ صاحبِ کھیت اور درخت والے کو اس کا علم نہ ہو۔ نبی رحمت ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو مسلمان کوئی درخت لگاتا ہے، یا کھیتی کرتا ہے اور اس درخت یا کھیتی میں سے کوئی چڑیا، یا آدمی، یا جانور کھاتا ہے تو اس لگانے والے یا بونے والے کو صدقہ کا ثواب ملتا ہے۔ (بخاری حدیث:2320، مسلم حدیث12: 1553)
حیوانات کو تکلیف دینا گناہ
شریعت نے جہاں حیوان کے ساتھ نرمی کرنے اور حسن سلوک کو عبادتوں میں شمار کیا ہے وہیں حیوان کے ساتھ برا سلوک، بلاوجہ اس کو تکلیف وعذاب دینے اور پریشان کرنے کو گناہ اور معصیت گردانا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ایک عورت کو ایک بلی کی وجہ سے عذاب دیا گیا، جس کو اس نے باندھ کر رکھا تھا، یہاں تک کہ بھوکی پیاسی مرگئی؛ اس لیے وہ عورت جہنم میں داخل ہوئی، نہ اس نے خود اسے کھلایا پلایا جب اس نے اس کو قید کیا اور نہ ہی اس نے اس کو چھوڑا کہ وہ زمین کے کیڑے مکوڑوں کو کھاکر اپنی جان بچاتی۔
(بخاری حدیث:2482، مسلم حدیث:151۔2242)
جانوروں کو عذاب دینا حرام
اسلام نے جانور اور حیوان کو عذاب دینا حرام قرار دیا ہے۔ مختلف احادیث میں اس کی ممانعت آئی ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا گزر ایک مرتبہ ایک گدھے کے پاس سے ہوا جس کے چہرے کو لوہا گرم کرکے داغا گیا تھا، تو آپ نے فرمایا: کیا تم لوگوں کو یہ بات نہیں پہنچی کہ میں نے لعنت بھیجی ہے اس آدمی پر جو چوپائے کے چہرے کو داغے یا اس کے چہرے پر مارے؟ پس آپ نے اس سے منع فرمایا۔ (ابوداؤد حدیث:2564)
اور ترمذی کی حدیث میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے جانور کے چہرے کو داغنے اور مارنے سے منع فرمایا۔ (ترمذی حدیث:1710)
ایک اور حدیث میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے لعنت بھیجی ہے اس آدمی پر جو جانور کو مثلہ کرے یعنی زندہ جانور کے اعضا (ہاتھ، پیر، ناک، کان، دم وغیرہ) کاٹے۔ (بخاری حدیث: 5515 )
جانوروں پر تیر چلانا
اسلام نے جانور کو قید کرکے اسے نشانہ بنانے سے منع فرمایا، جیسے کسی پرندے کو یا بکری کو باندھ دیا جائے اور اس کو تیر یا گولی سے نشانہ بنایا جائے اور مارا جائے یہاں تک کہ وہ مرجائے؛ اس لیے کہ یہ اس حیوان کو عذاب دینا اور تکلیف پہنچانا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: تم ایسی چیز کو نشانہ مت بناؤ جس میں روح اور جان ہو۔ (مسلم حدیث58:، ترمذی حدیث:1475)
ایک اور حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے لعنت بھیجی ہے اس آدمی پر جو جان دار چیز کو نشانہ بنائے۔ (مسلم حدیث:1985)
جانوروں کو آپس میں لڑانے کی ممانعت
ہر وہ عمل جس سے جانور کو تکلیف اور ایذا دینا لازم آئے شریعت مطہرہ میں ممنوع ہے، جیسے دو بیلوں یا سانڈوں کو آپس میں لڑانا، یا مرغے، یا مینڈھے کو آپس میں لڑانا، یا پرندوں کو بلافائدہ قید کرکے رکھنا، یا عمل دشوار کے ذریعہ جانور کو ذبح کرنا۔ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جانوروں اور چوپایوں کو آپس میں لڑانے سے منع فرمایا۔ (ابوداؤد حدیث:2562 ، ترمذی حدیث: 1708)
حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ اپنے رسالہ جانوروں کے حقوق میں اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
مرغ بازی بٹیربازی اور مینڈھے لڑوانا اسی طرح کسی جانور کو لڑانا سب اس میں داخل ہے او رسب حرام ہے کہ خواہ مخواہ ان کو تکلیف دینا ہے اور اسی کے حکم میں ہے گاڑی بانوں کا بیلوں کو بھگانا کہ وہ بھی ہانپ جاتے ہیں اور بعض اوقات سواریوں کو چوٹ لگ جاتی ہے اور بجز تفاخر اور مقابلے کے اس میں کوئی مصلحت نہیں اور گُھڑدوڑ وغیرہ جب کہ اس میں جوا نہ ہو اس سے مستثنٰی ہے کہ ان کی مشاقی میں مصلحت ہے۔
( ارشاد الہائم فی حقوق البہائم:19)
حاصل یہ ہے کہ چوپایوں کو آپس میں لڑانا، بھڑانا حرام اور ممنوع ہے، کسی کو اس کی اجازت نہیں ہے؛ اس لیے کہ آپس میں لڑنے والے دو جانوروں میں سے ہر ایک دوسرے کو تکلیف پہنچاتا ہے اور زخمی کرتا ہے (جس کا سبب لڑانے والا بنا ہے) اور اگر خود جانوروں کو لڑانے والا اپنے ہاتھ سے ایسا کرے تو اس کے لیے یہ جائز نہیں ہے (لہٰذا جانور کو تکلیف پہنچانے اور زخمی کرنے کا سبب بننا بھی جائز نہیں ہے)۔
ماکول اللحم جانور کو قتل کرکے یوں ہی پھینک دینا درست نہیں
ماکول اللحم جانور کو قتل کرکے یوں ہی پھینک دینا، اس سے فائدہ حاصل نہ کرنا، اس کو کام میں نہ لانا اور انتفاع نہ کرنا درست نہیں ہے؛ اس لیے کہ اللہ تعالی نے اس کے ذبح کو جائز قرار دیا ہے اسے کھانے اور اسے کام میں لانے کے لیے، نہ کہ ذبح کرکے عبث وبے کار چھوڑ دینے کے لیے۔
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے چڑیا، یا اس سے بڑے کسی جانور کو ناحق قتل کیا، اللہ تعالی قیامت کے دن اس سے اس کے بارے میں سوال کرے گا اور پوچھے گا، کسی نے دریافت کیا: یا رسول اللہ! اس کا حق کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: اس کا حق یہ ہے کہ تم اس کو ذبح کرکے کھاؤ، نہ یہ کہ اس کا سر کاٹ کر اس کو پھینک دو۔
(نسائی حدیث:4445)
ایک اور حدیث میں ہے کہ وہ جانور خود قیامت کے دن اللہ کی بارگاہ میں دعویٰ کرے گا:
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے کسی چڑیا کو عبث بلافائدہ قتل کیا وہ قیامت کے دن اللہ تبارک و تعالی سے فریاد کرے گی کہ اے اللہ! اس نے مجھے بے کار قتل کیا اور مجھے منفعت اور فائدے کے لیے قتل نہیں کیا۔ (نسائی حدیث: 4446، مسند احمد حدیث:19470)
بلافائدہ پرندے کو قید کرکے رکھنا گناہ
بلافائدہ کسی پرندے کو پریشان کرنا اور اس کے بچوں کو قید کرنا اور پکڑ کر رکھنا بھی درست نہیں ہے۔ حدیث میں ہے، صحابہؓ فرماتے ہیں کہ ہم ایک سفر میں تھے، حضورﷺ قضائے حاجت کے لیے تشریف لے گئے، اسی اثنا میں ہم نے ایک حمرہ پرندہ دیکھا، جس کے ساتھ دو چوزے (بچے) تھے، تو ہم نے اس کے بچوں کو پکڑلیا، پس وہ پرندہ آیا اور اپنے بچوں پر اپنے پروں کو پھیلانے لگا، اتنے میں نبی کریم ﷺ تشریف لائے اور فرمایا: کس نے اس کو اس کے بچوں کی وجہ سے مصیبت میں مبتلا کردیا ہے؟ اسے اس کے بچے لوٹادو۔ (ابوداؤد حدیث:2675)
جانوروں کو ذبح کرنے میں بھی احتیاط
اللہ تعالی نے بعض جانوروں کو ذبح کرکے اس کے گوشت سے انتفاع جائز قرار دیا ہے، ایسے جانوروں کو ذبح کرنا شریعت کے منشا کے عین مطابق ہے؛ لیکن اس میں بے راہ روی اور ظلم وزیادتی ناروا اور غیردرست ہے۔ ذبح کے سلسلے میں چند فرمانِ رسول اور آداب ملاحظہ فرمائیں:
(1) مسلم حدیث: 1955.57، ابوداؤد حدیث:2814، ترمذی حدیث:1409۔ اس حدیث میں آپ ﷺ نے ذبح کے تین آداب بیان فرمائے ہیں :(1) اچھی طرح ذبح کرے(2) ذبح سے پہلے چھری تیز کرلے(3) ذبح کے جانور کو ٹھنڈا ہونے دے، اس کے بعد کھال اتارے۔
(2)جانور کو مقام ذبح تک نرمی کے ساتھ لے جائے، اس کو بے دردی اور سختی کے ساتھ نہ گھسیٹے، حضرت عمرؓ نے ایک آدمی کو دیکھا جو ایک بکری کو ذبح کرنے کے لیے اس کی ٹانگ پکڑکر گھسیٹتا ہوا لے جارہا تھا تو انہوں نے اس سے فرمایا: اس کو موت کے لیے لے جاؤ اچھے طریقے سے۔ (رواہ عبدالرزاق، باب سنۃ الذبح، حدیث:8605)
(3) ایک جانور کے سامنے دوسرے جانور کو ذبح نہ کرے کہ اس سے اس کو تکلیف ہوگی۔
(5) ذبح کرنے والاجانور کے سامنے چھری تیز نہ کرے۔
(6) ذبح کے لیے جانور کو بے دردی سے نہ گرائے۔
(7) ذبح کرنے میں بھی رحمت وشفقت کا پہلو ملحوظ رہے۔ ایک صحابیؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہﷺ! مجھے بکری کو ذبح کرنے پر رحم آتا ہے؟ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: اگر تم اس پر رحم کروگے تو اللہ تم پر رحم کرے گا۔ (رواہ الحاکم، وقال صحیح الاسناد، حدیث نمبر:7562)
جانور کو چارہ کھلانا اور پانی پلانا اس کا حق ہے
جانور پر سواری اور باربرداری انسان کا حق لیکن اس بارے میں بھی شریعت میں واضح ہدایات موجود ہیں اور جانور کے حق کی رعایت ضروری ہے جیسے جانور کو چارہ کھلاکر سواری کرنا، جانور کی قدرت وطاقت سے زیادہ اس پر بوجھ نہ لادنا، بلاضرورت اس کو مار پیٹ نہ کرنا۔ یہ وہ چیزیں ہیں جن کی رعایت ضروری ہے۔
رسول اللہ ﷺ ایک انصاری کے باغ میں قضائے حاجت کے لیے داخل ہوئے، وہاں ایک اونٹ تھا، جب اس نے نبی کریم ﷺ کو دیکھا تو زور سے آواز نکالی اور اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے، نبی کریمﷺ اس کے پاس تشریف لائے، اس کی گردن پر ہاتھ پھیرا، پھر فرمایا: اس اونٹ کا مالک کون ہے؟ یہ اونٹ کس کا ہے؟ تو انصار کا ایک جوان آیا اور اس نے کہا: میرا ہے، یا رسول اللہ! آپ نے فرمایا: کیا تم ان چوپایوں اور جانوروں کے بارے میں اللہ سے نہیں ڈرتے جن کا اللہ نے تم کو مالک بنایا ہے، اس لیے کہ اس (اونٹ) نے مجھ سے شکایت کی ہے کہ تم اس کو بھوکا رکھتے ہو اور اس سے مسلسل کام لیتے ہو اور اس کو تھکاتے ہو۔ (ابوداؤد حدیث:2549)
ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہﷺ ایک اونٹ کے پاس سے گزرے، جس کی پیٹھ پیٹ سے لگ گئی تھی (بھوک کی وجہ سے) تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ان بے زبان چوپایوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو! پس ان پر اچھی حالت میں سواری کرو اور ان کو اچھی طرح کھلاؤ اور چارہ دو اور ایک روایت میں ہے۔ ان کو کھلاکر موٹا کرو اور ان پر صحیح طریقے سے سواری کرو۔ (ابوداؤد حدیث:2548، مسند احمد حدیث:17625، المعجم الکبیر للطبرانی حدیث:5620)
حضرت معاذ ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ ایک قوم کے پاس سے گزرے، اس حال میں کہ وہ اپنی سواریوں پر کجاوؤں میں بیٹھے ہوئے تھے اور سواریاں کھڑی تھیں ، تو رسول اللہﷺ نے ان سے فرمایا: چوپایوں پر سواری کرو، دراں حالے کہ وہ صحیح سلامت ہوں اور سواری کرکے ان کو چھوڑو، دراں حالے کہ وہ صحیح سلامت ہوں اور ان کو اپنی باتوں کے لیے راستوں اور بازاروں میں کرسیاں مت بناؤ (ان کو کھڑا کرکے ان کی پیٹھ پر بیٹھ کر لمبی لمبی باتیں نہ کرو۔
جس طرح تم کرسیوں پر بیٹھ کر گپ شپ مارتے ہو؛ اس لیے کہ اس سے جانور کو بلاضرورت تکلیف دینا ہے؛ بلکہ اگر باتیں کرنا ہو تو ان کی پشت سے اتر کر باتیں کرو) اس لیے کہ بہت سا مرکوب (سواری کا جانور) اس کے راکب یعنی سواری کرنے والے سے بہتر ہوتا ہے اور راکب سے زیادہ اللہ تبارک وتعالٰی کا ذکر کرنے والا ہوتا ہے۔ (مسند احمد حدیث:15629)
قدرت وطاقت سے زیادہ جانور پر بوجھ لادنا جائز نہیں
جانور پر اتنا بوجھ لادنا جس کی وہ قدرت وطاقت نہ رکھتا ہو جائز نہیں ہے، اسی لیے صحابہ کرامؓ یہ جانتے تھے کہ جو آدمی جانور پر اس کی قدرت سے زیادہ بوجھ لادے گا روزِقیامت اس سے حساب لیا جائے گا۔ حضرت ابودردائؓ کے بارے میں مروی ہے کہ ان کا ایک اونٹ تھا جس کا نام دمون تھا، وہ اس اونٹ کو مخاطب کرکے کہتے تھے: اے دمون! قیامت کے دن اپنے رب کے سامنے مجھ سے مخاصمت مت کرنا؛ اس لیے کہ میں نے تجھ پر تیری قدرت وطاقت سے زیادہ بوجھ کبھی نہیں لادا۔ (تفسیر قرطبی، سورئہ نحل: آیت:73.8-10)
مسیب بن آدم نے فرمایا کہ میں نے حضرت عمر ؓکو دیکھا کہ انہوں نے ایک اونٹ بان کو مارا اور فرمایا: تو اپنے اونٹ پر اتنا بوجھ لادتا ہے جس کی وہ قدرت نہیں رکھتا۔ (حوالہ بالا)
جو جانور سواری کے لیے نہیں ہے ان پر سوار ہونا جائز نہیں
جن جانوروں کو اللہ تعالی نے سواری کے لیے پیدا نہیں کیا ہے جیسے گائے، بیل، بکری وغیرہ ان پر سواری کرنا جائز نہیں ہے۔
قاضی ابوبکرابن العربی تحریر فرماتے ہیں کہ اس بارے میں کسی کا اختلاف نہیں ہے کہ گائے پر بیٹھنا اور سواری کرنا جائز نہیں ہے اور اکثر علماء کی رائے یہ ہے کہ گائے پر سواری کرنے کی ممانعت اس لیے ہے کہ وہ سوار کرنے کی طاقت نہیں رکھتی، اس سے وہی کام لیا جائے گا جس کی وہ قدرت رکھتی ہو جیسے کھیت کی جوتائی وغیرہ۔ (حقوق الحیوان والرفق بہا فی الشریعۃ الاسلامیۃ:31)
رسول اللہﷺ نے فرمایا: اسی درمیان کہ ایک آدمی اپنی ایک گائے پر بیٹھ کر اسے لے جارہا تھا، گائے اس کی طرف متوجہ ہوئی اور کہنے لگی: میں اس (سواری) کے لیے پیدا نہیں کی گئی ہوں، بلاشبہہ میں تو کھیتی کے لیے پیدا کی گئی ہوں۔ (بخاری حدیث:3663، مسلم حدیث:3288-13)
موذی جانور کو قتل کرنے کاضابطہ
اسلام نے موذی جانور کو مارنے اور قتل کرنے کی اجازت دی ہے، لیکن اس میں بھی احسان اور نرمی کا درس دیا ہے۔
حدیث نبوی ہے: اللہ تعالی نے ہر چیز پرخوش اسلوبی کو واجب قرار دیا ہے، پس جب تم کسی چیز کو قتل کرو تو اس کے لیے اچھا طریقہ اپناؤ۔ (مسلم حدیث: 1955-57، ابوداؤد حدیث:2814، ترمذی حدیث:1409)
تنبیہ: لغت عرب میں مشہور یہ ہے کہ لفظ قتل غیرماکول اللحم جانور کے لیے اور لفظ ذبح ماکول اللحم جانور کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی حدیث ہے، فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہﷺ کے ہمراہ ایک سفر میں تھے، رسول اللہﷺ نے چیونٹیوں کے ایک بل کو دیکھا جسے ہم نے جلادیا تھا، تو آپ نے فرمایا: کس نے اس کو جلایا؟ ہم نے کہا: ہم لوگوں نے، آپ نے فرمایا: آگ کے ذریعہ عذاب دینا صرف اللہ کے لیے سزاوار ہے۔ (ابوداؤد حدیث: 2675)
چیونٹی اور جوں کو مارنے کے بارے میں فقہ حنفی کی مشہور کتاب فتاوی بزازیہ میں لکھا ہے:
ترجمہ: مختار مذہب یہ ہے کہ چیونٹی اگر ابتدا کاٹے اور تکلیف پہنچائے تو اس کو مارنا جائز ہے ورنہ مکروہ ہے۔ جوں کو مارنا مکروہ نہیں ہے، جوں اور بچھو کو آگ میں جلانا مکروہ ہے۔
جانوروں اور چوپایوں کے حقوق سے متعلق اس مضمون سے یہ بات بالکل واضح ہوگئی کہ اسلام نے ان کے حقوق بھی کتنی اہمیت کے ساتھ بیان کیے ہیں اور یہ کہ اسلام کی لازوال تعلیمات کا کوئی بھی مذہب ہم سری اور مقابلہ نہیں کرسکتا اور ایسا کیوں نہ ہو کہ اسلام تاقیامت رہنے والا ہمہ گیر و بے نظیر مذہب ہے جس نے پیامِ انسانیت کا درس صرف انسان ہی نہیں بلکہ جن اور تمام مخلوقات کے حق میں پیش کیا ہے۔ اللہ تعالی ہر قسم کے حقوق ادا کرنے کی توفیق بخشے (آمین یارب العالمین)