ذکر ایک سانحے کا
ملک خدا داد پاکستان بنی تو چودھری رحمت علی کی اسکیم کا ایک حصہ پورا ہوا
(چیئرمین تحریکِ حقوقِ بہاری، پاکستان)
آج 16دسمبر کے سانحے کو ایک اور سال بیت گیا۔ اس دن جانے پہچانے اور انجانے دوست نما دشمنوں کی وجہ سے ہمارا ملک دولخت ہوگیا مگر وہ سازشیں اب تک تشت از بام نہیں ہوئیں، سازشیں اب بھی جاری ہیں۔ وطن کا دفاع کرنے والے وطن پرستوں کا انجام بھی نہایت افسوس ناک ہے۔
مجھ جیسے ایسے لاکھوں افراد ہیں جنھیں اس سانحے کا حقیقی ادراک نہیں، کیوںکہ ہم نے سانحہ سقوط مشرقی پاکستان اپنی آنکھوں سے رونما ہوتے ہوئے دیکھا، نہ ہی ہم ان لمحات کے گواہ ہیں جب تحریکِ پاکستان میں لاکھوں بہاریوں نے وطن عزیز کے قیام، پھر استحکام اور دفاع میں ہراول دستے کا کردار ادا کیا۔
ملک خدا داد پاکستان بنی تو چودھری رحمت علی کی اسکیم کا ایک حصہ پورا ہوا، کروڑوں مسلمانوں کا خواب پورا ہوا، مگر بہت قلیل مدت میں 16 دسمبر 1971 کو وہ خواب چکنا چور ہوگیا اور ملک دولخت ہوگیا۔
بہاری قوم نے وطن عزیز کے قیام اور دفاع میں اپنے خون سے آبیاری کی مگر وطن پرستوں کو اسٹیبلشمنٹ نے کیا صلہ دیا، اشرافیہ نے کیا دیا؟
اس کی بنیادوں میں ہے میرا لہو، مگر اس لہو کی قدرومنزلت کہاں کی گئی۔ سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد بہاری قوم در بدر ہوگئی۔
کئی لاکھ کو بنگلادیش کے کیمپوں میں محصور، مجبور، بے آسرا، بے سہارا چھوڑ دیا گیا اور جو اس پاکستان میں ہیں انھیں بھی نادرا کی جانب سے تضحیک آمیز رویے کا سامنا ہے۔ ان کے شناختی کارڈ کے اجراء میں بے شمار مسائل درپیش ہیں۔
کیا وطن کے قیام، استحکام اور دفاع میں بھرپور کردار ادا کرنے والے محب وطن پاکستانی بہاریوں کے مسائل کو حکومت وقت، اسٹیبلشمنٹ حل کرے گی اور بنگلادیش کے کیمپوں میں محصور کئی لاکھ محب وطن پاکستانی بہاری وطن واپس آ سکیں گے؟ ہر 16 دسمبر کو یہی سوال ادھورا رہ جاتا ہے اور ہم ایک اور امید ایک اور تمنا کی شمع روشن کرتے ہیں۔
16 دسمبر کو اے پی ایس کے معصوم بچوں کی شہادت بھی ایک تاریخی المیہ ہے جس کے مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کی ضرورت ہے، بالکل اسی طرح مدرسے کے بچوں کی شہادت بھی 16 دسمبر کی تاریخ کو اور بھی درد ناک بنا دیتی ہے مگر افسوس کہ ہم نہ اپنے اندرونی معاملات کو ٹھیک کرسکے اور نہ ہی بیرونی حالات کو اقتدار کی ہوس میں ہم ملک خدا داد پاکستان کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔
تین مارچ انیس سو اکہتر کو سابق مشرقی پاکستان کے شہر چاٹگام سے قتل و غارت گری کا بازار مکتی باہنی نے ہندوستانی فوج کے ساتھ مل کر گرم کیا، مگر چاٹگام میں نواب سید یوسف رضا بخاری شہبازی رحمۃ اللّٰہ المعروف ہیرو آف ٹائیگر پاس چاٹگام ہندوستانی حملہ آوروں اور مکتی باہنی کے ہزاروں افراد کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن گئے۔
تین مارچ انیس سو اکہتر کی صبح مکتی باہنی کے ہزاروں افراد نے نیول ہیڈکوارٹرز کے سامنے ریلوے فلیٹ پر حملہ کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ہزاروں کی تعداد میں بہاریوں کو شہید کردیا۔
ان کی املاک کو نذرآتش کرنے کے ساتھ خواتین کو اغوا کیا اور اپنی ہوس کا نشانہ بنایا۔ ایسے میں مکتی باہنی کو روکنے والا کوئی نہیں تھا۔ مکتی بانی والے حملے میں شدت لاتے ہوئے ریلوے فلیٹ پر حملہ آور ہوگئے، نیول ہیڈکوارٹرز میں پاکستان نیوی کے افسران اور اہل کار مغربی پاکستان سے حکم کے منتظر تھے۔
بنگالیوں کا حملہ بڑھتا جا رہا تھا انہیں کوئی روکنے والا نہیں تھا۔ اس موقع پر ہیرو آف ٹائیگر پاس چاٹگام کا لقب پانے والے نواب سید یوسف رضا بخاری نے سارا دن مکتی باہنی کے ہزاروں افراد کا حملہ روکے رکھا اور شام گئے جب مغربی پاکستان سے نیول ہیڈکوارٹرز کو پیغام موصول ہوا تو پاکستان آرمی بیس بلوچ ریجمنٹ کے کیپٹن حفیظ اپنی پلٹن کو لے کر ریلوے فلیٹ میں داخل ہوئے۔
اس موقع پر نیول کمانڈر حاجی محمد اسلم اور ان کی ٹیم نے فائر بریگیڈ کی مدد سے آگ پر قابو پایا اور لوگوں کی جان بچائی۔
تین مارچ انیس سو اکہتر کو چاٹگام مشرقی پاکستان سے شروع ہونے والی یہ خوںریزی بتدریج بڑھتے ہوئے پورے مشرقی پاکستان کو اپنے لپیٹ میں لے لیا۔ پاکستان سے محبت کرنے والے، پاکستان بنانے میں کردار ادا کرنے والے بہاریوں کا سفاکانہ قتل عام ہوا جو کہ سقوط ڈھاکہ کے بعد بھی جاری رہا۔
بہاریوں کا یہ افسوس ناک انجام تاریخ کا حصہ ہے سقوط ڈھاکا کے بعد افواج پاکستان، سفارت کار، سرکاری افسران تو پاکستان اور ہندوستان کے مابین معاہدہ کی وجہ سے بنگلادیش سے پاکستان منتقل ہوگئے مگر بہاریوں کو کیمپوں میں محصور کردیا گیا۔
16 دسمبر 1971 کے بعد ریڈکراس اور دیگر ذرائع سے بہت سے لوگ پاکستان منتقل ہوگئے مگر جو لوگ کیمپوں میں محصور تھے وہ کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوگئے۔
انہیں ذلیل وخوار کردیا گیا۔ بہاریوں کی پاکستان منتقلی میں کسی بھی سربراہ مملکت نے کوئی کردار ادا نہیں کیا۔ بنگلادیش کے کیمپوں سے سابق وزیراعظم شہید ذوالفقار علی بھٹو، سابق صدر پاکستان جنرل محمد ضیاء الحق کے دوراقتدار میں بہاریوں کی منتقلی شروع ہوئی مگر پھر حکم رانوں کی بے حسی کی وجہ سے ان کی منتقلی روک دی گئی۔
سابق وزیراعظم پاکستان میاں محمد نوازشریف کے دوراقتدار میں سابق وزیراعلیٰ پنجاب غلام حیدروائیں نے میاں چنوں کے مقام پر چند سو خاندانوں کو بنگلادیش کے کیمپوں سے منتقلی میں اپنا کردار ادا کیا مگر اس کے بعد سے آج تک بنگلادیش کے کیمپوں میں محب وطن پاکستانی بہاری محصور بھی ہیں۔
حکومت پاکستان اپنے شہریوں کو بنگلادیش کے کیمپوں میں چھوڑ چکی ان کے حالات و واقعات سے منہ موڑ چکی۔ ایسے میں بنگلادیش میں الحاج نسیم خان نے بہاریوں کی منتقلی کے لیے طویل جدوجہد کی۔
ان کے علاوہ پاکستان میں ڈاکٹر لئیق اعظم، حسین امام، حسن امام صدیقی، سید احتشام ارشد نظامی، آفاق خان شاہد، حسیب ہاشمی، شمعون ابرار، ڈاکٹر منظر ایچ اکبر اور بے شمار لوگوں نے بہاریوں کی منتقلی کی تحریک میں اپنا کردار ادا کیا اور قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کیں مگر رفتہ رفتہ ہم من حیث القوم بے حسی کا شکار ہوگئے۔
پاکستان میں رہنے والے بہاریوں کے ساتھ نادرا کا ناروا سلوک بھی اس کہانی کا ایک افسوس ناک پہلو ہے۔ اس ادارے نے بہاریوں اور بنگالیوں کو ایک ہی خانے میں شامل کردیا۔
اس مسئلے پر شور مچنے کے بعد حکومت پاکستان نے ایک سب کمیٹی برائے شناختی کارڈ آغا سید رفیع اللہ کی سربراہی میں قائم کی جس میں پی ٹی آئی کی منحرف رکن قومی اسمبلی آسیہ عظیم اور متحدہ قومی موومنٹ کے ممبر قومی اسمبلی شامل تھے۔ اس کمیٹی میں مختلف سماجی اور سیاسی شخصیات کو بھی شامل کیا گیا۔
تمام احباب کی کوششوں کے باوجود یہ مسئلہ جوں کا توں ہے۔ حکومت اور نادرا کی بے حسی کی وجہ سے ہزاروں محب وطن پاکستانی بہاریوں کے شناختی کارڈ جاری نہیں کیے جاسکے، جس کے باعث انہیں بے شمار مسائل کا سامنا ہے۔
ضروری ہے کہ عدلیہ اس معاملے کا نوٹس لے اور سیاسی و سماجی شخصیات ان بہاریوں کے حوالے سے آواز بلند کریں، کیوںکہ شناختی کارڈ نہ بننے کی صورت میں ہزاروں بہاری بچوں کا مستقبل تاریک ہوجائے گا، ان کی تعلیم کا سلسلہ رک جائے گا اور وہ بے روزگاری کا شکار ہوجائیں گے، لہٰذا حکومت سابق مشرقی پاکستان میں ہونے والی زیادتیوں کا ازالہ کرتے ہوئے کراچی میں بہاریوں کے شناختی کارڈ کے حصول میں آسانیاں پیدا کرے اور بنگلادیش کے کیمپوں سے بہاریوں کی منتقلی میں اپنا کردار ادا کرے۔
پاکستان کو بچانے کے لیے ترقی کی راہ پر گام زن کرنے کے لئے ہمیں باہمی اختلافات کو ختم کرنا ہوگا، ایک دوسرے کا احساس، احترام، عدل و انصاف قائم کرنا ہوگا، تب ہی پاکستان ترقی کی راہ پر گام زن ہو سکتا ہے۔
آج 16دسمبر کے سانحے کو ایک اور سال بیت گیا۔ اس دن جانے پہچانے اور انجانے دوست نما دشمنوں کی وجہ سے ہمارا ملک دولخت ہوگیا مگر وہ سازشیں اب تک تشت از بام نہیں ہوئیں، سازشیں اب بھی جاری ہیں۔ وطن کا دفاع کرنے والے وطن پرستوں کا انجام بھی نہایت افسوس ناک ہے۔
مجھ جیسے ایسے لاکھوں افراد ہیں جنھیں اس سانحے کا حقیقی ادراک نہیں، کیوںکہ ہم نے سانحہ سقوط مشرقی پاکستان اپنی آنکھوں سے رونما ہوتے ہوئے دیکھا، نہ ہی ہم ان لمحات کے گواہ ہیں جب تحریکِ پاکستان میں لاکھوں بہاریوں نے وطن عزیز کے قیام، پھر استحکام اور دفاع میں ہراول دستے کا کردار ادا کیا۔
ملک خدا داد پاکستان بنی تو چودھری رحمت علی کی اسکیم کا ایک حصہ پورا ہوا، کروڑوں مسلمانوں کا خواب پورا ہوا، مگر بہت قلیل مدت میں 16 دسمبر 1971 کو وہ خواب چکنا چور ہوگیا اور ملک دولخت ہوگیا۔
بہاری قوم نے وطن عزیز کے قیام اور دفاع میں اپنے خون سے آبیاری کی مگر وطن پرستوں کو اسٹیبلشمنٹ نے کیا صلہ دیا، اشرافیہ نے کیا دیا؟
اس کی بنیادوں میں ہے میرا لہو، مگر اس لہو کی قدرومنزلت کہاں کی گئی۔ سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد بہاری قوم در بدر ہوگئی۔
کئی لاکھ کو بنگلادیش کے کیمپوں میں محصور، مجبور، بے آسرا، بے سہارا چھوڑ دیا گیا اور جو اس پاکستان میں ہیں انھیں بھی نادرا کی جانب سے تضحیک آمیز رویے کا سامنا ہے۔ ان کے شناختی کارڈ کے اجراء میں بے شمار مسائل درپیش ہیں۔
کیا وطن کے قیام، استحکام اور دفاع میں بھرپور کردار ادا کرنے والے محب وطن پاکستانی بہاریوں کے مسائل کو حکومت وقت، اسٹیبلشمنٹ حل کرے گی اور بنگلادیش کے کیمپوں میں محصور کئی لاکھ محب وطن پاکستانی بہاری وطن واپس آ سکیں گے؟ ہر 16 دسمبر کو یہی سوال ادھورا رہ جاتا ہے اور ہم ایک اور امید ایک اور تمنا کی شمع روشن کرتے ہیں۔
16 دسمبر کو اے پی ایس کے معصوم بچوں کی شہادت بھی ایک تاریخی المیہ ہے جس کے مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کی ضرورت ہے، بالکل اسی طرح مدرسے کے بچوں کی شہادت بھی 16 دسمبر کی تاریخ کو اور بھی درد ناک بنا دیتی ہے مگر افسوس کہ ہم نہ اپنے اندرونی معاملات کو ٹھیک کرسکے اور نہ ہی بیرونی حالات کو اقتدار کی ہوس میں ہم ملک خدا داد پاکستان کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔
تین مارچ انیس سو اکہتر کو سابق مشرقی پاکستان کے شہر چاٹگام سے قتل و غارت گری کا بازار مکتی باہنی نے ہندوستانی فوج کے ساتھ مل کر گرم کیا، مگر چاٹگام میں نواب سید یوسف رضا بخاری شہبازی رحمۃ اللّٰہ المعروف ہیرو آف ٹائیگر پاس چاٹگام ہندوستانی حملہ آوروں اور مکتی باہنی کے ہزاروں افراد کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن گئے۔
تین مارچ انیس سو اکہتر کی صبح مکتی باہنی کے ہزاروں افراد نے نیول ہیڈکوارٹرز کے سامنے ریلوے فلیٹ پر حملہ کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ہزاروں کی تعداد میں بہاریوں کو شہید کردیا۔
ان کی املاک کو نذرآتش کرنے کے ساتھ خواتین کو اغوا کیا اور اپنی ہوس کا نشانہ بنایا۔ ایسے میں مکتی باہنی کو روکنے والا کوئی نہیں تھا۔ مکتی بانی والے حملے میں شدت لاتے ہوئے ریلوے فلیٹ پر حملہ آور ہوگئے، نیول ہیڈکوارٹرز میں پاکستان نیوی کے افسران اور اہل کار مغربی پاکستان سے حکم کے منتظر تھے۔
بنگالیوں کا حملہ بڑھتا جا رہا تھا انہیں کوئی روکنے والا نہیں تھا۔ اس موقع پر ہیرو آف ٹائیگر پاس چاٹگام کا لقب پانے والے نواب سید یوسف رضا بخاری نے سارا دن مکتی باہنی کے ہزاروں افراد کا حملہ روکے رکھا اور شام گئے جب مغربی پاکستان سے نیول ہیڈکوارٹرز کو پیغام موصول ہوا تو پاکستان آرمی بیس بلوچ ریجمنٹ کے کیپٹن حفیظ اپنی پلٹن کو لے کر ریلوے فلیٹ میں داخل ہوئے۔
اس موقع پر نیول کمانڈر حاجی محمد اسلم اور ان کی ٹیم نے فائر بریگیڈ کی مدد سے آگ پر قابو پایا اور لوگوں کی جان بچائی۔
تین مارچ انیس سو اکہتر کو چاٹگام مشرقی پاکستان سے شروع ہونے والی یہ خوںریزی بتدریج بڑھتے ہوئے پورے مشرقی پاکستان کو اپنے لپیٹ میں لے لیا۔ پاکستان سے محبت کرنے والے، پاکستان بنانے میں کردار ادا کرنے والے بہاریوں کا سفاکانہ قتل عام ہوا جو کہ سقوط ڈھاکہ کے بعد بھی جاری رہا۔
بہاریوں کا یہ افسوس ناک انجام تاریخ کا حصہ ہے سقوط ڈھاکا کے بعد افواج پاکستان، سفارت کار، سرکاری افسران تو پاکستان اور ہندوستان کے مابین معاہدہ کی وجہ سے بنگلادیش سے پاکستان منتقل ہوگئے مگر بہاریوں کو کیمپوں میں محصور کردیا گیا۔
16 دسمبر 1971 کے بعد ریڈکراس اور دیگر ذرائع سے بہت سے لوگ پاکستان منتقل ہوگئے مگر جو لوگ کیمپوں میں محصور تھے وہ کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوگئے۔
انہیں ذلیل وخوار کردیا گیا۔ بہاریوں کی پاکستان منتقلی میں کسی بھی سربراہ مملکت نے کوئی کردار ادا نہیں کیا۔ بنگلادیش کے کیمپوں سے سابق وزیراعظم شہید ذوالفقار علی بھٹو، سابق صدر پاکستان جنرل محمد ضیاء الحق کے دوراقتدار میں بہاریوں کی منتقلی شروع ہوئی مگر پھر حکم رانوں کی بے حسی کی وجہ سے ان کی منتقلی روک دی گئی۔
سابق وزیراعظم پاکستان میاں محمد نوازشریف کے دوراقتدار میں سابق وزیراعلیٰ پنجاب غلام حیدروائیں نے میاں چنوں کے مقام پر چند سو خاندانوں کو بنگلادیش کے کیمپوں سے منتقلی میں اپنا کردار ادا کیا مگر اس کے بعد سے آج تک بنگلادیش کے کیمپوں میں محب وطن پاکستانی بہاری محصور بھی ہیں۔
حکومت پاکستان اپنے شہریوں کو بنگلادیش کے کیمپوں میں چھوڑ چکی ان کے حالات و واقعات سے منہ موڑ چکی۔ ایسے میں بنگلادیش میں الحاج نسیم خان نے بہاریوں کی منتقلی کے لیے طویل جدوجہد کی۔
ان کے علاوہ پاکستان میں ڈاکٹر لئیق اعظم، حسین امام، حسن امام صدیقی، سید احتشام ارشد نظامی، آفاق خان شاہد، حسیب ہاشمی، شمعون ابرار، ڈاکٹر منظر ایچ اکبر اور بے شمار لوگوں نے بہاریوں کی منتقلی کی تحریک میں اپنا کردار ادا کیا اور قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کیں مگر رفتہ رفتہ ہم من حیث القوم بے حسی کا شکار ہوگئے۔
پاکستان میں رہنے والے بہاریوں کے ساتھ نادرا کا ناروا سلوک بھی اس کہانی کا ایک افسوس ناک پہلو ہے۔ اس ادارے نے بہاریوں اور بنگالیوں کو ایک ہی خانے میں شامل کردیا۔
اس مسئلے پر شور مچنے کے بعد حکومت پاکستان نے ایک سب کمیٹی برائے شناختی کارڈ آغا سید رفیع اللہ کی سربراہی میں قائم کی جس میں پی ٹی آئی کی منحرف رکن قومی اسمبلی آسیہ عظیم اور متحدہ قومی موومنٹ کے ممبر قومی اسمبلی شامل تھے۔ اس کمیٹی میں مختلف سماجی اور سیاسی شخصیات کو بھی شامل کیا گیا۔
تمام احباب کی کوششوں کے باوجود یہ مسئلہ جوں کا توں ہے۔ حکومت اور نادرا کی بے حسی کی وجہ سے ہزاروں محب وطن پاکستانی بہاریوں کے شناختی کارڈ جاری نہیں کیے جاسکے، جس کے باعث انہیں بے شمار مسائل کا سامنا ہے۔
ضروری ہے کہ عدلیہ اس معاملے کا نوٹس لے اور سیاسی و سماجی شخصیات ان بہاریوں کے حوالے سے آواز بلند کریں، کیوںکہ شناختی کارڈ نہ بننے کی صورت میں ہزاروں بہاری بچوں کا مستقبل تاریک ہوجائے گا، ان کی تعلیم کا سلسلہ رک جائے گا اور وہ بے روزگاری کا شکار ہوجائیں گے، لہٰذا حکومت سابق مشرقی پاکستان میں ہونے والی زیادتیوں کا ازالہ کرتے ہوئے کراچی میں بہاریوں کے شناختی کارڈ کے حصول میں آسانیاں پیدا کرے اور بنگلادیش کے کیمپوں سے بہاریوں کی منتقلی میں اپنا کردار ادا کرے۔
پاکستان کو بچانے کے لیے ترقی کی راہ پر گام زن کرنے کے لئے ہمیں باہمی اختلافات کو ختم کرنا ہوگا، ایک دوسرے کا احساس، احترام، عدل و انصاف قائم کرنا ہوگا، تب ہی پاکستان ترقی کی راہ پر گام زن ہو سکتا ہے۔